دنیا بھر سے اب کی بار مقتل غزہ ہے
آج ستاون مسلم ملکوں کے سربراہوں کو ریت میں سر چھپا لینے چاہیے۔
ISLAMABAD:
فلسطین میں جاری اسرائیلی بمباری کوئی نئی بات نہیں کیونکہ اسرائیل ہمیشہ اسطرح کی کارروائیاں کرتا چلا آرہاہے۔ اور جب بھی اس کے خلاف کوئی قرارداد پیش کی جاتی ہے تو سلامتی کونسل میں بیٹھا امریکی ایلچی ؤیٹو کا لفظ بول کر مظلوم فلسطینیوں کی امیدیں ہی توڑ دیتا ہے۔اس ظلم کے خلاف دوسری اہم آواز عرب لیگ اور او۔آئی۔سی کی ہے جو اب زبانی کلامی مخالفت اور مزحمت بھی گوارا نہیں کرتیں۔
ایک وقت تھا جب اسرائیل کو ایسی کاروائیوں پر شام سے حافظ الاسد، عراق سے صدام حسین، سعودی عرب سے شاہ فیصل اور بعد ازاں شاہ عبدالعزیز کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ کیمپ ڈیوڈ میں فلسطینیوں کے خون کا سودا کرنے والا مصر بھی آج چپ ہے بلکہ اپنی جانب کی غزہ کی سرحدیں بھی بند کر چکا ہے تاکہ مظلوم فلسطینیوں کو کئی امداد نہ پہنچ سکے۔ پوری دنیا میں آج اردگان کے علاوہ کوئی لیڈر نہیں جو فلسطینیوں سے اظہار ہمدردی ہی کر سکے۔
مشرق وسطی میں 9/11 کے بعد جاری مشکوک جہادی تحریکوں نے جہاں خطے کے اندر اسرائیل مخالف قوتوں کو کمزور کر دیا ہے وہیں پر ماضی کی دو طاقتور اسرائیلی حریف ریاستیں شام اور عراق اپنی بقاءء کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ یہ کیسے جہادی گروہ ہیں جنھیں اسرائیل کے خلاف ایک گولی چلانے کی بھی فرصت نہیں۔ جب کہ شام کا وہ علاقہ جہاں جہادی گروہ قابض ہیں وہاں سے اسرائیلی سرحدیں چند قدم سے زیادہ دور نہیں ہیں۔میں یہاں پر سعودی عرب کا ذکر نہیں کروں گا جس کا سرمایہ اپنی ہی مسلمان ریاستوں میں انتشار کے لیے کام آ سکتا ہے مگر فلسطینیوں کے ساتھ اظہار ہمدردی سے ریاض کے شہزادوں کو بھی کوئی سروکار نہیں۔
پانچ دہایوں سے قطر، بحرین اور کویت پر حکمرانی کرتے شاہی خاندان بھی اسرائیل کی مذمت کرنے سے زیادہ سرکاری وفود کا تبادلہ کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ چند ہزار مسلح افراد پر مشتمل اسلامی تحریک مزاحمت حماس جس کی طاقت کو ختم کرنے کے لیے مصری انٹیلیجنس ایجنسیوں نے بہت زیادہ زور لگایا ہے وہ بھی تقریبا مفلوج نظر آتی ہے۔ شمال کی جانب سے اسرائیل پر ماضی میں دباؤ برقرار رکھتی حزب اللہ بھی شام کی جنگ کا ایندھن بننے کے بعد کچھ کرنے سے قاصر ہے۔
دوسری جانب اسرائیل کو شیطان قرار دینے والی ایرانی حکومت بھی اپنا سر بغداد اور دمشق کی خانہ جنگی میں چھپا کر بیٹھی ہے۔ آج پوری دنیا میں کوئی ایسی طاقت نہیں جو اسرائیل کو باز رکھ سکے کیوں کہ بحیرہ روم کے کنارے پر موجود اس صہیونی ریاست سے سب کے مفادات جکڑے ہوئے ہیں ۔اور غلیل سے اسرائیل کا مقابلہ کرتی فلسطینیوں کی تیسری نسل سے نہ تو مسلم حکمرانوں اور نہ ہی عالمی دنیا کو کوئی فائدہ پہنچا سکتی ہے۔
دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل غزہ آج المناک انسانی المیے سے دوچار ہے جس کو بچانے کے واسطے آج کوئی سامنے نہیں آرہا اور اسی لیے مجھے لیبیا کا معمر قذافی یاد آرہا ہے جو ہر اسرائیلی بمباری کے بعد فلسطینیوں کی امداد کے لیے ادویات اور غزائی اشیاء بھیجتا تھا۔ آج تو جمال عبدلناصر بھی مصر میں نہیں ہے جو اسرائیل کو دھمکیاں ہی لگانے کی جرات کر لیا کرتا تھا۔ آج ستاون مسلم ملکوں کے سربراہوں کو ریت میں سر چھپا لینے چاہیے کیونکہ شتر مرغ کی یہی روایت ہے مگر اس سے بھی غزہ کے مقتل میں بکھری لاشوں کے لواحقین کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
فلسطین میں جاری اسرائیلی بمباری کوئی نئی بات نہیں کیونکہ اسرائیل ہمیشہ اسطرح کی کارروائیاں کرتا چلا آرہاہے۔ اور جب بھی اس کے خلاف کوئی قرارداد پیش کی جاتی ہے تو سلامتی کونسل میں بیٹھا امریکی ایلچی ؤیٹو کا لفظ بول کر مظلوم فلسطینیوں کی امیدیں ہی توڑ دیتا ہے۔اس ظلم کے خلاف دوسری اہم آواز عرب لیگ اور او۔آئی۔سی کی ہے جو اب زبانی کلامی مخالفت اور مزحمت بھی گوارا نہیں کرتیں۔
ایک وقت تھا جب اسرائیل کو ایسی کاروائیوں پر شام سے حافظ الاسد، عراق سے صدام حسین، سعودی عرب سے شاہ فیصل اور بعد ازاں شاہ عبدالعزیز کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ کیمپ ڈیوڈ میں فلسطینیوں کے خون کا سودا کرنے والا مصر بھی آج چپ ہے بلکہ اپنی جانب کی غزہ کی سرحدیں بھی بند کر چکا ہے تاکہ مظلوم فلسطینیوں کو کئی امداد نہ پہنچ سکے۔ پوری دنیا میں آج اردگان کے علاوہ کوئی لیڈر نہیں جو فلسطینیوں سے اظہار ہمدردی ہی کر سکے۔
مشرق وسطی میں 9/11 کے بعد جاری مشکوک جہادی تحریکوں نے جہاں خطے کے اندر اسرائیل مخالف قوتوں کو کمزور کر دیا ہے وہیں پر ماضی کی دو طاقتور اسرائیلی حریف ریاستیں شام اور عراق اپنی بقاءء کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ یہ کیسے جہادی گروہ ہیں جنھیں اسرائیل کے خلاف ایک گولی چلانے کی بھی فرصت نہیں۔ جب کہ شام کا وہ علاقہ جہاں جہادی گروہ قابض ہیں وہاں سے اسرائیلی سرحدیں چند قدم سے زیادہ دور نہیں ہیں۔میں یہاں پر سعودی عرب کا ذکر نہیں کروں گا جس کا سرمایہ اپنی ہی مسلمان ریاستوں میں انتشار کے لیے کام آ سکتا ہے مگر فلسطینیوں کے ساتھ اظہار ہمدردی سے ریاض کے شہزادوں کو بھی کوئی سروکار نہیں۔
پانچ دہایوں سے قطر، بحرین اور کویت پر حکمرانی کرتے شاہی خاندان بھی اسرائیل کی مذمت کرنے سے زیادہ سرکاری وفود کا تبادلہ کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ چند ہزار مسلح افراد پر مشتمل اسلامی تحریک مزاحمت حماس جس کی طاقت کو ختم کرنے کے لیے مصری انٹیلیجنس ایجنسیوں نے بہت زیادہ زور لگایا ہے وہ بھی تقریبا مفلوج نظر آتی ہے۔ شمال کی جانب سے اسرائیل پر ماضی میں دباؤ برقرار رکھتی حزب اللہ بھی شام کی جنگ کا ایندھن بننے کے بعد کچھ کرنے سے قاصر ہے۔
دوسری جانب اسرائیل کو شیطان قرار دینے والی ایرانی حکومت بھی اپنا سر بغداد اور دمشق کی خانہ جنگی میں چھپا کر بیٹھی ہے۔ آج پوری دنیا میں کوئی ایسی طاقت نہیں جو اسرائیل کو باز رکھ سکے کیوں کہ بحیرہ روم کے کنارے پر موجود اس صہیونی ریاست سے سب کے مفادات جکڑے ہوئے ہیں ۔اور غلیل سے اسرائیل کا مقابلہ کرتی فلسطینیوں کی تیسری نسل سے نہ تو مسلم حکمرانوں اور نہ ہی عالمی دنیا کو کوئی فائدہ پہنچا سکتی ہے۔
دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل غزہ آج المناک انسانی المیے سے دوچار ہے جس کو بچانے کے واسطے آج کوئی سامنے نہیں آرہا اور اسی لیے مجھے لیبیا کا معمر قذافی یاد آرہا ہے جو ہر اسرائیلی بمباری کے بعد فلسطینیوں کی امداد کے لیے ادویات اور غزائی اشیاء بھیجتا تھا۔ آج تو جمال عبدلناصر بھی مصر میں نہیں ہے جو اسرائیل کو دھمکیاں ہی لگانے کی جرات کر لیا کرتا تھا۔ آج ستاون مسلم ملکوں کے سربراہوں کو ریت میں سر چھپا لینے چاہیے کیونکہ شتر مرغ کی یہی روایت ہے مگر اس سے بھی غزہ کے مقتل میں بکھری لاشوں کے لواحقین کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔