- اسلحہ برآمدگی کیس، علی امین گنڈاپور کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری
- لبنان؛ مہاجر کیمپ پراسرائیلی حملے میں حماس کمانڈراہلیہ، 2 بیٹیوں سمیت شہید
- کراچی کو جدید اور بہترین شہر بنانے کیلیے 3 ارب ڈالرز کی ضرورت ہے، وزیراعلیٰ سندھ
- طالبان پی ٹی آئی کے سہولت کار ہیں اور انکے مسلح افراد گنڈاپور کے ساتھ آرہے ہیں، خواجہ آصف
- یوٹیوب سبسکرائبرز؛ رونالڈو کو ٹکر دینے کیلئے میسی سے تعاون کا عندیہ
- پاک فوج کے دستوں کا اسلام آباد اور گرد و نواح میں گشت
- ملتان ٹیسٹ؛ انگلش کپتان بین اسٹوکس انجری کے باعث میچ سے باہر
- پنجاب حکومت نے لاہور میں بھی فوج طلب کرلی
- کسی شرپسند کو ڈی چوک کے قریب پھٹکنے نہیں دیں گے، وزیر اطلاعات
- بھارتی وزیرخارجہ کوریاست مخالف احتجاج میں شرکت کی دعوت ملک دشمنی کا آخری لیول ہے، عظمی بخاری
- اسلام آباد کے تاجروں کا پی ٹی آئی احتجاج کیخلاف ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ
- گنڈاپور کے قافلے میں پی ٹی آئی کارکن ہیں، کوئی افغان باشندہ نہیں، بیرسٹر سیف
- ویمنز ٹی20 ورلڈکپ؛ ویسٹ انڈین بالر چہرے پر گیند لگنے سے زخمی
- گھریلو جھگڑے پرشوہرنے بیوی کو تشدد کے بعد قتل کردیا
- کراچی میں پولیس مقابلے؛ 8 زخمیوں سمیت 9 ملزمان گرفتار، اسلحہ اور مسروقہ سامان برآمد
- وزیراعلی خیبرپختونخوا ساری حدود پار کررہے ہیں، وزیر داخلہ
- دوستی سے انکار پرخاتون کو تیزاب سے جلانے، زیادتی کی کوشش
- شکست پر میڈل تقسیم! بھارتی فینز کپتان، کھلاڑی اور مینجمنٹ پر بھڑک اُٹھے
- کم وقت میں ڈرون سے سب سے زیادہ ایموجیز بنانے کا عالمی ریکارڈ قائم
- علی امین گنڈاپور اسلام آباد پہنچ گئے، پولیس گرفتاری کیلیے کے پی ہاؤس میں داخل
آئینی ترامیم پر سیاسی کشمکش
آئینی ترامیم قومی اسمبلی اور سینیٹ کا اجلاس بلائے جانے کے باوجود ممکن نہ ہو سکیں۔ ایک عمومی رائے یہ ہے کہ مولانا نہیں مانے۔ سب مولانا کو منانے کی کوشش کرتے رہے۔ لیکن مولانا نہیں مانے۔ اب سب یہ تنقید بھی کر رہے ہیں کہ اگر مولانا نہیں مانے تھے تو قومی اسمبلی اور سینیٹ کا اجلاس بلانے اور اتنے بڑے اسٹیج پر اتنا ڈرامہ اسٹیج کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ سب حکومت کی نا اہلی ہے۔
حکومت کی نااہل ٹیم کی وجہ سے یہ نا کامی ہوئی ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ جب مسودہ ہی تیار نہیں تھا تو پھر اجلاس بلانے کی ضرورت کیا تھی۔ غرض کہ ہر کسی کو ان ترامیم کے منظور نہ ہونے کی اصل وجہ معلوم ہے۔ اور وہ ایسا تبصرہ کر رہا ہے جیسے اسے سب معلوم ہے ۔ لیکن یہ بات درست ہے کہ جیت کے کئی باپ ہوتے ہیں اور ہار یتیم ہوتی ہے۔ آج ہم اس کی عملی شکل دیکھ رہے ہیں۔ حکومت کی شکست کی کوئی ذمے داری لینے کی کوشش نہیں کر رہا ۔ اگر یہ ترامیم منظور ہو جاتیں تو کیا ان کے منظور ہونے کا کریڈٹ نہ لیتے۔ کریڈٹ لینے کے لیے سب تیار ہوتے۔لیکن آج نہ ہونے کی ذمے داری لینے کے لیے کوئی تیار نہیں۔
بہرحال میں آپ کے ساتھ مل کر حالات کا تجزیہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ان ترامیم کی کہانی پس پردہ توکافی عرصہ سے چل رہی تھی۔ اس کی بازگشت تو سب کے سامنے تھی۔لیکن اس کی عملی سیاسی کوششوں کا آغاز اس دن ہوا۔ جب صدر پاکستان آصف زرداری وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کے ساتھ مولانا فضل الرحمٰن کے گھر گئے۔ سب کو پتہ تھا کہ ترمیم پر بات کرنے گئے ہیں۔
صدر پاکستان نے مولانا کو ایک بندوق بھی تحفہ میں دی ۔ مولانا نے آصف زرداری کا تحفہ قبول کر لیا۔ ویسے تو میں یہ ماننے کے لیے تیار نہیں بغیر کسی بات چیت کے صدر پاکستان ایوان صدر سے اٹھے اور مولانا کے گھر چلے گئے۔ ایسا نہیں ہوتا۔ یہ پہلی ملاقات نہیں ہو سکتی۔ اس سے پہلے پس پردہ بہت کام ہو چکا ہوگا۔ اور یہ کہا گیا ہوگا کہ اب صدر پاکستان جائیں گے تو بات طے ہو جائے گی۔ پھر صدر مملکت بندوق کا تحفہ لے کر گئے۔
صدر پاکستان کے ساتھ بلاول نہیں گئے۔ بلکہ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی ساتھ تھے۔ بہر حال جنھیں اس وقت کابینہ اور حکومت میں اسٹبلشمنٹ کا نمایندہ ہی تصور کیا جاتا ہے۔ ان کی موجودگی کا مطلب یہی سمجھا جاتا ہے کہ اسٹبلشمنٹ موجود ہے۔ ویسے یہ حقیقت کہ مولانا اور محسن نقوی کے بہت برادرانہ تعلقات بھی ہیں۔
بہر حال صدر مملکت اور مولانا کے درمیان ملاقات کے چند دن بعد وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف اور وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی مولانا کے گھر گئے۔ سب کو پتہ ہے کہ میاں شہباز شریف آئینی ترامیم کے لیے ہی گئے۔
یہ ملاقات کے بارے میں بھی بتایا گیا کہ بہت کامیاب رہی۔ یہاں سے یہ تاثر پیدا ہونا شروع ہوا کہ مولانا ترمیم کے حق میں ہیں۔ پھر مولانا نے بھی کچھ ایسے سیاسی سگنل دیے جن سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ مولانا ترامیم کے حق میں ہیں۔ جب آصف زرداری بندوق تحفہ میں دے رہے تھے تو یقیناً بندوق کا تحفہ قبول کرتے وقت مولانا نے ایسی گفتگو کی ہو گی کہ وہ سمجھے کہ مولانا ہمارے ساتھ ہیں۔ پھر اس ملاقات کی کامیابی کی کوئی گونج پیدا ہوئی ہو گی کہ وزیر اعظم مولانا کے گھر گئے۔
آج یہ بھی بہت بات کی جا رہی ہے کہ مولانا کو مسودہ نہیں دیا گیا۔ سب سے بڑی غلطی یہی ہے کہ مولانا کو مسودہ نہیں دیا گیا۔ لیکن ہم اس پہلو کو کیوں نظر انداز کر رہے ہیں کہ جب صدر مملکت اور وزیر اعظم مولانا کو ملے تو کیا انھوں نے مسودہ مانگا۔ جب وزیر اعظم ملنے گئے تو انھوں نے کہا کہ مسودہ کے بغیر میں کوئی بات نہیں کر سکتا۔ جب اسٹبلشمنٹ کے نمایندے محسن نقوی انھیں مل رہے تھے تو انھوں نے انھیں کہا کہ مسودہ کے بغیر کوئی بات نہیں ہو سکتی۔ پہلے مسودہ پھر کوئی بات۔ کیا ہم یہ مان سکتے ہیں کہ مولانا ملاقاتوں میں مسودہ مانگ رہے تھے۔ اور حکومت کا یہ خیال تھا کوئی بات نہیں۔ شاید ایسا نہیں ہے۔ کیونکہ منطق یہ نہیں مانتی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔