ہمالیہ آج بھی رو رہا ہے

پاکستان ایک طویل عرصے سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ بظاہر اس کا آغاز افغانستان میں سوویت یونین

پاکستان ایک طویل عرصے سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ بظاہر اس کا آغاز افغانستان میں سوویت یونین اور امریکی مداخلت سے ہوتا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ افغانستان میں امریکی مداخلت سردار داؤد کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے سے شروع ہوئی جس میں امریکا کو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی مدد حاصل تھی۔ سرمایہ دارانہ نظام میں حق ملکیت لامحدود ہے جس کے نتیجے میں ارتکاز دولت ایک فرد یا محدود گروہ میں ہوجاتا ہے۔ جس طرح آج دنیا کی 42 فیصد دولت پر چند فیصد لوگ قابض ہیں۔

پاکستان میں دس کروڑ اور بھارت میں 60 کروڑ خط فاقہ پر ہیں باقی دنیا کا حال بھی یہی ہے۔ جب کہ سوشلسٹ نظام دولت کو تمام انسانوں میں ان کی ضرورت و اہلیت کے مطابق تقسیم کرنا چاہتا ہے۔ سوشلسٹ نظام سودی نظام کا بھی خاتمہ کرتا ہے جس کے بل بوتے پر امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتے چلے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ سوویت یونین میں سوشلسٹ نظام کے بعد روزگار' صحت' تعلیم' بجلی اور گھر وغیرہ کی سہولتیں مفت مہیا کر کے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کس قدر انسان دشمن ہے۔

سوشلسٹ نظام کی اس کامیابی نے امریکا خاص طور پر یورپ میں بحران پیدا کر دیا کہ وہاں کے عوام بھی ان سہولتوں کا مطالبہ کرنے لگے جو سوشلسٹ نظام میں دی جا رہی تھیں۔ جس کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ نظام کی بقا کو شدید خطرہ لاحق ہو گیا۔ چنانچہ اسکینڈے نیوین ممالک اور دوسرے ملکوں نے ویلفیئر اسٹیٹ کے نظام کو اپنایا۔ جس کے ذریعے سوشلسٹ نظام کی نقل کرتے ہوئے وہاں کے عوام کو بہت سی سہولتیں دی گئیں لیکن سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اب ان سہولتوں میں ہر گزرتے دن کے ساتھ کمی کی جا رہی ہے۔

1917ء میں روس میں سوشلسٹ انقلاب آیا تو سرمایہ دارانہ نظام کی لوٹ کھسوٹ سے تنگ جرمنی جسے یورپ کا دل بھی کہا جاتا ہے وہاں کے عوام میں سوشلزم کی اتنی پذیرائی ہوئی کہ جرمنی سوشلسٹ تحریک کا مرکز بن گیا۔ اس مہیب خطرے نے سرمایہ دارانہ نظام کے کرتا دھرتاؤں کے ہوش اڑا دیے۔ چنانچہ ایک بڑی منصوبہ بندی سے جرمنی میں فاشسٹ ہٹلر کی تخلیق کی گئی جس کے ذریعے پہلے جرمنی میں سوشلسٹ تحریک کو کچلا گیا اس کے بعد روس پر ہٹلر کا حملہ کرایا گیا تا کہ سوویت یونین کا خاتمہ کر دیا جائے جو سوشلزم کامرکز تھا۔

سوویت یونین نے اپنے عوام کی مدد سے نہ صرف دوسری جنگ عظیم کی بے پناہ تباہی و بربادی کا ازالہ کیا بلکہ بڑی تیز رفتار سے دوبارہ سے ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو گیا۔ سامراج کے سامنے بڑا سوال یہ تھا کہ تمام تر سازشوں کے باجود سوشلزم کا خاتمہ نہیں ہو سکا تو اب کیا کیا جائے کیونکہ سوشلزم کی تحریک بڑی تیزی سے پھیل رہی تھی اور دنیا کے غریب عوام اس نظام کو اپنانے کے لیے بے تاب تھے جس میں برصغیر بھی شامل تھا۔ جب 1917ء کا سوشلسٹ انقلاب برپا ہوا تو دنیا خاص طور پر مشرق وسطیٰ سے برصغیر کے علاقے کی ری برتھ ضروری ہو گئی۔ کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام کی زندگی تیل کی وجہ سے اس خطے کی تقسیم میں چھپی ہوئی تھی چنانچہ برصغیر کو بھارت اور پاکستان میں تقسیم کر دیا گیا۔

پاکستان جس علاقے میں قائم ہے اس کا اسٹرٹیجک محل وقوع انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس علاقے سے چائنا سوویت یونین بحیرہ عرب تیل کی گزرگاہ پر نظر رکھی اور کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ اپنے اسی محل وقوع کی بنا پر پاکستان اپنے قیام سے ہی سامراجی مفادات کا اڈہ بنا رہا۔ ماضی قریب میں اس کی ایک مثال پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے سوویت یونین کا خاتمہ ہے۔


انسانی تاریخ میں سوشلزم کی شکل میں یہ پہلا تجربہ تھا جس نے انسان کو روٹی کپڑا مکان کی سہولت مفت مہیا کی۔ آخر فیصلہ کن مرحلہ آپہنچا۔ سوشلزم کے خاتمے کے لیے سوویت یونین کا خاتمہ ضروری تھا ورنہ سوشلزم کی شکل میں پوری دنیا کے غریب ظالمانہ سرمایہ د ارانہ نظام کا خاتمہ کرتے ہوئے ظالم حکمران طبقوں کا خاتمہ دیتے۔ اس منصوبے پر عمل درآمد کا آغاز پاکستان توڑنے سے ہوتا ہے کیونکہ باشعور بنگالیوں کی موجودگی میں اس پر عمل درآمد ناممکن تھا۔ پہلے اسی ضمن میں برصغیر کی خونی تقسیم عمل میں لا کر موجودہ پاکستانی پنجاب کو سکھوں' ہندوؤں سے خالی کرا لیا گیا۔

پاکستان توڑنے کے بعد افغانستان میں مداخلت شروع کر دی گئی جس کے لیے عسکریت پسند گروہ تخلیق اور منظم کیے گئے۔ آخر کار سوویت یونین کو افغانستان میں مداخلت کرنا پڑی۔ سامراج کی بقا جنگوں اور دہشت گردی میں ہے۔ امریکی سامراج نے سوویت یونین کے خاتمے کے لیے جو دہشت گرد تخلیق کیے آج ان ہی کے خلاف فوجی آپریشن کیا جا رہا ہے۔ آمریت کی طویل سرپرستی نے پاکستانی عوام کو امریکا سے متنفر کر دیا۔ چنانچہ امریکا نے اپنے مفادات کو خطرے سے بچانے کے لیے ضیاء دور میں ہی کنٹرولڈ ڈیموکریسی کا آغاز کر دیا جس کے لیے ایک ایسی قیادت تخلیق کی گئی جو امریکی جہاد میں ضیا آمریت کا دست و بازو بنی۔

کنٹرولڈ ڈیموکریسی سے سویلین بالا دستی کا سفر خطے میں امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے ناگزیر ہے۔ اس طرح سرمایہ دارانہ جمہوریت کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کا تحفظ کیا جائے گا۔ بھارت جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے وہاں پر قائم سرمایہ دارانہ جمہوریت نے یہ تحفہ دیا کہ آج وہاں کی نصف سے زائد آبادی کو ایک وقت کی روٹی ملنا دشوار ہے۔ بھوک' غربت' بے روزگاری اور بیماری کا علاج صرف عوامی جمہوریت میں ہی ممکن ہے جو سرمایہ داروں سے دولت چھین کر غریبوں میں تقسیم کر دیتی ہے۔سوویت یونین کے خاتمے کے باوجود آج سرمایہ دارانہ نظام پہلے سے کہیں بڑے بحران سے دو چار ہے۔

اس کا ایک ہی حل ہے خطے کی ری برتھ یعنی خطے کی نئے سرے سے تقسیم۔ جو پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد کی گئی وہ سرمایہ دارانہ نظام کا مزید تحفظ نہیں کر سکتی۔ برتھ ہو یا ری برتھ دونوں ہی خطرناک ہوتی ہیں۔ دونوں میں رسک ہوتا ہے۔ زندگی داؤ پر لگی ہوتی ہے۔ خطے کی ری برتھ کے اجزائے ترکیبی تباہی و بربادی ہیں جس میں لاکھوں کروڑوں انسانوں کا خون بہانہ پڑتا ہے۔ بڑی ''دماغ سوزی'' کرنا پڑتی ہے۔ مشرق وسطیٰ سے پاکستان تک خطے کی ری برتھ کے لیے تیر بہدف نسخہ مذہبی جنونیت ہے۔ اس سامراجی ایجنڈے پر ضیا دور سے عمل جاری ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ میری موت (قتل) پر ہمالیہ روئے گا۔

ان کا کہنا حرف بحرف درست ثابت ہوا۔ افغانستان ہو یا عراق یا پاکستان پچھلے تیس سال میں کروڑ کے قریب انسان ہلاک اور اس سے کہیں زیادہ تباہ و برباد ہو چکے ہیں۔ ضیا آمریت نے دنیا میں طاقت کے توازن کا خاتمہ کر دیا ۔ نتیجے میں مسلمان ممالک امریکی جارحیت کا شکار ہو کر تباہ و برباد ہو گئے۔ آج مذہبی جنونیت اپنے عروج پر ہے اور سامراجی ایجنڈا اپنے تکمیل کے آخری مرحلے میں۔ نہ سوویت یونین کا خاتمہ ہوتا نہ مسلمان اس ہولناک صورت حال سے دو چار ہوتے۔ ہمالیہ آج بھی رو رہا ہے اور نہ جانے کب تک روتا رہے گا... رہے نام اللہ کا۔

14 سے18-17 جولائی کے درمیان مون سون کا آغاز ہو جائے گا۔

سیل فون: 0346-4527997
Load Next Story