بھارت مشہور کمپنی کی ملازمہ کا بے تحاشا ورک لوڈ کے باعث انتقال
میری بیٹی کو ان کی منیجر اوور ٹائم کے لیے مجبور کرتی تھیں اور اتوار کو بھی کام پر بلاتی تھیں، والدہ کا خط
بھارت کے شہر پونے میں مشہور کمپنی ایرنسٹ اینڈ ینگ (ای وائی) کی 26 سالہ ملازمہ کی والدہ نے دعویٰ کی اہے کہ ان کی بیٹی بدترین ورک لوڈ اور کام کے دباؤ کے باعث انتقال کر گئی ہیں۔
ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق جاں بحق ہونے والی 26 سالہ اینا سیباسٹیان پیرائیل پیشے کے اعتبار سے ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ تھیں اور ای وائی میں مارچ 2024 میں ملازمت حاصل کرلی تھی اور صرف 4 ماہ بعد جولائی میں انتقال کرگئیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ جاں بحق ہونے والی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کی والدہ انیتا آگسٹین نے ای وائی انڈیا کے چیئرمین راجیو میمانی کو خط میں لکھا، جس میں انہوں نے اپنی بیٹی کی صحت پر کام کے مطالبات کی وجہ سے پڑنے والے اثرات کے حوالے سے تفصیلات سے آگاہ کیا۔
انیتا آگسٹین نے خط میں لکھا کہ اینا ای وائی میں ملازمت شروع کرنے کے لیے پرجوش تھیں لیکن کام کا دباؤ بہت زیادہ تھا اور وہ رات گئے اور ہفتہ وار چھٹیوں کے دوران بھی مسلسل کام کرتی رہتی تھیں، کام کے بعد گھر واپس آتی تھیں تو تھکی ہاری ہوتی تھی جبکہ انہیں مزید کام سونپ دیا جاتا تھا۔
انہوں نے لکھا کہ اینا کی موت ان کے منیجرز کی جانب سے دیے جانے والے بے تحاشا کام کے دباؤ کی وجہ سے ہوئی ہے اور ان کو میری بیٹی سے ہمدردی بھی نہیں تھی، ان کی منیجر ہر شفٹ کے اختتام پر انہیں مسلسل اضافی کام دیا کرتی تھیں اور اوور ٹائم کے لیے دباؤ ڈالتی تھی یہاں تک کہ اتوار کو بھی کام پر بلاتی تھیں۔
انتیا نے خط میں کہا کہ یہ اضافی کام اکثر زبانی طور پر سونپ دیا جاتا تھا اور اس کی وجہ سے اینا کو دباؤ کا سامنا تھا۔
ان کی زندگی چھین لی گئی
انیتا آگسٹین نے لکھا کہ اینا اسکول اور کالج میں ٹاپ کرنے والی طالبہ تھی اور سی اے کا امتحان اعزازی نمبروں سے پاس کیا تھا اور بہت محنت کرنے والی لڑکی تھیں لیکن کام کا دباؤ، نیا ماحول اور کام کے طویل اوقات کار نے ان کو جسمانی، جذباتی اور دماغی طور پر بے حال کردیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اینا ملازمت کے لیے پونے چلی گئی تھیں جہاں انہیں ایک نئے شہر میں ایڈجسٹ ہونے کے لیے مشکلات کا سامنا تھا کیونکہ وہ تو وہاں کے شہریوں سے ناواقف تھیں اور زبان بھی نہیں جانتی تھیں۔
خط میں نمایاں کیا گیا ہے کہ اینا کی منیجر ان کی آخری رسومات میں بھی شرکت نہیں کرسکے، جس سے ان کی والدہ نے دل خراش قرار دیا اور کہا کہ ای وائی سے کسی نے بھی ان کی آخری رسومات میں حصہ نہیں لیا۔
انہوں نے کہا کہ ایک کمپنی جو اپنے اقدار اور انسانی حقوق کی بات کرتی ہے وہ کیسے اپنے اہم رکن کے آخری لمحات میں شریک نہ ہوسکتی ہے۔
انیتا آگسٹین نے کہا کہ ای وائی پر زور دیا کہ کام کے دوران اقدار کا مظاہرہ کریں اور ملازمین کی بہتری کی قیمت پر اضافی کام کی وضاحت کریں، امید ہے میری بچی کے حادثے کے بعد حقیقی تبدیلی آئے گی تاکہ کسی اور خاندان کو اس طرح کے غم کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
ای وائی کا ردعمل
ایرنسٹ اینڈ ینگ نے وائرل ہونے والے خط پر ردعمل میں بیان جاری کیا اور اینا کی وفات پر غم کا اظہار کیا اور کہا کہ ہم جولائی 2024 میں اینا سیباسٹیان کی اندوہ ناک موت پر گہرے غم میں ہیں اور غم زدہ خاندان سے تعزیت کرتے ہیں۔
کمپنی نے اعتراف کیا کہ اینا پونے میں ای وائی گلوبل کمپنی رکن اور ایس آر باٹلیبوئی میں آڈٹ ٹیم کا حصہ تھیں اور ہم اپنے ملازمین کی فلاح کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور ملازمین کو صحت مندانہ ماحول فراہم کرنے کے لیے کوششیں جاری رکھیں گے۔
سوشل میڈیا پر اینا سباسٹیان کی موت پر غم و غصے کا اظہار کیا گیا ستمبر کے وسط سے انٹرنیٹ میں ان کے نام سے سرچنگ میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے، جس میں کیرالا، کرناٹکا اور پودوچیری کے علاقے سرفہرست ہیں۔
ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق جاں بحق ہونے والی 26 سالہ اینا سیباسٹیان پیرائیل پیشے کے اعتبار سے ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ تھیں اور ای وائی میں مارچ 2024 میں ملازمت حاصل کرلی تھی اور صرف 4 ماہ بعد جولائی میں انتقال کرگئیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ جاں بحق ہونے والی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کی والدہ انیتا آگسٹین نے ای وائی انڈیا کے چیئرمین راجیو میمانی کو خط میں لکھا، جس میں انہوں نے اپنی بیٹی کی صحت پر کام کے مطالبات کی وجہ سے پڑنے والے اثرات کے حوالے سے تفصیلات سے آگاہ کیا۔
انیتا آگسٹین نے خط میں لکھا کہ اینا ای وائی میں ملازمت شروع کرنے کے لیے پرجوش تھیں لیکن کام کا دباؤ بہت زیادہ تھا اور وہ رات گئے اور ہفتہ وار چھٹیوں کے دوران بھی مسلسل کام کرتی رہتی تھیں، کام کے بعد گھر واپس آتی تھیں تو تھکی ہاری ہوتی تھی جبکہ انہیں مزید کام سونپ دیا جاتا تھا۔
انہوں نے لکھا کہ اینا کی موت ان کے منیجرز کی جانب سے دیے جانے والے بے تحاشا کام کے دباؤ کی وجہ سے ہوئی ہے اور ان کو میری بیٹی سے ہمدردی بھی نہیں تھی، ان کی منیجر ہر شفٹ کے اختتام پر انہیں مسلسل اضافی کام دیا کرتی تھیں اور اوور ٹائم کے لیے دباؤ ڈالتی تھی یہاں تک کہ اتوار کو بھی کام پر بلاتی تھیں۔
انتیا نے خط میں کہا کہ یہ اضافی کام اکثر زبانی طور پر سونپ دیا جاتا تھا اور اس کی وجہ سے اینا کو دباؤ کا سامنا تھا۔
ان کی زندگی چھین لی گئی
انیتا آگسٹین نے لکھا کہ اینا اسکول اور کالج میں ٹاپ کرنے والی طالبہ تھی اور سی اے کا امتحان اعزازی نمبروں سے پاس کیا تھا اور بہت محنت کرنے والی لڑکی تھیں لیکن کام کا دباؤ، نیا ماحول اور کام کے طویل اوقات کار نے ان کو جسمانی، جذباتی اور دماغی طور پر بے حال کردیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اینا ملازمت کے لیے پونے چلی گئی تھیں جہاں انہیں ایک نئے شہر میں ایڈجسٹ ہونے کے لیے مشکلات کا سامنا تھا کیونکہ وہ تو وہاں کے شہریوں سے ناواقف تھیں اور زبان بھی نہیں جانتی تھیں۔
خط میں نمایاں کیا گیا ہے کہ اینا کی منیجر ان کی آخری رسومات میں بھی شرکت نہیں کرسکے، جس سے ان کی والدہ نے دل خراش قرار دیا اور کہا کہ ای وائی سے کسی نے بھی ان کی آخری رسومات میں حصہ نہیں لیا۔
انہوں نے کہا کہ ایک کمپنی جو اپنے اقدار اور انسانی حقوق کی بات کرتی ہے وہ کیسے اپنے اہم رکن کے آخری لمحات میں شریک نہ ہوسکتی ہے۔
انیتا آگسٹین نے کہا کہ ای وائی پر زور دیا کہ کام کے دوران اقدار کا مظاہرہ کریں اور ملازمین کی بہتری کی قیمت پر اضافی کام کی وضاحت کریں، امید ہے میری بچی کے حادثے کے بعد حقیقی تبدیلی آئے گی تاکہ کسی اور خاندان کو اس طرح کے غم کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
ای وائی کا ردعمل
ایرنسٹ اینڈ ینگ نے وائرل ہونے والے خط پر ردعمل میں بیان جاری کیا اور اینا کی وفات پر غم کا اظہار کیا اور کہا کہ ہم جولائی 2024 میں اینا سیباسٹیان کی اندوہ ناک موت پر گہرے غم میں ہیں اور غم زدہ خاندان سے تعزیت کرتے ہیں۔
کمپنی نے اعتراف کیا کہ اینا پونے میں ای وائی گلوبل کمپنی رکن اور ایس آر باٹلیبوئی میں آڈٹ ٹیم کا حصہ تھیں اور ہم اپنے ملازمین کی فلاح کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور ملازمین کو صحت مندانہ ماحول فراہم کرنے کے لیے کوششیں جاری رکھیں گے۔
سوشل میڈیا پر اینا سباسٹیان کی موت پر غم و غصے کا اظہار کیا گیا ستمبر کے وسط سے انٹرنیٹ میں ان کے نام سے سرچنگ میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے، جس میں کیرالا، کرناٹکا اور پودوچیری کے علاقے سرفہرست ہیں۔