قائد اعظم اور پاکستان
علالت کے دوران کسی کو قائد اعظم کو کسی سے ملنے کی اجاز ت نہیں تھی
حال ہی میں 11 ستمبر گزری ہے ۔آئیے ہم ایک دفعہ پھر قائد اعظم کو یاد کریں جس کے لیے ہمیں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی کتاب"میرا بھائی"سے استفادہ کرنا پڑے گا ۔ اس کتاب میں وہ لکھتی ہیں کہ میرے ذہن میں اس المناک دن کی یادیں امڈی چلی آتی ہیں جب 11 ستمبر 1948 کو ہفتہ کو میرا بھائی مجھ سے چھین لیا گیا اور میری قوم یتیم ہو گئی۔ قارئین کرام یہاں رکیں غور فرمائیں اور اس سطر کو بار بار پڑھیں کہ اس دن میرا بھائی مجھ سے چھین لیا گیا۔
فاطمہ جناح کہتی ہیں کہ زندگی کے آخری دس برسوں کے دوران ان کی سیاسی سرگرمیوں اور ذمے داریوں میں کئی گنا اضافہ ہو گیا تھا۔ جب کہ وہ بڑھاپے کی سرحدوں میں پہلے ہی داخل ہو چکے تھے۔ڈاکٹروں کے مشورے اور چھوٹی بہن کی التجاؤں کے باوجود انھوںنے کوئی اپنا خیال نہ رکھا۔ وہ آرام یا کام کی رفتار میں کمی سے مسلسل انکار کرتے رہے ان کی خرابی صحت سے خوفزدہ ہو کر میں جب کبھی ان سے مسلسل اتنا زیادہ کام نہ کرنے کی التجاء کرتی یا ہندوستان بھر کے طوفانی دوروں کا پروگرام کچھ عرصہ کے لیے ملتوی کر دینے کا مشورہ دیتی تو وہ کہتے کیا تم نے سنا ہے کہ کسی جنرل نے چھٹی کی ہو،جب اس کی فوج میدان جنگ میں اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہو؟
ایسے موقع پر میں عموماً دلائل کے بجائے جذبات کا سہارا لیا کرتی تھی تو ان کے چہرے پر نا گواری کے تاثرات ابھرتے ۔ وہ کہتے فرد واحد کی صحت کیا حیثیت رکھتی ہے جب کہ میں ہندوستان کے دس کروڑ مسلمانوں کے بارے میں پریشان ہوں ۔کیا تم جانتی ہو کہ مسلمان قوم کس خطرے میں ہے ؟سربراہ مملکت کی حیثیت سے پاکستان کی تقدیر کی کشتی کو ایک محفوظ ساحل تک لے جانے کا کام ان کے ہاتھوں میں تھا اور وہ کام کی کثرت سے تھک چکے تھے۔
میں نے انتہائی افسوس اور کرب کے ساتھ دیکھا کہ کامیابی کے عظیم لمحہ میں قائد اعظم کی جسمانی صحت کسی بھی لحاظ سے اطمینان بخش نہ تھی ۔ ان کی بھوک برائے نام رہ گئی تھی بلکہ بالکل ہی ختم ہو گئی تھی۔ انتہائی توجہ اور محبت سے بنائے گئے کھانے بھی انھیں اپنی طلب پر آمادہ نہیں کرتے تھے۔ ا ن کی زندگی بھر کی اپنی مرضی سے سو جانے کی عادت عنقا ہو چکی تھی اور وہ مسلسل کئی راتو ں تک بے خوابی کے عالم میں تکیوں پر کروٹیں بدلتے اور جاگتے رہتے تھے۔ ان کی کھانسی میں اضافہ ہو گیا تھا اور اس کے ساتھ حرارت بھی اب زیادہ رہنے لگی تھی۔ پاکستان کی سرحد کے اس پار مسلمانوں کے قتل عام، آبروریزی ، آتش زنی اور لوٹ مار کے لرزہ خیز واقعات نے قائد اعظم کے ذہن پر شدید منفی اثرات مرتب کیے۔ چنانچہ وہ ایک بار پھر بیمار ہو گئے۔
علالت کے دوران کسی کو قائد اعظم کو کسی سے ملنے کی اجاز ت نہیں تھی مگر جب واشنگٹن میں متعین پاکستانی سفیر مسٹر اصفہانی زیارت میں ہمارے گھر آئے تو قائد اعظم ان سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ وہ قائد اعظم کے قریبی ساتھی تھے۔ اپنے لیڈر کو دیکھ کر جب مسٹر اصفہانی نیچے اترے تو ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔
وہ اس ماہر سیاست دان کو جس نے بہت سی سیاسی لڑائیاں لڑی تھیں بے بسی سے بستر پر پڑے اپنی زندگی کی جنگ لڑتے دیکھ کر خود پر قابو نہ پا سکے۔ اگست میں ان کی طبیعت بگڑنا شروع ہوئی چند روز بعد ڈاکٹروں کو معلوم ہوا کہ قائد اعظم کا بلڈ پریشر بہت کم ہو گیا ہے ۔ان کے پاؤں پر ورم آ گیا ہے۔ان کے پیشاپ کی مقدار بڑی حدتک کم ہو گئی ہے۔ ڈاکٹروں نے مجھے بتایا کہ قائد اعظم دل اور گردوں کی کمزوری میں مبتلا ہیں ۔زیارت سے کوئٹہ منتقل ہونے سے ان کی صحت میں بہتری آئی ۔
اگست کے آخری دنوں میں قائد اعظم اچانک ہر چیز سے بے نیاز نظر آنے لگے اور انھوں نے ایک روز انہماک کے ساتھ میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا " فاطمی مجھے اب مزید زندہ رہنے میں کوئی دلچسپی نہیں میں جتنی جلدی چلا جاؤں اتنا ہی بہتر ہو گا" یہ بدشگونی کے الفاظ تھے میں لرز اٹھی جیسے میں نے بجلی کے ننگے تار کو چھو لیا ہو۔
مگر میں نے خود کو پرسکون رکھتے ہوئے کہا کہ آپ جلدی اچھے ہو جائیں گے۔ ڈاکٹر پرامید ہیں ۔وہ مسکرائے ایک بے جان سی مسکراہٹ ۔ نہیں میں اب زندہ نہیں رہنا چاہتا ۔ مجھے کراچی لے چلئے۔میں وہیں پیدا ہوا تھا۔میں وہیں دفن ہونا چاہتا ہوں ۔ان کی آنکھیں بند ہو گئیں ۔ میں ان کے بستر کے پاس کھڑی رہی ۔ان کی بے ہوشی میں ان کے الفاظ سن سکتی تھی۔ وہ کہہ رہے تھے کشمیر ...انھیں فیصلہ کرنے کا حق دیجیے۔ آئین... میںاسے جلد مکمل کروں گا۔مہاجرین... انھیں ہر ممکن امداد دیجیے۔
یہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح تھے۔پچھلے کچھ برسوں سے بانیان پاکستان کی نئی اصطلاح سامنے آئی ہے۔یعنی پاکستان بنانے میں بہت سے افراد شامل تھے۔یہ افراد صرف قائد اعظم کے ساتھی تھے۔ پاکستان صرف اور صرف قائد اعظم نے بنایا۔یہ کسی اور کے بس کی بات نہیں تھی۔اس بات کی تصدیق علامہ اقبال فرماتے ہیں۔ جب قائد اعظم برصغیر کی سیاست سے مایوس ہو کر برطانیہ چلے گئے تو علامہ اقبال نے انھیں واپسی کا خط لکھا جس میں وہ فرماتے ہیں کہ میری نظر میں "پورے ہندوستان"میں آپ کے سواء کوئی اور شخص نہیں جومنجھدارمیں پھنسی مسلمانوںکی کشتی کو پار لگا سکے۔
اس سے بڑی گواہی اور کیا ہو سکتی ہے ۔چنانچہ علامہ اقبال کے اصرار پر قائد اعظم واپس آئے اور دنیا کو پاکستان بنا کر دکھا دیا۔ اب بانیان پاکستان کے نام پر ان لوگوں کو شامل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو قیام پاکستان کے مخالف تھے۔ ہماری نئی نسل کو کیا پتہ ، پون صدی بعد ایک نئی تاریخ لکھنے کی سازش ہو رہی ہے۔ یہ سازش ہی تھی جب مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح یہ کہنے پر مجبور ہوئیں کہ میر ا بھائی مجھ سے چھین لیا گیا۔ خود فاطمہ جناح کو پراسرار حالات میں قتل کر دیا گیا۔
ان کو اس بات کی سزا دی گئی انھوں نے سب سے بڑے آمر کے خلاف الیکشن لڑا ۔ وہ شخص جس کی حکمران طبقات کی نظروں میں بڑی قدر ومنزلت تھی،کیونکہ اسی نے تو عالمی سامرا ج کی پاکستان پر قبضہ کی بنیاد رکھی۔ پاکستان کو اڈا بنا کر سوویت یونین کا خاتمہ کیا گیا ۔یہ امریکی سامراج کی ایسی کامیابی تھی جس کی عالمی تاریخ میں کوئی اور مثال نہیں ۔اس کا آغاز 1951 سے ہوتا ہے ۔قائد اعظم کی وفات کے بعد ہی پاکستان میں امریکی سامراجی ایجنڈے کا نفاذ ممکن ہوا جس کا پہلا مرحلہ 1971میں پاکستان توڑنے کی شکل میں سامنے آیا ۔ جمہوریت سیاست اور خود پاکستان کس طرف جائے گا ۔ اس حوالے سے پاکستان فیصلہ کن مرحلہ میں داخل ہو گیا ہے۔ اب ادھر ہو گا یا ادھر۔ اس حوالے سے اہم اوقات ستمبر کا آخر، اکتوبر کا شروع اور خاص طور پر اکتوبر کے آخر سے نومبر کا شروع انتہائی اہم ہے۔
فاطمہ جناح کہتی ہیں کہ زندگی کے آخری دس برسوں کے دوران ان کی سیاسی سرگرمیوں اور ذمے داریوں میں کئی گنا اضافہ ہو گیا تھا۔ جب کہ وہ بڑھاپے کی سرحدوں میں پہلے ہی داخل ہو چکے تھے۔ڈاکٹروں کے مشورے اور چھوٹی بہن کی التجاؤں کے باوجود انھوںنے کوئی اپنا خیال نہ رکھا۔ وہ آرام یا کام کی رفتار میں کمی سے مسلسل انکار کرتے رہے ان کی خرابی صحت سے خوفزدہ ہو کر میں جب کبھی ان سے مسلسل اتنا زیادہ کام نہ کرنے کی التجاء کرتی یا ہندوستان بھر کے طوفانی دوروں کا پروگرام کچھ عرصہ کے لیے ملتوی کر دینے کا مشورہ دیتی تو وہ کہتے کیا تم نے سنا ہے کہ کسی جنرل نے چھٹی کی ہو،جب اس کی فوج میدان جنگ میں اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہو؟
ایسے موقع پر میں عموماً دلائل کے بجائے جذبات کا سہارا لیا کرتی تھی تو ان کے چہرے پر نا گواری کے تاثرات ابھرتے ۔ وہ کہتے فرد واحد کی صحت کیا حیثیت رکھتی ہے جب کہ میں ہندوستان کے دس کروڑ مسلمانوں کے بارے میں پریشان ہوں ۔کیا تم جانتی ہو کہ مسلمان قوم کس خطرے میں ہے ؟سربراہ مملکت کی حیثیت سے پاکستان کی تقدیر کی کشتی کو ایک محفوظ ساحل تک لے جانے کا کام ان کے ہاتھوں میں تھا اور وہ کام کی کثرت سے تھک چکے تھے۔
میں نے انتہائی افسوس اور کرب کے ساتھ دیکھا کہ کامیابی کے عظیم لمحہ میں قائد اعظم کی جسمانی صحت کسی بھی لحاظ سے اطمینان بخش نہ تھی ۔ ان کی بھوک برائے نام رہ گئی تھی بلکہ بالکل ہی ختم ہو گئی تھی۔ انتہائی توجہ اور محبت سے بنائے گئے کھانے بھی انھیں اپنی طلب پر آمادہ نہیں کرتے تھے۔ ا ن کی زندگی بھر کی اپنی مرضی سے سو جانے کی عادت عنقا ہو چکی تھی اور وہ مسلسل کئی راتو ں تک بے خوابی کے عالم میں تکیوں پر کروٹیں بدلتے اور جاگتے رہتے تھے۔ ان کی کھانسی میں اضافہ ہو گیا تھا اور اس کے ساتھ حرارت بھی اب زیادہ رہنے لگی تھی۔ پاکستان کی سرحد کے اس پار مسلمانوں کے قتل عام، آبروریزی ، آتش زنی اور لوٹ مار کے لرزہ خیز واقعات نے قائد اعظم کے ذہن پر شدید منفی اثرات مرتب کیے۔ چنانچہ وہ ایک بار پھر بیمار ہو گئے۔
علالت کے دوران کسی کو قائد اعظم کو کسی سے ملنے کی اجاز ت نہیں تھی مگر جب واشنگٹن میں متعین پاکستانی سفیر مسٹر اصفہانی زیارت میں ہمارے گھر آئے تو قائد اعظم ان سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ وہ قائد اعظم کے قریبی ساتھی تھے۔ اپنے لیڈر کو دیکھ کر جب مسٹر اصفہانی نیچے اترے تو ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔
وہ اس ماہر سیاست دان کو جس نے بہت سی سیاسی لڑائیاں لڑی تھیں بے بسی سے بستر پر پڑے اپنی زندگی کی جنگ لڑتے دیکھ کر خود پر قابو نہ پا سکے۔ اگست میں ان کی طبیعت بگڑنا شروع ہوئی چند روز بعد ڈاکٹروں کو معلوم ہوا کہ قائد اعظم کا بلڈ پریشر بہت کم ہو گیا ہے ۔ان کے پاؤں پر ورم آ گیا ہے۔ان کے پیشاپ کی مقدار بڑی حدتک کم ہو گئی ہے۔ ڈاکٹروں نے مجھے بتایا کہ قائد اعظم دل اور گردوں کی کمزوری میں مبتلا ہیں ۔زیارت سے کوئٹہ منتقل ہونے سے ان کی صحت میں بہتری آئی ۔
اگست کے آخری دنوں میں قائد اعظم اچانک ہر چیز سے بے نیاز نظر آنے لگے اور انھوں نے ایک روز انہماک کے ساتھ میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا " فاطمی مجھے اب مزید زندہ رہنے میں کوئی دلچسپی نہیں میں جتنی جلدی چلا جاؤں اتنا ہی بہتر ہو گا" یہ بدشگونی کے الفاظ تھے میں لرز اٹھی جیسے میں نے بجلی کے ننگے تار کو چھو لیا ہو۔
مگر میں نے خود کو پرسکون رکھتے ہوئے کہا کہ آپ جلدی اچھے ہو جائیں گے۔ ڈاکٹر پرامید ہیں ۔وہ مسکرائے ایک بے جان سی مسکراہٹ ۔ نہیں میں اب زندہ نہیں رہنا چاہتا ۔ مجھے کراچی لے چلئے۔میں وہیں پیدا ہوا تھا۔میں وہیں دفن ہونا چاہتا ہوں ۔ان کی آنکھیں بند ہو گئیں ۔ میں ان کے بستر کے پاس کھڑی رہی ۔ان کی بے ہوشی میں ان کے الفاظ سن سکتی تھی۔ وہ کہہ رہے تھے کشمیر ...انھیں فیصلہ کرنے کا حق دیجیے۔ آئین... میںاسے جلد مکمل کروں گا۔مہاجرین... انھیں ہر ممکن امداد دیجیے۔
یہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح تھے۔پچھلے کچھ برسوں سے بانیان پاکستان کی نئی اصطلاح سامنے آئی ہے۔یعنی پاکستان بنانے میں بہت سے افراد شامل تھے۔یہ افراد صرف قائد اعظم کے ساتھی تھے۔ پاکستان صرف اور صرف قائد اعظم نے بنایا۔یہ کسی اور کے بس کی بات نہیں تھی۔اس بات کی تصدیق علامہ اقبال فرماتے ہیں۔ جب قائد اعظم برصغیر کی سیاست سے مایوس ہو کر برطانیہ چلے گئے تو علامہ اقبال نے انھیں واپسی کا خط لکھا جس میں وہ فرماتے ہیں کہ میری نظر میں "پورے ہندوستان"میں آپ کے سواء کوئی اور شخص نہیں جومنجھدارمیں پھنسی مسلمانوںکی کشتی کو پار لگا سکے۔
اس سے بڑی گواہی اور کیا ہو سکتی ہے ۔چنانچہ علامہ اقبال کے اصرار پر قائد اعظم واپس آئے اور دنیا کو پاکستان بنا کر دکھا دیا۔ اب بانیان پاکستان کے نام پر ان لوگوں کو شامل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو قیام پاکستان کے مخالف تھے۔ ہماری نئی نسل کو کیا پتہ ، پون صدی بعد ایک نئی تاریخ لکھنے کی سازش ہو رہی ہے۔ یہ سازش ہی تھی جب مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح یہ کہنے پر مجبور ہوئیں کہ میر ا بھائی مجھ سے چھین لیا گیا۔ خود فاطمہ جناح کو پراسرار حالات میں قتل کر دیا گیا۔
ان کو اس بات کی سزا دی گئی انھوں نے سب سے بڑے آمر کے خلاف الیکشن لڑا ۔ وہ شخص جس کی حکمران طبقات کی نظروں میں بڑی قدر ومنزلت تھی،کیونکہ اسی نے تو عالمی سامرا ج کی پاکستان پر قبضہ کی بنیاد رکھی۔ پاکستان کو اڈا بنا کر سوویت یونین کا خاتمہ کیا گیا ۔یہ امریکی سامراج کی ایسی کامیابی تھی جس کی عالمی تاریخ میں کوئی اور مثال نہیں ۔اس کا آغاز 1951 سے ہوتا ہے ۔قائد اعظم کی وفات کے بعد ہی پاکستان میں امریکی سامراجی ایجنڈے کا نفاذ ممکن ہوا جس کا پہلا مرحلہ 1971میں پاکستان توڑنے کی شکل میں سامنے آیا ۔ جمہوریت سیاست اور خود پاکستان کس طرف جائے گا ۔ اس حوالے سے پاکستان فیصلہ کن مرحلہ میں داخل ہو گیا ہے۔ اب ادھر ہو گا یا ادھر۔ اس حوالے سے اہم اوقات ستمبر کا آخر، اکتوبر کا شروع اور خاص طور پر اکتوبر کے آخر سے نومبر کا شروع انتہائی اہم ہے۔