تزکِ جہانگیری دوسرا اور آخری حصہ
میرے والد ہر مذہب و مسلک کے علما، بالخصوص پنڈتوں اور دوسرے عقلائے ہند سے تعلقات رکھتے تھے
جہانگیرکوکشمیر بہت پسند تھا۔ ایک جگہ اس نے کشمیر کے ایک سلطان کا ذکرکیا ہے۔ وہاں جھیل کے درمیان ایک مقام ہے جسے ' ولور'کہا جاتا تھا، اس کی لمبائی چوڑائی تین کوس سے زیادہ ہے۔ اسے زین لنگاہ کے نام سے پکارتے ہیں۔ یہ موضع سلطان زین العابدین کا قائم کردہ ہے جو باون سال پہلے کشمیر کا مطلق العنان حاکم تھا۔ وہاں کے لوگ اسے عظیم بادشاہ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
بادشاہ نے چشمے کو پتھروں سے بھروایا اور وہاں ایک چبوترا بنوایا جس پر بیٹھ کر وہ اللہ رب العزت کی عبادت کرتا تھا، وہ بذریعہ کشتی وہاں آتا عبادت کرتا اور چلا جاتا۔ وہاں کے لوگوں نے یہ بھی دیکھا کہ وہ بادشاہ چالیس چالیس دن عبادت کرتا۔ ایک دن اس کا ایک ناخلف بیٹا اسے قتل کرنے کے ارادے سے آیا اور اسے تنہا پا کر تلوار نکالے ہوئے اس کے پاس گیا جب اس کی نظر سلطان پر پڑی تو اس کی صلابت پدری اور شکوہ سے سراسیمہ ہو گیا اور حیران پریشان لوٹ آیا۔ اس کے بعد ہی سلطان اس بیٹے کو کشتی پر بٹھا کر شہر کی طرف چل پڑا۔ راستے میں اس نے بیٹے سے کہا ''میں اپنی تسبیح بھول آیا ہوں، چھوٹی کشتی میں سوار ہو کر جاؤ اور اسے لے آؤ۔''
جب بیٹا عبادت گاہ پہنچا تو باپ کو وہاں موجود پایا، وہ بے سعادت بھرپور شرمندگی سے باپ کے قدموں میں گر پڑا اور اپنی خطا کی معافی مانگی، لوگ اسی طرح کی بہت سی کراماتیں سناتے ہیں۔
'' سولہ یا سترہ برس پہلے میں نے خدا سے الٰہ آباد میں یہ عہد کیا تھا کہ جب میں پچاس برس کا ہوجاؤں گا تو بندوق یا گولی سے شکارکرنا بند کردوں گا اورکسی بھی ذی روح کو اپنے ہاتھ سے مجروح نہیں کروں گا۔ مقرب خاں جو میرے معتمد بین میں سے ایک تھا میرے مصمم ارادے سے واقف تھا۔ آج کے دن میرے پچاسویں برس کا آغاز ہو چکا ہے۔
ایک دن شدید بخار کی وجہ سے سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی اور میں بہت بیمار تھا اسی عالم میں مجھے اپنے خدا سے کیا ہوا عہد یاد آیا۔ اللہ کی مدد سے میں نے فیصلہ کیا کہ میرا پچاسواں برس پورا ہوا۔ اور میرے عہد کے پورا کرنے کا وقت آ چکا ہے۔ میں جس دن اپنے والد کی قبر پہ حاضری دوں گا، خدا گواہ ہوگا اور اسی کی مدد سے میں اپنے عہد کی تکمیل کروں گا اور بندوق چلانا بند کردوں گا، جیسے ہی یہ خیال میرے دل میں آیا میری بیماری اور تکلیف دور ہوگئی۔ میں نے خود کو خوش اور تازہ دم محسوس کیا۔ میں نے اللہ کا اس کی مہربانیوں کے لیے شکر ادا کیا۔''
'' میں نے یہ رسم قائم کر رکھی تھی کہ ہر رات مستحق لوگ اور درویشوں کو میرے سامنے پیش کیا جائے تاکہ میں ان کے حالات کی ذاتی تحقیق کے بعد زمین، سونا یا کپڑے وغیرہ دوں۔ ان میں سے ایک نے میرے سامنے عرض کیا کہ نام جہانگیر علم ابجد کے لحاظ سے اللہ اکبر بنتا ہے۔ اس سے ایک اچھا شگن خیال کر کے میں نے اسے ایک گھوڑا، نقد اور ملبوسات عطا کیے۔''
اپنے ابتدائی صفحات میں جہانگیر نے اپنا نام بدلنے کی وجہ بتاتے وقت لکھا ہے کہ:
''جب میں تخت نشین ہوا تو مجھے خیال آیا کہ مجھے اپنا نام بدل لینا چاہیے۔ کیونکہ یہ نام قیصر روم (سلطان ترکی) کے نام سے ملتا جلتا تھا۔ غیب سے ذہن میں یہ خیال آیا کہ بادشاہوں کے فرائض میں جہانبانی بھی شامل ہے۔ اس لیے مجھے اپنا نام جہانگیر رکھنا چاہیے۔ (خیال رہے کہ جہانگیر کا اصل نام سلیم تھا۔ اور اکبر اپنے پیر و مرشد کے احترام میں (حضرت سلیم چشتیؒ) اسے شیخو بابا کہہ کر پکارتا تھا) اور افتخار کے لیے نام نورالدین تھا ۔ میری تخت نشینی اور آفتاب کے طلوع کا وقت ایک ہی تھا۔ میں نے اپنی شہزادگی کے زمانے میں ہندوستانی عارفوں سے سنا تھا کہ بادشاہ جلال الدین اکبر کے انتقال اور حکومت کے خاتمے کے بعد حکومت کی ذمے داریاں اس شخص کے کاندھوں پر ہوں گی جس کا نام نورالدین ہوگا، لہٰذا میں نے اپنا نام یہ رکھا اور نورالدین جہانگیر بادشاہ کا لقب اختیارکیا۔''
مجھے اس موقع پر حضرت نعمت اللہ شاہ ولی کی وہ پیش گوئیاں یاد آگئیں جو انھوں نے صدیوں پہلے بادشاہوں کے ناموں کے ساتھ کر دی تھیں، ان میں مغلیہ سلطنت کے ان تمام بادشاہوں کے نام اور ان کے دور بادشاہت کے زمانے تک کا تعین کردیا ہے۔ انسان حیران رہ جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کا سارا حساب کتاب طے کردیا ہے۔ کب قیامت آئے گی، دجال کا فتنہ کس طرح آئے گا اور پھرکس طرح دور ہوگا، امام مہدی تشریف لائیں گے، وہ صرف سات سال حکومت کریں گے اور پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام، اللہ کے حکم سے زندہ سلامت زمین پر اتر آئیں گے۔ دراصل پروردگار اپنے برگزیدہ ولیوں پر نیک انسانوں اور صوفیائے کرام پر مستقبل کے کچھ راز آشکارا کر دیتا ہے۔
'' میرے والد ہر مذہب و مسلک کے علما، بالخصوص پنڈتوں اور دوسرے عقلائے ہند سے تعلقات رکھتے تھے۔ گوکہ وہ بذات خود ان پڑھ تھے، لیکن ان کے ساتھ مستقل گفتگوکرتے رہتے تھے جس کی وجہ سے کسی کو یہ سمجھنا مشکل تھا کہ وہ اُمّی ہیں۔ وہ نثر اور نظم کی باریکیوں سے اس حد تک واقف تھے کہ ان کی کمیوں کا خیال تک نہ آتا تھا۔''
یہاں مجھے اکبر کے نو رتنوں کا خیال آتا ہے جن کی قابلیت، ذکاوت اور علمیت کی موجودگی نے اکبرکو شہنشاہ جلال الدین اکبر بنایا، اکبر واقعی ظل الٰہی تھا اور اللہ کا ان پر بڑا کرم تھا۔ وہ خود ان پڑھ تھا، لیکن عاملوں، صوفیوں اور ولیوں کی نہ صرف عزت کرتا تھا بلکہ ان سے عقیدت بھی رکھتا تھا۔ اس نے اپنے دربار میں انتہائی قابل حضرات کو جمع کیا ہوا تھا جو اکبر کے نو رتن کہلاتے تھے۔ ان میں، ابوالفضل، فیضی، ملا دوپیازہ، راجہ بیربل، حکیم ہمام، تان سین، راجہ ٹوڈرمل، مان سنگھ اور عبدالرحیم خان خاناں شامل تھے۔ اکبر کے دو بیٹے اور بھی تھے، یہ تھے شہزادہ مراد، یہ بھی فتح پور سیکری ہی میں پیدا ہوئے تھے۔ البتہ شہزادہ دانیال کی پیدائش اجمیر میں حضرت معین الدین چشتیؒ کے خادمین کے ایک مکان میں ہوئی تھی۔ دانیال اور مراد اکبرکی خواص کے بطن سے پیدا ہوئے تھے۔
تاریخ گواہ ہے کہ نام بادشاہ کا نورالدین جہانگیر تھا سکہ اس کے نام کا چلتا تھا، لیکن حکم نور جہاں کا چلتا تھا۔ آگرے کے قلعے میں ایک باغ ہے جس کا نام ''انگوری باغ'' ہے۔ یہ باغ نور جہاں نے بنوایا تھا اور اس کے انگوروں سے کشید کی ہوئی شراب پلا کر وہ جہانگیرکو ہر وقت مدہوش رکھتی تھی۔ تمام فیصلے وہی کرتی تھی، لیکن تاریخ کے جبر سے کوئی نہیں بچ سکا۔ اس کا مزار ویرانی کی ایک بھیانک شکل ہے۔
برمزارِ ما غریباں ، نے چراغے نے گُلے
نے پرِ پروانہ سوزد ، نے صدائے بلبلے
بادشاہ نے چشمے کو پتھروں سے بھروایا اور وہاں ایک چبوترا بنوایا جس پر بیٹھ کر وہ اللہ رب العزت کی عبادت کرتا تھا، وہ بذریعہ کشتی وہاں آتا عبادت کرتا اور چلا جاتا۔ وہاں کے لوگوں نے یہ بھی دیکھا کہ وہ بادشاہ چالیس چالیس دن عبادت کرتا۔ ایک دن اس کا ایک ناخلف بیٹا اسے قتل کرنے کے ارادے سے آیا اور اسے تنہا پا کر تلوار نکالے ہوئے اس کے پاس گیا جب اس کی نظر سلطان پر پڑی تو اس کی صلابت پدری اور شکوہ سے سراسیمہ ہو گیا اور حیران پریشان لوٹ آیا۔ اس کے بعد ہی سلطان اس بیٹے کو کشتی پر بٹھا کر شہر کی طرف چل پڑا۔ راستے میں اس نے بیٹے سے کہا ''میں اپنی تسبیح بھول آیا ہوں، چھوٹی کشتی میں سوار ہو کر جاؤ اور اسے لے آؤ۔''
جب بیٹا عبادت گاہ پہنچا تو باپ کو وہاں موجود پایا، وہ بے سعادت بھرپور شرمندگی سے باپ کے قدموں میں گر پڑا اور اپنی خطا کی معافی مانگی، لوگ اسی طرح کی بہت سی کراماتیں سناتے ہیں۔
'' سولہ یا سترہ برس پہلے میں نے خدا سے الٰہ آباد میں یہ عہد کیا تھا کہ جب میں پچاس برس کا ہوجاؤں گا تو بندوق یا گولی سے شکارکرنا بند کردوں گا اورکسی بھی ذی روح کو اپنے ہاتھ سے مجروح نہیں کروں گا۔ مقرب خاں جو میرے معتمد بین میں سے ایک تھا میرے مصمم ارادے سے واقف تھا۔ آج کے دن میرے پچاسویں برس کا آغاز ہو چکا ہے۔
ایک دن شدید بخار کی وجہ سے سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی اور میں بہت بیمار تھا اسی عالم میں مجھے اپنے خدا سے کیا ہوا عہد یاد آیا۔ اللہ کی مدد سے میں نے فیصلہ کیا کہ میرا پچاسواں برس پورا ہوا۔ اور میرے عہد کے پورا کرنے کا وقت آ چکا ہے۔ میں جس دن اپنے والد کی قبر پہ حاضری دوں گا، خدا گواہ ہوگا اور اسی کی مدد سے میں اپنے عہد کی تکمیل کروں گا اور بندوق چلانا بند کردوں گا، جیسے ہی یہ خیال میرے دل میں آیا میری بیماری اور تکلیف دور ہوگئی۔ میں نے خود کو خوش اور تازہ دم محسوس کیا۔ میں نے اللہ کا اس کی مہربانیوں کے لیے شکر ادا کیا۔''
'' میں نے یہ رسم قائم کر رکھی تھی کہ ہر رات مستحق لوگ اور درویشوں کو میرے سامنے پیش کیا جائے تاکہ میں ان کے حالات کی ذاتی تحقیق کے بعد زمین، سونا یا کپڑے وغیرہ دوں۔ ان میں سے ایک نے میرے سامنے عرض کیا کہ نام جہانگیر علم ابجد کے لحاظ سے اللہ اکبر بنتا ہے۔ اس سے ایک اچھا شگن خیال کر کے میں نے اسے ایک گھوڑا، نقد اور ملبوسات عطا کیے۔''
اپنے ابتدائی صفحات میں جہانگیر نے اپنا نام بدلنے کی وجہ بتاتے وقت لکھا ہے کہ:
''جب میں تخت نشین ہوا تو مجھے خیال آیا کہ مجھے اپنا نام بدل لینا چاہیے۔ کیونکہ یہ نام قیصر روم (سلطان ترکی) کے نام سے ملتا جلتا تھا۔ غیب سے ذہن میں یہ خیال آیا کہ بادشاہوں کے فرائض میں جہانبانی بھی شامل ہے۔ اس لیے مجھے اپنا نام جہانگیر رکھنا چاہیے۔ (خیال رہے کہ جہانگیر کا اصل نام سلیم تھا۔ اور اکبر اپنے پیر و مرشد کے احترام میں (حضرت سلیم چشتیؒ) اسے شیخو بابا کہہ کر پکارتا تھا) اور افتخار کے لیے نام نورالدین تھا ۔ میری تخت نشینی اور آفتاب کے طلوع کا وقت ایک ہی تھا۔ میں نے اپنی شہزادگی کے زمانے میں ہندوستانی عارفوں سے سنا تھا کہ بادشاہ جلال الدین اکبر کے انتقال اور حکومت کے خاتمے کے بعد حکومت کی ذمے داریاں اس شخص کے کاندھوں پر ہوں گی جس کا نام نورالدین ہوگا، لہٰذا میں نے اپنا نام یہ رکھا اور نورالدین جہانگیر بادشاہ کا لقب اختیارکیا۔''
مجھے اس موقع پر حضرت نعمت اللہ شاہ ولی کی وہ پیش گوئیاں یاد آگئیں جو انھوں نے صدیوں پہلے بادشاہوں کے ناموں کے ساتھ کر دی تھیں، ان میں مغلیہ سلطنت کے ان تمام بادشاہوں کے نام اور ان کے دور بادشاہت کے زمانے تک کا تعین کردیا ہے۔ انسان حیران رہ جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کا سارا حساب کتاب طے کردیا ہے۔ کب قیامت آئے گی، دجال کا فتنہ کس طرح آئے گا اور پھرکس طرح دور ہوگا، امام مہدی تشریف لائیں گے، وہ صرف سات سال حکومت کریں گے اور پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام، اللہ کے حکم سے زندہ سلامت زمین پر اتر آئیں گے۔ دراصل پروردگار اپنے برگزیدہ ولیوں پر نیک انسانوں اور صوفیائے کرام پر مستقبل کے کچھ راز آشکارا کر دیتا ہے۔
'' میرے والد ہر مذہب و مسلک کے علما، بالخصوص پنڈتوں اور دوسرے عقلائے ہند سے تعلقات رکھتے تھے۔ گوکہ وہ بذات خود ان پڑھ تھے، لیکن ان کے ساتھ مستقل گفتگوکرتے رہتے تھے جس کی وجہ سے کسی کو یہ سمجھنا مشکل تھا کہ وہ اُمّی ہیں۔ وہ نثر اور نظم کی باریکیوں سے اس حد تک واقف تھے کہ ان کی کمیوں کا خیال تک نہ آتا تھا۔''
یہاں مجھے اکبر کے نو رتنوں کا خیال آتا ہے جن کی قابلیت، ذکاوت اور علمیت کی موجودگی نے اکبرکو شہنشاہ جلال الدین اکبر بنایا، اکبر واقعی ظل الٰہی تھا اور اللہ کا ان پر بڑا کرم تھا۔ وہ خود ان پڑھ تھا، لیکن عاملوں، صوفیوں اور ولیوں کی نہ صرف عزت کرتا تھا بلکہ ان سے عقیدت بھی رکھتا تھا۔ اس نے اپنے دربار میں انتہائی قابل حضرات کو جمع کیا ہوا تھا جو اکبر کے نو رتن کہلاتے تھے۔ ان میں، ابوالفضل، فیضی، ملا دوپیازہ، راجہ بیربل، حکیم ہمام، تان سین، راجہ ٹوڈرمل، مان سنگھ اور عبدالرحیم خان خاناں شامل تھے۔ اکبر کے دو بیٹے اور بھی تھے، یہ تھے شہزادہ مراد، یہ بھی فتح پور سیکری ہی میں پیدا ہوئے تھے۔ البتہ شہزادہ دانیال کی پیدائش اجمیر میں حضرت معین الدین چشتیؒ کے خادمین کے ایک مکان میں ہوئی تھی۔ دانیال اور مراد اکبرکی خواص کے بطن سے پیدا ہوئے تھے۔
تاریخ گواہ ہے کہ نام بادشاہ کا نورالدین جہانگیر تھا سکہ اس کے نام کا چلتا تھا، لیکن حکم نور جہاں کا چلتا تھا۔ آگرے کے قلعے میں ایک باغ ہے جس کا نام ''انگوری باغ'' ہے۔ یہ باغ نور جہاں نے بنوایا تھا اور اس کے انگوروں سے کشید کی ہوئی شراب پلا کر وہ جہانگیرکو ہر وقت مدہوش رکھتی تھی۔ تمام فیصلے وہی کرتی تھی، لیکن تاریخ کے جبر سے کوئی نہیں بچ سکا۔ اس کا مزار ویرانی کی ایک بھیانک شکل ہے۔
برمزارِ ما غریباں ، نے چراغے نے گُلے
نے پرِ پروانہ سوزد ، نے صدائے بلبلے