بعثت محمدیؐ

 انسانیت کے لیے اللہ کا احسانِ عظیم

فوٹو : فائل

ماہ بیع الاول میں حضور ﷺ کی آمد ہوئی۔ ظلمات سے نکل کر لوگ روشنی کی طرف سفر کرنے لگے، چور چوکی دار بن گئے، بچیوں کو زندہ درگور کرنے والے بچیوں کے محافظ ونگہبان بن گئے، یقیناً یہ اسی وقت ہواجب تاریخ میں ایک انقلاب آیا انقلاب بھی کسی کی بعثت کے ساتھ آیا سرورِدوعالم ﷺ کی بعثت کا واقعہ بلا شبہ انسانی تاریخ کا سب سے زیادہ انقلاب آفریں واقعہ ہے۔

انسانی دنیا تاریخ کے دوراہے پر کھڑی تھی، عرب میں ایک طرف جہالت تاریکی بدامنی اور قتل غارت گری کا دور دورہ تھا تو دوسری طرف عجم کے فرماں روا اپنی بادشاہت اور تہذیب وتمدن کی آڑ میں عوام الناس کا استحصال کرکے اپنے جذبہ جہاںگیری کو تسکین دے رہے تھے۔ انسانیت کا ضمیر نفس کے پنجے میں سسک رہاتھا طاقت ور کم زور کو اپنا غلام سمجھتا تھا اور کم زور محکومی کی حدوں سے گزرکر زورآوروں کی بندگی پر مجبور ہوچکے تھے۔ عدل وانصاف اور اخلاقی اقدار کا جنازہ نکل چکا تھا۔ لوگوں کے پاس آسمانی ہدایت کا کوئی قابل لحاظ نسخہ اپنی اصل شکل میں محفوظ نہیں تھا، جو اس بحرانی کیفیت کا مداوا کرپاتا۔ اہل کتاب کے احبار ورہبان کی کاروباری ذہنیت کے نتیجے میں وحی ربانی کا وہ چشمہ صافی بھی گدلا ہوچکا تھا جو ایسی مشکل گھڑی میں ان تشنہ لبوں کی سیرابی کا سامان کرسکتا ۔ کُل ملا کر انسانی دنیا ایسے اندھیرے میں بھٹک رہی تھی جہاں روشنی کا کوئی گزر نہ تھا۔ تاریخ کے اس دور کو دور جاہلیت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

لیل ونہار کی یہ گردشیں اس امر کی متقاضی تھیں کہ دنیا کے منظرنامے پر ایک تاریخی انقلاب کا ظہورہو۔ تاریخ کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ جب انسانی دنیا اس قسم کے بحرانی حالات سے دوچار ہوئی ہے تو اس کارخانہ قدرت کے صانعِ حکیم نے تمدن کے گہوارے کی حیثیت رکھنے والے مقامات پر ایسے افراد کو منصب نیابت پر مامور کیا جنھوں نے اپنی فوق العادت شخصیتوں کے ذریعہ اس ربع مسکون پر بسنے والے لوگوں کی راہ بری کا فریضہ انجام دیا۔ چھٹی صدی عیسوی میں یہ حیثیت مکہ کو حاصل تھی جہاں عرب جیسی جفاکش بلند حوصلہ اور اولوالعزم قوم آباد تھی۔ عرب قوم کی شناخت گردونواح میں بعض خصوصیات کی بنا پر مسلم تھی۔ اس میں قیادت کی اہلیت اور جوہر دونوں چیزیں موجود تھیں۔ اس میں حوصلہ اور عزم کا ٹھاٹیں مارتا سمندر موج زن تھا۔ اس کے اندر انقلاب آفرینی کی بھرپور صلاحیت موجود تھی۔ ایسے وقت میں عرب کے سب سے معزز اور مشہور قبیلے قریش میں دنیا کے سب سے بڑے انسان کو اللّہ تعالی نے وجود بخشا جو آگے چل کر جہالت وضلالت کی تاریک رات میں آفتاب رسالت بن کر ابھرا اور بہت قلیل مدت میں اس کی جلوہ سامانی سے تمام شرق وغرب منور ہوگئے۔ شاعر نے کیا خوب پہ منظرکشی کی ہے۔

حضور آئے تو سرآفرینش پا گئی دنیا

اندھیروں سے نکل کر روشنی میں آگئی دنیا

بجھے چہروں کا زنگ اترا سُتے چہروں پہ نورآیا

حضور آئے توانسانوں کو جینے کا شعور آیا


محمدرسول اللّہ ﷺ کی بعثت کا واقعہ بلاشبہہ انسانی تاریخ کا ایک ناقابل فراموش باب ہے۔ آپ ﷺ کی آمد نے صفحہ ہستی پر جوان مٹ نقوش ثبت کیے ہیں وہ آج بھی اپنی الگ شناخت رکھتے ہیں۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا اعتراف بارہا کیا گیا اور رہتی دنیا تک کیا جاتا رہے گا۔ آپ ﷺ کی عظمتِ شان کے اعتراف کا دائرہ صرف مسلمانوں تک محدود نہیں ہے بلکہ اس میداں میں متعدد غیرمسلم شخصیتوں نے بھی طبع آزمائی کی ہے۔ مشہور مصنف تھامس کارلائل نے اپنی کتاب ہیرو اینڈ ہیرو ورشپ میں کمالات محمدی کا اعتراف کیا ہے۔ امریکا سے تعلق رکھنے والے تاریخ داں اور ماہر فلکیات ڈاکٹرمائکل ہارٹ نے اپنی مایہ ناز تصنیف تاریخ کی سو انتہائی متاثر کن شخصیات میں آپ ﷺ کو سرفہرست تسلیم کیا ہے۔ دنیا میں بڑے لوگ بہت ہوئے ہیں مگر جو جامعیت آپ ﷺ کو حاصل ہے اس کی کوئی دوسری مثال پیش کرنے سے دنیا کی تاریخ عاجز ہے۔ آپ ﷺ کی دعوتی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جو بجائے خود ہمارے لیے ایک نمونہ عمل نہ ہو قرآن کا بیان ہے۔ البتہ تحقیق ہے تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی زندگی بہترین نمونہ(القرآن)

ٓؒؒاللہ پاک نے نبی پاک ﷺ کو سارے جہاں کے لیے رحمت بناکر بھیج دیا فرمایا، اے نبی! ہم نے آپ جہاں کے لیے رحمت ہی رحمت بنادیا (القرآن )

کسی نے کیا خوب شانِ رسالت میں ایک نقشہ کھینچا ہے کہ رحمۃ للعالمین آپ کا جبہ ہے اور خلقِ عظیم آپ ﷺ کا تاج ہے۔ صداقت اور امانت آپ ﷺ کے لباس کا تانا بانا ہے۔ خوش خلقی کا رنگ آپ ﷺ کی فطرت حسنہ میں جلوہ گر ہے۔ حق کا نورانی حلقہ آپ ﷺ کے سینہ مبارک کے گرد جگمگ جگمگ کرتا ہے۔ اللّہ کا نور آپﷺ کے قلب صادق میں جمال آرا ہے۔ معرفت کا سرور آپﷺ کی کالی سرخ ڈوروں والی آنکھوں سے مترشخ ہے۔ آپﷺ مجسم حق ہیں۔ آپ ﷺ تفسیر قرآن ہیں۔ جب آپﷺ گفتگو کرتے ہیں تو جیسے پھول جھڑتے ہیں۔ آپﷺ تبسم فرماتے ہیں تو دلوں کی فوج اسیرِ محبت ہوجاتی ہے۔ آپ ﷺ ادب سکھلانے والے ہیں۔ آپﷺ کی محفل سراپا ادب ہے۔ آپ ﷺ برتری کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ آپ ﷺ سراپا رحمت ہیں جو بیٹھتے ہیں تو سب کے برابر، جو چلتے ہیں تو سب کے درمیان۔ آپﷺ کی خاموشی میں ایک کائنات جذب ہے۔ آپ ﷺ کی گفتگو پھولوں کی ایک جنت ہے۔ آپ ﷺ کی محفل موتیوں بھرا دریا ہے۔ آپ ﷺ خاموشی اختیار کرتے ہیں تو کائنات خاموش ہوجاتی ہے۔ آپ ﷺ تبسم فرماتے ہیں تو سدابہار باغ کِھل جاتے ہیں۔ فرشتے جن کی خوشہ چینی کرتے ہیں۔ آپﷺ اللّہ کے کلام کی جب تلاوت فرماتے ہیں تو کائنات مسحور ہوجاتی ہے۔ آپ ﷺ افسردہ ہوتے ہیں تو سارا جہاں افسردہ ہوجاتا ہے۔ آپ ﷺ غم زدہ ہوتے ہیں تو جہاں آپﷺ کے ساتھ غم زدہ ہوتا ہے۔ آپﷺ تبسم فرماتے ہیں تو کائنات مسکراتی ہے۔ آپ ﷺ روتے ہیں تو کائنات روتی ہے۔ آپﷺ ناپسندیدگی کا اظہار فرماتے ہیں تو کائنات کانپتی ہے۔ آپﷺپیکرِ عفو ہیں۔ آپ ﷺ مظہر رحمت ہیں ۔ دوست پر رحمت فرماتے ہیں تو دشمن کو درگزر کرتے ہیں۔ آپﷺ حلم کے نورانی مینار ہیں تو شفقت کے پھول ہیں۔ آپﷺ وعدہ کرتے ہیں تو ہر قیمت پرایفا کرتے ہیں۔ کوئی امر سخت ناپسندیدہ وقوع پزیر ہو تو سینہ بے کینہ میں رنجیدگی کا کچھ ایسا تموج پیدا ہوتا ہے کہ آبروں کے درمیان سے اٹھتی ہوئی وہ رگ جو آپ ﷺ کی جبین مبارک سے مانگ تک جاتی ہے پھول جاتی ہے، مگر ناپسندیدگی ذات کے لیے نہیں کسی اصول کے لیے ہوتی ہے۔ آپ ﷺ چلتے ہیں تو راستے میں ٹھہر ٹھہر کر لوگوں کی خیریت پوچھ رہے ہیں اور شفقتیں فرما رہے ہیں۔

ہمیں وہ اپنا کہتے ہیں۔ محبت ہو تو ایسی ہو

ہمیں نظروں میں رکھتے ہیں، عنایت ہو تو ایسی ہو

پیارے نبی ﷺ کا اخلاق عالیہ دیکھ کرکئی لوگ حلقہ اسلام میں داخل ہوئے۔ حضور اقدسﷺ کسی سفر میں تھے، ایک بکری پکانے کی تجویز ہوئی، ایک شخص نے کہاکہ اس کا ذبح کرنا میرے ذمہ ہے۔ دوسرا بولا کہ اس کی کھال کھینچنا میرے ذمہ۔ تیسرے نے کہا اس کا پکانا میرے ذمہ۔ حضور ﷺ نے فر مایا کہ لکڑیاں اکٹھا کرنا میرے ذمہ۔ آپ کے رفقا نے عرض کی کہ حضور! یہ بھی ہم ہی آ پ کی طرف سے کرلیں گے۔ آ پ نے فرمایا کہ ہاں! مجھے معلوم ہے کہ تم میری طرف سے کرلوگے، لیکن مجھے یہ بات ناگوار ہے کہ میں اپنے رفیقوں سے امتیازی شان میں رہوں اور اللّہ پاک کو بھی ناپسند ہے اپنے بندے کی یہ بات کہ وہ اپنے رفیقوں سے امتیازی شان میں رہے۔ پھر آپ ﷺ تشریف لے گئے اور خود لکڑیاں جمع فرمائیں۔

امتیازی شان اختیار کرنا اور لوگوں سے کام کروانا اور خود ہٹ کر بیٹھ جانا نبی پاک ﷺکو پسند نہیں تھا۔ آپ گھریلو کام میں بھی ازواجِ مطہرات کے ساتھ ہاتھ بٹایا کرتے تھے۔ زندگی گزارنے کا سلیقہ آپ ﷺ نے امت کو سکھایا۔ اس امت کی خاطر نبی پاک ﷺ نے راتوں کو اٹھ اٹھ کر دعائیں کیں۔ اب ہمیں چاہیے کہ ان دعاؤں کی لاج رکھتے ہوئے اعمال وافعال نبی علیہ السلام کے طریقوں کے مطابق کریں۔ جنت میں جانے کا یہی طریقہ ہے۔

اللّہ پاک ہمیں نبی اکرم ﷺ کے مبارک طریقوں کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے (آمین بحرمۃ سیدالانبیاء والمرسلین)
Load Next Story