نواز لیگ کی منت سماجت میٹنگ

مسلم لیگ نواز کی حکومت نے خود کو سیاسی مجبوریوں میں جکڑ لیا ہے وہ بنیادی فیصلے کرنے کی طاقت کھو رہی ہے

www.facebook.com/syedtalathussain.official twitter.com/talathussain12

کراچی میں ہونے والی ایک اعلی سطح کی میٹنگ کی روئیداد سنیئے۔ امن و امان کی اس میٹنگ کی صدارت وزیرِ اعظم نواز شریف نے کی۔ گورنر عشرت العباد، وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کے علاوہ وزیرِ اعلی سندھ قائم علی شاہ، کابینہ کے ممبران، کور کمانڈر اور ڈی جی رینجرز یعنی ہر وہ شخص جو پاکستان کے اس اہم حصہ میں اہم ترین فیصلے کر نے کا مجاز ہے یہاں پر موجود تھا۔ جب اتنے بڑے لوگ یہاں موجود ہوں تو یہ سوچا جا سکتا ہے کہ یہاں پر بڑی پر مغز اور دور رس نتائج رکھنے والی منصوبہ بندی ہو رہی ہوگی۔ لیکن زیر بحث معاملات کی نوعیت کچھ ایسی تھی کہ جو ظاہر اور عام حالات میں محض کتابوں میں لکھے ہوئے قواعد و ضوابط طے کر سکتے تھے۔

ایک بڑا معاملہ پولیس میں بھرتیوں کا ہے۔ وزیر اعظم پاکستان کو ہدایت کرنی پڑی کہ بھرتیوں کو شفاف بنانے کی ضرورت ہے۔ اور اس کے لیے فوج کے ریکروٹمنٹ اور سلیکشن سے مدد لی جا سکتی ہے، وزیر اعظم پاکستان کی نظر میں اگر ایسا نہ کیا گیا تو پولیس میں بھرتی ہونے والے لوگ کسی کام کے نہ ہوں گے۔ دہشت گردی سے نپٹنے کے لیے پولیس والوں کی تربیت کے لیے بھی آرمی سے مدد کا موضوع زیر بحث رہا۔ تفصیلی نقشوں اور اعداد و شمار کی مدد سے ابھی تک حاصل ہونے والے نتائج کو ترتیب سے پیش کیا گیا۔

پتہ چلا کہ پچھلی میٹنگز میں ہونے والے درجنوں فیصلے جوں کے توں عمل درآمد کی منزل سے بہت دور فائلوں کی زینت بنے ہوئے ہیں، ڈی جی رینجرز نے اپنی بریفنگ میں ناراضی اور افسوس سے بھرے لہجے کو چھپاتے ہوئے بتلایا کہ پولیس بھرتیوں کی طرح پولیس کے لیے خریدے جانے والا اہم ساز و سامان میڈیا کی خبروں کے مطابق اہم شخصیات کی جیبیں بھرنے کا باعث بن رہا ہے۔ اگر چہ اس کمرے میں بیٹھے ہوئے ہر شخص کو معلوم تھا کہ یہ جیبیں کن کی ہیں؟ لیکن جمہوریت کے مستقبل کی خاطر سب خاموش رہے۔ معاملہ صرف بکتر بند گاڑیوں کی خریداری کا نہیں تھا۔

اس کے علاوہ زندگی بچانے والی وہ جیکٹیں جو قاتلوں اور دہشت گردوں کی گولیوں کو روک سکتی ہیں ابھی تک اپنا حصہ بٹورنے والوں کی کارروائیوں کی وجہ سے میسر نہیں آ رہیں۔ سوا کروڑ کی بکتر بند گاڑی اڑھائی کروڑ میں اور چالیس ہزار کی جیکٹ اسی ہزار میں۔ بندوقیں، گولیاں، بھرتیاں، تھانے، راشن، پٹرول، پولیس کے محکمے کو صوبائی فیصلہ ساز ادارے جونک کی طرح چوس رہے ہیں۔

اس بد عنوانی کا راج اگر نہ ہو تو یہاں کے بہادر پولیس والے جو کسی نہ کسی طرح سفارشی عمل سے باہر رہ کر اس ادارے کا حصہ بن گئے ہیں، اپنی کارکردگی دس گنا بڑھا سکتے ہیں۔ ان کی جانیں بھی بچ سکتی ہیں۔ پچھلے دو ماہ میں کراچی میں پولیس کی شہادتیں، آپریشن ضرب عضب میں ہونے والی فوجی شہادتوں سے دو گنا زیادہ ہیں۔ کہنے کو ہم شمالی وزیرستان میں بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ وہاں کے دہشت گرد، خونخوار اور بہترین تربیت یافتہ ہیں۔ مگر قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے نقصان کا تخمینہ لگائیں تو کراچی جیسے شہر میں خفیہ ہاتھ کہیں زیادہ خطرناک ہے۔

اس میٹنگ میں انسپکٹر جنرل کی تقرری بھی زیر بحث آئی۔ جہاں پر اس اہم تقرری کو ایسی ہی ٹھوکریں لگائی جا رہی ہیں جیسے جرمنی نے برازیل کے خلاف فٹ بال کو زور دار ککیں لگا کر بار بار گول کیے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس تقرری کو ٹھوکریں لگانے والا ملک اور امن کے خلاف گول کر رہا ہے،۔ یہ کسی ٹورنا منٹ کا حصہ نہیں بلکہ لوگوں کے جان و مال کا مسئلہ ہے۔ فوج اور رینجرز کی طرف سے میر زبیر کا نام تجویز کیا گیا اور جن صاحب کو اس صوبے پر مقتدر حلقے لانا چاہتے ہیں' ان کے نام کو رد کر دیا گیا۔ اس موقعے پر بھی اس کمرے میں موجود ہر فرد کو معلوم تھا کی تقرریاں اور تبادلے کون کروا رہا ہے۔


امن و امان کی گیند کو ادھر ادھر پھینک کر کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ مگر چونکہ وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف کو عمران خان سے سیاسی معرکے میں آصف علی زرداری کی مدد درکار ہے۔ لہذا کسی نے اس کا نام نہیں لیا۔ یہ جانتے ہوئے کہ میر زبیر کی تقرری میں کیا رکاوٹیں ہیں۔ ایک عجیب و غریب فارمولہ پیش کیا گیا۔ سب کو خوش کرنیکی کوشش کا نتیجہ یہ نکلا کہ میرٹ پر لائے جانے والے سب سے قابل انسپکٹر جنرل میر زبیر کو آٹھ دس ماہ کے لیے تعینات کر دیا جائے اور پھر ان کی کارکردگی کی بنیاد پر باقی ذمے داری طے کی جائے۔

یعنی تعیناتی نہیں مکینک کا عارضی ٹانکا تجویز ہوا۔ وقت گزارنے کے لیے تاریں جوڑ کر انجن چلا لیں، چل پڑا تو ٹھیک ہے اگر نہیں چلا تو گاڑی کو انھی کباڑیوں کو واپس کر دیں، جنہوں نے اس کا پرزہ پرزہ کر کے بیچنے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔ اس موقع پر قا ئم علی شاہ اپنی بزرگانہ خاموشی کو مسلسل قائم رکھنے میں کامیاب رہے۔ وزیر اعظم پاکستان نے جمہوریت کی خاطر ان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ''شاہ صاحب ڈی جی رینجرز کے خیالات تو آپ سنتے رہتے ہیں، یہ تو آپ کی مدد کے لیے ہیں۔ ہم بھی آپ کو مدد آفر کرنے آئے ہیں، آپ ہماری مدد قبول کریں اور ڈی جی رینجرز کی بات بھی مان لیں''۔

کراچی میں حالات کو درست کرنے کی قومی نوعیت کو ذہن میں رکھتے ہوئے اہم تعیناتیوں پر یہ سیاسی بھائو تائو وزیر اعظم کا وزیر اعلی کو روٹھے ہوئے محبوب کی طرح منانے کے دائو پیچ اس سیاسی اغلاط کی نشاندہی کرتے ہیں جس کے طوفان میں قومی اہداف اور ضرورت گم ہو گئی ہے۔ اس میٹنگ میں خفیہ اداروں کی رپورٹوں کو بہتر بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔ شہری علاقوں میں دہشت گردوں کو پکڑنے کے لیے معلومات اس آکسیجن کی طرح ہیں جس کے بغیر کوئی آپریشن زندہ نہیں رہ سکتا۔ یہ معلومات بد قسمتی سے بسا اوقات ناقص اور انتہائی عمومی ہوتی ہیں۔ ان پر عمل در آمد کرنا نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ صوبے میں غیر قانونی پیسے کی آمد و رفت اور منظم بھتہ خوری کے نظام کو ختم کرنے کے معاملات بھی زیر غور آئے۔ اس اعلی میٹنگ کے خلاصے سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کی فیصلہ سازی کیسے ہوتی ہے۔ اس سے بڑی قیادت ملک میں موجود نہیں ہے۔ ان کے پاس تمام تر آئینی سیاہی، انتظامی اختیارات بھی موجود ہیں اور وسائل کی کمی نہیں ہے۔ پہلی مرتبہ ان کا سامنے ہوا مگر اس کے باوجود یقینا تعیناتیوں کچھ لو کچھ دو اور منت سماجت جیسے پہلو حاوی ہیں۔ کوئی اور بڑا کام کرنے کا وقت ہی نہیں ہے۔

ہر میٹنگز ایسے ہی چلتی رہے گی۔ اس ملک کی قیادت نے جمہوریت کو ہر غلطی پر پردہ ڈالنے کا بہانہ بنا لیا ہے۔ عوام کے ووٹ ان کی غلطیوں کے سامنے ڈھال کے طور پر رکھ دیے جاتے ہیں۔ عوامی نمایندگی کے نعرے لگا کر اس اساس کو اپنے ہاتھوں سے ذبح کیا جاتا ہے جو ہر جمہوری معاشرے کی بنیاد ہے یعنی عوامی فلاح بذریعہ احتسابی قیادت۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت نے خود کو سیاسی مجبوریوں میں جکڑ لیا ہے۔

وہ بنیادی فیصلے کرنے کی طاقت کھو رہی ہے۔ معافی تلافی کے طریقہ کار نے ان کو اپنے سیاسی حریف چوہدری شجاعت کے اس سیاسی فلسفے کا پیروکار بنا دیا ہے جس کے تحت وہ ہر درد سر پر مٹی ڈالنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ تمام تر دعووں اور وعدوں کے باوجود نواز لیگ اس دور حکومت میں بھی لنگڑا کر ہی چلے گی۔ جب سیاسی قوتیں نام نہاد معروضی حالات کی غلام بن جاتی ہیں تو وہ پچھلے پائوں پر کھڑے کھڑے وقت گزارنے کو کامیابی گردانتی ہیں۔ پاکستان ایسے ہی چلتا رہے گا، میٹنگز ایسے ہی ہوں گی۔ کیوں کہ نواز لیگ فی الحال منت سماجت کو اپنی عافیت کا ذریعہ بنا چکی ہے۔
Load Next Story