پروفیسر ڈاکٹرسعید الدین
معروف دانش ور، مصنف، اسکالر اور استاد کی زندگی اور خدمات پر ایک نظر
کراچی جو روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا اپنی تہذیب و ثقافت اور علم و ادب کے حوالے سے ایک پہچان رکھتا تھا، اب بہت تیزی سے علمی و ادبی شخصیات سے محروم ہوتا جارہا ہے۔
جولائی کا مہینہ اہل کراچی کے لیے کسی سانحہ سے کم نہیں تھا جب شہر کی ایک اور عظیم المرتبت شخصیت ہم سے جدا ہوگئی۔ ممتا زدانش ور، مصنف، محقق، مقرر، واقعہ نگار، محب وطن، شریف النفس انسان اور یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر سعید الدین 9جولائی2024 بروز منگل کراچی میں مختصر علالت کے بعد اس جہان فانی سے کوچ کرگئے (ان للہ وان الیہ راجعون)۔
پروفیسر ڈاکٹر سعید الدین نے 35 سال تک علم و ادب کی خدمت کی اور مختلف جامعات میں پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ آپ کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے جن کے ذہنوں کو آپ نے علم کی روشنی سے منور کیا۔ اہل دانش نے آپ کی موت کو علم و ادب کے لیے ایک عظیم نقصان قرار دیا۔
ڈاکٹر سعید الدین 11جنوری 1954 کو شہر قائد میں کراچی ایئرپورٹ (کالا چھپرا) کے علاقے میں پیدا ہوئے۔ آپ کی فیملی کے زیادہ تر افراد ایئرلائنز سے وابستہ رہے ہیں۔ آپ کے دادا امیرالدین 1948 میں اورینٹ ایئرویز کراچی ائیرپورٹ پر انجینئرنگ کے شعبے سے وابستہ تھے والد صاحب عزیزالدین قریشی نے 1949میں پاکستان ایوی ایشن منسٹری آف ڈیفینس (PAL) میں گیارہ سال، پی آئی اے فنانس ہیڈآفس کراچی میں پندرہ سال اور سعودی ائیرلائنز فنانس ہیڈ آفس جدہ میں چار سال تک خدمات انجام دیں۔ آپ کے بھائی ناصرالدین قریشی بھی سعودی ایئرلائنز (جدہ) سے طویل عرصے تک وابستہ رہے۔
ڈاکٹر سعید الدین بچپن ہی سے غیرمعمولی صلاحیتوں کے حامل تھے۔ گہرا مطالعہ رکھتے تھے۔ خود تعلیم یافتہ (Self taught) زیادہ تھے۔ آپ نے 1970میں میٹرک سولہ سال کی عمر میں گورنمنٹ بوائز ہائی اسکول ڈسٹرکٹ ایسٹ سے پاس کیا۔ انٹرمیڈیٹ اور گریجویشن جامعہ ملیہ گورنمنٹ ڈگری کالج ملیر سے کرنے کے بعد کراچی یونیورسٹی سے سیاسیات میں ایم اے کیا۔ وہ جامعہ کراچی کے پوزیشن ہولڈر تھے۔ اس کے بعد اسلامیہ کالج کراچی سے قانون (ایل ایل بی) کا امتحان پاس کیا۔ بعدازآں کراچی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
ڈاکٹر سعید الدین نے 1978میں پیشہ وارانہ عملی زندگی کا آغاز تدریس سے کیا۔ آپ کو پاکستان کے تین صوبوں کی یونیورسٹیوں میں پڑھانے کا اعزاز حاصل ہوا، جن میں بہاؤ الدین ذکریا یونیورسٹی ملتان (پنجاب)، کوئٹہ یونیورسٹی (بلوچستان) اور مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی نواب شاہ، جامشورو (سندھ) قابل ذکر ہیں۔
ڈاکٹر سعید الدین نے متعدد کتابیں لکھیں۔ ان میں سب سے زیادہ مشہور کتاب؛ مشرقی پاکستان کازوال؛ تھی جس میں سقوط ڈھاکا کو بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور اس کے اسباب پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے یہ ایک بڑی دردناک کہانی ہے جسے پڑھ کر قاری اپنی آنسوؤں کو روک نہیں پاتا۔ بلاشبہہ ڈاکٹر سعید الدین کی یہ کتاب سقوط ڈھاکا کے حوالے سے ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔
دوسری اہم کتاب سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے لیے انگریزی میں ''پاکستان اسٹیڈیز'' تحریر کی جو کہ تمام کالجوں اور جامعات تک کے طالب علموں کو پڑھائی جاتی ہے۔ اس کتاب میں پاکستان کا تاریخی پس منظر، مقصد، پاکستان کا قیام اور اس کے بعد کے حالات، مسائل، تجزیہ بہت ہی خوب صورت پیرائے میں بیان کیے گئے ہیں، تاکہ طالب علموں کے ذہنوں میں بہ آسانی نقش ہوجائے، غرض یہ کہ آپ کی تمام کتابیں اور
مضامین بے حد اچھے انداز میں لکھے گئے ہیں۔
ڈاکٹر سعید الدین کی کتابیں دنیا کی بڑی لائبریریوں میں موجود ہیں جن میں لائبریری آف کانگریس واشنگٹن ڈی سی امریکا، نیویارک پبلک لائبریری، برٹش لائبریری لندن، انڈین لائبریری لندن، قائداعظم لائبریری کراچی، لاہورشامل ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر سعید الدین کا خاص اور پسندیدہ مضمون سیاسیات تھا قانون، فلسفہ، منطق، تعلیم و فقہ، مذہب، ادب، شعروشاعری، تاریخ میں بھی ہمیشہ دل چسپی رہی۔ تاہم اگر ڈاکٹر سعید الدین کی شخصیت کا جائزہ لیں یا اس پر روشنی ڈالیں تو ان کی پوری زندگی پر ہمیں سقراط (Father of philosophy)، افلاطون (Father of history) اور ارسطو (Father of Political Science) کے نظریات کا غلبہ نظرآتا ہے۔ وہ ان کے نظریات کو ہی اپنی زندگی پر لاگو کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ سقراط کا فلسفہ تھا کہ کوئی بات بتانے سے پہلے اسے تین چیزوں کی کسوٹی پر رکھو اور پھر تجزیہ کرو اور فیصلہ کرو (۱) سچ (۲) اچھائی (۳) فائدہ مند۔
وہ سقراط کو شہید حق اور شہید سچ کا خطاب دیتے اور کہتے تھے کہ؛ سقراط زہر نہ پیتا تو مرجاتا۔ سقراط بھاگ جاتا تو تاریخ میں مرجاتا، لیکن زہر پی کر وہ ہزاروں سال سے زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا۔
ڈاکٹر سعید الدین کا درس و تدریس کے حوالے سے پاکستان کی تعلیمی جامعات میں بلند و اعلٰی مقام ہے۔ انہیں بھی اللّہ تعالٰی نے سقراط کی طرح انسانوں کو سمجھنے کی صلاحیت عطا کی تھی۔ ان کے نزدیک سچا آدمی موت سے نہیں ڈرتا بلکہ بداعمالی سے گھبراتا ہے۔ وہ ہمیشہ سچائی کی تلقین کرتے اور حق
بات کہتے تھے۔ انہوں نے اصولوں پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا۔
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتا ہے (میرتقی میر)
ڈاکٹر سعید الدین فلسفیانہ گفتگو کے ماہر تھے وہ کہا کرتے تھے کہ؛ حق دو شخصوں کا محتاج ہے، ایک وہ جو اس کا اظہار کرے اور دوسرا وہ جو اسے سمجھے۔
آپ کو سوال پر سوال کرنے کی عادت تھی پھر کبھی نہ معلوم کہ پردے اٹھانے میں علمی و سیاسی بحث و مباحثے طو ل پکڑجاتے وہ ہر سوال کے جواب میں ایک اور سوال کردیتے حتٰی کہ ان کا مخالف لاجواب اور پریشان ہوجاتا تھا۔ وہ زندگی کا نتیجہ اخذ کرنے کے لیے الفاظ کی موجوں میں ہر وقت ڈوبے رہتے تھے کبھی کبھی ان کی شخصیت میں پراسراریت جھلکتی نظر آتی تھی۔ غرض آپ کی شخصیت ایک معمے سے کم نہ تھی۔ اکثر اوقات سامنے والا آپ کو سمجھنے سے قاصر رہتا تھا۔
ڈاکٹر سعید الدین روز اول سے ہی جامعات میں جرأت و بہادری کا مستند نام تھے جو حق بات کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پر لگادیتے تھے۔ 1980کی دہائی میں کوئٹہ یونیورسٹی (بلوچستان) میں 23 مارچ یوم پاکستان کے موقع پر دھواں دھار تقریر اپنی مرضی اور سوچ کے مطابق کرڈالی۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر جوکہ ایک ریٹائرڈ فوجی کرنل یا بریگیڈیئرتھے، ان کی بہادری کے قصے یا مقالے نہیں پڑھے۔ یہ بات وائس چانسلر کو ناگوار گزری۔ ڈاکٹر سعید الدین نے وی سی کی ناراضی اور برہمی پر سر جھکانے سے انکار کردیا اور اور اپنے اصولی موقف پر استعفٰی پیش کردیا۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کو اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ دراصل موجودہ حالات میں تنقید برداشت سے باہر ہوجاتی ہے، دلیل کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہتی ہے، اختلاف رائے بذات خود ایک بہت بڑا المیہ بن جاتا ہے۔
ڈاکٹر سعید الدین اپنے پاکستانی ہونے پر فخر محسوس کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ، میں قائد کے دو نظریاتی قابل تقسیم اتحاد کا حصہ ہوں جو پاکستانی قومیت ہے بس یہی میری شناخت ہے۔
وہ اپنے قائد محمدعلی جناح اور آباؤاجداد کے بنائے ہوئے دیس میں بے دیس ہوکر مسلسل سیاسی جبرواستحصال، معاشی ناانصافیوں اور عدم مساوات کا شکار رہے۔ ساغرصدیقی کا یہ شعر آپ کی زندگی پر صادق نظر آتا ہے :
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
ڈاکٹر سعید الدین کی شخصیت کو بنانے میں کئی عوامل نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ جب آپ نے شعور کے منازل طے کیں وہ دور مارشل لا کی قیدوبند اور سختیوں کا دور تھا۔ انھیں لگتا تھا کہ پاکستان چند مخصوص خاندانوں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے لیے بنایا گیا ہے۔ وہ کہتے تھے کہ قائداعظم کے پاکستان میں حکومتی اداروں کو چلانے کے لیے فوج کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔
وہ سقوط ڈھاکا 1971کو ایک دل خراش اور ناقابل فراموش واقعہ قرار دیتے تھے۔ وہ قائداعظم محمدعلی جناح کے دو قومی نظریے کی حمایت کے تحت اپنا سب کچھ چھوڑ کر آنے والوں کے لیے بھی متفکر رہتے تھے۔ انھیں اندازہ ہوگیا تھا کہ 77 سال کے بعد بھی قائداعظم کے خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکیں گے۔ یہاں نہ روزگار کی ضمانت ہے اور نہ ہی حقوق کا کوئی تحفظ۔
نام نہاد جعلی علم و دانش کے لوگوں پر انعامات کی بارش اور سقراط کے حصے میں زہر کا پیالہ۔ وہ اپنے آپ کو سقراط سے تعبیر کرتے تھے۔ وہ لوگوں سے حق بات کا اظہار کرتے مگر اس کا سمجھنے والا کوئی نہیں ہوتا تھا۔ بس آخر میں یہی مایوسی ڈاکٹر سعید الدین کو اس مقام پر لے آئی جہاں وہ دل برداشتہ ہوکر گوشہ نشینی پر مجبور ہوگئے کیوںکہ سچ بولنے کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے، وہ لاپتا افراد کا انجام دیکھ چکے تھے۔ انھوں نے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کی غرض سے نفرت کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔ دنیاوی معاملات اور بکھیڑوں سے یکسر کان اور آنکھیں بند کرلیں۔ جون ایلیا کا یہ شعر ان پر صادق آتا ہے:
میں بھی بہت عجیب ہوں، اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں
تو میرا حوصلہ تو دیکھ، داد تو دے کہ اب مجھے
شوق کمال بھی نہیں۔ خوف ردال بھی نہیں
ڈاکٹر سعید الدین نے کئی ممالک کے سفر بھی کیے، جن میں سعودی عرب، ایران اور ترکی شامل ہیں۔ آپ کا تعلق حنفی، سنی علمی گھرانے سے تھا ذات شیخ تھی آپ نے حج اور کئی عمرے کیے۔ قرآن و حدیث، فقہ سب سے اچھی طرح واقف تھے۔ آپ کے والدین کے گھر میں باقاعدگی کے ساتھ عید میلادالنبی (ﷺ) پر میلادشریف اور فاتحہ خوانی کا اہتمام ہوتا تھا۔
پروفیسر ڈاکٹر سعید الدین میں ذہانت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ان کے مزاج میں ہمیں ظرافت بھی نظرآتی ہے۔ جب موڈ اچھا ہوتا تو بچوں کے ساتھ مذاق بھی کرتے تھے۔ گھر میں اپنی والدہ کے بہت زیادہ قریب تھے۔ والد ہ کے ساتھ گھنٹوں بیٹھ کر اپنی پورے دن کی روداد سناتے تھے۔ والدہ بھی اپنے تمام بچوں میں سب سے زیادہ لاڈ ان ہی کے اٹھاتی تھیں۔
آپ شعراء کا کلام بہت شوق سے پڑھتے تھے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال، استاد قمر جلالوی اور احمد فراز کو ہمیشہ خراج تحسین پیش کرتے تھے۔ بہت ہی صاف گو اور رحم دل انسان تھے۔ روزانہ اخبارات کا مطالعہ کرتے تھے۔ پڑھنا لکھنا معمولات زندگی تھا اور مرتے دم تک یہی معمول رہا۔
آپ کی آخری رسومات 10جولائی 2024 بروز بدھ ادا کی گئیں اور تدفین ماڈل کالونی کے خاندانی قبرستان میں کی گئی۔ آپ کے پس ماندگان میں سوگوار اہلیہ قائداعظم اکیڈمی کراچی کی ڈائریکٹر (ریٹائرڈ) پی ایچ ڈی ہولڈر ڈاکٹر شہلا کاظمی ہیں، جو ایک تجربہ کار ریسرچر بھی ہیں۔ آپ کا پی ایچ ڈی (Thesis) محمدعلی جناح Leadership patternمنظم: تجزیہ و تشریح اور دل چسپ حقائق پر مبنی ہے۔ اعلٰی تخلیقی صلاحیتوں کی مالک ڈاکٹرشہلا کاظمی نے کئی کتابیں اور مضامین بھی تحریر کیے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر سعید الدین کی شخصیت پر جتنا بھی لکھا جائے وہ کم ہے۔ تاہم راقم نے یہ کوشش کی ہے کہ ان کی زندگی کے اہم پہلوؤں کو اجاگر کیا جائے۔ اس مضمون کے سلسلے میں تمام معلومات ان کے بھائی ناصرالدین قریشی نے فراہم کی ہیں اور ماضی کے جھروکوں سے ان کی بہت سی یادوں کو بیان کیا ہے۔
جولائی کا مہینہ اہل کراچی کے لیے کسی سانحہ سے کم نہیں تھا جب شہر کی ایک اور عظیم المرتبت شخصیت ہم سے جدا ہوگئی۔ ممتا زدانش ور، مصنف، محقق، مقرر، واقعہ نگار، محب وطن، شریف النفس انسان اور یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر سعید الدین 9جولائی2024 بروز منگل کراچی میں مختصر علالت کے بعد اس جہان فانی سے کوچ کرگئے (ان للہ وان الیہ راجعون)۔
پروفیسر ڈاکٹر سعید الدین نے 35 سال تک علم و ادب کی خدمت کی اور مختلف جامعات میں پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ آپ کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے جن کے ذہنوں کو آپ نے علم کی روشنی سے منور کیا۔ اہل دانش نے آپ کی موت کو علم و ادب کے لیے ایک عظیم نقصان قرار دیا۔
ڈاکٹر سعید الدین 11جنوری 1954 کو شہر قائد میں کراچی ایئرپورٹ (کالا چھپرا) کے علاقے میں پیدا ہوئے۔ آپ کی فیملی کے زیادہ تر افراد ایئرلائنز سے وابستہ رہے ہیں۔ آپ کے دادا امیرالدین 1948 میں اورینٹ ایئرویز کراچی ائیرپورٹ پر انجینئرنگ کے شعبے سے وابستہ تھے والد صاحب عزیزالدین قریشی نے 1949میں پاکستان ایوی ایشن منسٹری آف ڈیفینس (PAL) میں گیارہ سال، پی آئی اے فنانس ہیڈآفس کراچی میں پندرہ سال اور سعودی ائیرلائنز فنانس ہیڈ آفس جدہ میں چار سال تک خدمات انجام دیں۔ آپ کے بھائی ناصرالدین قریشی بھی سعودی ایئرلائنز (جدہ) سے طویل عرصے تک وابستہ رہے۔
ڈاکٹر سعید الدین بچپن ہی سے غیرمعمولی صلاحیتوں کے حامل تھے۔ گہرا مطالعہ رکھتے تھے۔ خود تعلیم یافتہ (Self taught) زیادہ تھے۔ آپ نے 1970میں میٹرک سولہ سال کی عمر میں گورنمنٹ بوائز ہائی اسکول ڈسٹرکٹ ایسٹ سے پاس کیا۔ انٹرمیڈیٹ اور گریجویشن جامعہ ملیہ گورنمنٹ ڈگری کالج ملیر سے کرنے کے بعد کراچی یونیورسٹی سے سیاسیات میں ایم اے کیا۔ وہ جامعہ کراچی کے پوزیشن ہولڈر تھے۔ اس کے بعد اسلامیہ کالج کراچی سے قانون (ایل ایل بی) کا امتحان پاس کیا۔ بعدازآں کراچی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
ڈاکٹر سعید الدین نے 1978میں پیشہ وارانہ عملی زندگی کا آغاز تدریس سے کیا۔ آپ کو پاکستان کے تین صوبوں کی یونیورسٹیوں میں پڑھانے کا اعزاز حاصل ہوا، جن میں بہاؤ الدین ذکریا یونیورسٹی ملتان (پنجاب)، کوئٹہ یونیورسٹی (بلوچستان) اور مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی نواب شاہ، جامشورو (سندھ) قابل ذکر ہیں۔
ڈاکٹر سعید الدین نے متعدد کتابیں لکھیں۔ ان میں سب سے زیادہ مشہور کتاب؛ مشرقی پاکستان کازوال؛ تھی جس میں سقوط ڈھاکا کو بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور اس کے اسباب پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے یہ ایک بڑی دردناک کہانی ہے جسے پڑھ کر قاری اپنی آنسوؤں کو روک نہیں پاتا۔ بلاشبہہ ڈاکٹر سعید الدین کی یہ کتاب سقوط ڈھاکا کے حوالے سے ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔
دوسری اہم کتاب سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے لیے انگریزی میں ''پاکستان اسٹیڈیز'' تحریر کی جو کہ تمام کالجوں اور جامعات تک کے طالب علموں کو پڑھائی جاتی ہے۔ اس کتاب میں پاکستان کا تاریخی پس منظر، مقصد، پاکستان کا قیام اور اس کے بعد کے حالات، مسائل، تجزیہ بہت ہی خوب صورت پیرائے میں بیان کیے گئے ہیں، تاکہ طالب علموں کے ذہنوں میں بہ آسانی نقش ہوجائے، غرض یہ کہ آپ کی تمام کتابیں اور
مضامین بے حد اچھے انداز میں لکھے گئے ہیں۔
ڈاکٹر سعید الدین کی کتابیں دنیا کی بڑی لائبریریوں میں موجود ہیں جن میں لائبریری آف کانگریس واشنگٹن ڈی سی امریکا، نیویارک پبلک لائبریری، برٹش لائبریری لندن، انڈین لائبریری لندن، قائداعظم لائبریری کراچی، لاہورشامل ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر سعید الدین کا خاص اور پسندیدہ مضمون سیاسیات تھا قانون، فلسفہ، منطق، تعلیم و فقہ، مذہب، ادب، شعروشاعری، تاریخ میں بھی ہمیشہ دل چسپی رہی۔ تاہم اگر ڈاکٹر سعید الدین کی شخصیت کا جائزہ لیں یا اس پر روشنی ڈالیں تو ان کی پوری زندگی پر ہمیں سقراط (Father of philosophy)، افلاطون (Father of history) اور ارسطو (Father of Political Science) کے نظریات کا غلبہ نظرآتا ہے۔ وہ ان کے نظریات کو ہی اپنی زندگی پر لاگو کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ سقراط کا فلسفہ تھا کہ کوئی بات بتانے سے پہلے اسے تین چیزوں کی کسوٹی پر رکھو اور پھر تجزیہ کرو اور فیصلہ کرو (۱) سچ (۲) اچھائی (۳) فائدہ مند۔
وہ سقراط کو شہید حق اور شہید سچ کا خطاب دیتے اور کہتے تھے کہ؛ سقراط زہر نہ پیتا تو مرجاتا۔ سقراط بھاگ جاتا تو تاریخ میں مرجاتا، لیکن زہر پی کر وہ ہزاروں سال سے زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا۔
ڈاکٹر سعید الدین کا درس و تدریس کے حوالے سے پاکستان کی تعلیمی جامعات میں بلند و اعلٰی مقام ہے۔ انہیں بھی اللّہ تعالٰی نے سقراط کی طرح انسانوں کو سمجھنے کی صلاحیت عطا کی تھی۔ ان کے نزدیک سچا آدمی موت سے نہیں ڈرتا بلکہ بداعمالی سے گھبراتا ہے۔ وہ ہمیشہ سچائی کی تلقین کرتے اور حق
بات کہتے تھے۔ انہوں نے اصولوں پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا۔
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتا ہے (میرتقی میر)
ڈاکٹر سعید الدین فلسفیانہ گفتگو کے ماہر تھے وہ کہا کرتے تھے کہ؛ حق دو شخصوں کا محتاج ہے، ایک وہ جو اس کا اظہار کرے اور دوسرا وہ جو اسے سمجھے۔
آپ کو سوال پر سوال کرنے کی عادت تھی پھر کبھی نہ معلوم کہ پردے اٹھانے میں علمی و سیاسی بحث و مباحثے طو ل پکڑجاتے وہ ہر سوال کے جواب میں ایک اور سوال کردیتے حتٰی کہ ان کا مخالف لاجواب اور پریشان ہوجاتا تھا۔ وہ زندگی کا نتیجہ اخذ کرنے کے لیے الفاظ کی موجوں میں ہر وقت ڈوبے رہتے تھے کبھی کبھی ان کی شخصیت میں پراسراریت جھلکتی نظر آتی تھی۔ غرض آپ کی شخصیت ایک معمے سے کم نہ تھی۔ اکثر اوقات سامنے والا آپ کو سمجھنے سے قاصر رہتا تھا۔
ڈاکٹر سعید الدین روز اول سے ہی جامعات میں جرأت و بہادری کا مستند نام تھے جو حق بات کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پر لگادیتے تھے۔ 1980کی دہائی میں کوئٹہ یونیورسٹی (بلوچستان) میں 23 مارچ یوم پاکستان کے موقع پر دھواں دھار تقریر اپنی مرضی اور سوچ کے مطابق کرڈالی۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر جوکہ ایک ریٹائرڈ فوجی کرنل یا بریگیڈیئرتھے، ان کی بہادری کے قصے یا مقالے نہیں پڑھے۔ یہ بات وائس چانسلر کو ناگوار گزری۔ ڈاکٹر سعید الدین نے وی سی کی ناراضی اور برہمی پر سر جھکانے سے انکار کردیا اور اور اپنے اصولی موقف پر استعفٰی پیش کردیا۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کو اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ دراصل موجودہ حالات میں تنقید برداشت سے باہر ہوجاتی ہے، دلیل کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہتی ہے، اختلاف رائے بذات خود ایک بہت بڑا المیہ بن جاتا ہے۔
ڈاکٹر سعید الدین اپنے پاکستانی ہونے پر فخر محسوس کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ، میں قائد کے دو نظریاتی قابل تقسیم اتحاد کا حصہ ہوں جو پاکستانی قومیت ہے بس یہی میری شناخت ہے۔
وہ اپنے قائد محمدعلی جناح اور آباؤاجداد کے بنائے ہوئے دیس میں بے دیس ہوکر مسلسل سیاسی جبرواستحصال، معاشی ناانصافیوں اور عدم مساوات کا شکار رہے۔ ساغرصدیقی کا یہ شعر آپ کی زندگی پر صادق نظر آتا ہے :
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
ڈاکٹر سعید الدین کی شخصیت کو بنانے میں کئی عوامل نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ جب آپ نے شعور کے منازل طے کیں وہ دور مارشل لا کی قیدوبند اور سختیوں کا دور تھا۔ انھیں لگتا تھا کہ پاکستان چند مخصوص خاندانوں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے لیے بنایا گیا ہے۔ وہ کہتے تھے کہ قائداعظم کے پاکستان میں حکومتی اداروں کو چلانے کے لیے فوج کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔
وہ سقوط ڈھاکا 1971کو ایک دل خراش اور ناقابل فراموش واقعہ قرار دیتے تھے۔ وہ قائداعظم محمدعلی جناح کے دو قومی نظریے کی حمایت کے تحت اپنا سب کچھ چھوڑ کر آنے والوں کے لیے بھی متفکر رہتے تھے۔ انھیں اندازہ ہوگیا تھا کہ 77 سال کے بعد بھی قائداعظم کے خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکیں گے۔ یہاں نہ روزگار کی ضمانت ہے اور نہ ہی حقوق کا کوئی تحفظ۔
نام نہاد جعلی علم و دانش کے لوگوں پر انعامات کی بارش اور سقراط کے حصے میں زہر کا پیالہ۔ وہ اپنے آپ کو سقراط سے تعبیر کرتے تھے۔ وہ لوگوں سے حق بات کا اظہار کرتے مگر اس کا سمجھنے والا کوئی نہیں ہوتا تھا۔ بس آخر میں یہی مایوسی ڈاکٹر سعید الدین کو اس مقام پر لے آئی جہاں وہ دل برداشتہ ہوکر گوشہ نشینی پر مجبور ہوگئے کیوںکہ سچ بولنے کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے، وہ لاپتا افراد کا انجام دیکھ چکے تھے۔ انھوں نے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کی غرض سے نفرت کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔ دنیاوی معاملات اور بکھیڑوں سے یکسر کان اور آنکھیں بند کرلیں۔ جون ایلیا کا یہ شعر ان پر صادق آتا ہے:
میں بھی بہت عجیب ہوں، اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں
تو میرا حوصلہ تو دیکھ، داد تو دے کہ اب مجھے
شوق کمال بھی نہیں۔ خوف ردال بھی نہیں
ڈاکٹر سعید الدین نے کئی ممالک کے سفر بھی کیے، جن میں سعودی عرب، ایران اور ترکی شامل ہیں۔ آپ کا تعلق حنفی، سنی علمی گھرانے سے تھا ذات شیخ تھی آپ نے حج اور کئی عمرے کیے۔ قرآن و حدیث، فقہ سب سے اچھی طرح واقف تھے۔ آپ کے والدین کے گھر میں باقاعدگی کے ساتھ عید میلادالنبی (ﷺ) پر میلادشریف اور فاتحہ خوانی کا اہتمام ہوتا تھا۔
پروفیسر ڈاکٹر سعید الدین میں ذہانت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ان کے مزاج میں ہمیں ظرافت بھی نظرآتی ہے۔ جب موڈ اچھا ہوتا تو بچوں کے ساتھ مذاق بھی کرتے تھے۔ گھر میں اپنی والدہ کے بہت زیادہ قریب تھے۔ والد ہ کے ساتھ گھنٹوں بیٹھ کر اپنی پورے دن کی روداد سناتے تھے۔ والدہ بھی اپنے تمام بچوں میں سب سے زیادہ لاڈ ان ہی کے اٹھاتی تھیں۔
آپ شعراء کا کلام بہت شوق سے پڑھتے تھے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال، استاد قمر جلالوی اور احمد فراز کو ہمیشہ خراج تحسین پیش کرتے تھے۔ بہت ہی صاف گو اور رحم دل انسان تھے۔ روزانہ اخبارات کا مطالعہ کرتے تھے۔ پڑھنا لکھنا معمولات زندگی تھا اور مرتے دم تک یہی معمول رہا۔
آپ کی آخری رسومات 10جولائی 2024 بروز بدھ ادا کی گئیں اور تدفین ماڈل کالونی کے خاندانی قبرستان میں کی گئی۔ آپ کے پس ماندگان میں سوگوار اہلیہ قائداعظم اکیڈمی کراچی کی ڈائریکٹر (ریٹائرڈ) پی ایچ ڈی ہولڈر ڈاکٹر شہلا کاظمی ہیں، جو ایک تجربہ کار ریسرچر بھی ہیں۔ آپ کا پی ایچ ڈی (Thesis) محمدعلی جناح Leadership patternمنظم: تجزیہ و تشریح اور دل چسپ حقائق پر مبنی ہے۔ اعلٰی تخلیقی صلاحیتوں کی مالک ڈاکٹرشہلا کاظمی نے کئی کتابیں اور مضامین بھی تحریر کیے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر سعید الدین کی شخصیت پر جتنا بھی لکھا جائے وہ کم ہے۔ تاہم راقم نے یہ کوشش کی ہے کہ ان کی زندگی کے اہم پہلوؤں کو اجاگر کیا جائے۔ اس مضمون کے سلسلے میں تمام معلومات ان کے بھائی ناصرالدین قریشی نے فراہم کی ہیں اور ماضی کے جھروکوں سے ان کی بہت سی یادوں کو بیان کیا ہے۔