خوشبو کا سفر…
عطر عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب خوشبو کے ہیں، ہر قسم کی خوشبو کو عربی زبان میں عطر کہتے ہیں۔
عطر عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب خوشبو کے ہیں، ہر قسم کی خوشبو کو عربی زبان میں عطر کہتے ہیں۔ خوشبو کو دین اسلام میں خاص اہمیت حاصل ہے، پیارے نبی ﷺ نے خوشبو کو بہترین تحفہ کا درجہ بھی عطا کیا۔ رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ جہاں مساجد کی رونقیں بڑھ جاتی ہیں وہاں خوشبو، عطریات کا کاروبار بھی ترقی کرتا نظر آتا ہے۔ بات بھی درست ہے کہ خوشبو ہر دور میں حضرت انسان کی کمزوری رہی ہے۔ ہماری کسی بھی تقریب کی تیاری خوشبو کے بغیر ادھوری ہے۔
ہمارے ہاں اکثر لوگ ایک ہی خوشبو عرصہ دراز تک استعمال کرتے ہیں اور آخرکار وہ ان کی شخصیت کا حصہ سمجھی جانے لگتی ہے۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں خوشبو یا پرفیوم سازی کو ایک آرٹ اور سائنس ہی نہیں بلکہ منافع بخش انڈسٹری کی حیثیت حاصل ہے۔ جدید سائنسی تحقیق نے اب تو ایسی خوشبویات بھی بنا لی ہیں جو ٹوٹے ہوئے تعلقات کو دوبارہ جوڑنے اور جڑے ہوئے تعلقات کو توڑنے کا کام کرسکتی ہیں، اس سے دلوں میں نفرت بھی پیدا کی جاسکتی ہے اور جذبہ محبت بھی اجاگر کیا جاسکتا ہے، اس کے علاوہ اب ایسے پرفیوم بھی ایجاد ہوگئے ہیں جن کے استعمال سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ انسان دنیا کی تمام پریشانیوں سے آزاد ہوکر ماں کی ٹھنڈی آغوش میں پہنچ گیا ہو۔
انسان اپنے حواس خمسہ جن میں لمس، چھونا، ذائقہ، دیکھنا، سننا اور سونگھنا شامل ہے، دیگر حواس کی نسبت ہم سونگھنے کی اہمیت کو کم ہی استعمال کرتے ہیں، جب کہ گلاب، موتیا، چنبیلی اور دیگر پھولوں کو سونگھ کر ان سے وابستہ حسین لمحے دماغ میں تازہ بھی کرلیتے ہیں۔
خوشبو کا استعمال صدیوں سے کیا جارہا ہے، مصرمیں چار صدی قبل مسیح میں اس کی دریافت کے آثار ملے ہیں، جہاں للی کے پھولوں کو کشید کرتے دکھایا گیا ہے۔ ماہرین تاریخ کی بازیافت کے مطابق میسو پوٹیما میں دو صدی قبل مسیح کی ایک خاتون ٹپٹی (tapputi) پھولوں، تیل اور دیگر جڑی بوٹیوں کو کشید کرکے عطر بنایا کرتی تھی۔ قدیم تہذیبوں بابل و نینوا، اور یونان کی داستانوں میں اس کا ذکر مذکور ہے۔ پرانے زمانے میں چینی لوگ اپنے لباس پر خوشبو لگاتے تھے، مذہبی تقاریب اور جنازوں پر لوبان جلاتے تھے، انھوں نے سب سے قیمتی خوشبو مشک کو بھی دریافت کیا۔ مشک کا ذکر قرآن پاک میں جگہ جگہ موجود ہے۔
حضرت علیؓ نے اپنے کلام نہج البلاغہ میں بھی مشک کی تعریف کی ہے۔ یونانیوں اور رومیوں نے خوشبویات کے علم کو بہت پروان چڑھایا۔ یونانی لوک داستان میں ٹرائے کی ہیلن نے ایک خوشبو کے ذریعے سے خوبصورتی حاصل کی، جس کا راز وینس نے اسے بتایا تھا۔ بابل اور نینوا اپنے زمانے میں خوشبو کے بڑے مراکز سمجھے جاتے تھے۔ قلو پطرہ کے حسن میں خوشبو کا بہت دخل تھا۔ یہ عطریات بے انتہا قیمتی ہونے کے باعث صرف بادشاہ، ملکہ، راجہ اور مہاراجہ اسے استعمال کرتے تھے، عام لوگوں کی دسترس سے یہ دور تھے۔
کہتے ہیں ملکہ نورجہاں نے سب سے پہلے گلاب کا عطر دریافت کیا۔ روایت کے مطابق جب ملکہ نے غسل کے لیے حوض میں گلاب کے پھول ڈال کر پانی تیار کیا تو اس نے دیکھا کہ پانی کی سطح پر تیل کے چند قطرے تیر رہے تھے، ملکہ نے قطروں کو جمع کیا تو ان میں گلاب کی خوشبو پائی گئی۔ اس طرح گلاب کی خوشبو کشید کرنے کا طریقہ عمل میں آیا۔ کہتے ہیں اس کے ایک خادم کا نام عطر خان تھا جس کے نام پر عطر گلاب رکھا گیا۔
مسلمان سائنس داں بوعلی سینا نے دسویں صدی عیسوی میں پھولوں کو کشید کرکے عطر بنانے کا طریقہ دریافت کیا۔ ان عرقیات کو کشید کرنے کے لیے خاص برتن بنائے جاتے تھے جو کرامبیق کہلاتے تھے، تانبے کے اس بڑے دیگچے کے اوپر ایک بڑی سی نلکی لگی ہوتی تھی، جو شروع میں موٹی پھر بتدریج پتلی ہوتی جاتی، دیگچے میں موجود پھولوں کو پکانے سے بھاپ نکلتی جو نلکی کے راستے پانی میں ڈوبے رہنے کی وجہ سے پانی میں شامل ہوتی رہتی تھی۔
آج بھی روایتی طریقے کے مطابق پھولوں کو بھاپ میں کشید کیا جاتا ہے۔ دو ہزار کلو گرام پھولوں سے کشید کے بعد آدھا کلو گرام تیل حاصل ہوپاتا ہے، جو ایک قیمتی خوشبو کہلاتی ہے۔ صندل کا تیل درآمد کرنے میں بھارت کا نام پہلے نمبر پر آتا ہے، گلاب کا تیل بلغاریہ سے، دارچینی کا تیل چین سے اور لیونڈر کا تیل جنوبی فرانس کے ایک پودے سے حاصل کیا جاتا ہے۔
پھولوں، پھلوں، جڑوں کے ساتھ ساتھ جانوروں سے بھی خوشبویات حاصل کی جاتی تھیں۔ سب سے قیمتی خوشبو مشک ایک خاص قسم کے ہرن کے غدود سے حاصل کیا جاتا ہے۔ شکاری انھیں ہمالیہ کے پہاڑوں سے شکار کرتے ہیں، ان کے غدود کو سکھا کر اخروٹ جیسی شکل میں پیک کرکے فروخت کرتے ہیں۔ یہ ایک قیمتی و دیرپا خوشبو ہوتی ہے۔ دوسری خوشبو عنبر جو ایک وہیل مچھلی کی آنتوں میں بنتی ہے، اس خوشبو کے بننے کی وجہ مچھلی کے ہاضمے کی خرابی بیان کی جاتی ہے، یہ ہاضمے کی خرابی کٹل (cuttle fish) مچھلی، جو وہیل مچھلیوں کی پسندیدہ غذا ہے، کھانے سے ہوتی ہے۔
وہیل مچھلی سے حاصل ہونے والی اس خوشبو کو تیل و مختلف مرکبات کے ساتھ تیار کیا جاتا ہے اور چونکہ خوشبویات بنانے میں مختلف قسم کے کیمیکل جو کہ اکثر جراثیم کش بھی ہو تے ہیں، استعمال ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے خوشبو کے استعمال سے جر اثیم بھی دور رہتے ہیں۔ موجودہ دور میں یہ ایک بڑی انڈسٹری کی حیثیت حاصل کرگیا ہے جو ایک منا فع بخش کاروبار ہے۔ غرض خوشبو کی ایک الگ دنیا، ایک الگ کہانی ہے، اس کے سفر میں ہم سب رہنا پسند کرتے ہیں جیسے جیسے سائنس اور کیمسٹری کا علم آگے بڑھتا رہے گا اس میں مزید پیش رفت ہوتی رہے گی۔ ماہرین ہمیں نت نئی منفرد خوشبوئوں سے مسحور کرتے رہیں گے۔
ہمارے ہاں اکثر لوگ ایک ہی خوشبو عرصہ دراز تک استعمال کرتے ہیں اور آخرکار وہ ان کی شخصیت کا حصہ سمجھی جانے لگتی ہے۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں خوشبو یا پرفیوم سازی کو ایک آرٹ اور سائنس ہی نہیں بلکہ منافع بخش انڈسٹری کی حیثیت حاصل ہے۔ جدید سائنسی تحقیق نے اب تو ایسی خوشبویات بھی بنا لی ہیں جو ٹوٹے ہوئے تعلقات کو دوبارہ جوڑنے اور جڑے ہوئے تعلقات کو توڑنے کا کام کرسکتی ہیں، اس سے دلوں میں نفرت بھی پیدا کی جاسکتی ہے اور جذبہ محبت بھی اجاگر کیا جاسکتا ہے، اس کے علاوہ اب ایسے پرفیوم بھی ایجاد ہوگئے ہیں جن کے استعمال سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ انسان دنیا کی تمام پریشانیوں سے آزاد ہوکر ماں کی ٹھنڈی آغوش میں پہنچ گیا ہو۔
انسان اپنے حواس خمسہ جن میں لمس، چھونا، ذائقہ، دیکھنا، سننا اور سونگھنا شامل ہے، دیگر حواس کی نسبت ہم سونگھنے کی اہمیت کو کم ہی استعمال کرتے ہیں، جب کہ گلاب، موتیا، چنبیلی اور دیگر پھولوں کو سونگھ کر ان سے وابستہ حسین لمحے دماغ میں تازہ بھی کرلیتے ہیں۔
خوشبو کا استعمال صدیوں سے کیا جارہا ہے، مصرمیں چار صدی قبل مسیح میں اس کی دریافت کے آثار ملے ہیں، جہاں للی کے پھولوں کو کشید کرتے دکھایا گیا ہے۔ ماہرین تاریخ کی بازیافت کے مطابق میسو پوٹیما میں دو صدی قبل مسیح کی ایک خاتون ٹپٹی (tapputi) پھولوں، تیل اور دیگر جڑی بوٹیوں کو کشید کرکے عطر بنایا کرتی تھی۔ قدیم تہذیبوں بابل و نینوا، اور یونان کی داستانوں میں اس کا ذکر مذکور ہے۔ پرانے زمانے میں چینی لوگ اپنے لباس پر خوشبو لگاتے تھے، مذہبی تقاریب اور جنازوں پر لوبان جلاتے تھے، انھوں نے سب سے قیمتی خوشبو مشک کو بھی دریافت کیا۔ مشک کا ذکر قرآن پاک میں جگہ جگہ موجود ہے۔
حضرت علیؓ نے اپنے کلام نہج البلاغہ میں بھی مشک کی تعریف کی ہے۔ یونانیوں اور رومیوں نے خوشبویات کے علم کو بہت پروان چڑھایا۔ یونانی لوک داستان میں ٹرائے کی ہیلن نے ایک خوشبو کے ذریعے سے خوبصورتی حاصل کی، جس کا راز وینس نے اسے بتایا تھا۔ بابل اور نینوا اپنے زمانے میں خوشبو کے بڑے مراکز سمجھے جاتے تھے۔ قلو پطرہ کے حسن میں خوشبو کا بہت دخل تھا۔ یہ عطریات بے انتہا قیمتی ہونے کے باعث صرف بادشاہ، ملکہ، راجہ اور مہاراجہ اسے استعمال کرتے تھے، عام لوگوں کی دسترس سے یہ دور تھے۔
کہتے ہیں ملکہ نورجہاں نے سب سے پہلے گلاب کا عطر دریافت کیا۔ روایت کے مطابق جب ملکہ نے غسل کے لیے حوض میں گلاب کے پھول ڈال کر پانی تیار کیا تو اس نے دیکھا کہ پانی کی سطح پر تیل کے چند قطرے تیر رہے تھے، ملکہ نے قطروں کو جمع کیا تو ان میں گلاب کی خوشبو پائی گئی۔ اس طرح گلاب کی خوشبو کشید کرنے کا طریقہ عمل میں آیا۔ کہتے ہیں اس کے ایک خادم کا نام عطر خان تھا جس کے نام پر عطر گلاب رکھا گیا۔
مسلمان سائنس داں بوعلی سینا نے دسویں صدی عیسوی میں پھولوں کو کشید کرکے عطر بنانے کا طریقہ دریافت کیا۔ ان عرقیات کو کشید کرنے کے لیے خاص برتن بنائے جاتے تھے جو کرامبیق کہلاتے تھے، تانبے کے اس بڑے دیگچے کے اوپر ایک بڑی سی نلکی لگی ہوتی تھی، جو شروع میں موٹی پھر بتدریج پتلی ہوتی جاتی، دیگچے میں موجود پھولوں کو پکانے سے بھاپ نکلتی جو نلکی کے راستے پانی میں ڈوبے رہنے کی وجہ سے پانی میں شامل ہوتی رہتی تھی۔
آج بھی روایتی طریقے کے مطابق پھولوں کو بھاپ میں کشید کیا جاتا ہے۔ دو ہزار کلو گرام پھولوں سے کشید کے بعد آدھا کلو گرام تیل حاصل ہوپاتا ہے، جو ایک قیمتی خوشبو کہلاتی ہے۔ صندل کا تیل درآمد کرنے میں بھارت کا نام پہلے نمبر پر آتا ہے، گلاب کا تیل بلغاریہ سے، دارچینی کا تیل چین سے اور لیونڈر کا تیل جنوبی فرانس کے ایک پودے سے حاصل کیا جاتا ہے۔
پھولوں، پھلوں، جڑوں کے ساتھ ساتھ جانوروں سے بھی خوشبویات حاصل کی جاتی تھیں۔ سب سے قیمتی خوشبو مشک ایک خاص قسم کے ہرن کے غدود سے حاصل کیا جاتا ہے۔ شکاری انھیں ہمالیہ کے پہاڑوں سے شکار کرتے ہیں، ان کے غدود کو سکھا کر اخروٹ جیسی شکل میں پیک کرکے فروخت کرتے ہیں۔ یہ ایک قیمتی و دیرپا خوشبو ہوتی ہے۔ دوسری خوشبو عنبر جو ایک وہیل مچھلی کی آنتوں میں بنتی ہے، اس خوشبو کے بننے کی وجہ مچھلی کے ہاضمے کی خرابی بیان کی جاتی ہے، یہ ہاضمے کی خرابی کٹل (cuttle fish) مچھلی، جو وہیل مچھلیوں کی پسندیدہ غذا ہے، کھانے سے ہوتی ہے۔
وہیل مچھلی سے حاصل ہونے والی اس خوشبو کو تیل و مختلف مرکبات کے ساتھ تیار کیا جاتا ہے اور چونکہ خوشبویات بنانے میں مختلف قسم کے کیمیکل جو کہ اکثر جراثیم کش بھی ہو تے ہیں، استعمال ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے خوشبو کے استعمال سے جر اثیم بھی دور رہتے ہیں۔ موجودہ دور میں یہ ایک بڑی انڈسٹری کی حیثیت حاصل کرگیا ہے جو ایک منا فع بخش کاروبار ہے۔ غرض خوشبو کی ایک الگ دنیا، ایک الگ کہانی ہے، اس کے سفر میں ہم سب رہنا پسند کرتے ہیں جیسے جیسے سائنس اور کیمسٹری کا علم آگے بڑھتا رہے گا اس میں مزید پیش رفت ہوتی رہے گی۔ ماہرین ہمیں نت نئی منفرد خوشبوئوں سے مسحور کرتے رہیں گے۔