جدید اردو نعت اور احمد ندیم قاسمی
حفیظ تائب قاسمی صاحب سے جونیئر بھی تھے اور ان کے نیاز مند بھی مگر جہاں تک نعت میں ان کے مقام کا تعلق ہے
یوں تو نعت گوئی کا سلسلہ حضورؐ کی حیات مبارک میں ہی شروع ہو گیا تھا جس کی بازگشت پورے عالم اسلام کی ادبی اور سماجی تاریخ میں تب سے اب تک دلوں کو منور اور سماعتوں کو معطر کرتی چلی آ رہی ہے۔ مگر برصغیر پاک و ہند اور بالخصوص اردو زبان کے حوالے سے اس پر انیسویں صدی کے آخری ربع سے جو موسم بہار شروع ہوا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ یوں تو ان چودہ سو برسوں میں پوری دنیا ہی بہت سی اسلامی مملکتوں نے عروج کے بعد زوال دیکھا لیکن اس کا جو ردعمل ہندوستان کی تاریخ میں سامنے آیا وہ سقوط بغداد کے اس نوحے سے کہیں زیادہ وسیع، گہرا اور ہمہ گیر ہے جس کے بارے میں شیخ سعدی نے کہا کہ
آسماں برحق بود گر خوں ببارد بر زمیں
بر زوال ملک مستعصم، امیر المومنین
اب اس کے مقابلے میں مولانا حالی کا یہ دعائیہ نوحہ دیکھیں جو ہندوستان میں مسلمان حکومت (جیسی بھی تھی) کے انہدام اور خاتمے پر کہا گیا:
اے خاصۂ خاصانِ رُسل وقت دعا ہے
اُمّت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے
حالی اور اقبال کے زمانے تک کم و بیش ہر شاعر کے دیوان کے آغاز میں نعتیہ کلام شامل ہوتا تھا اور جہاں ایسا نہیں تھا وہاں بھی دیوان کے اندر نعتیہ مضامین پر مبنی اشعار ضرور ہوتے تھے جیسے مثال کے طور پر مرزا غالب کے اردو اور فارسی کلام کے یہ دو اشعار کہ
منظور تھی یہ شکل تجلّی کو نور کی
قسمت کھلی ترے قد و رُخ سے ظہور کی
غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گذاشتیم
کاں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمدؐ است
کم و بیش یہی صورت علامہ صاحب کے مجموعہ ہائے کلام میں ہے کہ جگہ جگہ آپ کو ایسے نعتیہ اشعار دکھائی دیتے ہیں جو سربسر حُبِ رسولؐ میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
یہ روایت بیسویں صدی کے نصف اول یعنی قیام پاکستان کے دنوں تک مسلسل آگے بڑھتی دکھائی دیتی ہے اور ہمیں امیر مینائی، مولانا ظفر علی خاں، حفیظ جالندھری، بیدم وارثی، ماہر القادری اور احمد ندیم قاسمی جیسے بلند پایہ شاعر مسلسل نعت کہتے دکھائی دیتے ہیں اور یہ تسلسل کا گراف بیسویں صدی کی آخری دو دہائیوں میں اپنے عروج کو پہنچ کر آج کی شاعری تک رواں دواں نظر آتا ہے۔
اس دوران میں بلا مبالغہ سیکڑوں کی تعداد میں نعتیہ مجموعے شائع ہوئے اور کئی شاعروں کے لیے یہ ان کی پہچان اور وجۂ اختصاص بھی ہے لیکن احمد ندیم قاسمی مرحوم کا کمال یہ ہے کہ ان کے ستر سالہ ادبی کیریئر میں کوئی زمانہ بھی ایسا نہیں گزرا جب انھوں نے نعت کی سعادت حاصل نہ کی ہو اور یقینا معیار اور عرصے کے اعتبار سے یہ اپنی جگہ پر ایک ریکارڈ سے کم نہیں۔ اس دوران میں جن شعرأ نے نعت کے میدان میں زیادہ نام کمایا ان میں حافظ مظہر الدین، اعظم چشتی، مظفر وارثی، حافظ لدھیانوی، اقبال عظیم، ریاض حسین چوہدری، خالد احمد، پیر نصیر الدین گولڑوی، عبدالعزیز خالد، انور مسعود، نورین طلعت عرویہ اور لالۂ صحرائی سمیت کچھ اور نام بھی لیے جا سکتے ہیں مگر میری ذاتی رائے میں اس صنف مبارک کے حوالے سے حفیظ تائب مرحوم کا نام سب سے اوپر آتا ہے۔
حفیظ تائب قاسمی صاحب سے جونیئر بھی تھے اور ان کے نیاز مند بھی مگر جہاں تک نعت میں ان کے مقام کا تعلق ہے میں اس کا گواہ ہوں کہ قاسمی صاحب نے تائب صاحب کی نعت کو ہمیشہ اپنے عہد کی نمائندہ نعت قرار دیا۔ آج یہ دونوں بزرگ اور محترم ہستیاں ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ دس جولائی کو قاسمی صاحب کی آٹھویں برسی تھی مجھ سمیت ان سے محبت کرنے والے ہزاروں لاکھوں لوگوں نے اس روز ان کو بہت یاد کیا کہ اس پر آشوب دور میں ان کی شاعری اور بالخصوص نعتیہ شاعری زخموں پر مرہم کا کام دیتی ہے۔ عظمت آدم یوں تو ہمیشہ ان کا محبوب موضوع رہا ہے مگر رسول پاکؐ کی رحمت کے تعلق سے ان کے یہ لازوال شعر اپنی مثال آپ ہیں:
پورے قد سے جو کھڑا ہوں تو یہ تیرا ہے کرم
مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا
تجھ سے پہلے کا جو ماضی تھا ہزاروں کا سہی
اب جو تا حشر کا فردا ہے وہ تنہا تیرا
ایک بار اور بھی طیبہ سے فلسطین میں آ
راستہ دیکھتی ہے مسجد اقصیٰ تیرا
ترقی پسند اور کسی زمانے میں شوشلسٹ خیالات رکھنے والے اکثر ادیبوں اور شاعروں پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ یہ لوگ مذہب سے دور ہو گئے تھے اور یہ کہ انھوں نے نعت کی صنف میں اس ڈر سے شاعری نہیں کی کہ کہیں انھیں رجعت پسندی یا مولویت کا طعنہ نہ دیا جائے لیکن تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ایک بے بنیاد پراپیگنڈہ ہے ہم دیکھتے ہیں کہ اکا دکا مستثنیات سے قطع نظر ہر ترقی پسند شاعر کے کلام میں نعتیں اور نعتیہ اشعار موجود ہیں۔ یہاں تک کہ پکے کمیونسٹ قرار دیے جانے والے شاعروں مثلاً فیض صاحب، عارف عبدالمتین اور ظہیر کاشمیری کے ہاں بھی نہ صرف نعتیہ کلام ملتا ہے بلکہ اس کا معیار بھی بہت عمدہ ہے کہ بقول شخصے رسولِ پاکؐ سے زیادہ ترقی پسند انسان تو تاریخ نے پیدا ہی نہیں کیا۔ آپؐ کی شخصیت کے اس رخ کو قاسمی صاحب نے خاص طور پر اپنی نعتوں میں اجاگر کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں:
یوں تو ہر دور مہکتی ہوئی نیندیں لایا
تیرا پیغام مگر خواب نہ بننے پایا
قصر مرمر سے شہنشاہ نے ازراہِ غرور
تیری کٹیا کو جو دیکھا تو بہت شرمایا
اور یہ کہ
اس قدر کون محبت کا صلہ دیتا ہے
اس کا بندہ ہوں جو بندے کو خدا دیتا ہے
جدید اردو نعت میں احمد ندیم قاسمی مرحوم کی نعت کو یہ اختصاص بھی حاصل ہے کہ اس نے دہریت اور الحاد کے دور عروج میں اللہ کی وحدانیت اور نبی آخر الزماں کی رحمت اور انسانوں سے محبت کو ان روایتی حمدیہ اور نعتیہ مضامین پر ترجیح دی جن میں اندھی عقیدت تو ہوتی ہے مگر بصیرت کا فقدان ہوتا ہے جو آدمی کو انسان اور پھر ان کو مرد مومن کے درجے پر فائز کرتا ہے۔ یہ مضامین ان کی غزلوں اور نظموں میں بھی بار بار سامنے آتے ہیں۔ مثال کے طور پر ان کی ایک غزل کا یہ مطلع آج کے عدم برداشت، مسلک پرست اور شدت پسندی کے دور میں ہمیں قطبی ستارے کی طرح چمکتا اور دمکتا دکھائی دیتا ہے کہ
درگزر کرنے کی عادت سیکھو
اے فرشتو! بشیریت سیکھو
آسماں برحق بود گر خوں ببارد بر زمیں
بر زوال ملک مستعصم، امیر المومنین
اب اس کے مقابلے میں مولانا حالی کا یہ دعائیہ نوحہ دیکھیں جو ہندوستان میں مسلمان حکومت (جیسی بھی تھی) کے انہدام اور خاتمے پر کہا گیا:
اے خاصۂ خاصانِ رُسل وقت دعا ہے
اُمّت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے
حالی اور اقبال کے زمانے تک کم و بیش ہر شاعر کے دیوان کے آغاز میں نعتیہ کلام شامل ہوتا تھا اور جہاں ایسا نہیں تھا وہاں بھی دیوان کے اندر نعتیہ مضامین پر مبنی اشعار ضرور ہوتے تھے جیسے مثال کے طور پر مرزا غالب کے اردو اور فارسی کلام کے یہ دو اشعار کہ
منظور تھی یہ شکل تجلّی کو نور کی
قسمت کھلی ترے قد و رُخ سے ظہور کی
غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گذاشتیم
کاں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمدؐ است
کم و بیش یہی صورت علامہ صاحب کے مجموعہ ہائے کلام میں ہے کہ جگہ جگہ آپ کو ایسے نعتیہ اشعار دکھائی دیتے ہیں جو سربسر حُبِ رسولؐ میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
یہ روایت بیسویں صدی کے نصف اول یعنی قیام پاکستان کے دنوں تک مسلسل آگے بڑھتی دکھائی دیتی ہے اور ہمیں امیر مینائی، مولانا ظفر علی خاں، حفیظ جالندھری، بیدم وارثی، ماہر القادری اور احمد ندیم قاسمی جیسے بلند پایہ شاعر مسلسل نعت کہتے دکھائی دیتے ہیں اور یہ تسلسل کا گراف بیسویں صدی کی آخری دو دہائیوں میں اپنے عروج کو پہنچ کر آج کی شاعری تک رواں دواں نظر آتا ہے۔
اس دوران میں بلا مبالغہ سیکڑوں کی تعداد میں نعتیہ مجموعے شائع ہوئے اور کئی شاعروں کے لیے یہ ان کی پہچان اور وجۂ اختصاص بھی ہے لیکن احمد ندیم قاسمی مرحوم کا کمال یہ ہے کہ ان کے ستر سالہ ادبی کیریئر میں کوئی زمانہ بھی ایسا نہیں گزرا جب انھوں نے نعت کی سعادت حاصل نہ کی ہو اور یقینا معیار اور عرصے کے اعتبار سے یہ اپنی جگہ پر ایک ریکارڈ سے کم نہیں۔ اس دوران میں جن شعرأ نے نعت کے میدان میں زیادہ نام کمایا ان میں حافظ مظہر الدین، اعظم چشتی، مظفر وارثی، حافظ لدھیانوی، اقبال عظیم، ریاض حسین چوہدری، خالد احمد، پیر نصیر الدین گولڑوی، عبدالعزیز خالد، انور مسعود، نورین طلعت عرویہ اور لالۂ صحرائی سمیت کچھ اور نام بھی لیے جا سکتے ہیں مگر میری ذاتی رائے میں اس صنف مبارک کے حوالے سے حفیظ تائب مرحوم کا نام سب سے اوپر آتا ہے۔
حفیظ تائب قاسمی صاحب سے جونیئر بھی تھے اور ان کے نیاز مند بھی مگر جہاں تک نعت میں ان کے مقام کا تعلق ہے میں اس کا گواہ ہوں کہ قاسمی صاحب نے تائب صاحب کی نعت کو ہمیشہ اپنے عہد کی نمائندہ نعت قرار دیا۔ آج یہ دونوں بزرگ اور محترم ہستیاں ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ دس جولائی کو قاسمی صاحب کی آٹھویں برسی تھی مجھ سمیت ان سے محبت کرنے والے ہزاروں لاکھوں لوگوں نے اس روز ان کو بہت یاد کیا کہ اس پر آشوب دور میں ان کی شاعری اور بالخصوص نعتیہ شاعری زخموں پر مرہم کا کام دیتی ہے۔ عظمت آدم یوں تو ہمیشہ ان کا محبوب موضوع رہا ہے مگر رسول پاکؐ کی رحمت کے تعلق سے ان کے یہ لازوال شعر اپنی مثال آپ ہیں:
پورے قد سے جو کھڑا ہوں تو یہ تیرا ہے کرم
مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا
تجھ سے پہلے کا جو ماضی تھا ہزاروں کا سہی
اب جو تا حشر کا فردا ہے وہ تنہا تیرا
ایک بار اور بھی طیبہ سے فلسطین میں آ
راستہ دیکھتی ہے مسجد اقصیٰ تیرا
ترقی پسند اور کسی زمانے میں شوشلسٹ خیالات رکھنے والے اکثر ادیبوں اور شاعروں پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ یہ لوگ مذہب سے دور ہو گئے تھے اور یہ کہ انھوں نے نعت کی صنف میں اس ڈر سے شاعری نہیں کی کہ کہیں انھیں رجعت پسندی یا مولویت کا طعنہ نہ دیا جائے لیکن تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ایک بے بنیاد پراپیگنڈہ ہے ہم دیکھتے ہیں کہ اکا دکا مستثنیات سے قطع نظر ہر ترقی پسند شاعر کے کلام میں نعتیں اور نعتیہ اشعار موجود ہیں۔ یہاں تک کہ پکے کمیونسٹ قرار دیے جانے والے شاعروں مثلاً فیض صاحب، عارف عبدالمتین اور ظہیر کاشمیری کے ہاں بھی نہ صرف نعتیہ کلام ملتا ہے بلکہ اس کا معیار بھی بہت عمدہ ہے کہ بقول شخصے رسولِ پاکؐ سے زیادہ ترقی پسند انسان تو تاریخ نے پیدا ہی نہیں کیا۔ آپؐ کی شخصیت کے اس رخ کو قاسمی صاحب نے خاص طور پر اپنی نعتوں میں اجاگر کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں:
یوں تو ہر دور مہکتی ہوئی نیندیں لایا
تیرا پیغام مگر خواب نہ بننے پایا
قصر مرمر سے شہنشاہ نے ازراہِ غرور
تیری کٹیا کو جو دیکھا تو بہت شرمایا
اور یہ کہ
اس قدر کون محبت کا صلہ دیتا ہے
اس کا بندہ ہوں جو بندے کو خدا دیتا ہے
جدید اردو نعت میں احمد ندیم قاسمی مرحوم کی نعت کو یہ اختصاص بھی حاصل ہے کہ اس نے دہریت اور الحاد کے دور عروج میں اللہ کی وحدانیت اور نبی آخر الزماں کی رحمت اور انسانوں سے محبت کو ان روایتی حمدیہ اور نعتیہ مضامین پر ترجیح دی جن میں اندھی عقیدت تو ہوتی ہے مگر بصیرت کا فقدان ہوتا ہے جو آدمی کو انسان اور پھر ان کو مرد مومن کے درجے پر فائز کرتا ہے۔ یہ مضامین ان کی غزلوں اور نظموں میں بھی بار بار سامنے آتے ہیں۔ مثال کے طور پر ان کی ایک غزل کا یہ مطلع آج کے عدم برداشت، مسلک پرست اور شدت پسندی کے دور میں ہمیں قطبی ستارے کی طرح چمکتا اور دمکتا دکھائی دیتا ہے کہ
درگزر کرنے کی عادت سیکھو
اے فرشتو! بشیریت سیکھو