ترقی کا الٹا سفر پہلا حصہ
چنانچہ کائنات کا وہ ذرہ بھی سمٹتے سمٹتے سکڑاؤ کی انتہا کو پہنچ جائے گا تو پھر پھٹ پڑے گا
عظیم الشان، حیران کن اوربے حد وبے کراں کائنات جن دو مستقل اورغیر مبدل اصولوں پر چل رہی ہے یا قائم ودائم ہے ان میں سے ایک بنیادی اصول ''ازواج'' کا ذکر تو میں اکثر کرتا رہا ہوں یعنی اس کائنات میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جس کا زوج یاجوڑا نہ ہو۔ اگر وہ ''منفی'' ہے تو اس کا مثبت بھی یقیناً موجود ہوگا اوراگر وہ مثبت ہے تو اس کامنفی بھی ہوگا اس بات کا پتہ اہل طبیعات کو تو چند سو سال پہلے لگا ہے جب ایٹم اوراس سے بھی نیچے ذرات میں منفی ومثبت دریافت کیے گئے لیکن قرآن نے پندرہ سوسال پہلے کہا تھا کہ
''پاک ہے وہ ذات جس نے سب جوڑے بنائے، زمین کی اگائی ہوئی چیزوں سے اور لوگوں سے اور ان چیزوں سے جن کے بارے میں تم نہیں جانتے (سورہ یٰسین)
اس آیت میں لفظ ''کلہا'' ( خلق الازواج کلہا) سے ثابت ہوجاتا ہے کہ ایسی کوئی چیز جو اس خالق نے پیدا کی ہے اس سلسلہ ازواج سے باہرنہیں ہے لیکن یہاں ہم آج اس کائنات کے ایک دوسرے مستقل اصول کا ذکر کرنا چاہتے ہیں اور وہ ہے محوری یا دائروی یاگولائی کااصول ، یعنی اس کائنات میں جو کچھ بھی ہے وہ ''گولائی'' میں سفر کررہاہے ، صرف زمین ہی گول نہیں ہے بلکہ ہرہرچیز کی پیدائش ، افزائش اور رہائش گولائی میں ہے جو ''شے'' جہاں سے چلتی ہے وہیں پر جاکر رکتی ہے ۔
ہر ''پیدائش'' ایک ''بیج'' جیسی صورت میں ہوتی ہے اوربیچ پر جاکر ختم ہوتی ہے ، پانی کو لے لیجیے ، بارش ہوتی ہے ، پانی مختلف راستوں سے ہوتا ہوا اورمخلوقات کی ضرورتیں پوری کرتا ہوا ندی نالوں اوردریاؤں کے ذریعے سمندر میں پہنچتا ہے وہاں سے بھاپ بن کر اٹھتا ہے بادل اورپھر وہی بارش یعنی ایک دائرے میں چلتا ہے ، کہیں کہیں برف بنتا ہے ، زمین میں جذب ہوتا ہے یازندہ مخلوقات بن جاتاہے تو وہ بھی کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی طرح (کچھ دیر سے سہی) اس دائرے ہی میں چل رہا ہوتا ہے۔ یہاں ایک نہایت حیران کن نکتہ یہ بھی سامنے آتاہے کہ یہ پانی دنیا اورخاص طورپر انسان کی پیداکی ہوئی ''غلاظتوں'' کو لے کر سمندر کے ''فلٹر'' میں پہنچاتا ہے جہاں یہ ساری غلاظتیں فلٹر ہوکر نیچے رہ جاتی ہیں اورپانی ایک مرتبہ پھر معطر اورشفاف ہوکر ''اپنے کام'' میں لگ جاتا ہے ، یوں ہم سمندروں کو دنیا کا فلٹر بھی کہہ سکتے ہیں۔
اسی طرح ہرہرمخلوق کی ابتداء ''بیج'' سے ہوتی ہے ، بیج پھوٹتا ہے ، دوپتے تین پتے پھر بہت سارے پتے شاخیں اورآخر کار پھول اورپھر وہی بیج ، بیج کو فارسی میں تخم یا ویژہ کہتے ہیں ،انگریزی ویجی ٹیبل میں بھی بیج کے معنی اوردیگر بیجوں کے ساتھ ساتھ ''انڈے'' کو بھی تخم کہتے ہیں۔ ایران، افغانستان وغیرہ میں جب گاہک دکاندار سے انڈہ مانگتا ہے تو یک تخم کہتا ہے۔ انڈے کالفظ ''ان '' سے مشتق ہے جو ہر بڑی چیز کے چھوٹے سے حصے کو کہتے ہیں چنانچہ ہمہ اقسام کے غلہ جات کو ''ان'' کہتے ہیں ، پانی کے قطرے کو بھی ان یااند کہتے ہیں۔
بارش کا دیوتا اسی وجہ سے ''ان در'' ہے اس ''ان'' سے انڈہ یا انڈے کا ذکرتو ہوگیا ہے چنانچہ کائنات کو ''برھمانڈ'' ( برھما کاانڈہ) کہاجاتا ہے۔ ہندی عقیدے کے مطابق جب ''برھما پیدا ہوا تو اس کے پیٹ میں ہرنیہ گر یا انڈہ موجود تھا جس سے اس نے کائنات بنائی ۔ فرشتوں اورملائیکہ کے لیے بولاجانے والا لفظ انجل بھی دراصل ''انگ ایل '' ہے یعنی ایل کے اعضاء ۔۔یہی بیج یا ان عربی میں بیض یابیضہ ہوجاتا ہے اورچونکہ تخم یاانڈہ سفید ہوتا ہے اس لیے سفید رنگ اوربیضوی شکل کے لیے بھی بولے جانے لگا، جیسے ہم گوشتی ، کلیجی اورآسمانی رنگ بولتے ہیں ۔یوں ہم اس بیضوی کائنات کی بنیاد بھی بیج سمجھ سکتے ہیں ، دیکھاجائے توبگ بینگ کاذرہ بھی ایک بیج تھا جو پھوٹا تو اس سے کائنات کاشجروجودمیں آیا، جو طبیعات والوں کے مطابق اب بھی پھیل رہی ہے لیکن ایک وقت آئے گا جب اس کا پھیلنا ( انتشار) رک جائے گا اورسمیٹنے یا سکڑنے ( ارتکاز) کاعمل شروع ہوجائے گا اورسکڑتے سکڑتے پھر ایک ذرے میں یہ پوری کائنات مرتکز ہوجائے گی لیکن ''ٹھہراؤ'' تو اس کائنات میں ہے ہی نہیں بقول علامہ اقبال
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
چنانچہ کائنات کا وہ ذرہ بھی سمٹتے سمٹتے سکڑاؤ کی انتہا کو پہنچ جائے گا تو پھر پھٹ پڑے گا اورایک نئی کائنات کا ایک نیا شجر پھوٹ کر پھیلنے لگے گا ، یہاں پر ایک نکتے کی بات یہ ہے کہ اہل طبیعات یا اہل سائنس اپنے تمام تر علم کے باوجود یہ معلوم نہیں کرنے پائے ہیں کہ کائناتوں کی پیدائش اورفنا یا بگ بینگوں کایہ سلسلہ کب سے چل رہا ہے اورکب تک چلے گا یعنی اس سے پہلے کتنے بگ بینگ ہوئے ہیں ، کائناتیں وجود میں آئی ہیں اورفنا ہوئی ہیں اورنہ ہی یہ بتا سکتے ہیں کہ آیندہ یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا۔ ویسے ہماری یہ موجودہ کائنات جس میں ہم زندہ ہیں اس کی عمر اندازۃً بیس ارب سال ہوچکی اوریہ ادھیڑ عمری کی حالت میں ہے یعنی ممکن ہے کہ دس بیس ارب سال اورچلے پھر سکڑتے سکڑتے وہی ذرہ اوروہی بگ بینگ ۔
(جاری ہے)
''پاک ہے وہ ذات جس نے سب جوڑے بنائے، زمین کی اگائی ہوئی چیزوں سے اور لوگوں سے اور ان چیزوں سے جن کے بارے میں تم نہیں جانتے (سورہ یٰسین)
اس آیت میں لفظ ''کلہا'' ( خلق الازواج کلہا) سے ثابت ہوجاتا ہے کہ ایسی کوئی چیز جو اس خالق نے پیدا کی ہے اس سلسلہ ازواج سے باہرنہیں ہے لیکن یہاں ہم آج اس کائنات کے ایک دوسرے مستقل اصول کا ذکر کرنا چاہتے ہیں اور وہ ہے محوری یا دائروی یاگولائی کااصول ، یعنی اس کائنات میں جو کچھ بھی ہے وہ ''گولائی'' میں سفر کررہاہے ، صرف زمین ہی گول نہیں ہے بلکہ ہرہرچیز کی پیدائش ، افزائش اور رہائش گولائی میں ہے جو ''شے'' جہاں سے چلتی ہے وہیں پر جاکر رکتی ہے ۔
ہر ''پیدائش'' ایک ''بیج'' جیسی صورت میں ہوتی ہے اوربیچ پر جاکر ختم ہوتی ہے ، پانی کو لے لیجیے ، بارش ہوتی ہے ، پانی مختلف راستوں سے ہوتا ہوا اورمخلوقات کی ضرورتیں پوری کرتا ہوا ندی نالوں اوردریاؤں کے ذریعے سمندر میں پہنچتا ہے وہاں سے بھاپ بن کر اٹھتا ہے بادل اورپھر وہی بارش یعنی ایک دائرے میں چلتا ہے ، کہیں کہیں برف بنتا ہے ، زمین میں جذب ہوتا ہے یازندہ مخلوقات بن جاتاہے تو وہ بھی کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی طرح (کچھ دیر سے سہی) اس دائرے ہی میں چل رہا ہوتا ہے۔ یہاں ایک نہایت حیران کن نکتہ یہ بھی سامنے آتاہے کہ یہ پانی دنیا اورخاص طورپر انسان کی پیداکی ہوئی ''غلاظتوں'' کو لے کر سمندر کے ''فلٹر'' میں پہنچاتا ہے جہاں یہ ساری غلاظتیں فلٹر ہوکر نیچے رہ جاتی ہیں اورپانی ایک مرتبہ پھر معطر اورشفاف ہوکر ''اپنے کام'' میں لگ جاتا ہے ، یوں ہم سمندروں کو دنیا کا فلٹر بھی کہہ سکتے ہیں۔
اسی طرح ہرہرمخلوق کی ابتداء ''بیج'' سے ہوتی ہے ، بیج پھوٹتا ہے ، دوپتے تین پتے پھر بہت سارے پتے شاخیں اورآخر کار پھول اورپھر وہی بیج ، بیج کو فارسی میں تخم یا ویژہ کہتے ہیں ،انگریزی ویجی ٹیبل میں بھی بیج کے معنی اوردیگر بیجوں کے ساتھ ساتھ ''انڈے'' کو بھی تخم کہتے ہیں۔ ایران، افغانستان وغیرہ میں جب گاہک دکاندار سے انڈہ مانگتا ہے تو یک تخم کہتا ہے۔ انڈے کالفظ ''ان '' سے مشتق ہے جو ہر بڑی چیز کے چھوٹے سے حصے کو کہتے ہیں چنانچہ ہمہ اقسام کے غلہ جات کو ''ان'' کہتے ہیں ، پانی کے قطرے کو بھی ان یااند کہتے ہیں۔
بارش کا دیوتا اسی وجہ سے ''ان در'' ہے اس ''ان'' سے انڈہ یا انڈے کا ذکرتو ہوگیا ہے چنانچہ کائنات کو ''برھمانڈ'' ( برھما کاانڈہ) کہاجاتا ہے۔ ہندی عقیدے کے مطابق جب ''برھما پیدا ہوا تو اس کے پیٹ میں ہرنیہ گر یا انڈہ موجود تھا جس سے اس نے کائنات بنائی ۔ فرشتوں اورملائیکہ کے لیے بولاجانے والا لفظ انجل بھی دراصل ''انگ ایل '' ہے یعنی ایل کے اعضاء ۔۔یہی بیج یا ان عربی میں بیض یابیضہ ہوجاتا ہے اورچونکہ تخم یاانڈہ سفید ہوتا ہے اس لیے سفید رنگ اوربیضوی شکل کے لیے بھی بولے جانے لگا، جیسے ہم گوشتی ، کلیجی اورآسمانی رنگ بولتے ہیں ۔یوں ہم اس بیضوی کائنات کی بنیاد بھی بیج سمجھ سکتے ہیں ، دیکھاجائے توبگ بینگ کاذرہ بھی ایک بیج تھا جو پھوٹا تو اس سے کائنات کاشجروجودمیں آیا، جو طبیعات والوں کے مطابق اب بھی پھیل رہی ہے لیکن ایک وقت آئے گا جب اس کا پھیلنا ( انتشار) رک جائے گا اورسمیٹنے یا سکڑنے ( ارتکاز) کاعمل شروع ہوجائے گا اورسکڑتے سکڑتے پھر ایک ذرے میں یہ پوری کائنات مرتکز ہوجائے گی لیکن ''ٹھہراؤ'' تو اس کائنات میں ہے ہی نہیں بقول علامہ اقبال
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
چنانچہ کائنات کا وہ ذرہ بھی سمٹتے سمٹتے سکڑاؤ کی انتہا کو پہنچ جائے گا تو پھر پھٹ پڑے گا اورایک نئی کائنات کا ایک نیا شجر پھوٹ کر پھیلنے لگے گا ، یہاں پر ایک نکتے کی بات یہ ہے کہ اہل طبیعات یا اہل سائنس اپنے تمام تر علم کے باوجود یہ معلوم نہیں کرنے پائے ہیں کہ کائناتوں کی پیدائش اورفنا یا بگ بینگوں کایہ سلسلہ کب سے چل رہا ہے اورکب تک چلے گا یعنی اس سے پہلے کتنے بگ بینگ ہوئے ہیں ، کائناتیں وجود میں آئی ہیں اورفنا ہوئی ہیں اورنہ ہی یہ بتا سکتے ہیں کہ آیندہ یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا۔ ویسے ہماری یہ موجودہ کائنات جس میں ہم زندہ ہیں اس کی عمر اندازۃً بیس ارب سال ہوچکی اوریہ ادھیڑ عمری کی حالت میں ہے یعنی ممکن ہے کہ دس بیس ارب سال اورچلے پھر سکڑتے سکڑتے وہی ذرہ اوروہی بگ بینگ ۔
(جاری ہے)