عالمی معاشی مساوات کی ضرورت

پاکستان میں طاقتور لابیوں کی باہمی چپقلش نے ملک کی معیشت کو بحران میں مبتلا کیا ہے

وزیر اعظم شہباز شریف نے مستقبل کے اقوام متحدہ کے سربراہی اجلاس کے لیے اپنی توقعات کا خاکہ پیش کرتے ہوئے ترقی پذیر ممالک کے بڑھتے ہوئے قرضوں کے بوجھ سمیت عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے موثر بین الاقوامی تعاون پر زور دیا ہے،جمعرات کو وزیر اعظم پاکستان 48عالمی رہنماوں کے ساتھ ورچوئل اجلاس میں شریک ہوئے۔

اس اہم اجلاس میں رواں ماہ امریکا کے شہر نیویارک میں منعقد ہونے والے اقوام متحدہ کے اجلاس کے حوالے سے حکمت عملی مرتب کی گئی، اجلاس میں مختلف ممالک کے رہنماؤں کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے سیکرٹر ی جنرل انتونیو گوتریس نے بھی خطاب کیا۔وزیرِ اعظم میاں شہباز شریف نے ورچوئل اجلاس میں عالمی رہنماؤں کو معاشی طور پر کمزور ممالک کے لیے پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول اور عالمی چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لیے پلان پیش کیا۔انھوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ نئے عالمی چیلنجز اور بڑھتی ہوئی کشیدگیوں سے دنیا کے منقسم ہونے کا خطرہ ہے، دنیا کو متحد کرنے کے لیے مساوات اور انصاف ضروری ہے۔

وزیراعظم ورچوئل اجلاس میں ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کا مقدمہ پیش کیا ہے۔ ان کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ دنیا میں ممالک اور اقوام کے درمیان جاری مختلف قسم کی کشیدگی اور محاذ آرائی کی وجہ سے دنیا مختلف بلاکس میں تقسیم ہو سکتی ہے۔ اس لیے اقوام عالم کو متحد کرنے کے لیے مساوات اور انصاف کا نظام بہت ضروری ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے جن خدشات کا اظہار کیا ہے وہ جائز اس لیے ہیں کہ دنیا کی طاقتور اور ترقی یافتہ اقوام کی معاشی حکمت عملی کی وجہ سے ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک اور اقوام کے لیے معاشی ترقی کی منزل تک پہنچنا انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔

ترقی یافتہ اور طاقتور اقوام اپنے جیو اکنامک اورجیو پولیٹیکل مفادات کے لیے کمزوراقوام پر جارحیت سے بھی دریغ نہیں کرتے۔اس کے علاوہ غریب اور کمزور ملکوں میں محاذ آرائی کو فروغ دینے کے لیے مختلف گروہوں کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی ہے اوران کی معاشی لائف لائن کو بھی ڈسٹرب نہیں کیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے غریب ممالک میں خانہ جنگی 'سیاسی کشیدگی اور انتہا پسندی فروغ پا رہی ہے۔ براعظم افریقہ کے تقریباً تمام ممالک ان مسائل کا شکار ہیں۔

اسی وجہ سے یہ براعظم دنیا کے تمام خطوں سے زیادہ پسماندہ اور غریب ہے۔پورے براعظم افریقہ کا کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں ہے جو دنیا کے پہلے دس ہائی انکم ممالک کی فہرست میں آتا ہے۔ سوائے جنوبی افریقہ کے کسی اور افریقی ملک کی فی کس آمدنی مڈل انکم ممالک سے زیادہ نہیں ہے۔ شمالی افریقہ میں مراکش اور الجزائر کے سوا دیگر ممالک مڈل انکم سے بھی نیچے ہیں۔ موریطانیہ جیسا وسائل سے مالا مال ملک افریقہ کے پسماندہ ملکوں میں سے ایک ہے۔ صومالیہ 'ساؤتھ سوڈان' سوڈان اور وسطی افریقہ کے کئی ممالک خانہ جنگی اور دہشت گردی کا شکار ہیں اور یہ غریب ترین ممالک میں شامل ہیں۔

اگر ہم ایشیا کی بات کریں تو اس کی حالت بھی افریقہ سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ البتہ مشرقی ایشیا کے ممالک خاصے ترقی یافتہ ہیں ۔ ان میں چین'جاپان'شمالی کوریا اور تائیوان جیسے ہائی انکم ممالک شامل ہیں۔ اس کے علاوہ مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب 'متحدہ عرب امارات 'قطر' کویت اور مسقط و عمان بھی فی کس آمدنی کے اعتبار سے خوشحال ممالک میں شامل ہیں۔ البتہ سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ان ممالک کا شمار امریکا 'مغربی یورپ 'جاپان 'چائینہ اور ساؤتھ کوریا کے برابر نہیں ہے۔

براعظم ایشیا سب سے بڑا براعظم ہے۔ اتنے بڑے براعظم میں گنتی کے چند ملکوں کی خوشحالی اور سائنسی ترقی یورپ کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ ایشیا میں افغانستان 'یمن 'عراق اور شام جیسے تباہ حال ممالک بھی موجود ہیں جب کہ ایران 'پاکستان 'بنگلہ دیش 'سری لنکا 'برما ' نیپال اور بھارت جیسے ممالک بھی شامل ہیں جن کی فی کس آمدنی بہت کم ہے۔ پاکستان کا معاشی بحران کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔


اس بحران کی وجوہات بیرونی نہیں بلکہ اندرونی ہے۔پاکستان میں طاقتور لابیوں کی باہمی چپقلش نے ملک کی معیشت کو بحران میں مبتلا کیا ہے 'پاکستان کے معاشرے میں گہری تقسیم پیدا کر دی ہے 'انھی طاقتور قوتوں نے پاکستان میں انتہا پسندوں کو غذا فراہم کی ہے۔ آج پاکستان اسی چپقلش کی وجہ سے مسائل کا شکار ہے۔ ورنہ پاکستان دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ہے ' پاکستان دنیا کی بہترین آرمی رکھتا ہے۔ پاکستان میں صنعتی انفرااسٹرکچر بھی ماضی کی نسبت بہت زیادہ ہے۔

روڈز نیٹ ورک بھی ماضی کے مقابلے میں زیادہ وسیع اور اعلیٰ پائے کا ہے۔پاکستان کے پاس اعلیٰ پائے کے سائنس دان 'معیشت دان 'سائنسی علوم کے ماہرین اور بہترین کاروباری مائنڈز موجود ہیں۔افرادی قوت بھی بہت زیادہ ہے۔ اس کے باوجود پاکستان معاشی طور پر کمزور ہے تو اس کی وجوہات بیرونی ہر گز نہیں ہے اور نہ ہی آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی ادارے اس کے ذمے دار ہیں۔ اس کی تمام تر ذمے داری پاکستان کی طاقتور اشرافیہ ہے جو اپنے مفادات کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔

اس کی وجہ سے ملک میں علیحدگی پسندی کی تحریکوں کو فروغ مل رہا ہے 'دہشت گرد تنظیمیں اور زیر زمین جرائم پیشہ گروہ طاقتور ہو رہے ہیں۔ان کریمینل مائنڈز گروہوں نے پاکستان کے سسٹم کے اندر تک رسائی حاصل کر لی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا پورا سسٹم زوال پذیر ہو رہاہے۔پارلیمنٹ' ایگزیکٹو 'جوڈیشری اور دیگر اہم ترین ادارے قوانین کے ابہام اور اوور لیپنگ کی وجہ سے حدود سے تجاوز کر رہے ہیں۔ملک میں معاشی'سیاسی اور سماجی بحران اور تقسیم کی جڑیںسسٹم میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔

سسٹم میں موجود چور دروازے بند کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے۔پارلیمنٹ اگر قانون سازی کا بنیادی فریضہ انجام دے توسسٹم میں موجود سارے چور دروازے بند کیے جا سکتے ہیں۔ملک کے آئینی اداروں اورسرکاری انتظامیہ کو اپنے فرائض تک محدود رکھنے کے لیے غیرمبہم اور ٹو دی پوائنٹ قانون سازی کی ضرورت ہے۔ سرکاری محکموں کے قوانین اور ضابطوں اور قواعد کی بھی باریک بینی سے چھان پھٹک کر کے انھیں درست کرنا بھی پارلیمنٹ اور پارلیمنٹیرینز کی بنیادی اور آئینی ذمے داری ہے۔ اگر پاکستان کے پارلیمنٹیرینز اپنی ذمے داریوں اور کام کوسمجھیں توپاکستان کے نظام کو فول پروف بنانا اور اسے پروپیپلز بنانا کوئی مشکل کام نہیںہے۔پارلیمنٹ کی اپنی ذمے داریوں سے عدم دلچسپی کی وجہ سے سسٹم کو چلانے والے تنخواہ دار ملازمین اپنی آمریت قائم کرلیتے ہیں۔ ان مسائل پر قابو پانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

بہرحال وزیراعظم نے گزشتہ روزاپنی زیر صدارت سمیڈاکی سٹیئرنگ کمیٹی کے پہلے اجلاس میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کی استعداد میں اضافے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ چھوٹے اور درمیانے درجے کی برآمدات میں اضافہ ملکی معیشت کے لیے ناگزیر ہے، بڑے نجی کاروباری اداروں کی ذمے داری ہے کہ وہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کو ساتھ لے کر چلیں،سمیڈا کے بورڈ کو فی الفور فعال کیا جائے، وزیرِ اعظم نے منکی پاکس سے بچاو کی تمام تر احتیاطی تدابیر اپنانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ عوام کو اس حوالے سے آگاہی فراہم کی جائے، ہوائی اڈوں، بندرگاہوں اور زمینی سرحدی داخلی راستوں پر سکیننگ اور متاثرہ افراد کے لیے قرنطینہ سینٹرز کا قیام یقینی بنایا جائے۔

(ن) لیگ سے تعلق رکھنے والے ینگ پارلیمنٹیرینز سے ملاقات کے دوران نے کہا کہ پالیسی ریٹ اور مہنگائی میں نمایاں کمی، زرعی اجناس، آئی ٹی کی برآمدات اور ترسیلات زر میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے، ملک کو مشکلات سے نکالنے اور ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے نوجوانوں کو بااختیار بنا کر ہمیں یکسوئی، مشترکہ کوششوں اور واضح سوچ کے ساتھ آگے بڑھنا ہے، آئی ایم ایف کے 25 ستمبر کو ہونے والے اجلاس میں پاکستان ایجنڈے میں شامل ہے۔

پاکستان میں سرکاری اداروں کی کمی نہیں ہے۔ اگر چھوٹے بزنس کی بات کی جائے تو صوبے کی سطح تک اسمال بزنس کے لیے ادارہ موجود ہے 'اگر پنجاب حکومت اور دیگر صوبے اپنے صوبائی اداروں پر توجہ دیں تو اسمال بزنس میں موجود پوٹینشل کو فعال کیا جا سکتا ہے۔اسی طرح ایف آئی اے کے ہوتے ہوئے صوبوں کی سطح تک محکمہ انٹی کرپشن کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ایف آئی اے کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے اس ادارے کے صوبائی ونگ قائم کر کے صوبائی محکمہ انٹی کرپشن کی کمی کو باآسانی پورا کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اور بھی بہت سے ادارے ہیں جو کاغذوں پر تو موجود ہیں لیکن عملی میدان میں ان کی کوئی کارکردگی نظر نہیں آتی۔
Load Next Story