آر ٹی ایس اور فارم 47 کی حکومتیں
2018 میں وزیر اعظم کی مرضی کے خلاف شہباز شریف اپوزیشن لیڈر بن گئے تھے
پی ٹی آئی موجودہ وفاقی حکومت کو غیر قانونی اور فارم 47 کی حکومت قرار دیتی آئی ہے، جس نے اپنے قیام کے پہلے 6 ماہ مکمل کر لیے ہیں اور پی ٹی آئی رہنما روزانہ ہی بیانات دے رہے ہیں کہ آنے والے چند ہفتوں میں یہ حکومت ختم ہو جائے گی۔ پی ٹی آئی کے اسیر بانی تو یہاں تک دعویٰ کر رہے ہیں کہ اکتوبر میں چار حلقے کھلیں گے اور موجودہ حکومت خود گر جائے گی۔ بانی پی ٹی آئی کا یہ دعویٰ اپنے رہنماؤں سے بھی بڑھ کر ہے کہ ہماری درخواستیں زیر سماعت آئیں گی اور موجودہ وزیر اعظم عہدے سے اترا تو وہ بھی اغوا ہوسکتا ہے۔
پاکستان میں آج تک کوئی وزیر اعظم عہدے سے اترتے ہی کبھی گرفتار نہیں ہوا تو اغوا کیسے ہو سکتا ہے؟ ہو سکتا ہے کہ ان کے خود ساختہ موکلوں نے ایسا بتایا ہو، کیونکہ جیل ہو یا اپنا گھر خواب تو ہر جگہ دیکھا جاسکتا ہے اور وزیر اعظم کے اترتے ہی ان کے اغوا کا خواب اڈیالہ جیل ہی میں قید رہنما کو یا کسی اور کو نظر آیا ہو اور اپنی حکومت کے ختم ہونے تک ملک میں اپنے جلسوں کے انعقاد کا ریکارڈ قائم کرنے والے سابق وزیر اعظم کو نظر آیا ہو جس کی خبر انھوں نے میڈیا کو دے دی اور اب وہ اکتوبر میں اپنے مجوزہ خواب کی تکمیل کا انتظار کر رہے ہوں۔
پی ٹی آئی کے وزیر اعظم کی عہدے سے چوالیس ماہ کے بعد آئینی برطرفی کے بعد شہباز شریف 16 ماہ وزیر اعظم رہے اور سابق وزیر اعظم بھی 16 ماہ بعد نئی حکومت کے بہ مشکل ہاتھ آئے تھے کیونکہ پنجاب اور اسلام آباد پولیس کو 16 ماہ تک سابق وزیر اعظم نے اپنی لاہور کی رہائش گاہ زمان پارک کے قریب نہیں آنے دیا تھا جس میں سابق وزیر اعظم کی گرفتاری سے محفوظ رہنے کی کامیاب حکمت عملی بھی شامل تھی یا کوئی خود ساختہ روحانی طاقت مگر آخر 16 ماہ بعد وہ گرفتار کر ہی لیے گئے اور اب اڈیالہ جیل میں ایک سال تو خیر سے گزار ہی چکے ہیں۔
(ن) لیگ کے رہنما زندگی میں پہلی بار ایک سال قید رہنے والے سابق وزیر اعظم کی دہائی کے جواب میں کہہ رہے ہیں کہ وہ تو جیل میں فائیو اسٹار ہوٹل جیسی سہولیات کے حامل ہیں جنھیں ہماری طرح تنگ کمرہ نہیں بلکہ نوے میٹر لمبا سیل ملا ہوا ہے جن کا کھانا بھی اسلام آباد ریسٹورنٹ سے جاتا ہے اور ان کے لیے جیل ماسی ویڑہ بنی ہوئی ہے جہاں انھیں دیسی مرغی، مکھن بریڈ اور من پسند کھانے مفت میں مل رہے ہیں مگر پھر بھی وہ سہولتیں نہ ملنے کی شکایتیں کر رہے ہیں۔
2018 میں جب پی ٹی آئی کو آر ٹی ایس کے ذریعے انتخابی نتائج میں رات گئے تبدیلی کرکے سب سے زیادہ نشستیں دلائی گئی تھیں جو حکومت بنانے کے لیے کم تھیں تو دیگر جماعتوں کی حمایت دلا کر پی ٹی آئی کا وزیر اعظم منتخب کرایا گیا تھا اور پنجاب میں جہاں مسلم لیگ (ن) کی نشستیں زیادہ تھیں وہاں بھی (ق) لیگ کو اسپیکری دے کر پی ٹی آئی کی بزدار حکومت بنوائی گئی تھی، کیونکہ وزیر اعظم نے پنجاب میں بھی اپنی حکومت کی فرمائش کی تھی۔
2018 میں وزیر اعظم کی مرضی کے خلاف شہباز شریف اپوزیشن لیڈر بن گئے تھے تو وہ جلد جیل بھی بھیج دیے گئے تھے اور پیپلز پارٹی نے وزیر اعظم کو سلیکٹڈ کا خطاب دیا تھا جو وزیر اعظم کو بہت ہی برا لگتا تھا اس لیے نیب کے من پسند چیئرمین کے ذریعے (ن) لیگ اور پی پی کے تمام ہی مرکزی رہنماؤں کو جیل بھجوا دیا گیا تھا جس میں سابق صدر، سابق وزیر اعظم اور سابق وزرا ہی نہیں بلکہ سابق صدر کی بہن اور سابق وزیر اعظم کی بیٹی بھی شامل تھی کیونکہ یہ سب قومی اسمبلی کو آر ٹی ایس کی پیداوار اور اس کے وزیر اعظم کو سلیکٹڈ قرار دیتے تھے، اس لیے سب جیل گئے اور عدالتوں سے ضمانت پر رہا ہوئے تھے۔جس طرح 2018 کے الیکشن کو آر ٹی ایس کا الیکشن (ن) لیگ، پی پی اور جے یو آئی قرار دیتی تھی، اسی طرح اب پی ٹی آئی اور اس کے حامی موجودہ قومی اسمبلی کو فارم47 کے ذریعے لائی گئی جعلی اسمبلی قرار دیتے آ رہے ہیں ۔
پاکستان میں آج تک کوئی وزیر اعظم عہدے سے اترتے ہی کبھی گرفتار نہیں ہوا تو اغوا کیسے ہو سکتا ہے؟ ہو سکتا ہے کہ ان کے خود ساختہ موکلوں نے ایسا بتایا ہو، کیونکہ جیل ہو یا اپنا گھر خواب تو ہر جگہ دیکھا جاسکتا ہے اور وزیر اعظم کے اترتے ہی ان کے اغوا کا خواب اڈیالہ جیل ہی میں قید رہنما کو یا کسی اور کو نظر آیا ہو اور اپنی حکومت کے ختم ہونے تک ملک میں اپنے جلسوں کے انعقاد کا ریکارڈ قائم کرنے والے سابق وزیر اعظم کو نظر آیا ہو جس کی خبر انھوں نے میڈیا کو دے دی اور اب وہ اکتوبر میں اپنے مجوزہ خواب کی تکمیل کا انتظار کر رہے ہوں۔
پی ٹی آئی کے وزیر اعظم کی عہدے سے چوالیس ماہ کے بعد آئینی برطرفی کے بعد شہباز شریف 16 ماہ وزیر اعظم رہے اور سابق وزیر اعظم بھی 16 ماہ بعد نئی حکومت کے بہ مشکل ہاتھ آئے تھے کیونکہ پنجاب اور اسلام آباد پولیس کو 16 ماہ تک سابق وزیر اعظم نے اپنی لاہور کی رہائش گاہ زمان پارک کے قریب نہیں آنے دیا تھا جس میں سابق وزیر اعظم کی گرفتاری سے محفوظ رہنے کی کامیاب حکمت عملی بھی شامل تھی یا کوئی خود ساختہ روحانی طاقت مگر آخر 16 ماہ بعد وہ گرفتار کر ہی لیے گئے اور اب اڈیالہ جیل میں ایک سال تو خیر سے گزار ہی چکے ہیں۔
(ن) لیگ کے رہنما زندگی میں پہلی بار ایک سال قید رہنے والے سابق وزیر اعظم کی دہائی کے جواب میں کہہ رہے ہیں کہ وہ تو جیل میں فائیو اسٹار ہوٹل جیسی سہولیات کے حامل ہیں جنھیں ہماری طرح تنگ کمرہ نہیں بلکہ نوے میٹر لمبا سیل ملا ہوا ہے جن کا کھانا بھی اسلام آباد ریسٹورنٹ سے جاتا ہے اور ان کے لیے جیل ماسی ویڑہ بنی ہوئی ہے جہاں انھیں دیسی مرغی، مکھن بریڈ اور من پسند کھانے مفت میں مل رہے ہیں مگر پھر بھی وہ سہولتیں نہ ملنے کی شکایتیں کر رہے ہیں۔
2018 میں جب پی ٹی آئی کو آر ٹی ایس کے ذریعے انتخابی نتائج میں رات گئے تبدیلی کرکے سب سے زیادہ نشستیں دلائی گئی تھیں جو حکومت بنانے کے لیے کم تھیں تو دیگر جماعتوں کی حمایت دلا کر پی ٹی آئی کا وزیر اعظم منتخب کرایا گیا تھا اور پنجاب میں جہاں مسلم لیگ (ن) کی نشستیں زیادہ تھیں وہاں بھی (ق) لیگ کو اسپیکری دے کر پی ٹی آئی کی بزدار حکومت بنوائی گئی تھی، کیونکہ وزیر اعظم نے پنجاب میں بھی اپنی حکومت کی فرمائش کی تھی۔
2018 میں وزیر اعظم کی مرضی کے خلاف شہباز شریف اپوزیشن لیڈر بن گئے تھے تو وہ جلد جیل بھی بھیج دیے گئے تھے اور پیپلز پارٹی نے وزیر اعظم کو سلیکٹڈ کا خطاب دیا تھا جو وزیر اعظم کو بہت ہی برا لگتا تھا اس لیے نیب کے من پسند چیئرمین کے ذریعے (ن) لیگ اور پی پی کے تمام ہی مرکزی رہنماؤں کو جیل بھجوا دیا گیا تھا جس میں سابق صدر، سابق وزیر اعظم اور سابق وزرا ہی نہیں بلکہ سابق صدر کی بہن اور سابق وزیر اعظم کی بیٹی بھی شامل تھی کیونکہ یہ سب قومی اسمبلی کو آر ٹی ایس کی پیداوار اور اس کے وزیر اعظم کو سلیکٹڈ قرار دیتے تھے، اس لیے سب جیل گئے اور عدالتوں سے ضمانت پر رہا ہوئے تھے۔جس طرح 2018 کے الیکشن کو آر ٹی ایس کا الیکشن (ن) لیگ، پی پی اور جے یو آئی قرار دیتی تھی، اسی طرح اب پی ٹی آئی اور اس کے حامی موجودہ قومی اسمبلی کو فارم47 کے ذریعے لائی گئی جعلی اسمبلی قرار دیتے آ رہے ہیں ۔