کوچۂ سخن

جنہیں جو لگتا ہوں سرکار سمجھ لیتے ہیں<br /> کچھ عدو مجھ کو، کئی یار سمجھ لیتے ہیں

فوٹو: فائل

غزل
جنہیں جو لگتا ہوں سرکار سمجھ لیتے ہیں
کچھ عدو مجھ کو، کئی یار سمجھ لیتے ہیں
گو غلط ہی سہی اس واسطے دیتا ہوں جواب
خامشی کو یہاں اقرار سمجھ لیتے ہیں
شہر کا شہر مری بات سے خائف نکلا
میں سمجھتا تھا کہ دو چار سمجھ لیتے ہیں
اس طرح تو کبھی شیریں نہیں ملنے والی
آپ دیوار کو دیوار سمجھ لیتے ہیں
وقعتِ خُلق، نہ کردار کی قیمت عزمیؔ
لوگ زر کو یہاں معیار سمجھ لیتے ہیں
(عزم الحسنین عزمی۔ ڈوڈے، گجرات)


۔۔۔
غزل
زخم کے ہاتھ پہ رکھ دی ہے دوا مرتے ہوئے
جسم کو اور بھی آلودہ کیا مرتے ہوئے
زندگی ایک اثاثے کی طرح ہوتی ہے
پوچھیے مجھ سے جو نقصان ہوا مرتے ہوئے
نظر انداز نہ کر میری توانائی کو
پھول تک میں نے اسے تازہ دیا مرتے ہوئے
سامنے آئی مرے ضعف کی یہ وجہ کہ میں
اپنے ہم عمر نہیں دیکھ سکا مرتے ہوئے
ایک مچھلی مرے تالاب کو لے ڈوبی ہے
جس نے دو چار کو آمادہ کیا مرتے ہوئے
یہ تو قاتل نے بھی تسلیم کیا ہے کہ زمان
خاصا خاموش طبیعت کا لگا مرتے ہوئے
(دانیال زمان۔خوشاب)


۔۔۔
غزل
کم نہیں ہوتی کسی طور اذیت میری
کھا گئی ہے مجھے حساس طبیعت میری
کھلکھلاتے ہوئے رسوائی ملی ہے مجھ سے
بڑھ گئی اور بھی بازار میں عزت میری
جب سے چھو کر اسے محسوس کیا ہے میں نے
مجھ کو الجھائے ہوئے رکھتی ہے نیت میری
بس یہی سوچ کے اپنا بھی نہیں بن پایا
جانے کس شخص کو پڑ جائے ضرورت میری
کھول کر دیکھ لیے بیگ سبھی،دل بھی سبھی
بھول آئی ہے مجھے گاؤں میں ہجرت میری
میں نے کل خواب میں دیکھی تھی خزانے کی جھلک
اب مجھے سونے نہیں دیتی ہے غربت میری
روز گر جاتا ہے اک نقش مرے چہرے سے
جانے کس چیز سے ملتی ہے شباہت میری
باندھ لے مجھ کو بھی سامانِ تعلق میں کہیں
تجھ کو مشکل سے بچا لے گی سہولت میری
میں پڑا رہتا ہوں دوکان کے اک کونے میں
اس کے بٹوے میں پڑی رہتی ہے قیمت میری
صرف تنہائی مری اچھی سہیلی ہے منیرؔ
جس کو درکار نہیں ہوتی اجازت میری
(منیر جعفری ۔سرگودھا)


۔۔۔
غزل
رگوں میں خون کی ترسیل جب جما دی گئی
کسی کی یاد کے شعلوں کو پھر ہوا دی گئی
بچھڑ کے اُس سے کسی اور سے ملا ہوں میں
بچھڑ کے وہ بھی کسی اور سے ملا دی گئی
نسیمِ بادِ بہاری ہمیں نصیب ہوئی
شبِ وصال کی لذت کو انتہا دی گئی
ہمارا دل ہے جو اب اشکبار ہوتا ہے
ہماری آنکھ تو صحر ا نما بنا دی گئی
بدن کی شاخ نے فصلِ خزاں کو اوڑھ لیا
کسی کے ہجر میں رخشندگی گنوا دی گئی
تمہارے حُسن پہ ہر روز شعر میں نے کہے
مجھے خیال کی وسعت بھی یومیہ دی گئی
(فیصل کاشمیری۔ضلع و تحصیل وزیرآباد)


۔۔۔
غزل
اب میں کسی بھی کام کے قابل نہیں رہا
میں دل کو ڈھونڈتا ہوں کہیں مل نہیں رہا
ہر اک کو یاد آگیا اپنا ضروری کام
محفل میں جب وہ رونق محفل نہیں رہا
دشمن بھی ہوشیار ہے معشوق کی طرح
پل بھر میں زیر کرلوں مگر پل نہیں رہا
کرنے لگا ہوں وار میں دشمن کی پیٹھ پر
اب جنگ کوئی جیتنا مشکل نہیں رہا
یہ دور ہے ذہانت مصنوعی کا سہیلؔ
انساں میں ہے دماغ مگر دل نہیں رہا
(سہیل ارشد۔رانی گنج، مغربی بنگال۔بھارت)


۔۔۔
غزل
دل سے نہیں نگاہ سے بھی دور تھے بہت
ہم بھی تمہارے عشق میں مجبور تھے بہت
سچ بولنے کے مرتکب اک آپ ہی نہیں
سولی پہ چڑھنے والوں میں منصور تھے بہت
جلتے تھے اپنے نام کے ہر راہ میں چراغ
ہم بھی کسی زمانے میں مشہور تھے بہت
دروازے تک بھی آنے کی ہمت نہیں ہوئی
کچھ اس قدر تکان سے ہم چور تھے بہت
یادوں کے زخم آج بھی گننے سے ہم رہے
احباب کے کرم سے جو ناسور تھے بہت
لوگوں نے مجھ سے رابطہ پھر بھی کیانہیں
اپنے بھی حافظے میں تو منشور تھے بہت
ہم چاہ کر بھی ان سے محبت نہ کر سکے
شہر وفا کے مختلف دستور تھے بہت
کتنا علاج کرتے وہ آخر طبیب ِوقت
غم ہائے روزگار سے رنجور تھے بہت
راقم ؔ تمہاری آنکھوں میں کیسے نہ ڈوبتے
دریا تمہاری آنکھوں کے مخمور تھے بہت
(عمران راقم۔کولکتہ،بھارت)


۔۔۔
غزل
سیکھی تھی وفا، قیدِ وفا کاٹ رہا ہوں


حیران ہوں کیا بویا تھا، کیا کاٹ رہا ہوں
کٹتی نہ کبھی رات تھی تیرے سِوا جاناں
اب زندگی میں تیرے سوا کاٹ رہا ہوں
اُنیس برس سے میں تڑپتا ہوں اکیلا
'ک طرفہ محبت کی سزا کاٹ رہا ہوں'
میں رانجھا و مجنوں کے قبیلے سے ہوں، مجھ کو
ہے ہجر وراثت میں ملا، کاٹ رہا ہوں
اچھا تھا جنم دن سے، یہ ہوتی مری برسی
میں کیک کو جو تیرے سِوا کاٹ رہا ہوں
بپھرا ہوا دریا ہوں میں پھر موسمِ باراں
اپنے ہی کناروں کو سدا کاٹ رہا ہوں
(فریدؔ عشق زادہ۔ بنگلہ گوگیرہ ۔ اوکاڑہ)


۔۔۔
غزل
بیان لفظوں میں کیسے کروں حسیں ہائے
کہ حور جنتِ ارضی پہ ہو اتر آئے
شبِ وصال وہ سانسوں پہ محو رقص جمال
چھڑائے ہاتھ بھی ایسے کہ چھوڑا نہ جائے
وہ شوخ ایک نشہ ہے جواں امنگوں کا
نشہ بھی ایسا جسے کر کے کون پچھتائے
کسی نے دی ہے محبت کی بد دعا دل کو
کہ پھول کتنے ہی اس پیڑ پر ہیں مرجھائے
یہ وقت سنتے ہیں ہر زخم کا مسیحا ہے
تو پھر یہ زخم محبت کا کیوں نہ بھر پائے
ہوئی ہے جان بھی اب مبتلائے وحشتِ عشق
جفاوں پر تری کتنے ہی درد مسکائے
یہ دل جو روح مری نوچ نوچ کھاتا ہے
جنوں میں آ کے اسے یار کوئی سمجھائے
(عامرمعانؔ ۔کوئٹہ)


۔۔۔
غزل
طریقہ اک سا ہے آہ و فغاں کا
مرا بس فرق ہے حسنِ بیاں کا
اترتا ہوں میں سیڑھی تیرے دل کی
ہو ویرانی مقدر اس مکاں کا
وہ بھی تجھ پر یقیں کرتا ہے جس کو
بھروسہ ہی نہیں ہے آسماں کا
میں خط کیسے تھما دوں اس کو، جب یہ
کبوتر ہی نہیں اس آستاں کا
کھلے زخموں سے بھی تکلیف دہ ہے
کوئی حیلہ وسیلہ اس نشاں کا؟
میری خدشے کہیں سچ ہی نہ نکلیں
کہیں نکلے نہ کچا تو زباں کا
تری یادوں کا لشکر اور اندھیرے
کوئی رہبر نہیں اس کارواں کا
(رانا محسن چاند ۔خوشاب)


۔۔۔
غزل
نام تیرا میں جب جب پکارا کروں
درد دل کا میں دل سے اتارا کروں
ہے ترے بعد تنہائی ساتھی مری
چاہتے ہو اسے بھی تمہارا کروں؟
چاک سے اینٹ پر نام لکھ دوں ترا
دیکھ کر وقت اس کو گزارا کروں
میں سمندر کنارے یونہی بیٹھ کر
سوچتا ہوں جہاں سے کنارہ کروں
پڑھتے پڑھتے کبھی کھڑکی سے جھانک لو
تاکہ ملنے کا میں پھر اشارہ کروں
اپنی تصویر بھیجو بس اک بار تم
تاکہ تخلیقِ رب کا نظارہ کروں
(محمد ادریس رُوباص۔ ڈی آئی خان)


۔۔۔
غزل
جب سوالات، جوابات سے طے پاتے ہیں
تب نتائج بھی تو خدشات سے طے پاتے ہیں
جب دعا خوف کے عالم میں زباں سے نکلے
تب عقائد بھی تو صدمات سے طے پاتے ہیں
عشق، ہیجان، کشش، ذوق، جنوں، ضبط، ادا
یہ ضوابط جو جمالات سے طے پاتے ہیں
ان میں مفعول بدلتا ہے ذرا وقت کے ساتھ
وہ عوامل جو مکافات سے طے پاتے ہیں
ایک اس رات کی وسعت میں ہے صدیوں کا سفر
کتنے اوقات، ملاقات سے طے پاتے ہیں
(علی اعجاز سحر۔کراچی)


۔۔۔
غزل
دل میرا بے قرار نہیں میرے بس میں ہے
اک چہرہ خوش نما نہ مِری دسترس میں ہے
اک تو حسیں، نزاکت و معصومیت الگ
اِک لاکھ میں یہ خوبی کوئی پانچ دس میں ہے
اُس سے دعا سلام، نہ ہی آشنائی ہے
اور دوڑ، پِھر رہا مری ہر ایک نس میں ہے
معصوم سا ہے چہرہ مگر شوخ طبع ہیں
ایسا حسین دیکھا نہیں کچھ برس میں ہے
وہ اڑنا جانتا ہے مگر گھونسلے کی فکر
آزاد تو ہے پھر بھی مگر وہ قفس میں ہے
شہزادہ کوئی اُن کو ملے گا، جی! حق بھی ہے
سالم شریف آدمی ہے، اُن کی جَس میں ہے
(سالم احسان۔گوجرانوالہ)


۔۔۔
غزل
گرچہ آنکھوں میں روشنی نہیں ہے
میرے دل میں تو تیرگی نہیں ہے
رخ پہ ظاہر ہوا ہے کیوں یہ دکھ
بات چھپانے سے کیوں چھپی نہیں ہے
اے مرے خوش نوا عجب ہے ناں
بات دل کو مرے لگی نہیں ہے
مثل مجنوں غنیمِ دل ہیں کہاں
خصلتِ زن بھی لیلوی نہیں ہے
(عنصر ایوب۔ڈیرہ غازی خان)


سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

Load Next Story