استاد امانت علی خاں کومداحوں سے بچھڑے 50 برس بیت گئے
لازوال فنی خدمات کی بنا پرصدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی سمیت بہت سے اعزازات سے بھی نوازا گیا
پاکستان کے عظیم گائیک استاد امانت علی خاں کو دنیا سے رخصت ہوئے 50 برس بیت گئے۔
عظیم گلوکار کو لازوال فنی خدمات کی بنا پرصدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی سمیت بہت سے اعزازات سے بھی نوازا گیا۔
استاد امانت علی خاں 1922 میں بھارتی شہر ہوشیار پور میں کلاسیکی موسیقی کے معروف گھرانے پٹیالہ میں پیدا ہوئے اور انہیں موسیقی کی تعلیم ورثے میں ملی۔
ان کی چھوٹے بھائی استاد فتح علی خاں کے ساتھ جوڑی بڑی مقبول رہی اور دونوں کے متعدد گیتوں کو خوب پسند کیا گیا۔
میٹھے لہجے اور عمدہ آوازکے مالک استاد امانت علی خان نے کم عمری میں ہی ٹھمری، کافی اور غزل گائیکی شروع کی، دیکھتے ہی دیکھتے شہرت کے دروازے ان پر کھلتے ہی چلے گئے۔
امانت علی خاں نے جہاں بہت سی مقبول غزلیں اور گیت گائے وہیں ان کے گائے ہوئے ملی نغمے آج بھی مقبول عام ہیں جبکہ ان کے صاحبزادوں اسد امانت علی مرحوم اور شفقت امانت علی نے والد کے نام کوخوب زندہ رکھا۔
حکومت نے استاد امانت علی خاں کوموسیقی میں گراں قدر خدمات پرصدارتی ایوارڈ سے نوازا اور وہ 18 ستمبر 1974 کوخالق حقیقی سے جا ملے۔
عظیم گلوکار کو لازوال فنی خدمات کی بنا پرصدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی سمیت بہت سے اعزازات سے بھی نوازا گیا۔
استاد امانت علی خاں 1922 میں بھارتی شہر ہوشیار پور میں کلاسیکی موسیقی کے معروف گھرانے پٹیالہ میں پیدا ہوئے اور انہیں موسیقی کی تعلیم ورثے میں ملی۔
ان کی چھوٹے بھائی استاد فتح علی خاں کے ساتھ جوڑی بڑی مقبول رہی اور دونوں کے متعدد گیتوں کو خوب پسند کیا گیا۔
میٹھے لہجے اور عمدہ آوازکے مالک استاد امانت علی خان نے کم عمری میں ہی ٹھمری، کافی اور غزل گائیکی شروع کی، دیکھتے ہی دیکھتے شہرت کے دروازے ان پر کھلتے ہی چلے گئے۔
امانت علی خاں نے جہاں بہت سی مقبول غزلیں اور گیت گائے وہیں ان کے گائے ہوئے ملی نغمے آج بھی مقبول عام ہیں جبکہ ان کے صاحبزادوں اسد امانت علی مرحوم اور شفقت امانت علی نے والد کے نام کوخوب زندہ رکھا۔
حکومت نے استاد امانت علی خاں کوموسیقی میں گراں قدر خدمات پرصدارتی ایوارڈ سے نوازا اور وہ 18 ستمبر 1974 کوخالق حقیقی سے جا ملے۔