پاکستان امریکا تعلقات کی سیاسی پیچیدگیاں
امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان چین پر بہت زیادہ انحصار کرنے کی بجائے ایک متوازن پالیسی اختیار کرے
پاکستان امریکا تعلقات ایک دوسرے کی سیاسی ضرورت ہیں اور اس بات کا احساس دونوں ممالک کی سیاسی اور عسکری قیادت کو ہے اور اسی بنیاد پر دو طرفہ تعلقات کی خواہش موجود رہتی ہے۔لیکن آج کے حالات میں جہاں پاکستان کو مختلف نوعیت کے داخلی مسائل کے چیلنجز کا سامنا ہے وہیں علاقائی اور عالمی تعلقات کی بہتری میں امریکا کی حمایت کو خاص اہمیت حاصل ہے ۔لیکن اس کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی نوعیت کافی پیچیدہ رہتی ہے ۔ مگر ہمیں ان تعلقات کے تناظر میں دو طرفہ گرم جوشی کے پہلو بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان مختلف معاملات پر ہمیں تناؤ اور بداعتمادی کا ماحول بھی دیکھنے کو ملتا ہے اور دو طرفہ تعلقات کی کہانی میں کئی اتار چڑھاؤ بھی دیکھنے کو ملتے ہیں ۔
اگر ہم پاکستان اور امریکا کے تعلقات کے درمیان کچھ بنیادی مسائل کو سمجھنے کی کوشش کریں تو ان میں اعتماد سازی کا فقدان جیسا مسئلہ سرفہرست ہے۔ جب کہ دیگر مسائل میں پاکستان افغانستان تعلقات اور امریکا کا کردار یا ان کے خدشات وتوقعات، اقتصادی تعاون کی سطح پر دو طرفہ امکانات،داخلی، علاقائی سیکیورٹی اور دو طرفہ مفادات، کمیونیکیشن سے جڑے معاملات، سی پیک اور امریکی تحفظات،پاکستان بھارت تعلقات ،مسئلہ کشمیر اور امریکا کا کردار ، انتہا پسندی ، شدت پسندی اور دہشت گردی ،تحریک طالبان پاکستان یعنی ٹی ٹی پی پر افغان ردعمل اور امریکا کا کردار سمیت پاکستان چین تعلقات اور امریکی نقطہ نظر جیسے امور سرفہرست ہیں۔ ایک بات سمجھنی ہوگی کہ پاکستان امریکا تعلقات کے درمیان جو بھی بداعتمادی ہے اور اگر اس نے بہتری کی طرف جانا ہے تو اس کا براہ راست فائدہ کسی ایک ملک کو نہیں بلکہ دونوں ممالک کو ہوگا ۔
امریکا سمجھتا ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات ، اثر ورسوخ اور دونوں ممالک کے درمیا ن بڑھتے ہوئے اسٹرٹیجک اور اقتصادی تعلقات اس کے لیے مسائل پیدا کرسکتے ہیں۔اسی طرح امریکا کو اس بات پر بھی تحفظات ہیں کہ پاکستان چین تعلقات کی مضبوطی اس کے اہم پارٹنر بھارت کے لیے بھی مشکلات پیدا کرسکتا ہے اور خطہ میں امریکی مفادات کو نقصان ہوسکتا ہے ۔
امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان چین پر بہت زیادہ انحصار کرنے کی بجائے ایک متوازن پالیسی اختیار کرے اور ہمارے مفادات کا خیال رکھے ۔دہشت گردی کے معاملات پر بھی امریکا سمجھتا ہے کہ پاکستان کا کردار وہ نہیں جو امریکا چاہتا ہے اور اسی بنیاد پر امریکا کی جانب سے دباؤ کی پالیسی پاکستان پر برقرار ہے ۔پاکستان کا موقف ہے کہ ہمیں امریکا سے دو طرفہ تعلقات درکار ہیں اور اس میں امریکا کو پاکستان پر شک کرنے یا بڑا دباو پیدا کرنے یا محض الزامات کی سیاست کی بجائے اعتماد یا بھروسہ کرے ۔جو کچھ پاکستان اور خطہ میں بھارت کررہا ہے اور ہمارے داخلی معاملات میں مداخلت یا دہشت گردی سمیت بلوچستان کے معاملات میں اس کی مداخلت یا ہم پر یہ دباؤ ڈالنا کہ ہم خطہ کی سیاست میں بھارت کی بالادستی کو قبول کریں ،مسئلہ کشمیر اور دیگر معاملات پر امریکا کا بھارت پر دباؤ نہ ڈالنے کی پالیسی یا افغانستان میںٹی ٹی پی کے معاملے پر جن مسائل کا ہمیں سامنا ہے یا جو بھارت اور افغانستان کے درمیان ہمارے مفادات کو نقصان پہنچانے کی پالیسی سمیت دہشت گردی کی جنگ میںجو بڑی جنگ ہم نے لڑی ہے۔
اس کی اہمیت کو تسلیم نہ کرنے کی پالیسی نے دو طرفہ تعلقات میں بہتری کے امکانات کو مضبوط بنانے کی بجائے کمزور کیا ہے ۔پاکستان کی خواہش ہے کہ ہمیں جن بڑی مشکلات کا سامنا ہے اس میں ہمیں امریکا کا تعاون اور اعتماد واضح اور شفاف نظر آنا چاہیے ۔امریکا بھارت کی ضرور حمایت کرے مگر اس حمایت کی قیمت پاکستان کے مفاد کے برعکس نہیں ہونی چاہیے۔اسی طرح پاکستان چاہتا ہے کہ امریکا پاکستان چین تعلقات کو شک کی نگاہ سے نہ دیکھے بلکہ ہم ان تعلقات میں توازن بھی چاہتے ہیں اور یہ تعلقات امریکا کے مفاد کے برعکس نہیں اور نہ ہی ہم امریکا کے مقابلے میں کوئی متبادل سطح کی پالیسی اختیار کرنا چاہتے ہیں۔
اس وقت عالمی اداروں بالخصوص مالیاتی اداروں بشمول آئی ایم ایف سے ہمارے جو بھی معاملات ہیں یا ان میں جو بھی رکاوٹیں ہیں ان کو ختم کرنے میں امریکا کا طرزعمل مثبت ہونا چاہیے اور امریکا سمیت آئی ایم ایف کو ہمارے مسائل اور مشکلات کو بھی سمجھنا چاہیے کہ یہ عمل ڈکٹیشن کی بنیاد پر نہیں ہونا چاہیے۔پاکستان کی سیکیورٹی پالیسی میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ہم علاقائی تعلقات میں معیشت کو بنیاد بنا کر اور ہر طرح کی جنگوں اور تنازعات سے ہٹ کر علاقائی استحکام کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں تو اس میں امریکا کو ہمارے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔
اسی طرح پاکستان توقع کرتا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمہ میں پاکستان چین تعلقات اور تعاون میں امریکا کا تعاون بھی موجود ہونا چاہیے تاکہ سب ہی خطہ کی سیاست میں دہشت گردی کے خاتمہ میں کلید ی کردار ادا کرسکیں ۔پاکستان کا اصل چیلنج داخلی سیاست سے جڑے مسائل ہیں۔ اسی بنیاد پر جو توجہ پاکستان کو علاقائی اور عالمی سیاست میں مربوط سفارت کاری کی بنیاد پردینی چاہیے اس کا فقدان نظر آتا ہے ۔امریکا میں حال ہی تعینات ہونے والے پاکستان کے سفیر رضوان سعید شیخ اور پاکستان کے وزیر خارجہ سمیت وزارت خارجہ کو پاکستان امریکا تعلقات میں جو ڈیڈ لاک یا بداعتمادی کا ماحول نظر آتا ہے۔
اس کو ایک مضبوط سیاسی اور خارجہ پالیسی کی حکمت عملی کے تحت اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔اصل چیلنج ہی یہ ہے کہ پاکستان اورامریکا کے درمیان تعلقات کی بہتری سے جڑے جو بھی مسائل ہیں ہمیں خود آگے بڑھ کر ان میں اپنا موثر کردار ادا کرنا ہوگا اور دیگرممالک کے ساتھ مختلف عالمی تھنک ٹینک اور رائے عامہ بنانے والے افراد اور اداروں کی مدد سے ایک ایسے بیانیہ کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کریں کہ ہماری بات کو موثر انداز سے سنا بھی جائے ،سمجھا جائے اور پھر سمجھ کر دو طرفہ عمل کو مضبوط بناکر ہم ایک دوسرے کے مفادات کو تقویت دے سکیں ۔
آج کی دنیا سفارت کاری اور سیاسی تعلقات یا عسکری تعلقات میں گہرائی پیدا کرنے اور میڈیا بالخصوص ڈیجیٹل میڈیا سے زیادہ فائدہ اٹھانے سے جڑی ہوئی ہے ۔ پاکستان کے بارے میں جو خدشات ہیں، نئے سفیر امریکا ہی میں ایک مکالمہ شروع کرسکتے ہیں تاکہ جو بھی غلط فہمیاں ایک ملک کی دوسرے ملک کے بارے میں ہے اس کوکم کیا جاسکے گا۔ ہماری سیاسی قیادت کی ناکامی یہ بھی ہے کہ جو کام ان کو عالمی اور علاقائی سیاست کی مضبوطی میں کرنے چاہیے اس کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور سارا بوجھ کسی ایک فریق پر ڈال کر خود کو معاملات سے بری الزمہ رکھنا بھی ہماری کمزوری کی نشاندہی کرتا ہے۔ہم ایک مضبوط سیاسی اور ڈپلومیسی کی سرمایہ کاری کی بنیاد پر کچھ حاصل کرسکتے ہیں ۔
اگر ہم پاکستان اور امریکا کے تعلقات کے درمیان کچھ بنیادی مسائل کو سمجھنے کی کوشش کریں تو ان میں اعتماد سازی کا فقدان جیسا مسئلہ سرفہرست ہے۔ جب کہ دیگر مسائل میں پاکستان افغانستان تعلقات اور امریکا کا کردار یا ان کے خدشات وتوقعات، اقتصادی تعاون کی سطح پر دو طرفہ امکانات،داخلی، علاقائی سیکیورٹی اور دو طرفہ مفادات، کمیونیکیشن سے جڑے معاملات، سی پیک اور امریکی تحفظات،پاکستان بھارت تعلقات ،مسئلہ کشمیر اور امریکا کا کردار ، انتہا پسندی ، شدت پسندی اور دہشت گردی ،تحریک طالبان پاکستان یعنی ٹی ٹی پی پر افغان ردعمل اور امریکا کا کردار سمیت پاکستان چین تعلقات اور امریکی نقطہ نظر جیسے امور سرفہرست ہیں۔ ایک بات سمجھنی ہوگی کہ پاکستان امریکا تعلقات کے درمیان جو بھی بداعتمادی ہے اور اگر اس نے بہتری کی طرف جانا ہے تو اس کا براہ راست فائدہ کسی ایک ملک کو نہیں بلکہ دونوں ممالک کو ہوگا ۔
امریکا سمجھتا ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات ، اثر ورسوخ اور دونوں ممالک کے درمیا ن بڑھتے ہوئے اسٹرٹیجک اور اقتصادی تعلقات اس کے لیے مسائل پیدا کرسکتے ہیں۔اسی طرح امریکا کو اس بات پر بھی تحفظات ہیں کہ پاکستان چین تعلقات کی مضبوطی اس کے اہم پارٹنر بھارت کے لیے بھی مشکلات پیدا کرسکتا ہے اور خطہ میں امریکی مفادات کو نقصان ہوسکتا ہے ۔
امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان چین پر بہت زیادہ انحصار کرنے کی بجائے ایک متوازن پالیسی اختیار کرے اور ہمارے مفادات کا خیال رکھے ۔دہشت گردی کے معاملات پر بھی امریکا سمجھتا ہے کہ پاکستان کا کردار وہ نہیں جو امریکا چاہتا ہے اور اسی بنیاد پر امریکا کی جانب سے دباؤ کی پالیسی پاکستان پر برقرار ہے ۔پاکستان کا موقف ہے کہ ہمیں امریکا سے دو طرفہ تعلقات درکار ہیں اور اس میں امریکا کو پاکستان پر شک کرنے یا بڑا دباو پیدا کرنے یا محض الزامات کی سیاست کی بجائے اعتماد یا بھروسہ کرے ۔جو کچھ پاکستان اور خطہ میں بھارت کررہا ہے اور ہمارے داخلی معاملات میں مداخلت یا دہشت گردی سمیت بلوچستان کے معاملات میں اس کی مداخلت یا ہم پر یہ دباؤ ڈالنا کہ ہم خطہ کی سیاست میں بھارت کی بالادستی کو قبول کریں ،مسئلہ کشمیر اور دیگر معاملات پر امریکا کا بھارت پر دباؤ نہ ڈالنے کی پالیسی یا افغانستان میںٹی ٹی پی کے معاملے پر جن مسائل کا ہمیں سامنا ہے یا جو بھارت اور افغانستان کے درمیان ہمارے مفادات کو نقصان پہنچانے کی پالیسی سمیت دہشت گردی کی جنگ میںجو بڑی جنگ ہم نے لڑی ہے۔
اس کی اہمیت کو تسلیم نہ کرنے کی پالیسی نے دو طرفہ تعلقات میں بہتری کے امکانات کو مضبوط بنانے کی بجائے کمزور کیا ہے ۔پاکستان کی خواہش ہے کہ ہمیں جن بڑی مشکلات کا سامنا ہے اس میں ہمیں امریکا کا تعاون اور اعتماد واضح اور شفاف نظر آنا چاہیے ۔امریکا بھارت کی ضرور حمایت کرے مگر اس حمایت کی قیمت پاکستان کے مفاد کے برعکس نہیں ہونی چاہیے۔اسی طرح پاکستان چاہتا ہے کہ امریکا پاکستان چین تعلقات کو شک کی نگاہ سے نہ دیکھے بلکہ ہم ان تعلقات میں توازن بھی چاہتے ہیں اور یہ تعلقات امریکا کے مفاد کے برعکس نہیں اور نہ ہی ہم امریکا کے مقابلے میں کوئی متبادل سطح کی پالیسی اختیار کرنا چاہتے ہیں۔
اس وقت عالمی اداروں بالخصوص مالیاتی اداروں بشمول آئی ایم ایف سے ہمارے جو بھی معاملات ہیں یا ان میں جو بھی رکاوٹیں ہیں ان کو ختم کرنے میں امریکا کا طرزعمل مثبت ہونا چاہیے اور امریکا سمیت آئی ایم ایف کو ہمارے مسائل اور مشکلات کو بھی سمجھنا چاہیے کہ یہ عمل ڈکٹیشن کی بنیاد پر نہیں ہونا چاہیے۔پاکستان کی سیکیورٹی پالیسی میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ہم علاقائی تعلقات میں معیشت کو بنیاد بنا کر اور ہر طرح کی جنگوں اور تنازعات سے ہٹ کر علاقائی استحکام کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں تو اس میں امریکا کو ہمارے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔
اسی طرح پاکستان توقع کرتا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمہ میں پاکستان چین تعلقات اور تعاون میں امریکا کا تعاون بھی موجود ہونا چاہیے تاکہ سب ہی خطہ کی سیاست میں دہشت گردی کے خاتمہ میں کلید ی کردار ادا کرسکیں ۔پاکستان کا اصل چیلنج داخلی سیاست سے جڑے مسائل ہیں۔ اسی بنیاد پر جو توجہ پاکستان کو علاقائی اور عالمی سیاست میں مربوط سفارت کاری کی بنیاد پردینی چاہیے اس کا فقدان نظر آتا ہے ۔امریکا میں حال ہی تعینات ہونے والے پاکستان کے سفیر رضوان سعید شیخ اور پاکستان کے وزیر خارجہ سمیت وزارت خارجہ کو پاکستان امریکا تعلقات میں جو ڈیڈ لاک یا بداعتمادی کا ماحول نظر آتا ہے۔
اس کو ایک مضبوط سیاسی اور خارجہ پالیسی کی حکمت عملی کے تحت اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔اصل چیلنج ہی یہ ہے کہ پاکستان اورامریکا کے درمیان تعلقات کی بہتری سے جڑے جو بھی مسائل ہیں ہمیں خود آگے بڑھ کر ان میں اپنا موثر کردار ادا کرنا ہوگا اور دیگرممالک کے ساتھ مختلف عالمی تھنک ٹینک اور رائے عامہ بنانے والے افراد اور اداروں کی مدد سے ایک ایسے بیانیہ کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کریں کہ ہماری بات کو موثر انداز سے سنا بھی جائے ،سمجھا جائے اور پھر سمجھ کر دو طرفہ عمل کو مضبوط بناکر ہم ایک دوسرے کے مفادات کو تقویت دے سکیں ۔
آج کی دنیا سفارت کاری اور سیاسی تعلقات یا عسکری تعلقات میں گہرائی پیدا کرنے اور میڈیا بالخصوص ڈیجیٹل میڈیا سے زیادہ فائدہ اٹھانے سے جڑی ہوئی ہے ۔ پاکستان کے بارے میں جو خدشات ہیں، نئے سفیر امریکا ہی میں ایک مکالمہ شروع کرسکتے ہیں تاکہ جو بھی غلط فہمیاں ایک ملک کی دوسرے ملک کے بارے میں ہے اس کوکم کیا جاسکے گا۔ ہماری سیاسی قیادت کی ناکامی یہ بھی ہے کہ جو کام ان کو عالمی اور علاقائی سیاست کی مضبوطی میں کرنے چاہیے اس کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور سارا بوجھ کسی ایک فریق پر ڈال کر خود کو معاملات سے بری الزمہ رکھنا بھی ہماری کمزوری کی نشاندہی کرتا ہے۔ہم ایک مضبوط سیاسی اور ڈپلومیسی کی سرمایہ کاری کی بنیاد پر کچھ حاصل کرسکتے ہیں ۔