شرح سود میں کمی ناکافی معیشت کی ترقی میں بجلی کی قیمت رکاوٹ ہے تاجر رہنما
معیشت ٹیک آف کے لیے تیار ہوچکی ہے تاہم اس کے لیے سیاسی استحکام بھی ضروری ہے، میاں زاہد حسین
ایف پی سی سی آئی پالیسی ایڈوائزری بورڈ کے چیئرمین میاں زاہد حسین نے اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں دو فیصد کمی کو ضرورت سے کم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سخت اقدامات کے باعث معیشت مستحکم ہونے کے قابل ہوئی ہے لیکن اس کی راہ میں بجلی کی قیمت رکاوٹ ہے۔
تاجر رہنما میاں زاہد حسین نے کہا کہ عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) کی جانب سے ماہ رواں میں پاکستان کو 7 ارب ڈالر قرض دینے پر غور کرنے کا فیصلہ خوش آئند ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے مؤقف میں نرمی دو ارب ڈالر کے قرضوں کی یقین دہانیوں کے بعد آئی ہے، جس سے مجموعی اقتصادی صورت حال میں بہتری ممکن ہے۔
میاں زاہد حسین کا کہنا تھا کہ شرح سود میں کمی بھی ضرورت سے کم ہے جس سے اسٹیٹ بینک کی غیر ضروری احتیاط کا پتا چلتا ہے، شرح سود میں اس بار کم از کم 4 فیصد کمی ہونی چاہیے تھی حالانکہ افراط زر کے تناسب سے شرح سود اب 11 فیصد کی سطح پر ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ سخت اقدامات کی وجہ سے معیشت ٹیک آف کے لیے تیار ہوچکی ہے تاہم اس کے لیے سیاسی استحکام بھی ضروری ہے اور اس حوالے سے کوشش کی جائے، اس وقت معاشی ترقی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ سیاسی عدم استحکام ہے، جس کے راستے میں ایک سیاسی پارٹی دیوار بن کر کھڑی ہوئی ہے جس کی بقا کا دارومدار احتجاج اور بدامنی کی سیاست پر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے عوام نے آئی ایم ایف سے قرض لینے کے لیے بڑی قربانی دی ہے، بجلی کی قیمت بہت زیادہ بڑھا دی گئی ہے، جو اقتصادی ترقی اور پاکستانی برآمدات میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
تاجر رہنما کا کہنا تھا کہ ٹیکس ریونیو میں 40 فیصد کا ریکارڈ اضافہ کیا گیا ہے اور دیگر اقدامات بھی کیے گئے ہیں، ان اقدامات کی وجہ سے پاکستان کی مالی حالت بہتر اور عالمی کریڈٹ ریٹنگ میں اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ افراط زر بھی کم ہوچکا ہے مگر کاروباری سرگرمیاں اس وقت تک مکمل بحال نہیں ہوں گی جب تک شرح سود میں مزید 5 سے 6 فیصد کمی نہیں کی جاتی جو معیشت چلانے اور روزگار بڑھانے کے لیے ضروری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شرح سود میں مزید کمی اور بجلی کے نرخوں کو 9 سینٹ پر لانے تک سرمایہ کاری میں اضافہ مشکل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مختلف ذرائع سے معاشی مدد کی یقین دہانیاں کروائی جا چکی ہیں جس کی وجہ سے آئی ایم ایف بھی پاکستان کی مدد کے لیے تیار ہو گیا ہے، اب حکومت کو چاہیے کہ اپنا حجم کم کرے کیونکہ ملک کا موجودہ انتظامی ڈھانچہ ایک بڑا بوجھ بن چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں وزارتوں اور محکموں کی بھرمارہے جس میں کافی تعداد غیرفعال اور غیر ضروری ہے، ملک میں سیاسی بھرتیوں کا بازار گرم رہا ہے اور پینشن ایک مصیبت بن چکی ہے۔
میاں زاہد حسین نے کہا کہ اگر سیاسی طور پر مشکل فیصلے نہیں کیے گئے اور وقت گزاری کی جاتی رہی تو چند ہفتوں میں منی بجٹ متعارف کروانا پڑے گا اور پاکستان قرضوں کے جال سے کبھی بھی نہیں نکل سکے گا۔
تاجر رہنما میاں زاہد حسین نے کہا کہ عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) کی جانب سے ماہ رواں میں پاکستان کو 7 ارب ڈالر قرض دینے پر غور کرنے کا فیصلہ خوش آئند ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے مؤقف میں نرمی دو ارب ڈالر کے قرضوں کی یقین دہانیوں کے بعد آئی ہے، جس سے مجموعی اقتصادی صورت حال میں بہتری ممکن ہے۔
میاں زاہد حسین کا کہنا تھا کہ شرح سود میں کمی بھی ضرورت سے کم ہے جس سے اسٹیٹ بینک کی غیر ضروری احتیاط کا پتا چلتا ہے، شرح سود میں اس بار کم از کم 4 فیصد کمی ہونی چاہیے تھی حالانکہ افراط زر کے تناسب سے شرح سود اب 11 فیصد کی سطح پر ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ سخت اقدامات کی وجہ سے معیشت ٹیک آف کے لیے تیار ہوچکی ہے تاہم اس کے لیے سیاسی استحکام بھی ضروری ہے اور اس حوالے سے کوشش کی جائے، اس وقت معاشی ترقی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ سیاسی عدم استحکام ہے، جس کے راستے میں ایک سیاسی پارٹی دیوار بن کر کھڑی ہوئی ہے جس کی بقا کا دارومدار احتجاج اور بدامنی کی سیاست پر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے عوام نے آئی ایم ایف سے قرض لینے کے لیے بڑی قربانی دی ہے، بجلی کی قیمت بہت زیادہ بڑھا دی گئی ہے، جو اقتصادی ترقی اور پاکستانی برآمدات میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
تاجر رہنما کا کہنا تھا کہ ٹیکس ریونیو میں 40 فیصد کا ریکارڈ اضافہ کیا گیا ہے اور دیگر اقدامات بھی کیے گئے ہیں، ان اقدامات کی وجہ سے پاکستان کی مالی حالت بہتر اور عالمی کریڈٹ ریٹنگ میں اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ افراط زر بھی کم ہوچکا ہے مگر کاروباری سرگرمیاں اس وقت تک مکمل بحال نہیں ہوں گی جب تک شرح سود میں مزید 5 سے 6 فیصد کمی نہیں کی جاتی جو معیشت چلانے اور روزگار بڑھانے کے لیے ضروری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شرح سود میں مزید کمی اور بجلی کے نرخوں کو 9 سینٹ پر لانے تک سرمایہ کاری میں اضافہ مشکل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مختلف ذرائع سے معاشی مدد کی یقین دہانیاں کروائی جا چکی ہیں جس کی وجہ سے آئی ایم ایف بھی پاکستان کی مدد کے لیے تیار ہو گیا ہے، اب حکومت کو چاہیے کہ اپنا حجم کم کرے کیونکہ ملک کا موجودہ انتظامی ڈھانچہ ایک بڑا بوجھ بن چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں وزارتوں اور محکموں کی بھرمارہے جس میں کافی تعداد غیرفعال اور غیر ضروری ہے، ملک میں سیاسی بھرتیوں کا بازار گرم رہا ہے اور پینشن ایک مصیبت بن چکی ہے۔
میاں زاہد حسین نے کہا کہ اگر سیاسی طور پر مشکل فیصلے نہیں کیے گئے اور وقت گزاری کی جاتی رہی تو چند ہفتوں میں منی بجٹ متعارف کروانا پڑے گا اور پاکستان قرضوں کے جال سے کبھی بھی نہیں نکل سکے گا۔