زرعی مسائل
پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے۔خام قومی پیداوار میں شعبہ زراعت کا حصہ لگ بھگ ایک چوتھائی ہے۔
پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے۔خام قومی پیداوار میں شعبہ زراعت کا حصہ لگ بھگ ایک چوتھائی ہے۔زراعت کی اہمیت اس قدر ہے کہ ملکی آبادی کو خوراک کا بیشتر حصہ مہیا کرتا ہے۔ لیکن نہری نظام ہونے اور زمینوں کی زرخیزی کے باوجود کئی سال ایسے بھی گزرے ہیں جب لاکھوں ٹن گندم درآمد کرنا پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ فوڈ گروپ کی درآمدات کئی ارب ڈالرز کی ہوتی ہیں۔ ملکی صنعتوں کے لیے خام مال کی فراہمی شعبہ زراعت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ روزگار کا سب سے بڑا ذریعہ بھی شعبہ زراعت ہے۔ اس طرح پاکستان کی آبادی کا 60 فیصد سے زائد حصہ کسی نہ کسی طور پر زراعت سے منسلک ہے۔
ان تمام تر اہمیت کے باوجود یہ شعبہ زرعی مسائل سے مالا مال ہے۔ کیونکہ تقسیم کے فوری بعد شعبہ زراعت کی ترقی پر خاطر خواہ توجہ نہ دی جاسکی۔ 50 اور 60 کی دہائی کے معاشی پالیسی سازوں نے زیادہ توجہ صنعتی شعبے کی جانب مرکوز رکھی یہی وجہ ہے کہ 1947 سے لے کر 1950 کے عشرے کے آخر تک شعبہ زراعت کی شرح افزائش 3 فیصد کے لگ بھگ رہی۔ اور حیرت کی بات ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے زرعی شعبے کی شرح افزائش بھی لگ بھگ3 فیصد تک ہے۔ 50 اور 60 کے عشرے میں صنعتی شعبے کی طرف توجہ کے باعث صنعتی شعبے کی شرح افزائش 8 تا 10 فی صد تک بھی جا پہنچی تھی۔
گزشتہ کئی عشروں سے یہی صورت حال برقرار ہے کہ زرعی اشیا کی قیمتیں کم چلی آرہی ہیں۔ مہنگائی کے باعث اب غریب کسانوں پر ایک ستم یہ بھی ہو رہا ہے کہ زرعی مداخل کی قیمتیں بڑھتی چلی آرہی ہیں لوڈ شیڈنگ کے باعث ڈیزل اور دیگر زرعی مداخل کی قیمتوں میں اضافے کے باعث زرعی پیداواری لاگ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اس طرح آمدنیاں اور وسائل زرعی شعبے سے صنعتی شعبے کی جانب منتقل ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک ماہر معاشیات کی ریسرچ کے مطابق پاکستان میں 50 کی دہائی میں جو صنعتی ترقی ہوئی وہ شعبہ زراعت کی قربانی کی بنیاد پر ہوئی۔
زرعی پیداوار کی لاگت میں اضافہ اور زرعی مسائل میں شدید اضافے کے نتیجے کے طور پر قابل کاشت رقبہ بھی کم ہوتا رہا اور اس طرح زرعی پیداوار میں بھی کمی واقع ہوگئی جس کے باعث غذائی درآمدات میں ہر سال اضافہ ہوتا چلا گیا 60 کی دہائی میں شعبہ زراعت میں سبز انقلاب کا نعرہ بلند کیا گیا۔ اس دور میں زرعی ترقی کی شرح 4 فیصد تک جا پہنچی تھی۔ اس دور میں دیہی علاقوں کو قدرے ترقی بھی دی گئی بہت سے دیہاتوں کو بجلی فراہم کی گئی۔ بہت سے دیہاتوں کو قصبوں اور شہروں سے منسلک کرنے کے لیے روڈز کی تعمیر کی گئی۔ جس کے نتیجے میں دیہی علاقوں کے عوام میں قدرے خوشحالی پیدا ہوئی۔ لیکن 65-66 میں شدید خشک سالی پیدا ہوئی۔
ملک میں خوراک کی کمی واقع ہوگئی۔ اس کے ساتھ ہی بتدریج اگلے چند سال بعد جب 1970 کا عشرہ شروع ہوا صنعتوں کو قومیا لیا گیا تھا جس کے باعث نجی سرمایہ کاروں نے صنعتی عمل میں اپنا حصہ ڈالنے سے گریز کرنا شروع کردیا۔ جس کے باعث ایک طرف سرمایہ کاری میں کمی واقع ہوئی دوسری طرف صنعتی ترقی پر منفی اثر پڑا۔ اور یوں زرعی شعبہ بھی متاثر ہوا اب زرعی شعبے کی شرح افزائش 2 فیصد سے بھی کم ہوگئی تھی۔ نئے نئے زرعی مسائل جنم لینے لگے حکومتی غفلت اور تساہل کے باعث زرعی مسائل کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
حکومت کی طرف سے کئی ایسے اقدامات کیے گئے تھے جس کے نتیجے میں زراعت پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ مثلاً کھادوں کی فروخت بھی سرکاری شعبے کو دے دی گئی۔ 1972 میں چینی کی کھلی منڈی میں فروخت روک دی گئی۔ اب راشن شاپ سے ہی چینی حاصل کی جاسکتی تھی۔ ٹریکٹر کی صنعت کو قومی ملکیت میں لے لیا گیا۔ 1973 میں ہی زراعت سے منسلک دو اداروں کا قیام عمل میں آیا۔ جن میں سے ایک کاٹن ایکسپورٹ کارپوریشن اور دوسرا رائس ایکسپورٹ کارپوریشن تھا۔ اس سے چند ماہ قبل ہی فلور ملوں، رائس ملوں اور کاٹن جننگ ملوں کو سرکار نے اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔
اگرچہ 1973 سے کچھ ایسے پروگرام شروع کیے گئے جن کا مقصد زرعی شعبے کی ترقی تھی۔ مثلا رورل ورکس پروگرام اور مربوط دیہی ترقیاتی پروگرام شروع کیا گیا۔ کسانوں کو بجلی پہنچانا ان کو قرضے مہیا کرنا زرعی مداخل کی فراہمی کی رکاوٹوں کو دور کرنا یا ان کی فراہمی ممکن بنانا اور کسانوں کو رہنمائی فراہم کرنا تھا۔ لیکن کئی باتیں اقربا پروری کی نذر ہوگئیں کچھ کو کرپشن نے لوٹ لیا۔ اور بہت سے پروگرام کاغذی کارروائیوں کی نذر ہوکر رہ گئے۔ زرعی ترقیاتی ادارے بھی قائم ہوئے لیکن کوئی تحقیق نہ ہوسکی۔ اگر کچھ ہوا بھی تو کسان مستفید نہ ہوسکے۔ اس طرح کسان ، ہاری ملک میں زرعی پیداوار میں اضافہ کرنے کے بجائے بہت سے زرعی مسائل میں گھر کر رہ گئے۔
البتہ 80 کی دہائی میں زراعت میں قدرے ترقی ہوئی۔ کسانوں کو قرضے بھی دیے گئے۔ کئی اقسام کے بہتر بیج دریافت کرلیے گئے۔ اس دوران زرعی ترقی کی اوسط شرح 4 فیصد کے لگ بھگ رہی۔ لیکن اس دوران جہاں ایک طرف چاولوں کی برآمدات بڑھ کر رہ گئی دوسری طرف گندم کی درآمدات میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ 1985 میں جہاں کئی ادارے واپس کیے گئے وہاں چینی، گھی اور جننگ فیکٹریوں کو ان کے مالکان کو واپس لوٹایا گیا۔ اس طرح آٹے، گھی جننگ ملز وغیرہ اصل مالکان کو واپس ہوگئے۔ ان ہی دنوں نجی شعبے کو چاول اور کپاس کی تجارت میں خوش آمدید کہا گیا۔
1980 کی دہائی کے زرعی پیداوار کے اعدادوشمار کو مدنظر رکھا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ کئی اہم زرعی اجناس کی پیداوار میں نمایاں اضافہ ہوا۔ اس کے اگلے دو عشروں کے دوران زرعی مسائل بڑھتے رہے۔ اس کے ساتھ ہی 90 کا پورا عشرہ ایسا گزرا جب حکومتوں کی توجہ اپنی کرسی بچانے کی طرف ہی مرکوز رہی۔ حکومت اور سیاستدانوں کی آپس میں کھینچا تانی کا اصل ہدف کسان اور مزدور بنتے چلے جاتے۔
حکومتوں کی کمزوری کو دیکھتے ہوئے بلیک مارکیٹنگ کرنے والے ذخیرہ اندوزی کرنے والے اسمگلر کھل کر اپنی کارروائیاں کرتے رہے۔ جعلی زرعی ادویات فروخت کرنے والوں کو من مانی سے روکنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ دوسری طرف پانی کی قلت پیدا ہوتی چلی جا رہی ہے۔آج بھارت نے پاکستانی دریاؤں پر سیکڑوں ڈیمز تعمیر کردیے ہیں۔ حتیٰ کہ اب یہ خبر گردش کر رہی ہے کہ دیامر بھاشا ڈیم مزید کئی سالوں کے بعد اس کا آغاز ممکن ہوسکے گا۔
ایک دفعہ پھر جمہوری حکومت کو اپنے بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جس کی وجہ سے حکومتوں کو زرعی مسائل، کسانوں، زمینداروں کے بے شمار مسائل کی طرف توجہ دینے کا وقت نہیں مل رہا ہے۔ پاکستان کا ایک اہم زرعی مسئلہ یہ بھی ہے کہ اب تک زمین سے پورا پورا فائدہ نہیں اٹھایا جاسکا ہے ۔ یعنی 20 ملین ہیکٹرز رقبہ ابھی تک زرعی لحاظ سے غیر دریافت شدہ ہے بعض اندازوں کے مطابق کل رقبے کا ایک تہائی رقبے پر کاشت کی جا رہی ہے۔ ملک میں ہر سال 80 ہزار سے لے کر ایک لاکھ ایکڑ تک رقبہ سیم و تھور سے متاثر ہو رہا ہے۔
زمینوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں مسلسل تقسیم کے باعث پیداوار کم حاصل ہو رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کل زیر کاشت رقبے کا 35 فیصد ایک ایکڑ سے لے کر 12 ایکڑ کے قطعہ اراضی پر مشتمل ہے جس کی وجہ سے بھرپور پیداوار حاصل نہیں ہوپاتی۔ اس کے علاوہ خشک سالی کے باعث ملک کے کسانوں کے لیے زرعی مسائل بڑھ جاتے ہیں۔ ملک میں 40 فیصد زراعت کا انحصار بارش کے پانی پر ہے۔ اس کے علاوہ سیلاب سے روک تھام کے لیے اب تک کوئی قابل ذکر اقدامات نہیں کیے گئے لہٰذا ہر سال سیلاب سے پہنچنے والے نقصان کا اندازہ لگانا بھی ایک مشکل کام ہے۔
کسانوں کے زرعی مسائل میں اس وقت انتہائی شدت پیدا ہوجاتی ہے جب انھیں جعلی کھاد ناقص ادویات و بیج مل رہے ہوتے ہیں۔ ناقص کھاد وہ بھی بلیک میں مہنگے داموں خریدتے ہیں اسی طرح جعلی ادویات بہت زیادہ قیمت ادا کرکے جب خریدتے ہیں اور پھر نتیجے کے طور پر کم پیداوار حاصل ہوتی ہے۔ اتنی لاگت لگانے کے بعد جب پیداوار بھی کم حاصل ہو رہی ہو اب جب فروخت کا عمل شروع ہوتا ہے تو پیداوار کو خریدنے والے اونے پونے دام دے کر غریب ہاری اور کسانوں کو مایوس کردیتے ہیں۔
اس مایوسی کے عالم میں جب یہ فیصلہ کر بیٹھتے ہیں کہ آیندہ سال فلاں جنس کی کاشت نہیں کی جائے گی تو ملک میں اس فصل کی پیداوار کم ہوتی ہے اور خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے کہ ایک طرف پیداوار کی کمی کا سامنا دوسری طرف اس شے کی درآمدات میں اضافے کے باعث قیمت میں اضافہ ہوکر عوام کو مہنگائی کا عذاب سہنا پڑتا ہے۔ لہٰذا ابتدائی طور پر ہی حکومت اگر کسانوں کے زرعی مسائل حل کردے تو عوام بھی بہت سے مسائل کا شکار ہونے سے بچ سکتے ہیں۔
ان تمام تر اہمیت کے باوجود یہ شعبہ زرعی مسائل سے مالا مال ہے۔ کیونکہ تقسیم کے فوری بعد شعبہ زراعت کی ترقی پر خاطر خواہ توجہ نہ دی جاسکی۔ 50 اور 60 کی دہائی کے معاشی پالیسی سازوں نے زیادہ توجہ صنعتی شعبے کی جانب مرکوز رکھی یہی وجہ ہے کہ 1947 سے لے کر 1950 کے عشرے کے آخر تک شعبہ زراعت کی شرح افزائش 3 فیصد کے لگ بھگ رہی۔ اور حیرت کی بات ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے زرعی شعبے کی شرح افزائش بھی لگ بھگ3 فیصد تک ہے۔ 50 اور 60 کے عشرے میں صنعتی شعبے کی طرف توجہ کے باعث صنعتی شعبے کی شرح افزائش 8 تا 10 فی صد تک بھی جا پہنچی تھی۔
گزشتہ کئی عشروں سے یہی صورت حال برقرار ہے کہ زرعی اشیا کی قیمتیں کم چلی آرہی ہیں۔ مہنگائی کے باعث اب غریب کسانوں پر ایک ستم یہ بھی ہو رہا ہے کہ زرعی مداخل کی قیمتیں بڑھتی چلی آرہی ہیں لوڈ شیڈنگ کے باعث ڈیزل اور دیگر زرعی مداخل کی قیمتوں میں اضافے کے باعث زرعی پیداواری لاگ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اس طرح آمدنیاں اور وسائل زرعی شعبے سے صنعتی شعبے کی جانب منتقل ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک ماہر معاشیات کی ریسرچ کے مطابق پاکستان میں 50 کی دہائی میں جو صنعتی ترقی ہوئی وہ شعبہ زراعت کی قربانی کی بنیاد پر ہوئی۔
زرعی پیداوار کی لاگت میں اضافہ اور زرعی مسائل میں شدید اضافے کے نتیجے کے طور پر قابل کاشت رقبہ بھی کم ہوتا رہا اور اس طرح زرعی پیداوار میں بھی کمی واقع ہوگئی جس کے باعث غذائی درآمدات میں ہر سال اضافہ ہوتا چلا گیا 60 کی دہائی میں شعبہ زراعت میں سبز انقلاب کا نعرہ بلند کیا گیا۔ اس دور میں زرعی ترقی کی شرح 4 فیصد تک جا پہنچی تھی۔ اس دور میں دیہی علاقوں کو قدرے ترقی بھی دی گئی بہت سے دیہاتوں کو بجلی فراہم کی گئی۔ بہت سے دیہاتوں کو قصبوں اور شہروں سے منسلک کرنے کے لیے روڈز کی تعمیر کی گئی۔ جس کے نتیجے میں دیہی علاقوں کے عوام میں قدرے خوشحالی پیدا ہوئی۔ لیکن 65-66 میں شدید خشک سالی پیدا ہوئی۔
ملک میں خوراک کی کمی واقع ہوگئی۔ اس کے ساتھ ہی بتدریج اگلے چند سال بعد جب 1970 کا عشرہ شروع ہوا صنعتوں کو قومیا لیا گیا تھا جس کے باعث نجی سرمایہ کاروں نے صنعتی عمل میں اپنا حصہ ڈالنے سے گریز کرنا شروع کردیا۔ جس کے باعث ایک طرف سرمایہ کاری میں کمی واقع ہوئی دوسری طرف صنعتی ترقی پر منفی اثر پڑا۔ اور یوں زرعی شعبہ بھی متاثر ہوا اب زرعی شعبے کی شرح افزائش 2 فیصد سے بھی کم ہوگئی تھی۔ نئے نئے زرعی مسائل جنم لینے لگے حکومتی غفلت اور تساہل کے باعث زرعی مسائل کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
حکومت کی طرف سے کئی ایسے اقدامات کیے گئے تھے جس کے نتیجے میں زراعت پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ مثلاً کھادوں کی فروخت بھی سرکاری شعبے کو دے دی گئی۔ 1972 میں چینی کی کھلی منڈی میں فروخت روک دی گئی۔ اب راشن شاپ سے ہی چینی حاصل کی جاسکتی تھی۔ ٹریکٹر کی صنعت کو قومی ملکیت میں لے لیا گیا۔ 1973 میں ہی زراعت سے منسلک دو اداروں کا قیام عمل میں آیا۔ جن میں سے ایک کاٹن ایکسپورٹ کارپوریشن اور دوسرا رائس ایکسپورٹ کارپوریشن تھا۔ اس سے چند ماہ قبل ہی فلور ملوں، رائس ملوں اور کاٹن جننگ ملوں کو سرکار نے اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔
اگرچہ 1973 سے کچھ ایسے پروگرام شروع کیے گئے جن کا مقصد زرعی شعبے کی ترقی تھی۔ مثلا رورل ورکس پروگرام اور مربوط دیہی ترقیاتی پروگرام شروع کیا گیا۔ کسانوں کو بجلی پہنچانا ان کو قرضے مہیا کرنا زرعی مداخل کی فراہمی کی رکاوٹوں کو دور کرنا یا ان کی فراہمی ممکن بنانا اور کسانوں کو رہنمائی فراہم کرنا تھا۔ لیکن کئی باتیں اقربا پروری کی نذر ہوگئیں کچھ کو کرپشن نے لوٹ لیا۔ اور بہت سے پروگرام کاغذی کارروائیوں کی نذر ہوکر رہ گئے۔ زرعی ترقیاتی ادارے بھی قائم ہوئے لیکن کوئی تحقیق نہ ہوسکی۔ اگر کچھ ہوا بھی تو کسان مستفید نہ ہوسکے۔ اس طرح کسان ، ہاری ملک میں زرعی پیداوار میں اضافہ کرنے کے بجائے بہت سے زرعی مسائل میں گھر کر رہ گئے۔
البتہ 80 کی دہائی میں زراعت میں قدرے ترقی ہوئی۔ کسانوں کو قرضے بھی دیے گئے۔ کئی اقسام کے بہتر بیج دریافت کرلیے گئے۔ اس دوران زرعی ترقی کی اوسط شرح 4 فیصد کے لگ بھگ رہی۔ لیکن اس دوران جہاں ایک طرف چاولوں کی برآمدات بڑھ کر رہ گئی دوسری طرف گندم کی درآمدات میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ 1985 میں جہاں کئی ادارے واپس کیے گئے وہاں چینی، گھی اور جننگ فیکٹریوں کو ان کے مالکان کو واپس لوٹایا گیا۔ اس طرح آٹے، گھی جننگ ملز وغیرہ اصل مالکان کو واپس ہوگئے۔ ان ہی دنوں نجی شعبے کو چاول اور کپاس کی تجارت میں خوش آمدید کہا گیا۔
1980 کی دہائی کے زرعی پیداوار کے اعدادوشمار کو مدنظر رکھا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ کئی اہم زرعی اجناس کی پیداوار میں نمایاں اضافہ ہوا۔ اس کے اگلے دو عشروں کے دوران زرعی مسائل بڑھتے رہے۔ اس کے ساتھ ہی 90 کا پورا عشرہ ایسا گزرا جب حکومتوں کی توجہ اپنی کرسی بچانے کی طرف ہی مرکوز رہی۔ حکومت اور سیاستدانوں کی آپس میں کھینچا تانی کا اصل ہدف کسان اور مزدور بنتے چلے جاتے۔
حکومتوں کی کمزوری کو دیکھتے ہوئے بلیک مارکیٹنگ کرنے والے ذخیرہ اندوزی کرنے والے اسمگلر کھل کر اپنی کارروائیاں کرتے رہے۔ جعلی زرعی ادویات فروخت کرنے والوں کو من مانی سے روکنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ دوسری طرف پانی کی قلت پیدا ہوتی چلی جا رہی ہے۔آج بھارت نے پاکستانی دریاؤں پر سیکڑوں ڈیمز تعمیر کردیے ہیں۔ حتیٰ کہ اب یہ خبر گردش کر رہی ہے کہ دیامر بھاشا ڈیم مزید کئی سالوں کے بعد اس کا آغاز ممکن ہوسکے گا۔
ایک دفعہ پھر جمہوری حکومت کو اپنے بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جس کی وجہ سے حکومتوں کو زرعی مسائل، کسانوں، زمینداروں کے بے شمار مسائل کی طرف توجہ دینے کا وقت نہیں مل رہا ہے۔ پاکستان کا ایک اہم زرعی مسئلہ یہ بھی ہے کہ اب تک زمین سے پورا پورا فائدہ نہیں اٹھایا جاسکا ہے ۔ یعنی 20 ملین ہیکٹرز رقبہ ابھی تک زرعی لحاظ سے غیر دریافت شدہ ہے بعض اندازوں کے مطابق کل رقبے کا ایک تہائی رقبے پر کاشت کی جا رہی ہے۔ ملک میں ہر سال 80 ہزار سے لے کر ایک لاکھ ایکڑ تک رقبہ سیم و تھور سے متاثر ہو رہا ہے۔
زمینوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں مسلسل تقسیم کے باعث پیداوار کم حاصل ہو رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کل زیر کاشت رقبے کا 35 فیصد ایک ایکڑ سے لے کر 12 ایکڑ کے قطعہ اراضی پر مشتمل ہے جس کی وجہ سے بھرپور پیداوار حاصل نہیں ہوپاتی۔ اس کے علاوہ خشک سالی کے باعث ملک کے کسانوں کے لیے زرعی مسائل بڑھ جاتے ہیں۔ ملک میں 40 فیصد زراعت کا انحصار بارش کے پانی پر ہے۔ اس کے علاوہ سیلاب سے روک تھام کے لیے اب تک کوئی قابل ذکر اقدامات نہیں کیے گئے لہٰذا ہر سال سیلاب سے پہنچنے والے نقصان کا اندازہ لگانا بھی ایک مشکل کام ہے۔
کسانوں کے زرعی مسائل میں اس وقت انتہائی شدت پیدا ہوجاتی ہے جب انھیں جعلی کھاد ناقص ادویات و بیج مل رہے ہوتے ہیں۔ ناقص کھاد وہ بھی بلیک میں مہنگے داموں خریدتے ہیں اسی طرح جعلی ادویات بہت زیادہ قیمت ادا کرکے جب خریدتے ہیں اور پھر نتیجے کے طور پر کم پیداوار حاصل ہوتی ہے۔ اتنی لاگت لگانے کے بعد جب پیداوار بھی کم حاصل ہو رہی ہو اب جب فروخت کا عمل شروع ہوتا ہے تو پیداوار کو خریدنے والے اونے پونے دام دے کر غریب ہاری اور کسانوں کو مایوس کردیتے ہیں۔
اس مایوسی کے عالم میں جب یہ فیصلہ کر بیٹھتے ہیں کہ آیندہ سال فلاں جنس کی کاشت نہیں کی جائے گی تو ملک میں اس فصل کی پیداوار کم ہوتی ہے اور خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے کہ ایک طرف پیداوار کی کمی کا سامنا دوسری طرف اس شے کی درآمدات میں اضافے کے باعث قیمت میں اضافہ ہوکر عوام کو مہنگائی کا عذاب سہنا پڑتا ہے۔ لہٰذا ابتدائی طور پر ہی حکومت اگر کسانوں کے زرعی مسائل حل کردے تو عوام بھی بہت سے مسائل کا شکار ہونے سے بچ سکتے ہیں۔