سنگجانی کا جلسہ اور بانی پی ٹی آئی کی ضِد

’’سنگجانی ‘‘ کا یہ علاقہ کبھی سابق ایم این اے اور سابق وفاقی وزیر ، غلام سرور خان ، کا انتخابی حلقہ رہا ہے

tanveer.qaisar@express.com.pk

اتوار ، 8ستمبر کی صبح جب یہ سطور رقم کی جارہی ہیں، راولپنڈی اور اسلام آباد کی فضائیں پی ٹی آئی جلسے کے شور سے گونج رہی ہیں ۔ پی ٹی آئی کو مبینہ طور پر 40 شرائط کی بنیادپر یہ جلسہ کرنے کی اجازت ملی ہے ۔ جلسہ ''سنگجانی'' کے مشہور قصبے اور جی ٹی روڈ سے متصل ایک بڑے میدان میں ہورہا ہے جو دراصل مویشی منڈی کے لیے مختص ہے ۔

اِس کے نزدیک ہی ایک مشہور سیمنٹ فیکٹری واقع ہے ۔جی ٹی روڈ کو اسلام آباد سے ملانے والی نئی شاہراہ( مارگلہ ایونیو) اِسی کے متوازی رواں نظر آتی ہے۔اگر آپ بذریعہ جی ٹی روڈ راولپنڈی سے ٹیکسلا کے تاریخی شہر کی جانب سفر کریں توٹیکسلا اور ترنول کے درمیان ''سنگجانی'' پڑتا ہے ۔ اِس کے مغرب میں ، چند کلومیٹر کے فاصلے پر، موٹروے ہے۔ عمومی طور پر'' سنگجانی'' کی یہ مویشی منڈی ویران ہی رہتی ہے۔

عیدالاضحی کے ایام میں جب قربانی کے جانور یہاں بکثرت لائے جاتے ہیں، تب ''سنگجانی'' کا یہ علاقہ بھی آباد ہو جاتا ہے ۔22اگست 2024 کو ''ترنول'' میں پی ٹی آئی کا مجوزہ جلسہ خود بانی پی ٹی آئی کے پُراسرار حکم سے منسوخ ہُوا تو سرکاری اور پی ٹی آئی کے فریقین کی جانب سے اعلان سامنے آیا تھاکہ8ستمبر کو پی ٹی آئی کا جلسہ ہر صورت منعقد ہوگا ۔ بانی پی ٹی آئی کی جانب سے بھی مبینہ طور پر یہ اعلان سامنے آیا کہ ''اگر مَیں بھی کہوں کہ 8ستمبر کا جلسہ منسوخ کر دیا گیا ہے تو میرے کارکنوں نے یہ بات نہیں ماننی ۔''

''سنگجانی '' کا یہ علاقہ کبھی سابق ایم این اے اور سابق وفاقی وزیر ، غلام سرور خان ، کا انتخابی حلقہ رہا ہے ۔ غلام سرور خان صاحب اِس علاقے سے کئی بار کئی سیاسی جماعتوں کے پلیٹ فارم سے صوبائی اور قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہُوئے۔ اُن کا آبائی گاؤں ( پِنڈ نو شہری) بھی سنگجانی ہی سے متصل ہے۔ بانی پی ٹی آئی کی مرکزی حکومت میں وہ وفاقی وزیر برائے ایوی ایشن رہے اور یوں مشہور ہُوئے کہ پاکستان کے نیشنل کیرئر اور اِس کے کئی پائلٹوں کی پروفیشنل زندگیاں اور روزگار داؤ پر لگا دیے ۔

اُن کے حیرت انگیز فیصلوں کے کارن آج تک پی آئی اے کے لیے کئی مغربی اور امریکی رُوٹس بندچلے آ رہے ہیں۔ راولپنڈی سے پشاور جانے والی جی ٹی روڈ کے دائیں بائیں آباد''سنگجانی'' کا یہ علاقہ کبھی سابق وفاقی وزیر اور مشہور قومی سیاستدان، چوہدری نثار علی خان، کا بھی سیاسی و انتخابی حلقہ رہا ہے ۔اب یہ دونوں سیاستدان اور سابق وفاقی وزراسیاست کے مطلع سے غائب ہیں کہ دونوں 8فروری کے انتخابات میں بُری طرح شکست کھا گئے تھے ۔ اِن دونوں کی جگہ اب بیرسٹر عقیل ملک صاحب نے لے لی ہے ۔برطانیہ اور امریکا کی اعلیٰ درسگاہوں کے تعلیم یافتہ عقیل ملک صاحب نے8فروری کے انتخابات میں یوں تو آزاد حیثیت میں ایم این اے کا الیکشن جیتا تھا مگر فتحیابی کے بعد نون لیگ میں شامل ہو گئے تھے ۔

اب وہ وزیر اعظم ، جناب شہباز شریف، کے مشیر برائے قانون وانصاف ہیں اور تقریباً ہر روز مختلف نجی ٹی وی چینلز پر شائستگی اور متانت سے حکومتی پالیسیوں کا دفاع کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔'' سنگجانی'' کا علاقہ بیرسٹر عقیل ملک صاحب کے انتخابی حلقے میں شامل ہے ۔ اُن کا ذاتی گھر بھی اِس کے قریب ہی ہے ۔


یوں ''سنگجانی'' کا یہ علاقہ سیاسی اعتبار سے خاصا فعال ، بیدار اور متحرک ہے ۔ یہاں پہنچنا مشکل ہے نہ دشوار کہ جی ٹی روڈ بھی قریب ہے اور موٹروے بھی ۔ پی ٹی آئی کے اِس جلسے نے پچھلے پانچ جلسے مسلسل منسوخ ہونے کے بعد معنوی شکل اختیار کی ہے ؛ چنانچہ پی ٹی آئی کی لیڈرشپ، ارکانِ اسمبلی اور کارکنان کا جوش قابلِ فہم ہے ۔ اِس جوش میں بانی پی ٹی آئی کی ضِد بھی شامل ہے ۔پی ٹی آئی باطنی طور پر جس ٹوٹ پھوٹ ، دھڑے بازیوںاور کشاکش کا شکار ہے،اور اِسے جن متنوع قوتوں کی مخالفتوں کا سامنا ہے، اِن کی موجودگی میں اِس جلسے کی تھوڑی کامیابی بھی بڑی خیال کی جائے گی ۔

اِن سطور کے لکھتے وقت راقم نے اخبارات میں پڑھا ہے کہ سی ایم کے پی کے ،جناب علی امین گنڈا پور، کی پنجاب پولیس کے متعلقہ افسروں سے خاصی بڑی تلخ کلامی بھی ہُوئی ہے جو مذکورہ جلسے کا سامان، مبینہ طور پر، جلسہ گاہ میں لے جانے میں مخل ہو رہے تھے ۔ گنڈا پور صاحب نے پولیس افسروں کو اپنے مشہور لہجے میں للکارا بھی ہے ۔ اِس للکار سے یقیناً پی ٹی آئی کے کارکنان کی حوصلہ افزائی ہُوئی ہوگی کہ اُن کا ''شیر'' ڈٹا ہُوا ہے ۔

جیل میں قید ہونے سے قبل پی ٹی آئی کے جتنے بھی اور جہاں بھی جلسے ہُوئے ، بانی پی ٹی آئی کی شرکت اور خطابات سے سبھی کامیاب ہُوئے ۔ بانی پی ٹی آئی کی آواز سُننے کے شوقین اور عشاق جوق در جوق جلسوں میں آتے تھے ۔

بانی پی ٹی آئی کے پاس کہنے کو ہوتا بھی بہت کچھ تھا ۔ انھوں نے ناراض ہو کر مخالف قوتوں کے خلاف جو لہجہ اور اسلوبِ گفتگو اختیار کیا تھا، بوجوہ یہ لہجہ بانی پی ٹی آئی کے چاہنے والوں کے کانوں میں رَس گھولتا تھا ۔ ''سنگجانی'' کے جلسے میں مگر بانی پی ٹی آئی تو موجود نہیں، پھر کون لوگ، کیوں جلسے کو بھریں گے ؟ کے پی کے میں پی ٹی آئی کے بعض ذمے داران پر کرپشن کے جو شدید الزامات سامنے آئے ہیں (حتیٰ کہ ایک صوبائی وزیر کو سی ایم گنڈا پور نے نکال بھی دیا ہے) اِن کی موجودگی میں ناراض اور باغی عناصر کیوں اور کیونکر پی ٹی آئی کے کسی بھی جلسے کو رونق بخشیں گے؟ خاص طور پر جب علی امین گنڈا پور بذاتِ خود جلسے کو کامیاب بنانا چاہ رہے ہوں ! چند دن قبل کے پی کے میں کروڑوں روپے کاجو ''دستانہ اسکینڈل'' منصہ شہود پر آیا ہے (اور جسے اے این پی قیادت خوب اُچھال رہی ہے)اور مبینہ جنگلات کٹائی اسکینڈل کی موجودگی میں بانی پی ٹی آئی کا کوئی بھی جلسہ بھلا عوام کے دلوں میں کیا بھونچال پیدا کر سکتا ہے؟ اِس جلسے کے انعقادی ایام میں خیبر پختونخوا میں سامنے آنے والے کرپشن اسکینڈلوں کی بھرمار سے خود بانی پی ٹی آئی اسقدر پریشان ہیں کہ انھوں نے خود خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کے مقتدرین کو حکم دیا ہے کہ صوبائی کرپشن کی خبروں پر کم سے کم بات کی جائے ۔

بانی پی ٹی آئی کی مبینہ ضِد تھی کہ وہ جلسہ کریں گے تو اسلام آباد میں کریں گے۔ ''سنگجانی'' مویشی منڈی میں منعقد ہونے والا یہ جلسہ مگر شہباز حکومت کے لیے یوں کامیابی ہے کہ حکومت نے پی ٹی آئی کو اسلام آباد کی حدود میں جلسہ نہیں کرنے دیا ۔8ستمبر کے اِس جلسے کے انعقاد سے چند دن پہلے وفاقی حکومت وہ قانون منظور کروانے میں کامیاب ہو گئی کہ جو بھی اسلام آباد کی متعلقہ حدود میں بغیر اجازت جلسہ کرے گا، جرمانہ اور قید بھگتے گا ۔

اِس قانون کی شکل میں اسلام آباد کے شہریوں کو یک گونہ اطمینان ملا ہے کہ اسلام آباد کے جملہ مکین وفاقی دارالحکومت میں سیاسی، مذہبی اور سماجی تنظیموں کی جانب سے آئے روز منعقد ہونے والے جلسوں، جلوسوں ، دھرنوں سے تنگ اور عاجز آ چکے ہیں۔ ''سنگجانی'' کا یہ جلسہ اِس لحاظ سے قید میں پڑے بانی پی ٹی آئی کی ''زبردست'' کامیابی ہے کہ وہ پسِ دیوارِ زنداں رہ کر بھی پوری پارٹی کو کنٹرول کررہے ہیں، اپنی ضِدیں بھی نبھا رہے ہیں اور اُن کی مقبولیت و محبوبیت میں بھی کوئی فرق نہیں پڑ رہا ۔کیا یہ ''ضِدی منظر نامہ'' طاقتوروں، نون لیگ ، پی پی پی اور جے یو آئی ایف کی قیادتوں کے لیے پریشانی کا باعث نہیں؟؟
Load Next Story