بانی پی ٹی آئی نے جو کیا ہم بھی کریں گے تو جیل میں ہوں گے بلاول بھٹو
بینظیر بھٹو اور نوازشریف نے اسی لیے میثاق جمہوریت کیا تھا
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان نے جوکیا ہم بھی وہی کریں گے توکل ہم بھی جیل میں ہوں گے۔ پارلیمان ملک کا سپریم ادارہ ہے، سیاست اپنی جگہ لیکن آپ کو ایک ورکنگ ریلیشن شپ رکھنا ہے، آئین کی بالا دستی کے بغیر پارلیمنٹ سمیت کوئی ادارہ نہیں چل سکتا۔
قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا آج سیاست کو گالی بنا دیا گیا ہے ہم اپنے بچوں کو کیا سکھا رہے ہیں، ہم نے اسی سیاست سے نوجوانوں کو روزگار اور معاشی انصاف دلوانا ہے، باہر جو سیاست کریں وہ ہماری مرضی ہے مگر ایوان میں ہماری ایک ذمے داری ہے کیونکہ پارلیمان ملک کا سپریم ادارہ ہے۔
اگر آپ کسی اسمبلی کے ممبر ہو تو آپ کی سیاست اپنی جگہ لیکن آپ کو ایک ورکنگ ریلیشن شپ رکھنا ہے، وفاق میں مسلم لیگ (ن) اور بلوچستان اور سندھ میں ہماری حکومت ہے، حکومت کی معاشی پالیسی پر تنقید کرتا آرہا ہوں، ان کے ساتھ مختلف میٹنگز میں بیٹھتا ہوں، سیاسی اختلاف رائے ہو سکتا ہے لیکن ہم نے مہنگائی کا مقابلہ کرنا ہے، حکومت نے ایک سال میں مہنگائی کی شرح کو 12فیصد تک لانے کاکہاتھااورایک سال سے قبل ہی مہنگائی کی شرح نوفیصد تک آگئی ہے اس پر حکومت کی تعریف کرنی چاہئے۔
بینظیر بھٹو اور نوازشریف نے اسی لیے میثاق جمہوریت کیا تھا، جب سے میثاق جمہوریت پردستخط ہوئے اس کے اگلے روز سے اس اتقاق رائے اورمیثاق کوکمزورکرنے اورغیرسیاسی قوتوں کواسپیس دینے کیلیے سازشوں کاآغازکیاگیا۔ ایک سیاسی جماعت کو اداروں کو حمایت سے کھڑا کرکے ہمارے سیاسی نظام کوایسے نکتہ پرپہنچا دیا گیاہے کہ کوئی کسی سے ہاتھ ملانے کیلئے تیارنہیں ہے۔
عمران خان نے ماحول خراب کردیا، آپ بھی وہی کریں گے جو بانی پی ٹی آئی نے کیا تو کل آپ اور میں بھی جیل میں ہونگے، بانی پی ٹی آئی سے کوئی ذاتی مخالفت نہیں، اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ کسی نے میرے باپ کو یا میری ماں کو جیل میں ڈالا، آپ کا لیڈر کچھ عرصے کے لیے جیل میں ہے کوئی فرق نہیں پڑتا، ان کا کیس میرٹ پر لڑیں، وزیراعلیٰ جلسے میں کھڑا ہوکر اشتعال انگیز تقریر کرے تو وہ صوبے کے عوام کی خدمت نہیں سیاست چمکارہاہے۔
ایک سینئر سیاستدان نے استعفیٰ دیا تو بہت افسوس ہوا، مینگل صاحب کے فیصلے کا احترام ہے مگر مایوسی ہوئی، انہیں ایوان میں ہونا چاہیے تھا، پی ٹی آئی ارکان آئیں،کمیٹیاں نہ چھوڑیں، اب تو یہ ہاتھ ملانے کیلیے تیار نہیں اگر ایسے ہی چلنا ہے تو ٹھیک ہے، اسپیکر سے درخواست ہے کہ پہلے ایوان کو فعال کریں پھر ملک کو کریں گے، پی ڈی ایم حکومت میں بھی پی ٹی آئی کو کہا تھا کہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیاں نہ چھوڑیں یہ ان کی اپنی ضد تھی۔ وزیراعلی خیبر پختونخوا میڈیا اوراپوزیشن کوگالی دے کر اور ججز کے خلاف انتقامی کارروائی کرکے صوبے کے عوام کی خدمت نہیں کر رہے۔
قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا آج سیاست کو گالی بنا دیا گیا ہے ہم اپنے بچوں کو کیا سکھا رہے ہیں، ہم نے اسی سیاست سے نوجوانوں کو روزگار اور معاشی انصاف دلوانا ہے، باہر جو سیاست کریں وہ ہماری مرضی ہے مگر ایوان میں ہماری ایک ذمے داری ہے کیونکہ پارلیمان ملک کا سپریم ادارہ ہے۔
اگر آپ کسی اسمبلی کے ممبر ہو تو آپ کی سیاست اپنی جگہ لیکن آپ کو ایک ورکنگ ریلیشن شپ رکھنا ہے، وفاق میں مسلم لیگ (ن) اور بلوچستان اور سندھ میں ہماری حکومت ہے، حکومت کی معاشی پالیسی پر تنقید کرتا آرہا ہوں، ان کے ساتھ مختلف میٹنگز میں بیٹھتا ہوں، سیاسی اختلاف رائے ہو سکتا ہے لیکن ہم نے مہنگائی کا مقابلہ کرنا ہے، حکومت نے ایک سال میں مہنگائی کی شرح کو 12فیصد تک لانے کاکہاتھااورایک سال سے قبل ہی مہنگائی کی شرح نوفیصد تک آگئی ہے اس پر حکومت کی تعریف کرنی چاہئے۔
بینظیر بھٹو اور نوازشریف نے اسی لیے میثاق جمہوریت کیا تھا، جب سے میثاق جمہوریت پردستخط ہوئے اس کے اگلے روز سے اس اتقاق رائے اورمیثاق کوکمزورکرنے اورغیرسیاسی قوتوں کواسپیس دینے کیلیے سازشوں کاآغازکیاگیا۔ ایک سیاسی جماعت کو اداروں کو حمایت سے کھڑا کرکے ہمارے سیاسی نظام کوایسے نکتہ پرپہنچا دیا گیاہے کہ کوئی کسی سے ہاتھ ملانے کیلئے تیارنہیں ہے۔
عمران خان نے ماحول خراب کردیا، آپ بھی وہی کریں گے جو بانی پی ٹی آئی نے کیا تو کل آپ اور میں بھی جیل میں ہونگے، بانی پی ٹی آئی سے کوئی ذاتی مخالفت نہیں، اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ کسی نے میرے باپ کو یا میری ماں کو جیل میں ڈالا، آپ کا لیڈر کچھ عرصے کے لیے جیل میں ہے کوئی فرق نہیں پڑتا، ان کا کیس میرٹ پر لڑیں، وزیراعلیٰ جلسے میں کھڑا ہوکر اشتعال انگیز تقریر کرے تو وہ صوبے کے عوام کی خدمت نہیں سیاست چمکارہاہے۔
ایک سینئر سیاستدان نے استعفیٰ دیا تو بہت افسوس ہوا، مینگل صاحب کے فیصلے کا احترام ہے مگر مایوسی ہوئی، انہیں ایوان میں ہونا چاہیے تھا، پی ٹی آئی ارکان آئیں،کمیٹیاں نہ چھوڑیں، اب تو یہ ہاتھ ملانے کیلیے تیار نہیں اگر ایسے ہی چلنا ہے تو ٹھیک ہے، اسپیکر سے درخواست ہے کہ پہلے ایوان کو فعال کریں پھر ملک کو کریں گے، پی ڈی ایم حکومت میں بھی پی ٹی آئی کو کہا تھا کہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیاں نہ چھوڑیں یہ ان کی اپنی ضد تھی۔ وزیراعلی خیبر پختونخوا میڈیا اوراپوزیشن کوگالی دے کر اور ججز کے خلاف انتقامی کارروائی کرکے صوبے کے عوام کی خدمت نہیں کر رہے۔