ہم 10 بڑی آبادی والے ممالک میں ہیں مگر معاشی طور پر 50 ویں نمبر سے بھی نیچے ہیں گوہر اعجاز
اگر ہم 10 سالوں میں صرف 10 پرسنٹ گروتھ کرلیں تو ہم قرضہ لینے والے نہیں بلکہ دینے والے بنیں گے
سابق وفاقی وزیر برائے صنعت وتجارت گوہر اعجاز نے کہا کہ ہم 10 بڑی آبادی والے ممالک میں ہیں مگر معاشی طور پر 50 ویں نمبر سے بھی نیچے ہیں میرا خواب ہے کہ پاکستان دنیا کا 5 ویں بڑا معاشی طاقت ور ملک بنے، ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی میں کامیکس کالج کے 31 ویں یومِ تاسیس کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
مہمانِ خصوصی گوہر اعجاز نے مزید کہا کہ ہم نے پاکستان کا حق ادا نہیں کیا ہم ایک بورڈ تشکیل دے رہے ہیں جو ملک کی پالیسی بنائے ڈاکٹر شمشاد اختر کو اس بورڈ کا ممبر بنانے کا اعلان کرتا ہوں۔
انہوں نے کہا میرے والد کے ساتھ 8 لوگوں نے خواب دیکھا تو یہ کالج وجود میں آیا اب ہم خواب دیکھتے ہیں اور کراچی کو بہترین یونیورسٹی بنا کر دیتے ہیں جس کے لئے میں ایک ارب روپے دینے کا اعلان کرتا ہوں۔
انہوں نے کہا ہم اپنے قرضے اتارنے کے لیے مزید قرضے لے رہے ہیں ہمارے ملک کی 60 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے ہمارے ہاں سوائے لمس اور آئی بی اے کے اور کوئی سینٹر آف ایکسیلینس موجود نہیں ہے۔
ہم 30 بلین ڈالر کی ایکسپورٹ کرتے ہیں جس میں پانچ بلین ڈالر ایگریکلچر اور پانچ بلین تمام پاکستان کی مینوفیکچرنگ مل کے پانچ ڈالر کی ایکسپورٹ کرتی ہےبجلی کی قیمتوں کی وجہ سے مینوفیکچرنگ سیکٹر کو ترقی نہیں دی جا سکتی۔
انہوں نے مزید کہا کہ کوئی ایسی میٹنگ نہیں ہے جہاں میں نے بجلی کی قیمتوں کی بات نہ کی ہو ڈومیسٹک سیکٹر سارا تڑپ رہا ہے 80 روپے یونٹ کا بجلی کا بل دیکھ لیں کمرشل سیکٹر تڑپ رہا ہے ہر کیبنٹ میں مجھ سے سوال پوچھ جاتے ہیں کہ جب آپ منسٹر تھے تب کیوں نہیں کہا میرا ہر کابینہ میں یہی سوال تھا جس کا جو جواب تھا وہ جواب اتنا مشکل تھا کہ مجھے جہاد کے لیے نکلنا پڑا ۔
کسی بھی آئی پی پی اونر نے اپنی ٹرم ہی میٹ نہیں کی نہ انہوں نے پیسے لگائے انہوں نے کہا حکومت پاکستان کا کام کاروبار کرنا نہیں ہے اتنے قرضے لیے کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن ختم ہو گئی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر ہم ہر سال صرف 10 پرسنٹ گروتھ کریں تو بھی ملک کی معیشت بہتر ہوسکتی ہے 10 سالوں میں اگر صرف 10 پرسنٹ گروتھ کرلیں تو ہم قرضہ لینے والے نہیں بلکہ دینے والے بنیں گے۔
مہمانِ خصوصی گوہر اعجاز نے مزید کہا کہ ہم نے پاکستان کا حق ادا نہیں کیا ہم ایک بورڈ تشکیل دے رہے ہیں جو ملک کی پالیسی بنائے ڈاکٹر شمشاد اختر کو اس بورڈ کا ممبر بنانے کا اعلان کرتا ہوں۔
انہوں نے کہا میرے والد کے ساتھ 8 لوگوں نے خواب دیکھا تو یہ کالج وجود میں آیا اب ہم خواب دیکھتے ہیں اور کراچی کو بہترین یونیورسٹی بنا کر دیتے ہیں جس کے لئے میں ایک ارب روپے دینے کا اعلان کرتا ہوں۔
انہوں نے کہا ہم اپنے قرضے اتارنے کے لیے مزید قرضے لے رہے ہیں ہمارے ملک کی 60 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے ہمارے ہاں سوائے لمس اور آئی بی اے کے اور کوئی سینٹر آف ایکسیلینس موجود نہیں ہے۔
ہم 30 بلین ڈالر کی ایکسپورٹ کرتے ہیں جس میں پانچ بلین ڈالر ایگریکلچر اور پانچ بلین تمام پاکستان کی مینوفیکچرنگ مل کے پانچ ڈالر کی ایکسپورٹ کرتی ہےبجلی کی قیمتوں کی وجہ سے مینوفیکچرنگ سیکٹر کو ترقی نہیں دی جا سکتی۔
انہوں نے مزید کہا کہ کوئی ایسی میٹنگ نہیں ہے جہاں میں نے بجلی کی قیمتوں کی بات نہ کی ہو ڈومیسٹک سیکٹر سارا تڑپ رہا ہے 80 روپے یونٹ کا بجلی کا بل دیکھ لیں کمرشل سیکٹر تڑپ رہا ہے ہر کیبنٹ میں مجھ سے سوال پوچھ جاتے ہیں کہ جب آپ منسٹر تھے تب کیوں نہیں کہا میرا ہر کابینہ میں یہی سوال تھا جس کا جو جواب تھا وہ جواب اتنا مشکل تھا کہ مجھے جہاد کے لیے نکلنا پڑا ۔
کسی بھی آئی پی پی اونر نے اپنی ٹرم ہی میٹ نہیں کی نہ انہوں نے پیسے لگائے انہوں نے کہا حکومت پاکستان کا کام کاروبار کرنا نہیں ہے اتنے قرضے لیے کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن ختم ہو گئی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر ہم ہر سال صرف 10 پرسنٹ گروتھ کریں تو بھی ملک کی معیشت بہتر ہوسکتی ہے 10 سالوں میں اگر صرف 10 پرسنٹ گروتھ کرلیں تو ہم قرضہ لینے والے نہیں بلکہ دینے والے بنیں گے۔