بھارت میں وقف ایکٹ میں 40 ترامیم کے ذریعے مسلمانوں کی املاک کو ہڑپنے کی تیاری

وقف املاک کو مودی حکومت کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی ہے، امیر جماعت اسلامی ہند

وقف املاک کو مودی حکومت کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی ہے، امیر جماعت اسلامی ہند

مودی کی مسلمان مخالف مہم کی ایک اور کڑی منظر عام پر آگئی۔

حال ہی میں مودی سرکار کی جانب سے مسلمانوں کے لیے مختص محدود وسائل کو چھیننے کی سازش سامنے آئی۔

مودی سرکار نے بھارتی قانون کے وقف ایکٹ میں 40 نئی ترامیم کرنے کا اعلان کیا۔ وقف ایکٹ ایک ایسا ادارہ ہے جسکے ذریعے صاحب استطاعت مسلمان زمین اور دیگر اثاثے خیرات کے نام پر وقف کرتے ہیں ۔ وقف کی سرپرستی مسلم پارلیمان، مسلم ممبران برائے ریاستی بار کونسل اور نامور عالم دین کرتے ہیں

وقف ایکٹ اس امر کی یقین دہانی بھی کرتا ہے کہ وقف کی گئی زمینوں اور دیگر املاک مثلاً مساجد اور تعلیمی اداروں کی منتقلی، تعمیر اور فعالی قانون کے مطابق ہو۔ حال ہی میں ہوم منسٹر امت شاہ نے اعلان کیا کہ جلد ہی وقف ایکٹ ترمیمی بل 2024 کو پارلیمنٹ میں منظور کیا جائے گا۔

اس سے قبل مودی سرکار نے وقف ایکٹ کی ترامیم لوک سبھا میں پیش کرنے کے بجائے میڈیا کے ذریعے عوام اور پارلیمان تک پہنچائیں مگر اپوزیشن کی مخالفت پر بل لوک سبھا میں پیش کیا گیا۔


لوک سبھا میں اجلاس کے دوران حکومت کی جانب سے وقف ترمیمی بل 2024 پیش کیا گیا جس کے خلاف نہ صرف اپوزیشن بلکہ تمام بھارتی انسانی حقوق کی تنظیموں نے آواز اٹھائی۔ قائدین اور علماء نے وقف ترمیمی بل کو مودی سرکار کی جانب سے ہڑپنے کی سازش قرار دے دی۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان قاسم رسول الیاس نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ "یہ بل مسلمانوں کے وقف کی جائیداد کو ہڑپنے کی کوشش ہے اور بھارتی آئین پر حملہ ہے"

امیر جماعت اسلامی ہند نے کہا کہ وقف ترمیمی بل 2024 مسلمانوں کے خلاف ہے اور وقف املاک کو مودی اور اسکی حکومت کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

وقف کے ذریعے ان گھروں اور املاک کی بھی سرپرستی کی جاتی ہے جو برصغیر کی تقسیم کے دوران مسلمان چھوڑ کر پاکستان آگئے تھے۔ مودی سرکار کی جانب سے وقف ایکٹ میں پیش کردہ ترامیم کے تحت وقف کے پاس موجود تمام اختیارات چھین لیے جائیں گے اور مسلمانوں کی خصوصی املاک مثلاً مساجد، مدارس اور درگاہوں کو شہید کرنے کی بھی کھلی چھوٹ مل جائے گی۔

نائب امیر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے بتایا کہ اس بل کے ذریعے بورڈ میں غیر مسلموں کو بھی شامل کیا گیا ہے اور پورا کا پورا اختیار کلکٹر کو دینے کی تجویز رکھی گئی ہے۔
Load Next Story