خوش آمدید
ہم آپ کے لیے تو موبائل فون شاید رابطے کا ذریعہ ہو گا لیکن ضرورت اور سائنس نے اس میں کیا کیا کچھ بھر دیا ہے
ISLAMABAD:
اگر آپ پوسٹ ماسٹر جنرل (پی ایم جی) پنجاب کی عمارت کے آگے کھڑے ہو کر سامنے مال روڈ لاہور کی طرف دیکھیں تو سب سے پہلے دائیں طرف سول سیکریٹریٹ تو بائیں جانب ضلع کچہری کی عمارتیں ملیں گی۔ کچہری کے سامنے گورنمنٹ کالج اور مخالف سمت میں ٹاؤن ہال پر نظر پڑے گی۔ مال روڈ پر کینٹ کی طرف چلنا شروع کریں تو بائیں جانب پنجاب یونیورسٹی کی عمارت تو اس کے سامنے سڑک پار لاہور میوزیم نظر آتا ہے۔ آگے چلیں تو دائیں طرف عدالت عالیہ کی عمارت ہے۔
مال روڈ ہی پر چڑیا گھر اس سے آگے چل کر لارنس گارڈن، اس کے سامنے گورنر ہاؤس۔پھر آمنے سامنے GOR اور ایچیسن کالج جس کے سامنے آگے سول سروس اکیڈمی نظر آتی ہے۔ یہ تمام عمارتیں گویا سلطنت برطانیہ کی پنجاب میں نمائندہ اور طاقت کی نشانیاں تھیں اور اب بھی موجود اور زیر استعمال ہیں۔ مال روڈ کے قرب ہی میں میو اسپتال ہے جب کہ پنجاب پبلک لائبریری اور بورڈ آف ریونیو بھی مال روڈ سے نصف فرلانگ کے فاصلے پرہیں۔ گوروں کی مشہور گروسری مارکیٹ بھی مال پر تھی جو ایک طویل عرصہ وہی کام کرتی رہی اور اب بھی عمارت کام کی نوعیت بدل کر اسی جگہ موجود ہے۔مندرجہ بالا سولہ عمارتیں جو اگر آپ PMG بلڈنگ سے پانچ کلو میٹر فاصلے کے اندر مال روڈ پر چلیں تو ملیں گی۔ اس صوبے یعنی پنجاب میں انگریز کی حکومت اور موجودگی کی خبر دیتی ہیں اور ان عمارتوں کے ڈیزائن اور ان کے مٹیریل میں بھی یکسانیت اور دبدبہ نظر آئے گا۔ یہ خاص طور پر نوٹ اور غور کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔
ہم آپ کے لیے تو موبائل فون شاید رابطے کا ذریعہ ہو گا لیکن ضرورت اور سائنس نے اس میں کیا کیا کچھ بھر دیا ہے گنوانا مشکل ہو گیا ہے۔ پیغام رسانی، اشتہار بازی اور لطیفہ بازی تو اب معمول کا کھیل ہیں اور یہ کالم تحریر کرنے کی تحریک بھی پروفیسر بشیر احمد کے میسیج سے ہی ملی جس کے ذریعے انھوں نے اطلاع دی کہ انھوں نے گورمانی ہاؤس مین گلبرگ لاہور کے ایک کمرے میں اسٹوڈیو کھول لیا ہے اور صبح 11 بجے تا 4 بجے شام ان سے ملاقات اور منی ایچر پینٹنگز کی زیارت و خرید کی جا سکتی ہے۔ یہ ایک دل خوش کن اطلاع تھی۔
میں نے مال روڈ کی عمارت کا ذکر کرنے کے دوران جان بوجھ کر اس عمارت کا ذکر چھوڑ دیا تھا جو میوزیم کے پہلو میں کھڑی ہے اور جس کی پیشانی پر تحریر ہے۔ کسب کمال کن کہ عزیز جہاں شوی۔ میں نے اس عمارت کا ذکر الگ سے کرنے کا ارادہ پروفیسر بشیر کے SMS کے بعد کیا۔ یہ تھی NCA یعنی نیشنل کالج آف آرٹس لاہور جس کے ساتھ میرا جذباتی لگاؤ ہے کیونکہ یہاں میں نے 1999ء میں اس کی کانووکیشن میں بحیثیت مہمان شرکت کی لیکن یہیں سے گوشہ جگر مہر النساء نے منی ایچر پینٹنگ میں گریجویشن بھی کی تھی۔ پروفیسر بشیر وہاں استاد تھے، پروفیسر پروموٹ ہوئے اور کچھ عرصہ پرنسپل کے طور فرائض انجام دیے۔
برصغیر کے اس مشہور و معروف کالج کی تعمیر 1881ء میں شروع اور تکمیل 1894ء میں ہوئی۔ اس کے آرکیٹیکٹ بھائی رام سنگھ اور انجینئر کنہیا لال تھے۔ اس کی شہرت و اہمیت کا اندازہ اس لیے تو بہرحال ہے کہ اس نے بیشمار نامور فائن آرٹس، پینٹر، ڈیزائنر، فلم و ٹی وی میکر، میوزیشن، آرکیٹکٹ وغیرہ پیدا کیے لیکن ایک وجہ شہرت ریکارڈ کے لیے یہ بھی کہی جا سکتی ہے کہ 1997ء میں ملکہ برطانیہ اس کالج میں بطور خاص آئیں جہاں انھیں ایک Miniature Painting تحفے میں دی گئی تھی۔ ملکہ نے NCA کے علاوہ لاہور میں بادشاہی مسجد اور ایک مشنری اسکول کا دورہ کیا۔
اس کالم کی ابتدا چونکہ ایک ایسے فن کار کے SMS سے ہوئی جو ایک نامی گرامی آرٹس کالج کا استاد، پروفیسر اور پرنسپل بھی رہا اور اس کے فن کار شاگرد ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس لیے اس موضوع کو تشنہ نہیں چھوڑا جا سکتا۔ پروفیسر بشیر خود بہت بڑے منی ایچرپینٹر ہیں جن کی تصاویر کی سولو اور دیگر نمائشوں کی تعداد اور ان کی ستائش کا شمار نہیں۔
نیشنل کالج آف آرٹ پہلے میو اسکول آف آرٹ کہلاتا تھا اس کے پہلے پرنسپل مسٹر کپلن تھے۔ ان کے بعد بہت سے فن کار پرنسپل کے عہدے پر فائز رہے جن میں شاکر علی، خالد اقبال، عباسی عابدی، اقبال حسن، ساجدہ ونڈل، سلیمہ ہاشمی اور نازش عطا اللہ کے نام معتبر ہیں۔
اس کالج کے معروف اساتذہ اور متعلقین میں بہت سے نام ایسے ہیں جن کو آرٹ کے دلدادہ کبھی بھلا سکتے ہیں نہ ہی نظر انداز کر سکتے ہیں۔ ان نامی گرامی شخصیات میں استاد لطیف چغتائی، میراں بخش، حاجی محمد شریف، عبدالرحمن چغتائی، ماسٹر خادم حسین، ماسٹر شیر محمد، شاکر علی، نیئر علی دادا، خالد اقبال کولن ڈیوڈ، شیخ شجاع اللہ، احمد خاں، عسکری میاں ایرانی اور محمد آصف بہت بڑے نام ہیں۔
ابھی چند ماہ قبل جاوید اقبال کارٹونسٹ کے ہمراہ سعید اختر صاحب کی آرٹ گیلری جانے کا اتفاق ہوا تو پروفیسر صاحب کو مصروف ہی نہیں پایا اپنے نئے فن پاروں کی تخلیق میں ڈوبے ہوئے دیکھ کر خود اپنی طبیعت میں جولانی اور سرور سے سرشاری پائی۔
جب NCA کا ذکر ہو تو جس طرح ہم سلیمہ ہاشمی، وحیدہ ونڈل، شاکر علی، سعید اختر، نیئر علی دادا، عبدالرحمن چغتائی، خالد اقبال، نازش عطاء اللہ، کولن ڈیوڈ اور پروفیسر بشیر کو یاد کیے بغیر نہیں رہ سکتے اسی طرح نصف صدی کے لگ بھگ ایک انگریزی اخبار میں چھپنے والے انور صاحب کے کارٹون ''ننھا'' کو اور ان کے حوالے سے پروفیسر اعجاز انور عرف ننھا کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے۔ اعجاز انور نے بھی رائیونڈ روڈ پر The House of Nanna کے نام سے آرٹ گیلری بنا رکھی ہے۔
پروفیسر بشیر احمد کا نام دوبارہ ذہن آتے ہی مجھے ڈاکٹر منور احمد قاضی کی اپنے دادا ڈاکٹر قاضی کرم الٰہی پر لکھی بائیوگرافی یاد آئی جس میں کرم الٰہی صاحب کا نہایت اعلیٰ پینسل سکیچ ایک اور معروف آرٹسٹ بشیر احمد کا بنایا ہوا ہے۔ ڈاکٹر منور احمد ہیں تو ماہر امراض بچگان لیکن آرٹ کے دلدادہ اور زبردست کریٹک اور کلکٹر ہیں۔ انھوں نے پرانے شہر لاہور پر اعجاز انور کی بنائی ہوئی ڈیڑھ سو پینٹنگز میں سے بیشتر دیکھ رکھی ہیں۔
چغتائی ایوارڈ یافتہ پروفیسر بشیر احمد کی اپنی بنائی ہوئی پینٹنگز کا ذکر ان کی تعریف کے زمرے ہی میں آئیگا کہ ان کی نمائش پاکستان میں اور بیرون ملک ہوتی رہتی ہے لیکن 1982ء سے منی ایچر کا ڈگری پروگرام NCA میں شروع کروانا ان کی اس صنف میں ناقابل فراموش خدمت ہے۔ ان کے نامور شاگردوں میں شازیہ سکندر، عمران قریشی، نصریٰ لطیف اور فاطمہ زہرہ حسن کا نام لیا جا سکتا ہے۔ منی ایچر پینٹنگ ایک دقت طلب اور نایاب آرٹ ہے۔ بشیر صاحب نے اب جو آرٹ گیلری قائم کر کے میرے علاوہ اور بہت سوں کو اس بارے میں مطلع کیا ہے ایک اچھی ابتدا ہے۔ میں نے کل وہاں ان سے ملاقات کی تو ان کی محنت اور لگن سے متاثر ہوا کہ اس شہر بے اماں میں محبت اور رنگوں کا ایک اور چشمہ پھوٹا ہے۔ خوش آمدید۔
اگر آپ پوسٹ ماسٹر جنرل (پی ایم جی) پنجاب کی عمارت کے آگے کھڑے ہو کر سامنے مال روڈ لاہور کی طرف دیکھیں تو سب سے پہلے دائیں طرف سول سیکریٹریٹ تو بائیں جانب ضلع کچہری کی عمارتیں ملیں گی۔ کچہری کے سامنے گورنمنٹ کالج اور مخالف سمت میں ٹاؤن ہال پر نظر پڑے گی۔ مال روڈ پر کینٹ کی طرف چلنا شروع کریں تو بائیں جانب پنجاب یونیورسٹی کی عمارت تو اس کے سامنے سڑک پار لاہور میوزیم نظر آتا ہے۔ آگے چلیں تو دائیں طرف عدالت عالیہ کی عمارت ہے۔
مال روڈ ہی پر چڑیا گھر اس سے آگے چل کر لارنس گارڈن، اس کے سامنے گورنر ہاؤس۔پھر آمنے سامنے GOR اور ایچیسن کالج جس کے سامنے آگے سول سروس اکیڈمی نظر آتی ہے۔ یہ تمام عمارتیں گویا سلطنت برطانیہ کی پنجاب میں نمائندہ اور طاقت کی نشانیاں تھیں اور اب بھی موجود اور زیر استعمال ہیں۔ مال روڈ کے قرب ہی میں میو اسپتال ہے جب کہ پنجاب پبلک لائبریری اور بورڈ آف ریونیو بھی مال روڈ سے نصف فرلانگ کے فاصلے پرہیں۔ گوروں کی مشہور گروسری مارکیٹ بھی مال پر تھی جو ایک طویل عرصہ وہی کام کرتی رہی اور اب بھی عمارت کام کی نوعیت بدل کر اسی جگہ موجود ہے۔مندرجہ بالا سولہ عمارتیں جو اگر آپ PMG بلڈنگ سے پانچ کلو میٹر فاصلے کے اندر مال روڈ پر چلیں تو ملیں گی۔ اس صوبے یعنی پنجاب میں انگریز کی حکومت اور موجودگی کی خبر دیتی ہیں اور ان عمارتوں کے ڈیزائن اور ان کے مٹیریل میں بھی یکسانیت اور دبدبہ نظر آئے گا۔ یہ خاص طور پر نوٹ اور غور کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔
ہم آپ کے لیے تو موبائل فون شاید رابطے کا ذریعہ ہو گا لیکن ضرورت اور سائنس نے اس میں کیا کیا کچھ بھر دیا ہے گنوانا مشکل ہو گیا ہے۔ پیغام رسانی، اشتہار بازی اور لطیفہ بازی تو اب معمول کا کھیل ہیں اور یہ کالم تحریر کرنے کی تحریک بھی پروفیسر بشیر احمد کے میسیج سے ہی ملی جس کے ذریعے انھوں نے اطلاع دی کہ انھوں نے گورمانی ہاؤس مین گلبرگ لاہور کے ایک کمرے میں اسٹوڈیو کھول لیا ہے اور صبح 11 بجے تا 4 بجے شام ان سے ملاقات اور منی ایچر پینٹنگز کی زیارت و خرید کی جا سکتی ہے۔ یہ ایک دل خوش کن اطلاع تھی۔
میں نے مال روڈ کی عمارت کا ذکر کرنے کے دوران جان بوجھ کر اس عمارت کا ذکر چھوڑ دیا تھا جو میوزیم کے پہلو میں کھڑی ہے اور جس کی پیشانی پر تحریر ہے۔ کسب کمال کن کہ عزیز جہاں شوی۔ میں نے اس عمارت کا ذکر الگ سے کرنے کا ارادہ پروفیسر بشیر کے SMS کے بعد کیا۔ یہ تھی NCA یعنی نیشنل کالج آف آرٹس لاہور جس کے ساتھ میرا جذباتی لگاؤ ہے کیونکہ یہاں میں نے 1999ء میں اس کی کانووکیشن میں بحیثیت مہمان شرکت کی لیکن یہیں سے گوشہ جگر مہر النساء نے منی ایچر پینٹنگ میں گریجویشن بھی کی تھی۔ پروفیسر بشیر وہاں استاد تھے، پروفیسر پروموٹ ہوئے اور کچھ عرصہ پرنسپل کے طور فرائض انجام دیے۔
برصغیر کے اس مشہور و معروف کالج کی تعمیر 1881ء میں شروع اور تکمیل 1894ء میں ہوئی۔ اس کے آرکیٹیکٹ بھائی رام سنگھ اور انجینئر کنہیا لال تھے۔ اس کی شہرت و اہمیت کا اندازہ اس لیے تو بہرحال ہے کہ اس نے بیشمار نامور فائن آرٹس، پینٹر، ڈیزائنر، فلم و ٹی وی میکر، میوزیشن، آرکیٹکٹ وغیرہ پیدا کیے لیکن ایک وجہ شہرت ریکارڈ کے لیے یہ بھی کہی جا سکتی ہے کہ 1997ء میں ملکہ برطانیہ اس کالج میں بطور خاص آئیں جہاں انھیں ایک Miniature Painting تحفے میں دی گئی تھی۔ ملکہ نے NCA کے علاوہ لاہور میں بادشاہی مسجد اور ایک مشنری اسکول کا دورہ کیا۔
اس کالم کی ابتدا چونکہ ایک ایسے فن کار کے SMS سے ہوئی جو ایک نامی گرامی آرٹس کالج کا استاد، پروفیسر اور پرنسپل بھی رہا اور اس کے فن کار شاگرد ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس لیے اس موضوع کو تشنہ نہیں چھوڑا جا سکتا۔ پروفیسر بشیر خود بہت بڑے منی ایچرپینٹر ہیں جن کی تصاویر کی سولو اور دیگر نمائشوں کی تعداد اور ان کی ستائش کا شمار نہیں۔
نیشنل کالج آف آرٹ پہلے میو اسکول آف آرٹ کہلاتا تھا اس کے پہلے پرنسپل مسٹر کپلن تھے۔ ان کے بعد بہت سے فن کار پرنسپل کے عہدے پر فائز رہے جن میں شاکر علی، خالد اقبال، عباسی عابدی، اقبال حسن، ساجدہ ونڈل، سلیمہ ہاشمی اور نازش عطا اللہ کے نام معتبر ہیں۔
اس کالج کے معروف اساتذہ اور متعلقین میں بہت سے نام ایسے ہیں جن کو آرٹ کے دلدادہ کبھی بھلا سکتے ہیں نہ ہی نظر انداز کر سکتے ہیں۔ ان نامی گرامی شخصیات میں استاد لطیف چغتائی، میراں بخش، حاجی محمد شریف، عبدالرحمن چغتائی، ماسٹر خادم حسین، ماسٹر شیر محمد، شاکر علی، نیئر علی دادا، خالد اقبال کولن ڈیوڈ، شیخ شجاع اللہ، احمد خاں، عسکری میاں ایرانی اور محمد آصف بہت بڑے نام ہیں۔
ابھی چند ماہ قبل جاوید اقبال کارٹونسٹ کے ہمراہ سعید اختر صاحب کی آرٹ گیلری جانے کا اتفاق ہوا تو پروفیسر صاحب کو مصروف ہی نہیں پایا اپنے نئے فن پاروں کی تخلیق میں ڈوبے ہوئے دیکھ کر خود اپنی طبیعت میں جولانی اور سرور سے سرشاری پائی۔
جب NCA کا ذکر ہو تو جس طرح ہم سلیمہ ہاشمی، وحیدہ ونڈل، شاکر علی، سعید اختر، نیئر علی دادا، عبدالرحمن چغتائی، خالد اقبال، نازش عطاء اللہ، کولن ڈیوڈ اور پروفیسر بشیر کو یاد کیے بغیر نہیں رہ سکتے اسی طرح نصف صدی کے لگ بھگ ایک انگریزی اخبار میں چھپنے والے انور صاحب کے کارٹون ''ننھا'' کو اور ان کے حوالے سے پروفیسر اعجاز انور عرف ننھا کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے۔ اعجاز انور نے بھی رائیونڈ روڈ پر The House of Nanna کے نام سے آرٹ گیلری بنا رکھی ہے۔
پروفیسر بشیر احمد کا نام دوبارہ ذہن آتے ہی مجھے ڈاکٹر منور احمد قاضی کی اپنے دادا ڈاکٹر قاضی کرم الٰہی پر لکھی بائیوگرافی یاد آئی جس میں کرم الٰہی صاحب کا نہایت اعلیٰ پینسل سکیچ ایک اور معروف آرٹسٹ بشیر احمد کا بنایا ہوا ہے۔ ڈاکٹر منور احمد ہیں تو ماہر امراض بچگان لیکن آرٹ کے دلدادہ اور زبردست کریٹک اور کلکٹر ہیں۔ انھوں نے پرانے شہر لاہور پر اعجاز انور کی بنائی ہوئی ڈیڑھ سو پینٹنگز میں سے بیشتر دیکھ رکھی ہیں۔
چغتائی ایوارڈ یافتہ پروفیسر بشیر احمد کی اپنی بنائی ہوئی پینٹنگز کا ذکر ان کی تعریف کے زمرے ہی میں آئیگا کہ ان کی نمائش پاکستان میں اور بیرون ملک ہوتی رہتی ہے لیکن 1982ء سے منی ایچر کا ڈگری پروگرام NCA میں شروع کروانا ان کی اس صنف میں ناقابل فراموش خدمت ہے۔ ان کے نامور شاگردوں میں شازیہ سکندر، عمران قریشی، نصریٰ لطیف اور فاطمہ زہرہ حسن کا نام لیا جا سکتا ہے۔ منی ایچر پینٹنگ ایک دقت طلب اور نایاب آرٹ ہے۔ بشیر صاحب نے اب جو آرٹ گیلری قائم کر کے میرے علاوہ اور بہت سوں کو اس بارے میں مطلع کیا ہے ایک اچھی ابتدا ہے۔ میں نے کل وہاں ان سے ملاقات کی تو ان کی محنت اور لگن سے متاثر ہوا کہ اس شہر بے اماں میں محبت اور رنگوں کا ایک اور چشمہ پھوٹا ہے۔ خوش آمدید۔