پروپیگنڈوں کے توڑ میں ناکامی کیوں
بلوچوں کو ووٹ اور حق نمایندگی سے محروم کرکے ہتھیار اٹھانے اور دہشت گردی پر مجبور کر دیا گیا ہے
سوشل میڈیا پر جھوٹی خبروں، بے بنیاد الزامات اورگمراہ کن پروپیگنڈے کی روک تھام کے لیے حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ فائر وال کے ذریعے سوشل میڈیا پر پھیلائے جانے والے مواد کو روکا جا سکے گا اور حکومت اس سلسلے میں اقدامات بھی کر رہی ہے، جس کی وجہ سے یوٹیوب، فیس بک وغیرہ متاثر ہوئے ہیں، جن کے خلاف بعض حلقوں نے عدلیہ سے بھی رجوع کیا ہے اور عدلیہ نے سرکاری اداروں سے جواب طلبی بھی کی ہے اور حکومت کی طرف سے جو جواب آئے ہیں، ان سے عدلیہ مطمئن نہیں ہوئی۔
ملکی سیاست میں من مانے پروپیگنڈے کے لیے سوشل میڈیا کا سب سے زیادہ اور موثر استعمال صرف پی ٹی آئی نے کیا جس میں وہ مکمل طور پرکامیاب اور پی ٹی آئی مخالف حکومتیں تقریباً ڈھائی سالوں سے مکمل ناکام رہی ہیں اور حکومت کے سرکاری محکمے وہ موثرکردار ادا نہیں کرسکے جو انھیں کرنا چاہیے تھا۔
ملک میں اپنے حامی سوشل میڈیا کی مکمل حکومتی سرپرستی پی ٹی آئی حکومت میں ہوئی، جس کی وجہ اس وقت کے وزیر اعظم کی ذاتی اور خصوصی دلچسپی تھی۔ سابق وزیر اعظم کو ملک کے محکمہ اطلاعات و نشریات سے زیادہ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم پر مکمل اعتماد تھا اور اسی لیے وہ اپنی سوشل میڈیا ٹیم اور اس کے ذمے داروں کے ساتھ اکثر خود اجلاس منعقد کیا کرتے اور ہدایات دیا کرتے تھے جس کے نتائج بھی سود مند ثابت ہوتے تھے اور حکومتی مخالفین اپنی بے گناہی کا توڑ کر سکتے تھے نہ ملک میں عدالتی فیصلوں پر اعتماد ہوتا تھا۔
پی ٹی آئی سوشل میڈیا ٹیم اور حکومت کے حامی صحافیوں اور اینکروں کے ذریعے جو مواد پھیلایا جاتا تھا وہ زیادہ قابل اعتماد ہوتا تھا۔ اعلیٰ عدلیہ کے پی ٹی آئی کے حق میں ہونے والے فیصلوں کو حق و سچ کی فتح قرار دیا جاتا تھا اور پی ٹی آئی کے خلاف فیصلے دینے والے ججوں کو بھی نہیں بخشا جاتا تھا اور پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا ان کی کردار کشی شروع کردیتا ہے اور یہ سلسلہ گزشتہ پی ٹی آئی حکومت ہی میں نہیں حکومت کے خاتمے کے بعد بھی کامیابی سے جاری ہے۔ ملک میں پہلی بار پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اور حامیوں نے ملک کے بعد عدلیہ کو نشانہ بنایا اور اب تو دیگر ریاستی ادارے بھی محفوظ نہیں۔
پی ٹی آئی حکومت میں اس کا سوشل میڈیا بے بنیاد خبریں پھیلانے، مخالفین پر جھوٹے الزامات میں کامیاب تھا اور اب پہلے سے زیادہ کامیاب ہے اور ملک کی سیاسی خواتین بھی ان سے محفوظ نہیں جب کہ پہلے ہر سیاسی جماعت اپنی مخالف سیاسی خواتین کا احترام کیا کرتی تھی جو مہذب معاشرے میں ہوتا رہا ہے۔
سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ورکرز اینکرز اور حامی صحافی جہاں موجودہ حکومت کے خلاف بے بنیاد اور گمراہ کن مہم چلا رہے ہیں وہاں اب کچے کے ڈاکو بھی میدان میں آگئے ہیں اور وہ بھی سوشل میڈیا کو اپنی صفائی میں استعمال کر رہے ہیں۔ بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیمیں اور روپوش نوجوان بھی بلوچوں کی مظلومیت اجاگر کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال شروع کرچکے ہیں جس سے بلوچ نوجوان ہی نہیں تعلیم یافتہ خواتین بھی متاثر ہو کر گمراہ ہو رہی ہیں اور بعض تعلیم یافتہ نوجوان خواتین ہی نہیں بلکہ شادی شدہ بلوچ خواتین بھی علیحدگی پسندوں سے مل گئی ہیں ۔
ایک طرف پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا اندرون ملک ہی نہیں، عالمی سطح پر پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ اس کے بانی پر حکومت مظالم ڈھا رہی ہے۔ اس پر جھوٹے مقدمات قائم کرکے سزائیں دلا رہی ہے اور اس کا مینڈیٹ چرا چکی ہے تو دوسری طرف بلوچستان کے علیحدگی پسند پڑھے لکھے نوجوان اور پاکستان دشمن بی ایل اے و دیگر بلوچوں میں ہی نہیں بلکہ بھارت و دیگر کی حمایت اور مالی امداد کے ذریعے یہ پروپیگنڈا کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ بلوچوں اور بلوچستان میں حکومتی اور ریاستی حلقے مظالم اور حقوق چھین لینے کی انتہا کر چکے ہیں اور بلوچستان کو پسماندگی میں دھکیل دیا گیا ہے۔ بلوچوں کو ووٹ اور حق نمایندگی سے محروم کرکے ہتھیار اٹھانے اور دہشت گردی پر مجبور کر دیا گیا ہے۔
حکومتی اور ریاستی حلقے بلوچستان کی ترقی کے لیے جو اقدامات اور تعمیری کام کررہے ہیں، ان حقائق کو بلوچوں تک پہنچانے میں حکومت مکمل طور پر ناکام ہے اور یک طرفہ بے بنیاد اورگمراہ کن پروپیگنڈا عروج پر ہے جس سے حقائق منظر عام پر نہیں آ رہے۔ بلوچوں کی ترقی سے متعلق نوجوان بلوچ نسل مکمل لاعلم اور منفی پروپیگنڈے کا شکار ہے جسے حقائق سے آگاہ کرنے کی بجائے مفاد پرست، منفی، بے بنیاد اورگمراہ کن پروپیگنڈا کر رہے ہیں جس کا توڑ حکومت کے پاس نہیں اور بلوچوں کو حکومتی اور ریاستی کارکردگی بتانے میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں نہ جانے کیوں بے بس یا ناکام ہیں۔
ملکی سیاست میں من مانے پروپیگنڈے کے لیے سوشل میڈیا کا سب سے زیادہ اور موثر استعمال صرف پی ٹی آئی نے کیا جس میں وہ مکمل طور پرکامیاب اور پی ٹی آئی مخالف حکومتیں تقریباً ڈھائی سالوں سے مکمل ناکام رہی ہیں اور حکومت کے سرکاری محکمے وہ موثرکردار ادا نہیں کرسکے جو انھیں کرنا چاہیے تھا۔
ملک میں اپنے حامی سوشل میڈیا کی مکمل حکومتی سرپرستی پی ٹی آئی حکومت میں ہوئی، جس کی وجہ اس وقت کے وزیر اعظم کی ذاتی اور خصوصی دلچسپی تھی۔ سابق وزیر اعظم کو ملک کے محکمہ اطلاعات و نشریات سے زیادہ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم پر مکمل اعتماد تھا اور اسی لیے وہ اپنی سوشل میڈیا ٹیم اور اس کے ذمے داروں کے ساتھ اکثر خود اجلاس منعقد کیا کرتے اور ہدایات دیا کرتے تھے جس کے نتائج بھی سود مند ثابت ہوتے تھے اور حکومتی مخالفین اپنی بے گناہی کا توڑ کر سکتے تھے نہ ملک میں عدالتی فیصلوں پر اعتماد ہوتا تھا۔
پی ٹی آئی سوشل میڈیا ٹیم اور حکومت کے حامی صحافیوں اور اینکروں کے ذریعے جو مواد پھیلایا جاتا تھا وہ زیادہ قابل اعتماد ہوتا تھا۔ اعلیٰ عدلیہ کے پی ٹی آئی کے حق میں ہونے والے فیصلوں کو حق و سچ کی فتح قرار دیا جاتا تھا اور پی ٹی آئی کے خلاف فیصلے دینے والے ججوں کو بھی نہیں بخشا جاتا تھا اور پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا ان کی کردار کشی شروع کردیتا ہے اور یہ سلسلہ گزشتہ پی ٹی آئی حکومت ہی میں نہیں حکومت کے خاتمے کے بعد بھی کامیابی سے جاری ہے۔ ملک میں پہلی بار پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اور حامیوں نے ملک کے بعد عدلیہ کو نشانہ بنایا اور اب تو دیگر ریاستی ادارے بھی محفوظ نہیں۔
پی ٹی آئی حکومت میں اس کا سوشل میڈیا بے بنیاد خبریں پھیلانے، مخالفین پر جھوٹے الزامات میں کامیاب تھا اور اب پہلے سے زیادہ کامیاب ہے اور ملک کی سیاسی خواتین بھی ان سے محفوظ نہیں جب کہ پہلے ہر سیاسی جماعت اپنی مخالف سیاسی خواتین کا احترام کیا کرتی تھی جو مہذب معاشرے میں ہوتا رہا ہے۔
سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ورکرز اینکرز اور حامی صحافی جہاں موجودہ حکومت کے خلاف بے بنیاد اور گمراہ کن مہم چلا رہے ہیں وہاں اب کچے کے ڈاکو بھی میدان میں آگئے ہیں اور وہ بھی سوشل میڈیا کو اپنی صفائی میں استعمال کر رہے ہیں۔ بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیمیں اور روپوش نوجوان بھی بلوچوں کی مظلومیت اجاگر کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال شروع کرچکے ہیں جس سے بلوچ نوجوان ہی نہیں تعلیم یافتہ خواتین بھی متاثر ہو کر گمراہ ہو رہی ہیں اور بعض تعلیم یافتہ نوجوان خواتین ہی نہیں بلکہ شادی شدہ بلوچ خواتین بھی علیحدگی پسندوں سے مل گئی ہیں ۔
ایک طرف پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا اندرون ملک ہی نہیں، عالمی سطح پر پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ اس کے بانی پر حکومت مظالم ڈھا رہی ہے۔ اس پر جھوٹے مقدمات قائم کرکے سزائیں دلا رہی ہے اور اس کا مینڈیٹ چرا چکی ہے تو دوسری طرف بلوچستان کے علیحدگی پسند پڑھے لکھے نوجوان اور پاکستان دشمن بی ایل اے و دیگر بلوچوں میں ہی نہیں بلکہ بھارت و دیگر کی حمایت اور مالی امداد کے ذریعے یہ پروپیگنڈا کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ بلوچوں اور بلوچستان میں حکومتی اور ریاستی حلقے مظالم اور حقوق چھین لینے کی انتہا کر چکے ہیں اور بلوچستان کو پسماندگی میں دھکیل دیا گیا ہے۔ بلوچوں کو ووٹ اور حق نمایندگی سے محروم کرکے ہتھیار اٹھانے اور دہشت گردی پر مجبور کر دیا گیا ہے۔
حکومتی اور ریاستی حلقے بلوچستان کی ترقی کے لیے جو اقدامات اور تعمیری کام کررہے ہیں، ان حقائق کو بلوچوں تک پہنچانے میں حکومت مکمل طور پر ناکام ہے اور یک طرفہ بے بنیاد اورگمراہ کن پروپیگنڈا عروج پر ہے جس سے حقائق منظر عام پر نہیں آ رہے۔ بلوچوں کی ترقی سے متعلق نوجوان بلوچ نسل مکمل لاعلم اور منفی پروپیگنڈے کا شکار ہے جسے حقائق سے آگاہ کرنے کی بجائے مفاد پرست، منفی، بے بنیاد اورگمراہ کن پروپیگنڈا کر رہے ہیں جس کا توڑ حکومت کے پاس نہیں اور بلوچوں کو حکومتی اور ریاستی کارکردگی بتانے میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں نہ جانے کیوں بے بس یا ناکام ہیں۔