عظیم مزدور رہنما عثمان غنی شہید
سندھ دھرتی اور مزدور تحریک کا یہ لافانی کردار کراچی کے قدیم علاقہ چنیسر گوٹھ میں پیدا ہوا
ستمبر کا مہینہ تاریخی طور پر ان مہینوں میں شمار ہوتا ہے جس میں پاکستان کوغم بھی ملے اور خوشیاں بھی۔ 11 ستمبر کو بانی پاکستان ہم سے رخصت ہوئے ، بھارت نے 6 ستمبر 1965کو ہم پر جنگ مسلط کی۔ 17 ستمبر 1995 ہی کی منحوس تاریخ تھی، جب پاکستان کے ایک عظیم مزدور رہنما عثمان غنی کو دن دیہاڑے شہید کر دیا گیا۔ آج اس مزدور رہنما عثمان غنی کی 29 ویں برسی ہے۔
سندھ دھرتی اور مزدور تحریک کا یہ لافانی کردار کراچی کے قدیم علاقہ چنیسر گوٹھ میں پیدا ہوا اور مرتے دم تک اْس نے اپنے آبائی علاقہ میں رہائش کو نہیں چھوڑا۔ نو جوان عثمان غنی نے اپنی عملی زندگی کا آغاز بینک کی ملازمت سے کیا، اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے علاقہ میں سیاسی طور پر پی پی پی سے بھی منسلک رہے۔
بینک میں انھوں نے ٹریڈ یونین تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کیا اور جلد ہی وہ ملازمین کے حقوق کے چیمپین کے طور پر ابھرے اور انھیں سی بی اے یونین کے صدر کے طور پر منتخب کر لیا گیا۔ عثمان غنی نے اس کامیابی کے بعد کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ، وہ آگے ہی بڑھتے رہے ، وہ اپنے ادارہ کی ٹریڈ یونین فیڈریشن کے مرکزی رہنما بھی منتخب ہوئے۔ انھیں پاکستان بینکس امپلائز فیڈ ریشن جس کا شمار 1970 تا 1990 کی دیہائیوں میں پاکستان کی بڑی ملک گیر اور فعال مزدور تنظیموں میں ہوتا تھا کا مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل منتخب کر لیا گیا اوریوں انتہائی تیز رفتاری مگر استقامت کے ساتھ وہ پاکستان کی مزدور تحریک کے کارواں میں شامل اور آگے بڑھتے رہے۔
انھوں نے بینک ملازمین کے حقوق کے حصول اور ان کے روز گار کے تحفظ کے لیے بے مثال جدوجہدکی اور قربانیاں دیں۔ اس ضمن میں انھیں متعدد مرتبہ قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔ ان کی پہلی گرفتاری اْس وقت عمل میں آئی کہ جب وہ بینک کے ہیڈ آفس کے مرکزی ہال میں ایک احتجاجی جلسہ سے خطاب کر رہے تھے۔ پولیس نے اس اجتماع پر دھاوا بول دیا اور لاٹھی چارج کرتے ہوئے اسٹیج پر چڑھ کر عثمان غنی کو گرفتار کر کے جیل منتقل کر دیا، یہ گرفتاری ان کی قربانیوں کا آغاز تھی، اس کے بعد یہ سلسہ ان کی زندگی کے آخری چند سالوں کے دوران بھی جاری رہا۔
اس مزدور رہنما کی آخری گرفتاری اوائل 1991 میں نواز شریف کے دور حکومت میں اس وقت عمل میں لائی گئی کہ جب پاکستان کی تمام متحرک سیکڑوں مزدور تنظیموں نے اے پی ایس ای ڈبلیو اے سی کے نام سے پرائیویٹائیزیشن کے خلاف ایک ملکی گیر اتحاد قائم کیا اور پاکستان کے تقریباً تمام ہی صنعتی اور تجارتی اداروں کے ملازمین نے ایک دن کی علامتی مگر مکمل ہڑتال کی، اس ہڑتال کی پاداش میں شہید عثمان غنی کو ان کے دفتر سے گرفتار کر لیا گیا جب کہ راقم الحروف کو ان کی گرفتاری کے دو یا تین دن کے بعد میکلوڈ روڈ سے اس جلسے سے گرفتار کیا گیا جو عثمان غنی کی گرفتاری کے خلاف تمام بینکس ملازمین نے مشترکہ طور پر منعقد کیا تھا، ہمیں کراچی سینٹرل جیل منتقل کر دیا گیا اور ہماری رہائی اس وقت عمل میں آئی جب نواز شریف حکومت نے اس بینک کو فروخت کر دیا جہاں عثمان غنی ملازم تھے۔
ان کی زندگی کے کم از کم تین پہلو نہایت اہم ہیں، وہ ملک کے ایک اہم اور بڑے مزدوررہنما تھے۔ انھوں نے پوری زندگی مزدوروں کے حقوق کی جدو جہد میں گزاری ، وہ پی پی پی کے انتہائی جانثار رہنماؤں میں شمار کیئے جاتے تھے جن کو شہید بینظیر بھٹو کی قربت اور شفقت کا اعزاز بھی حاصل تھا ، یہ بتانا ضروری ہے کہ پیپلز لیبر بیورو کی تنظیم قائم کرنے کے لیے شہید بینظیر بھٹو کو قائل کرنے میں بنیادی کردار بھی شہید عثمان غنی ہی کا تھا ، وہ ایک سماجی کارکن بھی تھے اور اپنے رہائشی علاقہ میں ہمیشہ غریب عوام کے درمیان رہتے تھے، یہی وجہ ہے کہ آج بھی چنیسر گوٹھ کی عوام انھیں نمناک آنکھوں ساتھ یاد کرتے ہیں۔
اس عظیم مزدور ر ہنما کو سفاک قاتلوں نے گولیوں کی بوچھاڑ کر کے 17 ستمبر 1995 کے منحوس دن جب وہ اپنی رہائش گاہ سے دفتر جانے کے لیے نکلے ہی تھے کہ قریبی پل پر انھیں گھات لگا کر شہیدکر دیا گیا (انا للہ وانا الیہ راجعون ) ۔
تاریخ کا سفر بھی عجیب و غریب رخ اختیار کرتا ہے۔ عثمان غنی کے قاتلوں اور اْن کے پشت پناہوں کو یہ گمان رہا ہو گا کہ انھوں نے ایک شمع کو گل کر دیا ہے جب کہ وہ یہ بھول گئے کہ ہمیشہ ایک شمع کی لو سے دوسری شمع روشن ہوتی ہے۔ عثمان تو اپنی جد و جہد سے بھری زندگی گزار کر سفر آخرت پر روانہ ہو گئے لیکن ان کے ہونہار فرزند سعید غنی نے اپنے عظیم والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسی کانٹوں بھرے سیاست کے راستے کا انتخاب کیا جو اْن کو اپنے شہید والد سے ورثہ میں ملا تھا۔
سعید غنی کا شمار ان فرزندان کراچی میں کیا جا سکتا ہے کہ جنہوں نے انتہائی نو جوانی میں میدان سیاست میں قدم رکھا ، بلدیاتی سیاست سے آغاز کیا،پھر وہ سینیٹر منتخب ہوئے ، از خود سینیٹر شپ چھوڑ دی ، کراچی میں اپنے حلقہ رہائش سے ایک نہیں بلکہ دومرتبہ رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے ، وزیر محنت بنے ، وزیر تعلیم کی ذمے داریاں نبھائیں اور اس وقت وزارت بلدیات سنبھالے ہوئے ہیں۔ اُدھرپی پی پی کی تنظیم میں بھی وہ گراس روٹ لیول سے شروع ہوئے اور اب وہ کراچی ڈویژن کی صدارت کے عہدے پر فائض ہیں ، انھیں پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو کا مکمل اعتماد بھی حاصل ہے۔ سعید غنی ایک Self Made سیاستدان ہیں ، صوبہ سندھ اور اْن کے آبائی شہر کراچی کو ان سے بہت ساری اْمیداورتوقعات وابستہ ہیں جن پر وہ انشاء اللہ و تعالی پورا بھی اتریں گے۔
(29 ویں برسی پر خصوصی مضمون)
سندھ دھرتی اور مزدور تحریک کا یہ لافانی کردار کراچی کے قدیم علاقہ چنیسر گوٹھ میں پیدا ہوا اور مرتے دم تک اْس نے اپنے آبائی علاقہ میں رہائش کو نہیں چھوڑا۔ نو جوان عثمان غنی نے اپنی عملی زندگی کا آغاز بینک کی ملازمت سے کیا، اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے علاقہ میں سیاسی طور پر پی پی پی سے بھی منسلک رہے۔
بینک میں انھوں نے ٹریڈ یونین تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کیا اور جلد ہی وہ ملازمین کے حقوق کے چیمپین کے طور پر ابھرے اور انھیں سی بی اے یونین کے صدر کے طور پر منتخب کر لیا گیا۔ عثمان غنی نے اس کامیابی کے بعد کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ، وہ آگے ہی بڑھتے رہے ، وہ اپنے ادارہ کی ٹریڈ یونین فیڈریشن کے مرکزی رہنما بھی منتخب ہوئے۔ انھیں پاکستان بینکس امپلائز فیڈ ریشن جس کا شمار 1970 تا 1990 کی دیہائیوں میں پاکستان کی بڑی ملک گیر اور فعال مزدور تنظیموں میں ہوتا تھا کا مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل منتخب کر لیا گیا اوریوں انتہائی تیز رفتاری مگر استقامت کے ساتھ وہ پاکستان کی مزدور تحریک کے کارواں میں شامل اور آگے بڑھتے رہے۔
انھوں نے بینک ملازمین کے حقوق کے حصول اور ان کے روز گار کے تحفظ کے لیے بے مثال جدوجہدکی اور قربانیاں دیں۔ اس ضمن میں انھیں متعدد مرتبہ قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔ ان کی پہلی گرفتاری اْس وقت عمل میں آئی کہ جب وہ بینک کے ہیڈ آفس کے مرکزی ہال میں ایک احتجاجی جلسہ سے خطاب کر رہے تھے۔ پولیس نے اس اجتماع پر دھاوا بول دیا اور لاٹھی چارج کرتے ہوئے اسٹیج پر چڑھ کر عثمان غنی کو گرفتار کر کے جیل منتقل کر دیا، یہ گرفتاری ان کی قربانیوں کا آغاز تھی، اس کے بعد یہ سلسہ ان کی زندگی کے آخری چند سالوں کے دوران بھی جاری رہا۔
اس مزدور رہنما کی آخری گرفتاری اوائل 1991 میں نواز شریف کے دور حکومت میں اس وقت عمل میں لائی گئی کہ جب پاکستان کی تمام متحرک سیکڑوں مزدور تنظیموں نے اے پی ایس ای ڈبلیو اے سی کے نام سے پرائیویٹائیزیشن کے خلاف ایک ملکی گیر اتحاد قائم کیا اور پاکستان کے تقریباً تمام ہی صنعتی اور تجارتی اداروں کے ملازمین نے ایک دن کی علامتی مگر مکمل ہڑتال کی، اس ہڑتال کی پاداش میں شہید عثمان غنی کو ان کے دفتر سے گرفتار کر لیا گیا جب کہ راقم الحروف کو ان کی گرفتاری کے دو یا تین دن کے بعد میکلوڈ روڈ سے اس جلسے سے گرفتار کیا گیا جو عثمان غنی کی گرفتاری کے خلاف تمام بینکس ملازمین نے مشترکہ طور پر منعقد کیا تھا، ہمیں کراچی سینٹرل جیل منتقل کر دیا گیا اور ہماری رہائی اس وقت عمل میں آئی جب نواز شریف حکومت نے اس بینک کو فروخت کر دیا جہاں عثمان غنی ملازم تھے۔
ان کی زندگی کے کم از کم تین پہلو نہایت اہم ہیں، وہ ملک کے ایک اہم اور بڑے مزدوررہنما تھے۔ انھوں نے پوری زندگی مزدوروں کے حقوق کی جدو جہد میں گزاری ، وہ پی پی پی کے انتہائی جانثار رہنماؤں میں شمار کیئے جاتے تھے جن کو شہید بینظیر بھٹو کی قربت اور شفقت کا اعزاز بھی حاصل تھا ، یہ بتانا ضروری ہے کہ پیپلز لیبر بیورو کی تنظیم قائم کرنے کے لیے شہید بینظیر بھٹو کو قائل کرنے میں بنیادی کردار بھی شہید عثمان غنی ہی کا تھا ، وہ ایک سماجی کارکن بھی تھے اور اپنے رہائشی علاقہ میں ہمیشہ غریب عوام کے درمیان رہتے تھے، یہی وجہ ہے کہ آج بھی چنیسر گوٹھ کی عوام انھیں نمناک آنکھوں ساتھ یاد کرتے ہیں۔
اس عظیم مزدور ر ہنما کو سفاک قاتلوں نے گولیوں کی بوچھاڑ کر کے 17 ستمبر 1995 کے منحوس دن جب وہ اپنی رہائش گاہ سے دفتر جانے کے لیے نکلے ہی تھے کہ قریبی پل پر انھیں گھات لگا کر شہیدکر دیا گیا (انا للہ وانا الیہ راجعون ) ۔
تاریخ کا سفر بھی عجیب و غریب رخ اختیار کرتا ہے۔ عثمان غنی کے قاتلوں اور اْن کے پشت پناہوں کو یہ گمان رہا ہو گا کہ انھوں نے ایک شمع کو گل کر دیا ہے جب کہ وہ یہ بھول گئے کہ ہمیشہ ایک شمع کی لو سے دوسری شمع روشن ہوتی ہے۔ عثمان تو اپنی جد و جہد سے بھری زندگی گزار کر سفر آخرت پر روانہ ہو گئے لیکن ان کے ہونہار فرزند سعید غنی نے اپنے عظیم والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسی کانٹوں بھرے سیاست کے راستے کا انتخاب کیا جو اْن کو اپنے شہید والد سے ورثہ میں ملا تھا۔
سعید غنی کا شمار ان فرزندان کراچی میں کیا جا سکتا ہے کہ جنہوں نے انتہائی نو جوانی میں میدان سیاست میں قدم رکھا ، بلدیاتی سیاست سے آغاز کیا،پھر وہ سینیٹر منتخب ہوئے ، از خود سینیٹر شپ چھوڑ دی ، کراچی میں اپنے حلقہ رہائش سے ایک نہیں بلکہ دومرتبہ رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے ، وزیر محنت بنے ، وزیر تعلیم کی ذمے داریاں نبھائیں اور اس وقت وزارت بلدیات سنبھالے ہوئے ہیں۔ اُدھرپی پی پی کی تنظیم میں بھی وہ گراس روٹ لیول سے شروع ہوئے اور اب وہ کراچی ڈویژن کی صدارت کے عہدے پر فائض ہیں ، انھیں پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو کا مکمل اعتماد بھی حاصل ہے۔ سعید غنی ایک Self Made سیاستدان ہیں ، صوبہ سندھ اور اْن کے آبائی شہر کراچی کو ان سے بہت ساری اْمیداورتوقعات وابستہ ہیں جن پر وہ انشاء اللہ و تعالی پورا بھی اتریں گے۔
(29 ویں برسی پر خصوصی مضمون)