الزامات سے بھری کتاب
بلوچستان میں ایک خاص طریقے سے احساسِ محرومی کے جذبات کو انگیخت دینے کا سلسلہ جاری ہے۔
ISLAMABAD:
بلوچستان میں ایک خاص طریقے سے احساسِ محرومی کے جذبات کو انگیخت دینے کا سلسلہ جاری ہے۔ دانستہ کوشش کی جا رہی ہے کہ بلوچستان کی بدامنی اور شورش کا سارا ملبہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز پر ڈال دیا جائے جو پہلے ہی جانوں کی قربانیاں دے کر ملک و قوم کی خدمت میں جُتے ہوئے ہیں۔
''بلوچستان اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن'' (آزاد) کے لطیف جوہر نے کراچی پریس کلب کے سامنے جس طرح طویل بھوک ہڑتال کیے رکھی، اسے پاکستان دشمن قوتوں نے بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ لطیف جوہر کا دعویٰ تھا کہ ''بی ایس او'' (آزاد) کے چیئرمین زاہد بلوچ کو غیر مرئی قوتوں نے غائب کر دیا ہے اور جب تک وہ بازیاب نہیں ہو جاتے، بھوک ہڑتال ختم نہیں کروں گا۔ ان کی طرف سے یہ بیان بھی سامنے آیا کہ مَیں اگر دورانِ بھوک ہڑتال مر گیا تو میری تنظیم کے دیگر تیرہ ساتھی تیار بیٹھے ہیں جو میرے بعد اسی طرح اور اسی مقصد کے تحت بھوک ہڑتال جاری رکھیں گے۔
خدا کا شکر ہے کہ لطیف جوہر 46 دنوں بعد بھوک ہڑتال ختم کر کے بہت سے ذہنوں پر چھائے دباؤ کو بھی ختم کر چکے ہیں لیکن اس واقعہ کی جہاں ملک بھر میں باز گشت سنائی دی گئی، وہیں ایک خاص منصوبے کے تحت غیر ملکی این جی اوز اور غیر ملکی خبر رساں اداروں نے اسے اپنے مقاصد کے حصول اور عالمی سطح پر پاکستان کو زک پہنچانے کی کوششیں بھی کیں۔ یہ عجب اتفاق ہے کہ گزشتہ دنوں جب کراچی میں لطیف جوہر بھوک ہڑتال پر تھے، بلوچستان میں ایف سی اور دہشت گردوں کے درمیان گھمسان کا معرکہ برپا ہوا۔
بلوچستان کے صوبائی وزیر داخلہ جناب سرفراز احمد بگٹی نے میڈیا کو اس بارے میں جو تفصیلات بتائی ہیں، یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہیں کہ غیر ملکی طاقتیں (خصوصاً بھارت) کس تسلسل اور شدت کے ساتھ بلوچستان میں بعض مرکزِ گریز قوتوں کی ہر طرح سے پشت پناہی کر رہی ہیں۔ 9 جون 2014ء کو ایک خبر شائع ہوئی کہ بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی کے علاقے ''گنڈیاری'' میں بی آر اے اور ایف سی کے درمیان مقاتلہ نما مقابلہ ہوا ہے۔ سرفراز بگٹی صاحب کے بقول، ایک سرچ آپریشن کے دوران بی آر اے کے چھپے لوگوں نے اچانک فائر کھول دیا۔ جوابی فائرنگ میں ان کے دس مشتبہ لوگ مارے گئے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ چار دن کے وقفے میں یہ دوسرا سانحہ پیش آیا ہے۔
ساتھ ہی آئی جی، ایف سی بلوچستان میجر جنرل محمد اعجاز شاہد کا بیان سامنے آیا ہے کہ صوبائی حکومت کے احکامات کے تحت مجرموں اور مسلح افراد کے خلاف ٹارگٹ آپریشن جاری رہے گا۔ اس خوفناک واقعہ کے پیشِ نظر ہم بلوچستان میں آنے والے دنوں کی ایک ہلکی سی تصویر بھی دیکھ سکتے ہیں۔ ایک منظر تو یہ ہے کہ دہشت گردی اور نام نہاد احساسِ محرومی کے نام پر انتہا پسندی ہماری قومی رگوں میں اندر تک سرایت کر چکی ہے۔ اس کے خاتمے کے لیے بہت بڑے عزم اور ملک و قوم سے گہری کمٹمنٹ کی ضرورت ہے۔ لاریب ہماری سیکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے اکثریتی وابستگان میں یہ جذبہ بدرجہ اتم موجود ہے لیکن سیاسی لیڈر شپ کو بھی کُھل کر سامنے آنا چاہیے۔
بلوچستان کے حالات کو مزید بگاڑنے اور اس بہانے عالمی سطح پر وطن عزیز کو بدنام کرنے کے لیے مغربی اخبار نویس، فوٹو گرافر اور مصنفین بھی قابلِ مذمت کردار ادا کر رہے ہیں۔ ایسی کتابیں عالمی مارکیٹ میں پھینکی جا رہی ہیں جن میں یہ منظر کشی کی جا رہی ہے کہ بلوچستان میں ''پاکستان کی سیکیورٹی فورسز'' بہت زیادتیاں بھی کر رہی ہیں، بلوچوں کے بنیادی حقوق بھی غصب کیے جا رہے ہیں، پاکستان کے خفیہ ادارے ناپسندیدہ لوگوں کو اٹھا رہے ہیں اور علیحدگی پسندی کی لہر طاقت پکڑ رہی ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے متعلقہ سرکاری اداروں کی طرف سے نہ تو پاکستان کی سیکیورٹی فورسز اور خفیہ اداروں کے خلاف ان گھناؤنے الزامات کا شافی اور کافی جواب دیا جا رہا ہے اور نہ ہی دلچسپی رکھنے والے پاکستانی صحافیوں اور محققین کو ایسے بھرپور مواقع فراہم کیے جا رہے ہیں کہ وہ خود بلوچستان کے ان علاقوں کا دورہ کریں جہاں ''آگ'' لگی ہے تا کہ واپسی پر اپنے مشاہدات کی بنیاد پر اہلِ وطن کو صحیح صورتِ احوال سے آگاہ کر سکیں۔
اگر کبھی کوئی ایسی کوشش کی بھی جاتی ہے (اِلّا ماشاء اللہ) تو وہ اتنی محدود اور انفرادی سطح کی حامل ہوتی ہے کہ اس کے مطلوبہ نتائج سامنے نہیں آتے۔ اور اگر کوئی لکھتا بھی ہے تو اس کی بڑے پیمانے پر تشہیر کرنے سے گریز کیا جاتا ہے جب کہ مغربی اور بھارتی طاقتیں پاکستان کے خلاف سارے حربے بروئے کار لا رہی ہیں۔
ان ہی مغربی طاقتوں کی طرف سے پاکستان اور بلوچستان کے خلاف ایک نئی کتاب مارکیٹ میں آئی ہے جسے BALOCHISTAN: AT A CROSSROADS کے عنوان سے پڑھا جا رہا ہے۔ اسے برطانوی صحافی ولیم مارکس نے لکھا ہے اور بلوچستان کے دور دراز اور ''آتش فشاں بنے علاقوں'' کی خوفناک تصاویر فرانسیسی فوٹوگرافر مارک واٹر لاٹ نے بنائی ہیں۔ جان بوجھ کر کتاب میں ایسی فوٹو شامل کی گئی ہیں جن سے یہ پیغام ابھرتا ہے کہ بلوچوں پر بہت ظلم ہو رہا ہے۔
ولیم مارکس نے الزام لگایا ہے کہ پاکستان کے حکمران بلوچستان کو مکمل طور پر فراموش کر چکے ہیں، بلوچ پاکستانیوں سے اجنبی ہو رہے ہیں۔ مذکورہ کتاب ''بلوچستان ایٹ اے کراس روڈز'' میں شرانگیزی کرتے ہوئے یہ پیغام بھی ابھارنے کی کوشش کی گئی ہے کہ بلوچستان میں ہر جگہ انسانی حقوق کی پامالی ہورہی ہے۔ کتاب مرتب کرنے والوں کا دعویٰ یہ بھی ہے کہ وہ اپنی جان خطروں میں ڈال کر بلوچستان کے طول و عرض میں گئے اور ''حقائق'' کا پتہ چلا کر آئے، کیونکہ پاکستان کے تو کسی صحافی یا فوٹو گرافر کو بلوچستان کے متاثرہ علاقوں میں جانے کی اجازت ہی نہیں ملتی۔
کتاب کے مصنف اور عکاس کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے اس کتاب کے لیے تقریباً بارہ سو کلومیڑ کے دشوار گزار بلوچ علاقوں کا سفر کیا۔ اس سفر میں وہ علیحدگی پسندوں، گوریلا جنگجوؤں اور لاپتہ مردوں کی ماؤں سے ملے اور ''مطلوبہ حقائق'' کا پتہ چلانے کی کوشش کرتے رہے۔ (بڑی تقطیع پر شائع ہونے والی اس کتاب کی قیمت تقریباً آٹھ ہزار روپے ہے۔)
اگر پاکستان خصوصاً بلوچستان کے صحافیوں کو ''متاثرہ'' علاقوں میں جانے کی اجازت نہیں ہے، جیسا کہ ولیم مارکس اور واٹر لاٹ نے دعویٰ کیا ہے، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان دونوں مغربیوں کو بلوچستان کے حساس ترین علاقوں تک رسائی کس نے دی؟ دونوں صاحبان مذکورہ کتاب میں دھڑلے سے کہتے ہیں کہ انھوں نے پاکستان کا ویزہ حاصل کرنے کے بعد بلوچستان کے متاثرہ اور حساس ترین علاقوں میں جانے کے لیے خصوصی اجازت نامے حاصل کیے تھے۔
درست مگر یہ اجازت نامے کس سے حاصل کیے؟ اس راز سے پردہ نہیں اٹھایا گیا ہے۔ حیرت ہے کہ اس تکلیف دہ اور مشکل سفر میں وہ ایران کو عرصہ دراز تک مطلوب رہنے والے عبدالمالک ریگی (''جنداللہ'' کا مبینہ سربراہ) سے ملاقات کرنے میں بھی کامیاب ہو گئے۔ مصنف ولیم مارکس بھی یہ بتانے سے انکاری ہیں کہ انھیں ان سب حساس جگہوں پر کون لے گیا اور وہ کس کے توسط سے پاکستان کی سلامتی کے مخالف عناصر سے لمبی لمبی ملاقاتیں کرنے اور اب ان کی بنیاد پر پاکستان کے خلاف الزامات سے بھری کتاب لکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں؟
ولیم نے اپنے خبث باطن کے تحت، بلوچستان کی آڑ میں، پاکستان کے منہ پر جس طرح کالک ملنے کی گندی حرکت کی ہے، غالباً اسی بنیاد پر گزشتہ دنوں حکومتِ پاکستان نے اسے ویزہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اس زہر افشاں کتاب کا جواب ہر صورت دینا چاہیے لیکن سوال یہ ہے کہ حکومتی صفوں میں اتنی بڑی ہمت کون کرے گا؟
بلوچستان میں ایک خاص طریقے سے احساسِ محرومی کے جذبات کو انگیخت دینے کا سلسلہ جاری ہے۔ دانستہ کوشش کی جا رہی ہے کہ بلوچستان کی بدامنی اور شورش کا سارا ملبہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز پر ڈال دیا جائے جو پہلے ہی جانوں کی قربانیاں دے کر ملک و قوم کی خدمت میں جُتے ہوئے ہیں۔
''بلوچستان اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن'' (آزاد) کے لطیف جوہر نے کراچی پریس کلب کے سامنے جس طرح طویل بھوک ہڑتال کیے رکھی، اسے پاکستان دشمن قوتوں نے بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ لطیف جوہر کا دعویٰ تھا کہ ''بی ایس او'' (آزاد) کے چیئرمین زاہد بلوچ کو غیر مرئی قوتوں نے غائب کر دیا ہے اور جب تک وہ بازیاب نہیں ہو جاتے، بھوک ہڑتال ختم نہیں کروں گا۔ ان کی طرف سے یہ بیان بھی سامنے آیا کہ مَیں اگر دورانِ بھوک ہڑتال مر گیا تو میری تنظیم کے دیگر تیرہ ساتھی تیار بیٹھے ہیں جو میرے بعد اسی طرح اور اسی مقصد کے تحت بھوک ہڑتال جاری رکھیں گے۔
خدا کا شکر ہے کہ لطیف جوہر 46 دنوں بعد بھوک ہڑتال ختم کر کے بہت سے ذہنوں پر چھائے دباؤ کو بھی ختم کر چکے ہیں لیکن اس واقعہ کی جہاں ملک بھر میں باز گشت سنائی دی گئی، وہیں ایک خاص منصوبے کے تحت غیر ملکی این جی اوز اور غیر ملکی خبر رساں اداروں نے اسے اپنے مقاصد کے حصول اور عالمی سطح پر پاکستان کو زک پہنچانے کی کوششیں بھی کیں۔ یہ عجب اتفاق ہے کہ گزشتہ دنوں جب کراچی میں لطیف جوہر بھوک ہڑتال پر تھے، بلوچستان میں ایف سی اور دہشت گردوں کے درمیان گھمسان کا معرکہ برپا ہوا۔
بلوچستان کے صوبائی وزیر داخلہ جناب سرفراز احمد بگٹی نے میڈیا کو اس بارے میں جو تفصیلات بتائی ہیں، یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہیں کہ غیر ملکی طاقتیں (خصوصاً بھارت) کس تسلسل اور شدت کے ساتھ بلوچستان میں بعض مرکزِ گریز قوتوں کی ہر طرح سے پشت پناہی کر رہی ہیں۔ 9 جون 2014ء کو ایک خبر شائع ہوئی کہ بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی کے علاقے ''گنڈیاری'' میں بی آر اے اور ایف سی کے درمیان مقاتلہ نما مقابلہ ہوا ہے۔ سرفراز بگٹی صاحب کے بقول، ایک سرچ آپریشن کے دوران بی آر اے کے چھپے لوگوں نے اچانک فائر کھول دیا۔ جوابی فائرنگ میں ان کے دس مشتبہ لوگ مارے گئے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ چار دن کے وقفے میں یہ دوسرا سانحہ پیش آیا ہے۔
ساتھ ہی آئی جی، ایف سی بلوچستان میجر جنرل محمد اعجاز شاہد کا بیان سامنے آیا ہے کہ صوبائی حکومت کے احکامات کے تحت مجرموں اور مسلح افراد کے خلاف ٹارگٹ آپریشن جاری رہے گا۔ اس خوفناک واقعہ کے پیشِ نظر ہم بلوچستان میں آنے والے دنوں کی ایک ہلکی سی تصویر بھی دیکھ سکتے ہیں۔ ایک منظر تو یہ ہے کہ دہشت گردی اور نام نہاد احساسِ محرومی کے نام پر انتہا پسندی ہماری قومی رگوں میں اندر تک سرایت کر چکی ہے۔ اس کے خاتمے کے لیے بہت بڑے عزم اور ملک و قوم سے گہری کمٹمنٹ کی ضرورت ہے۔ لاریب ہماری سیکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے اکثریتی وابستگان میں یہ جذبہ بدرجہ اتم موجود ہے لیکن سیاسی لیڈر شپ کو بھی کُھل کر سامنے آنا چاہیے۔
بلوچستان کے حالات کو مزید بگاڑنے اور اس بہانے عالمی سطح پر وطن عزیز کو بدنام کرنے کے لیے مغربی اخبار نویس، فوٹو گرافر اور مصنفین بھی قابلِ مذمت کردار ادا کر رہے ہیں۔ ایسی کتابیں عالمی مارکیٹ میں پھینکی جا رہی ہیں جن میں یہ منظر کشی کی جا رہی ہے کہ بلوچستان میں ''پاکستان کی سیکیورٹی فورسز'' بہت زیادتیاں بھی کر رہی ہیں، بلوچوں کے بنیادی حقوق بھی غصب کیے جا رہے ہیں، پاکستان کے خفیہ ادارے ناپسندیدہ لوگوں کو اٹھا رہے ہیں اور علیحدگی پسندی کی لہر طاقت پکڑ رہی ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے متعلقہ سرکاری اداروں کی طرف سے نہ تو پاکستان کی سیکیورٹی فورسز اور خفیہ اداروں کے خلاف ان گھناؤنے الزامات کا شافی اور کافی جواب دیا جا رہا ہے اور نہ ہی دلچسپی رکھنے والے پاکستانی صحافیوں اور محققین کو ایسے بھرپور مواقع فراہم کیے جا رہے ہیں کہ وہ خود بلوچستان کے ان علاقوں کا دورہ کریں جہاں ''آگ'' لگی ہے تا کہ واپسی پر اپنے مشاہدات کی بنیاد پر اہلِ وطن کو صحیح صورتِ احوال سے آگاہ کر سکیں۔
اگر کبھی کوئی ایسی کوشش کی بھی جاتی ہے (اِلّا ماشاء اللہ) تو وہ اتنی محدود اور انفرادی سطح کی حامل ہوتی ہے کہ اس کے مطلوبہ نتائج سامنے نہیں آتے۔ اور اگر کوئی لکھتا بھی ہے تو اس کی بڑے پیمانے پر تشہیر کرنے سے گریز کیا جاتا ہے جب کہ مغربی اور بھارتی طاقتیں پاکستان کے خلاف سارے حربے بروئے کار لا رہی ہیں۔
ان ہی مغربی طاقتوں کی طرف سے پاکستان اور بلوچستان کے خلاف ایک نئی کتاب مارکیٹ میں آئی ہے جسے BALOCHISTAN: AT A CROSSROADS کے عنوان سے پڑھا جا رہا ہے۔ اسے برطانوی صحافی ولیم مارکس نے لکھا ہے اور بلوچستان کے دور دراز اور ''آتش فشاں بنے علاقوں'' کی خوفناک تصاویر فرانسیسی فوٹوگرافر مارک واٹر لاٹ نے بنائی ہیں۔ جان بوجھ کر کتاب میں ایسی فوٹو شامل کی گئی ہیں جن سے یہ پیغام ابھرتا ہے کہ بلوچوں پر بہت ظلم ہو رہا ہے۔
ولیم مارکس نے الزام لگایا ہے کہ پاکستان کے حکمران بلوچستان کو مکمل طور پر فراموش کر چکے ہیں، بلوچ پاکستانیوں سے اجنبی ہو رہے ہیں۔ مذکورہ کتاب ''بلوچستان ایٹ اے کراس روڈز'' میں شرانگیزی کرتے ہوئے یہ پیغام بھی ابھارنے کی کوشش کی گئی ہے کہ بلوچستان میں ہر جگہ انسانی حقوق کی پامالی ہورہی ہے۔ کتاب مرتب کرنے والوں کا دعویٰ یہ بھی ہے کہ وہ اپنی جان خطروں میں ڈال کر بلوچستان کے طول و عرض میں گئے اور ''حقائق'' کا پتہ چلا کر آئے، کیونکہ پاکستان کے تو کسی صحافی یا فوٹو گرافر کو بلوچستان کے متاثرہ علاقوں میں جانے کی اجازت ہی نہیں ملتی۔
کتاب کے مصنف اور عکاس کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے اس کتاب کے لیے تقریباً بارہ سو کلومیڑ کے دشوار گزار بلوچ علاقوں کا سفر کیا۔ اس سفر میں وہ علیحدگی پسندوں، گوریلا جنگجوؤں اور لاپتہ مردوں کی ماؤں سے ملے اور ''مطلوبہ حقائق'' کا پتہ چلانے کی کوشش کرتے رہے۔ (بڑی تقطیع پر شائع ہونے والی اس کتاب کی قیمت تقریباً آٹھ ہزار روپے ہے۔)
اگر پاکستان خصوصاً بلوچستان کے صحافیوں کو ''متاثرہ'' علاقوں میں جانے کی اجازت نہیں ہے، جیسا کہ ولیم مارکس اور واٹر لاٹ نے دعویٰ کیا ہے، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان دونوں مغربیوں کو بلوچستان کے حساس ترین علاقوں تک رسائی کس نے دی؟ دونوں صاحبان مذکورہ کتاب میں دھڑلے سے کہتے ہیں کہ انھوں نے پاکستان کا ویزہ حاصل کرنے کے بعد بلوچستان کے متاثرہ اور حساس ترین علاقوں میں جانے کے لیے خصوصی اجازت نامے حاصل کیے تھے۔
درست مگر یہ اجازت نامے کس سے حاصل کیے؟ اس راز سے پردہ نہیں اٹھایا گیا ہے۔ حیرت ہے کہ اس تکلیف دہ اور مشکل سفر میں وہ ایران کو عرصہ دراز تک مطلوب رہنے والے عبدالمالک ریگی (''جنداللہ'' کا مبینہ سربراہ) سے ملاقات کرنے میں بھی کامیاب ہو گئے۔ مصنف ولیم مارکس بھی یہ بتانے سے انکاری ہیں کہ انھیں ان سب حساس جگہوں پر کون لے گیا اور وہ کس کے توسط سے پاکستان کی سلامتی کے مخالف عناصر سے لمبی لمبی ملاقاتیں کرنے اور اب ان کی بنیاد پر پاکستان کے خلاف الزامات سے بھری کتاب لکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں؟
ولیم نے اپنے خبث باطن کے تحت، بلوچستان کی آڑ میں، پاکستان کے منہ پر جس طرح کالک ملنے کی گندی حرکت کی ہے، غالباً اسی بنیاد پر گزشتہ دنوں حکومتِ پاکستان نے اسے ویزہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اس زہر افشاں کتاب کا جواب ہر صورت دینا چاہیے لیکن سوال یہ ہے کہ حکومتی صفوں میں اتنی بڑی ہمت کون کرے گا؟