زباں فہمی نمبر221 اُردو کی دَراوَڑی بہن براہوی

زباں فہمی نمبر221 ؛ اُردو کی دَراوَڑی بہن براہوی ۔ از سہیل احمد صدیقی (فوٹو : ایکسپریس)

زباں فہمی نمبر221 ؛ اُردو کی دَراوَڑی بہن براہوی ۔ از سہیل احمد صدیقی (فوٹو : ایکسپریس)

(حصہ دُوُم)

دراوڑی زبانوں بشمول تَمِل، ملیالم اور براہوی کے ماہر رُوسی محقق جناب میخائل اندرونوف (MS Andronof) کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ یہ زبانیں، اہل زبان جیسی جانتے تھے اور لوگ ان پر رشک کرتے تھے۔

اُنھوں نے بھی براہوی کی وجہ تسمیہ وہی بیان کی ہے جو گزشتہ قسط میں نقل کی جاچکی ہے۔ سر ڈینس برے [Sir Denys Bray] نے اپنی کتاب The Brahui Languageمیں لکھا ہے کہ ''آج کے براہوی، مقامی اور غیرمقامی عناصر کا شکار ہوکر ، معجون ِ مرکب بن گئے ہیں اور اِردگرد کے قبائل سے اس طرح گھُل مِل گئے ہیں کہ اب براہوی قوم یا گروہ کا سراغ لگانا اندھیرے میں تِیر چلانے کے مترادف ہوگا۔

یہ دراوڑی بولنے والے عجیب وغریب لوگ کون ہیں؟''۔ پروفیسر خاطر غزنوی نے بھی یہی بات کہی کہ ''براہوی، دراوڑی کا حصہ ہو یا نہ ہو لیکن بعض باتوں میں ان کی جنوبی ہند کی زبان سے حیرت انگیز مماثلت سامنے آئی ہے ۔ اس مماثلت کے کچھ عناصر ایسے ہیں جو اُن کو ایک ہی گروہ کے بچھڑے ہوئے بھائی بند ثابت کرتے ہیں۔ اگرچہ براہوی نے بہت کچھ اپنے اردگرد کی زبانوں سے اثرات قبول کیے۔ پینتیس صدیوں میں یہ اثرات ناگزیر تھے، لیکن اس کے برعکس، اس کے ذخیرہ الفاظ نے نئی آریا اور غیرآریا زبانوں، خصوصی طور پر پنجابی، بلوچی اور سندھی پر بھی اثرات ڈالے۔ ہم اس کے بے شمار الفاظ کی مماثلت قدیم ہندکو الفاظ میں دیکھتے ہیں''۔ پروفیسر خاطر مرحوم کی مرتبہ فہرست (مشمولہ 'اُردو زبان کا ماخذ۔ہندکو') ملاحظہ فرمائیں:

براہوی ہندکو اردو

لِیک لِیک لکیر

باوا باوا باپ

(ہمارے خطے میں علاقے کے فرق سے باپ کو باوا کہنا عام ہے، خواہ اُردوگو طبقہ ہو یا کوئی اور: س اص)

پڈ پیٹ پیٹ

لَپ لَپ/بُک مُٹھی بھر

ترمپ ٹیپا قطرہ

پف پھپھرا پھیپھڑا

مندر مدر پستہ قد

کر، کا کر، کرنا کرو کیجئے، کرو

ڈکا ڈک/ڈکا چھُپا ، چھُپاؤ، ڈھکن رکھو

براہوی ہندکو اردو

بڈا ڈُبا ڈُوبنا، ڈُوبا ہوا

بورا بھورا روٹی کا ریزہ، ٹُکڑا

بھنی (دھونکنی) بھن (کوئلوں کا سُرخ ہونا) آگ سے متعلق

چھکا چکھا چکھنا

چھینڈا چھنڈا جھاڑنا، جھاڑا

چٹا چَٹا چاٹنا

چھِکا چھِکا کھینچنا

چِڑا چِڑا چِڑنا،غصّے ہونا

چما چُما چُوما

(ہوسکتا ہے کہ لفظ چُمّا بمعنیٰ بوسہ اِسی لفظ کی متشدد شکل ہو: س اص)

چوسا چُوسا چوسا

چھٹنکا چھَٹا (چھٹی، چھٹنگ) چھُوٹا، گلوخلاصی ہوئی، چھُٹّی ہوئی

چھٹا چھَٹا چھینٹا پڑنا (بارش)

درز دڑز کھانا (گِرنا) گِرانا، پھینکنا

درک دَھرک کودنا، چھلانگ لگانا

ڈھووا ڈھونا ڈھونا، بوجھ اُٹھانا

گھوٹا گھوٹا گھوٹنا

گڑنا (نیچے لے جانا) گُڑنا (ڈھینا کا لاحقہ ڈھیتاگڑنا) گھُڑت (نگلنا)

گوا گما گنوانا

بچھنا نِچھنا چھینکنا

ہکا ہِٹکی ہِچکی

کر، کرے، کرا، کھرچنا، کھرچناکر، کرے کرنا، کرے، کیا

کواڑا (زہر) کوڑا (تلخ)، کوڑا زہر کڑوا

کٹا، کھڈا کُٹا، کٹنا کا ماضی کُوٹا، مارا

براہوی ہندکو اردو

کھٹا کھوترا/کھڈا کھودا


لیٹ، لیٹا لیٹ، لیٹا لیٹنا

منا مننا، منا حُکم مانا، مان گیا

پیتھا پیتھا (دبانا) دبانا

چیتھا پیتھا (کُچلنا)

پنا بھا (ہندکو 'بھ' کی آواز مائل ِ ب ، پ ہے) بددعا، رونا پیٹنا

سڑا سڑا پھل کا گل سڑجانا

تم دھم، دھڑم گِرنا

نکھ ٹِھک (ٹھکانا) ٹھیہ جگہ

( ٹھیہ: ٹھی یا ہماری اُردومیں بھی رائج ہے : س اص)

تڑخا تڑخا تڑخا

ترڈھاسا ترھٹی (ترھٹیاں مارنا) لوٹنا

(گھوڑے کا دو ٹانگوں پر کھڑا ہونا)

کا ٹُکا تروڑا

ٹوکا ٹھوکا ہتھوڑے سے ٹھوکنا

وادہ وادہ اضافہ ترکی

وہا وگا بہا

دکا بھونکا بھونکنا (کُتّا)

پروفیسر خاطر مرحوم کی مرتبہ فہرست (مشمولہ 'اُردو زبان کا ماخذ۔ہندکو') مختلف لسانی اشتراک ومماثلت کا صحیح نقشہ سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ اگلی قسط میں اس سے مزید استفادہ کروں گا، ان شاء اللہ۔یہاں ہمیں کچھ توقف کرکے ایک اور مسئلے پر روشنی ڈالنی ہوگی۔

سر ڈینس برے نے قیاس ظاہر کیا تھا کہ براہوی قوم اور زبان کا کوئی نہ کوئی تعلق موئن جودَڑو کی تہذیب سے ہوسکتا ہے، مگر ساتھ ہی اُس نے یہ اعتراف بھی کیا کہ ''اس سلسلے میں کوئی واضح شہادت دستیاب نہیں، پھر بھی امید کی ایک کرن نظر آرہی ہے''۔ راقم سہیلؔ اپنی کہی ہوئی بات دُہراتا ہے کہ جب موئن جودڑو، ہڑپہ، کوٹ ڈیجی، مہرگڑھ ودیگر پاکستانی اور کچھ متعلق ہندوستانی آثارِقدیمہ کی قدیم تحریریں پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش اور دعویٰ کرنے والے محققین کی آراء یکجا کرکے تحقیقِ مزید کی جائے تو اس باب میں کوئی واضح صورت نظرآسکتی ہے۔ ڈاکٹر ابوالجلال ندوی کا اس خطے کی قدیم زبان عربی کو قراردینا اور براہوی میں عربی الفاظ کی موجودگی بھی اس طرف اشارہ کرتی ہے۔

ہمارے فیس بک دوست، براہوی محقق جناب اکرم آمل براہوی سے گزشتہ سال رابطہ ہوا تو زیرِبحث موضوع پر کتب کی فراہمی کی درخواست کی تھی، کچھ کتب مراد براہوی مرحوم نے براہوی اکیڈمی، کوئٹہ سے بھیج دی تھیں، مگر محترم اکرم صاحب اپنی نجی مصروفیات کے سبب، رابطہ برقرار نہ رکھ سکے۔ اب جو پچھلا مضمون شایع ہوا تو اُنھوں نے خاکسار کو مندرجہ ذیل تحریر ارسال فرمائی:

{جناب اکرم آمل براہوی کی تحریر:

صدیقی صاحب بہت شکریہ ہم غریبوں کو یاد کرنے کا۔

ا)۔ براہوئی میں دراوڑی الفاظ 250 نہیں 2500 تک پہنچ چکے ہیں، میری تحقیق کے مطابق۔

ب)۔ بدقسمتی سے جن اہل زبان حضرات کا حوالہ آپ نے دیا ہے انہوں نے نام تو بڑا کمایا لیکن اب تک ماہرِ براہوئی ہونا الگ بات ان سب حضرات کی اس زبان میں واحد جمع درست نہیں آج تک۔ زاہدہ صاحبہ میری ادبی و تحقیقی بہن ہیں مگر ان کا تعلق براہوئی زبان سے براہ راست نہیں۔

ج)۔ براہوئی کا اصل رومن بِراہوئی ہے۔ تاہم زیادہ مستعمل تلفظ براہوُئی ہے۔ اس لفظ (براہوئی) کے حوالے سے میری یہ تحریر پڑھیے گا:

https://www.facebook.com/share/p/hgDqokX3on

RY2QrU/?mibextid=oFDknk

براہوئی کے بارے میں مستند ماخذات اور بااعتبار علما کو پڑھنا چاہیں تو روسی ماہرلسانیات M.S.Andronov کی کتابیں:

The Brahui language اور Brahui, a Dravidian language کو پڑھیے۔ اوّل الذکر کا اردو ترجمہ بھی ہوا ہے۔

علاوہ ازیں، سر ڈینس برے کو بھی پڑھیے۔ ان سب سے پہلے آپ محترم نذیر شاکر براہوئی صاحب کی اس کتاب کو پڑھیے:

https://archive.org/details/BrahuiWaBaloch

(خاکسار کو موصوف نے ازراہِ عنایت، پی ڈی ایف فائل ارسال کی ہے: س ا ص)

میخائیل اندرونوف نے لفظ ''براہوئی'' کا مشتق بھی درست سمجھا اور واضح بھی کیا ہے تعارف میں۔ باقی، یہ نوراحمد پرکانی صاحب، گل خان نصیر، آغا نصیر احمدزئی صاحب قابل ذکر محقق نہیں۔ اول الذکر محقق نہیں، ثانی الذکر ایک سیاسی لکھاری تھا جسے حقیقت میں اس زبان سے چِڑ تھی براہوئی ہونے کے باوجود، وجہ تھی بلوچی سیاست۔ مؤخرالذکر کا بھی حال یہی تھا۔

''براہوئی، قلات، کوئٹہ'' کی درست رومن املا: از قلم اکرم آمل براہوی ہونا تو یوں چاہیے کہ ہر چیز سے یہ پوچھا جائے کہ ''تُو کیا ہے اور تیرا نام بھی؟'' لیکن ہر جگہ چیزیں اپنے آپ کے بارے میں بتا نہیں سکتیں۔ ٹھیک اسی طرح جس شخص، گروہ، قوم یا قبیلے کا نام وہی لکھا جائے جو وہ اپنے آپ کو کہتا ہے مگر بالعموم ایسا نہیں ہوتا۔ انگریز عجیب ہیں، ''قلات'' کو تو Kalat لکھ کر عام کیا مگر کوئٹہ کو Quetta۔ اب معلوم نہیں ''ق'' کے لیے ''Q'' ہے یا ''Q'' بھی آزاد ہے جہاں چاہے گھس جائے۔

لفظ ''قلات'' کو عمومًا عربی ''قِلعات'' یعنی ''قِلعہ'' کی جمع مانا جاتا ہے۔ اب انگریزی میں اسےQalat ہونا چاہیے تھا لیکن نہیں ایسا لکھنے سے غلط تصور ہوگا۔''کوئٹہ'' کو بالعموم پشتو کا لفظ کہہ کر عام کیا گیا ہے اور اس کا مطلب Fort یعنی قلعہ بتایا گیا ہے۔ آیا ''کوئٹہ'' کے معانی یہی ہیں یا نہیں یہ میری بحث نہیں۔ یہ لفظ (کوئٹہ) واقعی ''کوٹا'' بمعنی قلعہ ہے یا نہیں یہ ایک تاریخی بحث ہے۔ تاہم فی الحال میں ان کی بات مان لیتا ہوں کہ ''کوئٹہ'' کوٹا ہی ہے اور اس کے معانی Fort کے ہیں اور اسی لحاظ سے روشنی ڈالتا ہوں۔

معذرت! بلوچ قوم پرستوں (Baloch nationalists) کی طرح پشتون قوم پرست بھی چیزوں پر اپنا ٹھپہ لگانے کے لیے پروپیگنڈا کرنے اور جھوٹ بولنے میں کسی سے کم نہیں۔ میں مانتا ہوں کہ پشتو میں ''کوٹا'' کا مطلب قلعہ ہوتا ہے لیکن کیا واقعی پشتو کا لفظ پشتو کا ہی ہے؟ اگر ہاں تو ہندایرانی زبانوں میں اس کی کوئی cognate لائی جائے! میں سنسکرت کی بات نہیں کرتا کہ جس نے براہِ راست اسے دراوڑی زبانوں سے مستعار لیا ہے۔

اس کے علاوہ لفظ ''کوٹ'' صرف پشتو تک محدود نہیں پنجابی، سندھی کے علاوہ کئی زبانوں میں مختلف صورتوں میں ذرا سی صوتی تبدیلی کے ساتھ پایا جاتا ہے۔ باقی تو باقی ''عمر کوٹ، سیالکوٹ، شہداد کوٹ'' وغیرہ کے الفاظ تو آپ سب جانتے ہیں کہ جہاں آخری لفظ ''کوٹ'' موجود ہے تو اسے محض پشتو تک محدود کرنے کا کیا مطلب؟

حتٰی کہ اب ملازمت کے کئی ون پیپرز میںMCQs میں یہ سوال آیا ہے کہ ''کوئٹہ'' کس زبان کا لفظ ہے اور صحیح جواب پشتو ہے۔ کیوں؟

جیسا کہ ''پٹہ خزانہ'' نامی ایک خودساختہ کتاب ایک پشتون نیشنلسٹ نے 1944ء میں چھپوا کر کہا کہ یہ میں نے دریافت کی ہے جو کھوئی ہوئی تھی، جو 800 سال پرانی ہے۔کہاں کہاں بلنڈرز [blunders] کرکے کیسے پکڑا گیا ،بہت دلچسپ اور لمبی کہانی ہے جو ایک الگ جامع تحریر کی متقاضی (مقتضی: س اص) ہے جو اس وقت ممکن نہیں۔ یاد رہے لفظ ''پٹہ'' بمعنی ''چھپا ہوا'' یا Hidden خود پشتو میں مستعار لفظ ہے۔ نیز میں نے بلوچ عوام یا پشتون عوام کی بات نہیں کی بلکہ قوم پرست لکھاریوں کی بات کی ہے۔

خیر آتے ہیں موضوع کی طرف۔ براہوئی میں ''کوٹھ\کوٹ، کوٹَھو، کُھڈّی'' کے علاوہ کئی الفاظ پائے جاتے ہیں اور دوسری طرف آپ دراوڑی لسانی خاندان کی زبانوں میں کوٹا بمعنی fort کی فہرست خود دیکھ لیجئے۔ میں یہاں انگریز ایم بی ایمینیو [M. B. Emeneau] اور ٹی برو] [T. Burrowکی لغت DED سے نقل چسپاں کرتا ہوں:

(اس اقتباس کی بعینہ نقل، کلیدی تختے کی تکنیکی دشواری کے سبب محال ہے، لہٰذا خاکسار اِسے اردو میں تحریر کرتاہے: س اص)

تَمِل زبان میں کوٹائی سے مراد ہے قلعہ، قلعہ نُما وسیع عمارت;کوٹُو بمعنی مضبوط گڑھ، ملیالَم میں کوٹا بمعنی قلعہ، قیام گاہ، کوٹُو بمعنی قلعہ، کوڈا زبان میں کوٹ کا مطلب ہے قلعہ نُما وسیع عمارت، محل نُما عظیم عمارت، توڈا زبان میں کواٹ سے مراد ہے بنگلہ، کنڑ میں کوٹ سے قلعہ ہی مراد لیا جاتا ہے، نیز فصیل کو کہتے ہیں۔ اسی طرح دیگر دراوڑی زبانوں میں کم وبیش یہی مفاہیم رائج ہیں۔ (جب خاکسار سہیل نے انٹرنیٹ پر دستیاب لغات کی مدد سے 'کوٹائی' کی تَمِل زبان میں تعریف جاننی چاہی تو معلوم ہوا کہ اِس سے مراد ہے: قلعہ، قلعہ بند شہر، سورج اور چاند کے گرد ہالہ، کسی مخصوص تالے کی بناوٹ میں شامل دندان، کسی گھر کا اندرونی حصہ، قلعہ بندی، قلعہ بندی کی مخصوص شکل): اردوتفہیم: س ا ص}۔ جناب اکرم آمل براہوی کا بیان اگلی قسط میں جاری رہے گا۔ فی الحال رخصت چاہتا ہوں۔
Load Next Story