پاک چین دوستی اور عالمی چیلنجز

یہ منصوبہ علاقائی ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سیاسی و معاشی صورتِ حال پر بھی اثر انداز ہوگا

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کے دوران چین کا تعاون قابل تحسین ہے۔ عوامی جمہوریہ چین کے 75 ویں یوم تاسیس پر اسلام آباد میں تقریب سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ سی پیک فیز 2 سے آئی ٹی، معدنیات اور دیگر شعبوں میں تعاون کو فروغ حاصل ہوگا۔


دراصل آئی ایم ایف نے پاکستان کو امداد دینے کی شرط ہی یہ عائد کی تھی کہ پہلے وہ دوسرے ملکوں سے خاطر خواہ مدد حاصل کرے چنانچہ یہ مدد تین ارب ڈالر کی چین کی امداد، دو ارب ڈالر کی سعودی عرب کی امداد اور ایک ارب ڈالر کی متحدہ عرب امارات کی صورت میں آئی، تب آئی ایم ایف نے اپنا دست تعاون دراز کیا۔ یہ وہ منظر نامہ ہے جس نے پاکستان کو نسبتاً زیادہ خود اعتمادی کے ساتھ چین کے ساتھ مزید ایک دو قدم بڑھانے کا حوصلہ فراہم کیا اور اب دونوں ملکوں کے درمیان سی پیک معاہدے کا دوسرا مرحلہ شروع کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔


رواں برس میں سی پیک ٹو کی پیش رفت جاری ہے۔ پاکستان اور چین نے باہمی تعاون بڑھانے اور ترجیحات و مواقع سے نمٹنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ یہ راہداری لچک، جدت طرازی اور مشترکہ خوش حالی کی علامت ہے، جو دونوں ممالک کے لیے امید افزا مستقبل کی نشاندہی کرتی ہے۔ سی پیک ٹو پاکستان کے معاشی مستقبل کا ضامن ہے تاہم اسے کئی ایک چیلنجوں کا بھی سامنا ہے۔


عالمی مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ کی وجہ سے معاشی استحکام الگ قسم کی تشویش ہے۔ زمین اور ماحولیاتی مسائل کے حوالے سے پائی جانے والی مقامی مخالفت رفع کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح قرض سے حاصل کردہ مالی وسائل کو محتاط مالی انتظام کے تابع ہونا چاہیے۔ بڑے پیمانے پر منصوبوں کے ماحولیاتی اثرات کو بھی منظم کیا جانا چاہیے۔ سی پیک کا منصوبہ جہاں بہت سی امیدوں کو جنم دینے کا سبب بنا وہیں ابتدا ہی سے اس بات کا علم تھا کہ اس کی راہ میں دشواریاں بھی بہت حائل ہوں گی۔ 'سی پیک ٹو' کے مرکزی تصور میں ' اضافی بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں پر عمل درآمد ہے، جس میں شاہراہیں، ریلوے، بندرگاہیں اور ہوائی اڈے شامل ہیں۔


یہ کوششیں پاکستان اور چین کے ساتھ رابطوں کو بڑھانے کے لیے ہیں، جس میں تجارت کا فروغ، سی پیک کی تکمیل سے نقل و حمل کو آسان بنانا اور اس کے بعد سی پیک ٹو کی صورت اس حکمت عملی کا ارتقا شامل ہیں جو چین اور پاکستان کے مابین تعاون اور پیش رفت کا دلکش بیانیہ پیش کر رہا ہے۔سرد جنگ کے خاتمے کے بعد گوکہ چین خود بھی سرمایہ دارانہ نظام کی طرف تیزی سے بڑھا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اس نظام کے دوسرے عالمی مراکز کے ساتھ یہ فوری طور پر ہم آہنگ بھی ہوسکتا تھا۔ چنانچہ اس امر کے منظر عام پر آنے میں دیر نہیں لگی کہ اب چین کے بڑھاوے سے متفکر ہونے والا ملک امریکا تھا جو اب تک عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا مرکز بنا ہوا تھا۔


امریکا کو چین کی عالمی سطح پر ہونے والی کامرانیاں، اُس کی اپنی بالادستی کے لیے ایک چیلنج محسوس ہوئیں۔ امریکی تحفظات اُس وقت زیادہ کھل کر سامنے آئے جب چین کے وَن بیلٹ وَن روڈکے منصوبے مشتہر ہوئے۔ چنانچہ امریکا نے ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنی شروع کیں،جو بڑے اور مضبوط معیشتوں کے حامل ملک تھے اُن پر امریکا کا زیادہ زور نہیں چلا لیکن پاکستان جیسے کمزور ملک امریکی دباؤ کو محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔



یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سی پیک کا معاہدہ جس وقت ہوا یا جب اس پر عمل درآمد شروع ہوا تو یہ وہی وقت تھا جب پاکستان، امریکا کی سرپرستی میں چلنے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مرکزی کردار ادا کر رہا تھا۔ پاکستان کے فیصلہ سازوں کے لیے بہت مشکل تھا کہ امریکا کی خوشنودی اور چین کے ساتھ نو دریافت شدہ رفاقت کے درمیان توازن قائم رکھ سکتے۔ صورت یہ تھی کہ ایک کی طرف زیادہ بڑھنے سے دوسری طرف ناراضگی کا سامان پیدا ہوجاتا تھا، دوسری طرف چیزوں کو ہموار کرنے کی کوشش کی جاتی تو پہلی طرف سے ناراضگی کے اشارے آنا شروع ہوجاتے۔2013 سے 2018تک کی مسلم لیگی حکومتیں (نواز شریف،شاہد خاقان عباسی) چین کی طرف نسبتاً زیادہ مائل نظر آئیں تو اس کا خمیازہ امریکی ناراضگی کی شکل میں نکلا، تحریک انصاف کی حکومت نے ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت سے قربت حاصل کی تو سی پیک نسبتاً پس منظر میں جاتا نظر آیا۔


حالیہ مہینوں میں جو معنوی تبدیلی صورت حال میں آئی اس کے تانے بانے بھی چین کی پالیسی ہی سے بُنے گئے ہیں۔ چین نے مشرق وسطیٰ میں غیر معمولی سفارتی کامیابی حاصل کی۔ ایران اور سعودی عرب کی دیرینہ لڑائی کو ختم کرانے اور ان کے درمیان مصالحت کرانے کا کام کر کے خطے کے آیندہ کے رخ کا بڑی حد تک تعین کردیا گیا۔ امریکا کے بعد سعودی عرب روایتی طور پر پاکستان کا بڑا حلیف اور بڑی حد تک سرپرست رہا ہے۔


چین اور سعودی عرب کی قربت سے پاکستان کو جہاں ایک طرف امریکی دباؤ کو برداشت کرنے میں کچھ مدد ملی، وہیں سعودی مالی اعانت نے پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کے اُس قرضے اور امداد کو بحال کرنے کا راستہ ہموار کیا جس کے بغیر پاکستان کی معیشت تقریباً ڈوبنے کے قریب پہنچ چکی تھی، آئی ایم ایف پر بڑا اثر امریکا کی طرف سے آتا ہے۔پاکستان کو اس کے جغرافیائی محل وقوع، بڑی آبادی کی مارکیٹ ہونے اور اقتصادی ترقی کے امکانات کے حوالے سے خطے کا اہم ملک سمجھا جاتا رہا ہے۔ کیا پاکستان بدلتے ہوئے عالمی تناظر میں ایک موثر خارجہ پالیسی بنا کر اپنے مفادات کا دفاع کر سکے گا؟ واشنگٹن میں جنوبی ایشیا کے امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک طرف تو پاکستان کو یہ چیلنج درپیش ہے کہ وہ امریکا اور چین کے درمیان جاری مسابقت سے پیدا ہونے والی کشیدگی کی زد میں نہ آئے اور دوسری جانب عالمی طاقتوں کے اس مقابلے سے پیدا ہونے والے اقتصادی اور تجارتی مواقعے سے ملک کیسے بروقت فائدہ اٹھا سکتا ہے۔


اقتصادی مشکلات کے اس دور میں سی پیک (چین پاکستان اقتصادی راہ داری) پاکستان کے لیے امید کی کرن بن کر سامنے آیا جسے پاکستانی حکام اکثر ایک ''گیم چینجر'' منصوبہ کہتے ہیں۔ اگرچہ پاکستان اکثر یہ بیان دیتا ہے کہ وہ امریکا اور چین میں سے کسی ایک ملک کے ساتھ تعلقات میں عدم توازن کا انتخاب نہیں کرے گا اور دونوں سے قریبی تعلقات استوار کرے گا، لیکن اسلام آباد کا بیجنگ کی طرف جھکاؤ واضح نظر آتا ہے۔ امریکا اور چین کی مسابقت سے نکلنا پاکستان کے لیے خارجہ پالیسی کا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ پاکستان کو اپنی اقتصادی اہمیت کو دنیا کی نظر میں اجاگر کرنے اور خارجی مفادات کو بڑھانے کے لیے بہت زیادہ محنت کرنا ہو گی۔ سی پیک کا منصوبہ ویسے تو چین اور پاکستان کے درمیان طے پانا والا منصوبہ ہے لیکن یہ درحقیقت چین کی تیزی سے بڑھتی اور پھیلتی ہوئی معیشت اور دنیا کے مختلف خطوں تک پہنچنے کی اس کی تجارتی حکمت عملی کا محض ایک حصہ ہے۔


چین کا خیال تھا کہ وہ 'وَن بیلٹ وَن روڈ' (OBOR) کے ذریعے دنیا بھر میں تجارت کے دو متوازی نظام وضع کرسکتا ہے جس میں ایک طرف سڑکوں کے ذریعے چین کو دنیا کے دور دراز خطوں تک جوڑا جاسکتا ہے جب کہ دوسری طرف سمندری راستوں سے بھی چین اور دنیا کے مختلف ساحلی علاقوں میں روابط قائم کیے جاسکتے ہیں۔ سی پیک اس سوچ کا محض ایک منصوبہ ہے جب کہ ایسے پانچ دیگر منصوبے بھی زیر تعمیر یا روبہ کار ہیں۔ اس پورے نظام میں پاکستان کی اہمیت یہ تھی کہ اگر خنجراب سے گوادر تک کی سڑک دو طرفہ تجارتی ٹریفک کے لیے بھرپور طور پر کھُل جاتی توچین کو مشرق وسطیٰ اور افریقہ تک اپنی تجارت کو پھیلانے کی نسبتاً سستی سہولت میسر آجاتی۔ خود پاکستان کو بھی چین کے ساتھ اپنی تجارت کو فروغ دینے کا موقع ملتا۔ اس منصوبے کے دو طرفہ تجارتی مفادات کے پہلو بہ پہلو صنعتی، زرعی اور تعلیمی فروغ کے بھی بہت سارے امکانات پر کام ہوسکتا تھا، سو شروع ہی سے ان پہلوؤں پر نظر رکھتے ہوئے بعض اہم منصوبے بنائے گئے۔


مسئلہ یہ تھا کہ پاکستان کے پاس اتنے بڑے انفرا اسٹرکچر کی تعمیر کے وسائل موجود نہیں تھے لہٰذا اس کی بھی بڑی حد تک ذمے داری چین نے قبول کی، اربوں ڈالر چین نے پاکستان کو قرضوں کی شکل میں دینے کا وعدہ کیا ان میں بعدازاں اضافہ بھی کیا جاتا رہا۔ گزشتہ دس برسوں میں بہت سے منصوبوں کی تکمیل بھی ہوئی، جب کہ بہت سے دیگر منصوبے ہنوز زیر عمل ہیں۔ یہ راہداری علاقائی ترقی اور رابطے کی بنیاد کے طور پر ابھری ہے اور اس میں وقت کے ساتھ تبدیلی کی صلاحیت بھی موجود ہے۔ گزشتہ دس برسوں میں بہت سے منصوبوں کی تکمیل بھی ہوئی، جب کہ بہت سے دیگر منصوبے ہنوز زیر عمل ہیں۔


ضرورت اس بات کی ہے کہ سی پیک کے قیام اور اس کے گزشتہ دس برسوں کے حاصلات پر گفتگو کے ساتھ ساتھ ہی دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے معاشی، سیاسی، علاقائی، بین الاقوامی اور عسکری پہلوؤں کو بھی پیش نظر رکھا جائے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ سی پیک ہواؤں میں قائم ہوجانے والا منصوبہ نہیں ہے بلکہ یہ اتنا بڑا اور بامعنی منصوبہ ہے جس کی تکمیل کو بجا طور پر ''گیم چینجر'' قرار دیا گیا تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ یہ منصوبہ علاقائی ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سیاسی و معاشی صورتِ حال پر بھی کچھ اس طور اثر انداز ہوگا کہ دنیا کا معاشی منظر نامہ تک تبدیل ہوجائے گا اس کا مطلب ہے کہ عالمی سیاست کی صف بندی ایک نئے طور پر عمل میں آنے لگے گی۔

Load Next Story