بے چارے غریب عوام

صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی مہنگائی نے ادھم مچا رکھا ہے

اس دن بھی موسم اچھا نہ تھا، پچھلے کئی دنوں کی طرح پیش گوئی تھی کہ بارش ہوگی لیکن لوگوں کے جنون کا عالم تھا۔ کراچی کے اس بڑے شاپنگ مال کا افتتاح تھا جس کی پبلسٹی کے لیے تمام اشتہاری حربے استعمال کیے گئے تھے، یوں لوگوں میں پچاس روپے سے شروع ہونے والی شاپنگ بھی بڑی پرکشش تھی۔ تیس اگست کو اس بڑے روڈ پرگاڑیوں کی قطاریں مال کے آگے رش کے باعث بڑھتی ہی جا رہی تھیں۔

رش کو دیکھتے ہوئے منتظمین کیا سوچ رہے تھے لیکن لوگوں نے مقررہ وقت کے بعد بھی جب اپنی خواہشات کی تکمیل نہ پائی تو چند شرپسندوں نے پتھر پھینکنے شروع کردیے، پھر ایک دوڑ لگ گئی، لوگ اندرگھستے چلے گئے بلکہ دوڑتے بھاگتے جا رہے تھے۔ ایک غدر مچ گیا، یہاں تک کہ پولیس فورس نے معاملہ سنبھالا لیکن اس وقت تک مال ایک اجڑے چمن کی طرح ذمے داران کے دلوں پر بجلیاں گرا چکا تھا۔ کپڑے، جوتے اور استعمال کی دوسری اشیا سب لٹ چکی تھیں، بکھر چکی تھیں،برباد ہو چکی تھیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پرانی استعمال شدہ چیزوں کے حصول کے لیے عوام کا اس قدر جوش و خروش کیوں تھا ؟کیا صرف یہ کشش کم پیسوں کی خریداری کے لیے تھی یا لوٹ مارکرنے والے پہلے ہی سے پلاننگ کر کے آئے تھے؟ اگر ان سب باتوں پر یقین کر لیا جائے تو یہ ایک بہت چھوٹا سا یونٹ تھا جسے ہم سب نے دیکھا بلکہ دور دور تک اس کے فسانے گئے۔ جس نے بھی سنا مذاق بنایا، ایسا پہلی بار نہیں ہوا، پاکستان میں اور بیرون ملک بھی سیل کے مواقع پر عوام کے ایسے مناظر دیکھے جاچکے ہیں لیکن یہاں افسوس کا مقام دراصل پرانی استعمال شدہ اشیا کی فروخت کی وجہ سے تھا، جوگزر گیا سو گزرگیا اب بین بجاتے رہیے۔

صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی مہنگائی نے ادھم مچا رکھا ہے لیکن ہمارے ملک میں حال یہ ہے کہ اب نہ صرف خاص بلکہ عام استعمال کی اشیا کی قیمتیں بھی مستقل اونچی اڑان پر ہیں، ایسے میں ڈریم بازار جیسے تھرفٹ بازار بہت مفید ہیں، لیکن افسوس کہ اس کی ابتدا برے انداز میں ہوئی۔

بجلی،گیس اور پانی کی کمیابی کے ساتھ ان کے بلوں میں بھی اضافہ مستقل دیکھا جا رہا ہے۔ کیا حکومت کی جانب سے اس سلسلے میں کوئی ریلیف ملا، یا کچھ خاص مراعات صرف پنجاب کے لیے خاص ہیں؟ کیا ایسے اقدامات دوسرے صوبے میں اٹھانے ضروری نہیں؟

1971 میں حکومت کی جانب سے عوام کے لیے اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں ریلیف دینے کے سلسلے میں کم آمدنی والے طبقے کے لیے یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کا قیام عمل میں آیا تھا۔ شروع شروع میں اس کی کارکردگی تسلی بخش تھی، لیکن کرپشن کا حال جلد ہی اس کو اپنی گرفت میں لینے لگا۔ لوگوں کی پہلے اشیا کی کمی کی شکایات ابھری پھر بہت سے اسٹورز نام کے رہ گئے اور اشیا غائب۔ یہاں تک کہ خورد برد کی کارروائیاں بڑھتے بڑھتے خسارے کی حد تک پہنچ گئیں۔


ابھی کوئی آٹھ دس برس پہلے جب چینی کے مسائل ہو رہے تھے تو صرف یوٹیلیٹی اسٹورز سے چینی سستے داموں پر مل رہی تھی، ہم نے پانچ کلو کا تھیلا منگوایا تھا شاید اور جب اس کا وزن کروایا تو آدھ کلو چینی کم تھی، گویا بازار میں ملنے والی مہنگی چینی کے برابر ہی پڑگئی تھی۔ ہمارے پورے علاقے میں وہ ایک واحد یوٹیلیٹی اسٹور تھا جہاں کچھ سامان ہوتا تھا لیکن چینی کی وجہ سے لوگوں کی لائن لگ گئی تھی، باقی تیل،گھی، آٹا وغیرہ سب ناقص کوالٹی کا تھا، اب تو وہ اسٹور بھی سالوں ہوئے بند ہو چکا ہے۔

خبر تھی کہ ملک بھر میں یوٹیلیٹی اسٹورزکو بند کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں بات عدالتی کارروائیوں تک جا پہنچی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ یوٹیلیٹی اسٹورز ایک منافع بخش ادارہ ہے اور سالانہ پچیس ارب روپے ٹیکس کی مد میں ادا کرتا ہے جبکہ دو ارب خالص منافع کما رہا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اربوں روپے کے اخراجات، تنخواہیں ادارہ خود برداشت کر رہا ہے اس قدر منافع بخش ادارے کو آئی ایم ایف کی ہدایات پر بند کیا جا رہا ہے اور اندیشہ ہے کہ اس طرح گیارہ ہزار افراد بے روزگار ہو جائیں گے۔ درخواست گزار تو گزارش ہی کر سکتا ہے اور اس کی شنوائی کس حد تک ہو سکتی ہے یہ تو اوپر والا ہی جانتا ہے پر ذہن میں ان تمام یوٹیلیٹی اسٹورزکی فلم سی چل گئی جہاں بچپن میں جانے کا اتفاق ہوا تھا۔

'' یہ سارے دن بھر بیٹھے مکھیاں مارتے رہتے ہیں جب بھی ان کے پاس جاؤ کہ بھائی! آٹا آیا ہے؟ منہ بھر کے کہہ دیتے ہیں، نہیں کل آنا۔ جھوٹے ہیں، قسم لے لو۔ یہ سارے ناں، آٹا اور چینی ہوٹل والوں کو بیچ دیتے ہیں۔

وہ دل جلی نجانے کتنے ہی چکر، علاقے کے اس اکلوتے یوٹیلیٹی اسٹور کے لگا چکی تھی۔ غریب گھروں میں کام کاج کرتی تھی، کسی نے اسے بتایا تھا کہ یوٹیلیٹی اسٹور پر سامان سستا مل جاتا ہے۔ بہرحال اب بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت جہاں بہت سے لوگوں کا بھلا ہو رہا ہے وہیں، ان ملازمین کا بھی کچھ نہ کچھ ہو ہی جائے گا جن کے بے روزگار ہونے کا خدشہ ہے۔

اسلام آباد میں یوٹیلیٹی اسٹورز بندش کے خلاف ملازمین دھرنے دے رہے ہیں، اخباری تصاویر میں لاہور اور اسلام آباد کے یوٹیلیٹی اسٹورز کی بڑی چمکتی تصاویر بھی دیکھیں لیکن کراچی میں حال ذرا مختلف تھا۔

2019-20 میں یوٹیلیٹی اسٹورکے آڈٹ ہوئے تو انکشاف ہوا کہ وہاں بیالیس ریجن میں نوہزار سات سو چھپن ملازمین کام کر رہے ہیں۔یہ تعداد مقررہ تعداد سے کہیں زیادہ تھی، گویا دو ہزار سے زائد ملازمین غیر ضروری ہیں اورادارے پر بوجھ ہیں۔ ان مالی مشکلات کے ساتھ کوئی ادارہ کیسے نمو پا سکتا ہے، جبکہ صارفین کے مطابق یہاں کی اشیا عام مارکیٹ کے مقابلے میں کم معیاری ہوتی ہیں۔

غریب عوام کے لیے حکومت اور نجی ادارے کیا کر رہے ہیں اور کیا کر سکتے ہیں، سب دیکھ رہے ہیں لیکن کرپشن کی قینچی ہر جگہ تیز ہے،بس شکلیں بدل بدل کر سامنے آتی ہے۔ امیدہے کہ اس کی دھار ایک نہ ایک دن کسی کا
Load Next Story