آرٹیفیشل انٹیلی جنس
اسے اپ ڈیٹ کرنا بہت مشکل تھا لیکن جنریٹیو ٹیکنالوجی نے یہ بھی ممکن بنا دیا ہے
آرٹیفیشل انٹیلی جنس ٹیکنالوجی بزنس میں جس تیزی سے انقلاب لا رہی ہے، اس کا ہم اپنے ملک میں تصور بھی نہیں کر سکتے۔ لیکن دنیا میں ا س کے استعمال سے جو ترقی دیکھی جا رہی ہے وہ یقیناً حیرت انگیز ہے۔ آج دنیا میں اس سے آگے بڑھ کر جنریٹیو ٹیکنالوجی کا چرچا ہے۔
پاکستان میں اس جدید ٹیکنالوجی کی منتقلی بے حد ضروری ہے کہ حکومت، ادارے اور ہماری یوتھ اس سے بھرپور فائدہ اُٹھائیں۔ برطانیہ جو بینکنگ اور فنانشل سروسز کا حب ہے اپنی گلوبل ریچ مزید بڑھانے کے لیے نئی سے نئی ٹیکنالوجیز کا استعمال کرتا ہے جس میں آرٹی فیشنل انٹیلی جینس سر فہرست ہے جب کہ جنریٹیو ٹیکنالوجی اب اسے انقلابی جہت دے رہی ہے۔ مثال کے طور پر فنانشنل آٹو میشن ایک بے حد کارآمد ٹول ہے اس میں کمپوزنگ اور اسپیس کے بجائے آواز سے اکاؤنٹس کے لین دین یعنی ٹرانزیکشنز مکمل کی جاتی ہیں جو آسان ہے اور اس طرح سے کام بھی جلد نمٹ جاتا ہے۔ اس میں انسانی مداخلت ان معنوں میں بالکل ختم ہو جاتی ہے کہ صرف آواز کے ذریعے فنانشل پراسیس مکمل ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف کسٹمرکو پیمنٹ ہو جاتی ہے۔
بینکنگ اور مالیاتی شعبوں میں کمپلائنس ایک بہت بڑا اور اہم ایریا ہے کیونکہ اس ہی کے ذریعے مالیاتی معاملات کو عملی شکل دی جاتی ہے۔ یہ روبوٹس رولز اور ریگولیشنز جنریٹو اے آئی سے سیکھ سکتے ہیں اور ان کا انٹرفیس، یعنی بات چیت بالکل انسانوں کی طرح ہے۔ اس میں روبوٹس رہنمائی مہیا کرتے ہیں جن سے آپ انگریزی، اُردو یا کسی اور زبان میں بات کرسکتے ہیں جس سے کسٹمرز کے لیے بات سمجھنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔ انھیں پیچیدہ سوالات کے جوابات بھی آسان زبان میں میسر ہوں گے۔ یوں ایک طرف کسٹمرز کو ماہرانہ رہنمائی ملے گی وہیں بھاری فیسز سے بھی نجات مل جائے گی۔
اس وقت پاکستان کے معاشی حالات بہت خراب ہیں ۔ عوام سخت مایوس ہے، عوام معاشی مشکلات کا حل چاہتے ہیں، ایسا تب ہی ممکن ہو گا جب ملکی معیشت درست سمت میں گامزن ہو، ہماری معاشی بحالی میں آرٹی فیشل ٹیکنالوجی اور جنریٹیو ٹیکنالوجی جیسی جدید ٹیکنالوجیز کا استعمال بہت فیصلہ کن ہو گاکیونکہ یہ جلد نتائج دے سکتی ہیں۔ پاکستان کی ساٹھ فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جو زیادہ تر بے ہنرے ہیں جب کہ ان کے ہاتھوں میں 18 کروڑ اسمارٹ فونز ہیں۔ نیز حکومت بھی طلبہ کو لیپ ٹاپ فراہم کرتی ہے لیکن جب تک نوجوانوں کو ان کا درست استعمال نہیں سکھایا جائے گا، یہ مشق بے کار ہی نہیں خطرناک بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس ملکی ترقی میں انقلاب لا سکتی ہے۔
بیرون ملک پاکستانیوں کے ذریعے اس ٹیکنالوجی کی منتقلی بہت آسان ہے ۔ اس سلسلے میں بیرون ملک پاکستانیوں کے ذریعے تربیت اور رہنمائی مل سکتی ہے۔ ماضی مین بیڈ گورننس ، مالیاتی شعبوں میں ڈسپلن کی کمی اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے فقدان کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو تباہ کن نقصان پہنچا کہ اسٹیٹ بینک نے ان خرابیوں خاص طور پر بیڈ لون کے ضمن میں اپنے کردار میں غفلت برتی۔ اس سنگین غفلت سے ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ لیکن اس کے باوجود بینکنگ سیکٹر کو بہت فروغ ملا۔پاکستانی بینکوں میں جو ٹیکنالوجی استعمال کی جا رہی ہے وہ 50, 60 سال پرانی ہے۔
اسے اپ ڈیٹ کرنا بہت مشکل تھا لیکن جنریٹیو ٹیکنالوجی نے یہ بھی ممکن بنا دیا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی سارا ڈیٹا پڑھ سکتی ہے اور پھر اس ڈیٹا کی بنیاد پر بینکس کی سروسز کو اپ ڈیٹ کرسکتی ہے۔ یہ وہ ایریا ہے جس سے ہمارے بینکنگ سیکٹر کو فوری اور بہت وسیع فائدہ ہو گا لیکن جب تک حکومت مالیاتی اداروں اور یونیورسٹیوں میں اشتراک اور تعاون نہیں ہو گا اس انٹیلی جنس سے فائدہ نہیں اُٹھایا جا سکے گا۔آرٹیفیشنل انٹیلی جنس کا شور مچانا اور اسے سیاسی فائدہ کے لے استعمال کرنا، ایک بات ہے مگر اس کا مالیاتی معاملات میں ٹھوس استعمال بہت عرق ریزی، مہارت اور تجربہ مانگتا ہے۔ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ پاکستانی نوجوانوں کے پاس علم بھی ہے، ہنر بھی اور انھیں اس کا استعمال بھی آتا ہے۔
آرٹیفیشل انٹیلی جنس پر سب سے بڑا اعتراض پوری دنیا میں یہ کیا جارہا ہے کہ اس سے بے روزگاری میں اضافہ ہو گا کیونکہ انسانوں کی جگہ روبوٹس لے لیں گے۔ یہ اعتراض اور تشویش بالکل درست ہے۔ پاکستان جیسے اوور پاپولیٹڈ ممالک میں یہ ٹیکنالوجی تباہ کن ہو سکتی ہے۔ ان تمام خدشات کو ترقی یافتہ ممالک میں بھی دیکھا جا رہا ہے اور ان کے حل بھی تلاش کیے جارہے ہیں۔
اس انٹیلی جنس کے متعلق اس خدشہ کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے کہ اس کے الگورتھم میں تبدیلی سے ریاستوں، اداروں اور افراد کے لیے خطرات اور بہت سے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ امریکا برطانیہ یورپ چین اور روس میں اس بارے میں سخت قانون سازی ہو رہی ہے لیکن ان تمام خطرات اور خدشات کے باوجود پاکستان کی معیشت کے لیے جنریٹیو آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا فوری اور وسیع پیمانے پر استعمال لازمی ہے کیونکہ اس سے مختلف مالیاتی سیکٹر اور حکومتی شعبوں میں انقلاب آسکتا ہے۔
پاکستان میں اس جدید ٹیکنالوجی کی منتقلی بے حد ضروری ہے کہ حکومت، ادارے اور ہماری یوتھ اس سے بھرپور فائدہ اُٹھائیں۔ برطانیہ جو بینکنگ اور فنانشل سروسز کا حب ہے اپنی گلوبل ریچ مزید بڑھانے کے لیے نئی سے نئی ٹیکنالوجیز کا استعمال کرتا ہے جس میں آرٹی فیشنل انٹیلی جینس سر فہرست ہے جب کہ جنریٹیو ٹیکنالوجی اب اسے انقلابی جہت دے رہی ہے۔ مثال کے طور پر فنانشنل آٹو میشن ایک بے حد کارآمد ٹول ہے اس میں کمپوزنگ اور اسپیس کے بجائے آواز سے اکاؤنٹس کے لین دین یعنی ٹرانزیکشنز مکمل کی جاتی ہیں جو آسان ہے اور اس طرح سے کام بھی جلد نمٹ جاتا ہے۔ اس میں انسانی مداخلت ان معنوں میں بالکل ختم ہو جاتی ہے کہ صرف آواز کے ذریعے فنانشل پراسیس مکمل ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف کسٹمرکو پیمنٹ ہو جاتی ہے۔
بینکنگ اور مالیاتی شعبوں میں کمپلائنس ایک بہت بڑا اور اہم ایریا ہے کیونکہ اس ہی کے ذریعے مالیاتی معاملات کو عملی شکل دی جاتی ہے۔ یہ روبوٹس رولز اور ریگولیشنز جنریٹو اے آئی سے سیکھ سکتے ہیں اور ان کا انٹرفیس، یعنی بات چیت بالکل انسانوں کی طرح ہے۔ اس میں روبوٹس رہنمائی مہیا کرتے ہیں جن سے آپ انگریزی، اُردو یا کسی اور زبان میں بات کرسکتے ہیں جس سے کسٹمرز کے لیے بات سمجھنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔ انھیں پیچیدہ سوالات کے جوابات بھی آسان زبان میں میسر ہوں گے۔ یوں ایک طرف کسٹمرز کو ماہرانہ رہنمائی ملے گی وہیں بھاری فیسز سے بھی نجات مل جائے گی۔
اس وقت پاکستان کے معاشی حالات بہت خراب ہیں ۔ عوام سخت مایوس ہے، عوام معاشی مشکلات کا حل چاہتے ہیں، ایسا تب ہی ممکن ہو گا جب ملکی معیشت درست سمت میں گامزن ہو، ہماری معاشی بحالی میں آرٹی فیشل ٹیکنالوجی اور جنریٹیو ٹیکنالوجی جیسی جدید ٹیکنالوجیز کا استعمال بہت فیصلہ کن ہو گاکیونکہ یہ جلد نتائج دے سکتی ہیں۔ پاکستان کی ساٹھ فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جو زیادہ تر بے ہنرے ہیں جب کہ ان کے ہاتھوں میں 18 کروڑ اسمارٹ فونز ہیں۔ نیز حکومت بھی طلبہ کو لیپ ٹاپ فراہم کرتی ہے لیکن جب تک نوجوانوں کو ان کا درست استعمال نہیں سکھایا جائے گا، یہ مشق بے کار ہی نہیں خطرناک بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس ملکی ترقی میں انقلاب لا سکتی ہے۔
بیرون ملک پاکستانیوں کے ذریعے اس ٹیکنالوجی کی منتقلی بہت آسان ہے ۔ اس سلسلے میں بیرون ملک پاکستانیوں کے ذریعے تربیت اور رہنمائی مل سکتی ہے۔ ماضی مین بیڈ گورننس ، مالیاتی شعبوں میں ڈسپلن کی کمی اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے فقدان کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو تباہ کن نقصان پہنچا کہ اسٹیٹ بینک نے ان خرابیوں خاص طور پر بیڈ لون کے ضمن میں اپنے کردار میں غفلت برتی۔ اس سنگین غفلت سے ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ لیکن اس کے باوجود بینکنگ سیکٹر کو بہت فروغ ملا۔پاکستانی بینکوں میں جو ٹیکنالوجی استعمال کی جا رہی ہے وہ 50, 60 سال پرانی ہے۔
اسے اپ ڈیٹ کرنا بہت مشکل تھا لیکن جنریٹیو ٹیکنالوجی نے یہ بھی ممکن بنا دیا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی سارا ڈیٹا پڑھ سکتی ہے اور پھر اس ڈیٹا کی بنیاد پر بینکس کی سروسز کو اپ ڈیٹ کرسکتی ہے۔ یہ وہ ایریا ہے جس سے ہمارے بینکنگ سیکٹر کو فوری اور بہت وسیع فائدہ ہو گا لیکن جب تک حکومت مالیاتی اداروں اور یونیورسٹیوں میں اشتراک اور تعاون نہیں ہو گا اس انٹیلی جنس سے فائدہ نہیں اُٹھایا جا سکے گا۔آرٹیفیشنل انٹیلی جنس کا شور مچانا اور اسے سیاسی فائدہ کے لے استعمال کرنا، ایک بات ہے مگر اس کا مالیاتی معاملات میں ٹھوس استعمال بہت عرق ریزی، مہارت اور تجربہ مانگتا ہے۔ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ پاکستانی نوجوانوں کے پاس علم بھی ہے، ہنر بھی اور انھیں اس کا استعمال بھی آتا ہے۔
آرٹیفیشل انٹیلی جنس پر سب سے بڑا اعتراض پوری دنیا میں یہ کیا جارہا ہے کہ اس سے بے روزگاری میں اضافہ ہو گا کیونکہ انسانوں کی جگہ روبوٹس لے لیں گے۔ یہ اعتراض اور تشویش بالکل درست ہے۔ پاکستان جیسے اوور پاپولیٹڈ ممالک میں یہ ٹیکنالوجی تباہ کن ہو سکتی ہے۔ ان تمام خدشات کو ترقی یافتہ ممالک میں بھی دیکھا جا رہا ہے اور ان کے حل بھی تلاش کیے جارہے ہیں۔
اس انٹیلی جنس کے متعلق اس خدشہ کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے کہ اس کے الگورتھم میں تبدیلی سے ریاستوں، اداروں اور افراد کے لیے خطرات اور بہت سے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ امریکا برطانیہ یورپ چین اور روس میں اس بارے میں سخت قانون سازی ہو رہی ہے لیکن ان تمام خطرات اور خدشات کے باوجود پاکستان کی معیشت کے لیے جنریٹیو آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا فوری اور وسیع پیمانے پر استعمال لازمی ہے کیونکہ اس سے مختلف مالیاتی سیکٹر اور حکومتی شعبوں میں انقلاب آسکتا ہے۔