ناتا دل سے

رمضان المبارک کے خوبصورت مہینے میں یوں تو ویسے ہی بے شمار رحمتیں نازل ہوتی ہیں

shehla_ajaz@yahoo.com

رمضان المبارک کے خوبصورت مہینے میں یوں تو ویسے ہی بے شمار رحمتیں نازل ہوتی ہیں لیکن اس مہینے کچھ ایسی سرشاری سوار ہوتی ہے کہ دین اور اس سے متعلق باتیں سننے میں لطف آتا ہے، ابھی کچھ روز پہلے ہی ایک ٹی وی پروگرام میں عالم دین کی خوبصورت گفتگو سے مستفید ہونے کا موقع ملا۔ ایک بہت خوبصورت بات جو بہت اچھی لگی کہ پروردگار تو ان کا بھی ہے جو دن رات ان کی عبادت کرتے ہیں، گریہ و زاری کرتے ہیں اور ان کا بھی ہے جو انھیں نہیں مانتے۔

دوسرے لفظوں میں ملحد یا کافر کہہ لیں لیکن اس ذات باری کی صفات دیکھیے کہ وہ اپنی مخلوق خاص کر اشرف المخلوقات سے کتنا پیار کرتے ہیں اور ان کی بڑائی دیکھیے کہ اگر ساری عمر بھی کوئی کفر بکتا رہا اور عمر کے کسی حصے میں خواہ آخری حصے میں ہی اس کے دل میں مالک کی جانب سے کوئی بات ایسی بیٹھ گئی کہ وہ اپنے رب کی جانب رجوع ہوا اور دل سے ان سے معافی مانگ لی، گویا پہاڑ جتنے گناہوں کے ڈھیر کے باوجود بھی رب العزت اسے معاف کردیتے ہیں۔ ایسی صفت کہاں دنیا بھر کی کسی مخلوق میں ہے کہ وہ اتنا برا بھلا اور ناپسند کیا جائے اور جب اس سے معافی مانگی جائے تو معاف بھی کردے اور عطا بھی کرے یہ حقیقت تو سوائے پروردگار کے کسی اور میں ممکن ہی نہیں۔ ہم عملی طور پر اپنے دین سے کتنا متاثر ہیں کس حد تک اس پر عمل پیرا ہیں۔ ظاہری طور پر یا باطنی طور پر ہم کتنے سچے ہیں ہم اس بحث میں الجھنے کی کوشش نہیں کرتے کیونکہ اس طرح ہم اپنی نظروں میں گر جاتے ہیں، کیونکہ ہم ظاہری حسن میں گھرے ہوئے ہیں۔

زیادہ برس نہیں گزرے کہ انٹرنیٹ پر ایک مسلم نوجوان اور ایک عیسائی پادری کے درمیان لائیو گفتگو جو کسی مذہبی چینل پر تھی خاصی مقبول ہوئی تھی تصور خدا کے موضوع پر جس انداز پر اس نوجوان نے گفتگو کی وہ خاصی متاثر کن تھی، ان دنوں کسی مصری چینل کی ایک ویڈیو خاصی مقبول ہو رہی ہے، پروگرام کی میزبان خاتون رحیم اور غیر مسلم خاتون ڈاکٹر نوحا کے درمیان کی گفتگو جو خاصے اچھے ماحول میں شروع ہوئی تھی، ایک تکرار پر ختم ہوگئی۔ غیر مسلم خاتون نے چہرے کو نقاب سے چھپایا ہوا تھا جب کہ میزبان مسلم خاتون بے نقاب تھیں۔ ان دونوں کے بیچ کی گفتگو ان دونوں کے اپنے ذہنوں کے مطابق تھی۔


رحیم کا جذباتی اور والہانہ انداز ان کی عمر اور جوش کا تقاضا تھا جب کہ ڈاکٹر نوحا کا انداز ان کے ماضی کے برے تجربے کا فسانہ بیان کر رہا تھا۔ مختلف طبقہ فکر کے لوگوں نے اس پر اپنے اپنے انداز سے رائے دی ہے، کوئی میزبان کو شاباشی دے رہا ہے تو کوئی اسے سمجھا رہا ہے کہ اسے ڈاکٹر نوحا کو صبر سے سمجھانا چاہیے تھا کوئی قائل کرنے کا سبق دے رہا ہے، یہ ایک بحث ہے جسے اپنی نظر میں لاحاصل بحث کا نام دیا جاسکتا ہے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ جس کسی بھی شخص کو جس کام اور ذمے داری کے لیے منتخب کیا جائے یا وہ فرد اپنے آپ کو اس کا اہل سمجھے اسے چاہیے کہ وہ اپنے کام کو پوری ذمے داری اور دیانتداری سے نبھائے اسے علم ہونا چاہیے کہ جس کام کو اسے ادا کرنا ہے۔

اس کا حدود اربعہ کہاں سے کہاں تک جاتا ہے، اور اس کے بعد کے اثرات کیا ہوسکتے ہیں اس کی ذرا سی کوتاہی اور کم علمی ایک بہت بڑا طوفان برپا کرسکتی ہے، مضمون کے شروع میں جس نوجوان کا تذکرہ کیا تھا جس کی ہم صرف آواز سن سکتے تھے لیکن اس نوجوان نے جس عقلی اور تدبرانہ انداز کا مظاہرہ کرتے اس پروگرام کے میزبان کو قائل کیا وہ قابل تعریف تھا۔ ڈاکٹر نوحا کی طرح بہت سے لوگ کسی کی وجہ سے چاہے وہ وقتی دلچسپی ہو، شادی یا محبت کے مراحل ہوں، مذہب اسلام کی جانب رجوع کرتے ہیں وہ اسلام کی خصوصیات کے معترف بھی ہوتے ہیں لیکن ایسا بھی سنا گیا ہے کہ قبول اسلام کے وقت نو مسلم کو بہت آؤ بھگت اور پیار دیا جاتا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ پیار وہ گرم جوشی کم ہوتی جاتی ہے اور وہ وہی مقام ہوتا ہے جب ایک مسلمان کا امتحان شروع ہوتا ہے، مٹھاس و شیرینی کے بعد تلخی اور اس تلخی میں ڈپریشن، گھٹن کے رنگ بکھیرنے والے کم نہیں ہوتے انسان سے لے کر غیر انسانی مخلوقات تک اس عمل میں جت جاتی ہیں اور اگر ایسے وقت اس امتحان سے وہ انسان گزر جائے تو پروردگار کی نظروں میں سرخرو ہوجاتا ہے ورنہ تباہی کے راستے ہزار ہیں۔

مہینہ ڈیڑھ مہینہ پہلے قائد اعظم کے مزار کے سامنے سے گزرنا ہوا تو خودبخود فاتحہ پڑھنے کو دل چاہا اور آنکھیں بھیگ گئیں ایسا پہلی بار ہوا، بچپن سے قائد اعظم کی شخصیت پر انگریزی اور اردو میں مضامین لکھتے آئے ہیں لیکن ان کی شخصیت کے مختلف پہلو اب کھل کر سامنے آئے تو احساس ہوا کہ بڑا آدمی بننے کے لیے بہت ساری عقل اور دولت ہی نہیں چاہیے بلکہ بہت بڑا دل چاہیے۔ قائد اعظم کے پاس یقیناً بہت بڑا دل تھا، تنہائی، تلخیاں، گھٹن انسان کی زندگی پر بدنما اثرات مرتب کرتے ہیں لیکن پھر بھی اپنی ذات کی فکر چھوڑ کر خدا کے بندوں کے لیے ڈٹ جانا بڑی بات تھی، ورنہ دولت کی ان کے پاس کمی تو نہ تھی ان کے پھیپھڑے کمزور ہوچکے تھے وہ جان چکے تھے کہ وہ زیادہ عرصے زندہ نہ رہ پائیں گے لیکن پھر بھی انھوں نے دن رات پاکستان کو بنانے میں لگا دیا یہاں تک کہ اپنی ساری دولت بھی پاکستان کی نذر کردی ۔ بات کہاں سے شروع ہوئی تھی اور کہاں ختم ہوئی، کچھ دیر بھول جایے کہ وہ ہمارے قائد ہیں صرف ایک انسان ہیں ۔ گزرے ساٹھ برس سے زائد ہوچکے ہیں پھر ان کی فاتحہ پڑھتے آنکھیں نم کیوں ہوئیں شاید نوحا سمجھ سکتیں۔
Load Next Story