ادب میں آپ بیتی کا مطالعہ ضروری کیوں
آپ بیتی نگار کو تحریر میں کیونکہ مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے اس لیے وہ خود کو ہیرو سمجھتا ہے
آپ بیتی ادب کی وہ تخلیقی صفت ہے جوکسی فرد واحد کی زندگی کے اہم ادوار پر محیط ہوتی ہے۔ آپ بیتی میں وہ تمام کردار پیش کیے جاتے ہیں جن کا تعلق مرکزی کردار یعنی آپ بیتی نگار سے ہوتا ہے جس میں آپ بیتی نگار خود پر گزرے ہوئے اچھے برے حالات کے علاوہ مشکلات، صدمات اور تاثرات کو اپنی تحریر میں لاتا ہے۔ اس میں نہ صرف شخصی تاثرات ہوتے ہیں بلکہ انسان کے گہرے داخلی جذبات کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ آپ بیتی کو خود نوشت بھی کہتے ہیں اس میں کوئی شخص اپنے حافظے کے بل بوتے پر اور کسی طرح کا کوئی مواد موجود ہے تو اس سے استفادہ کر کے شخصی تاثرات کے ساتھ سوانح حیات ترتیب دیتا ہے۔
فنی اعتبار سے اپنے حالات زندگی کو خود پرگزرے ہوئے قابل ذکر واقعات کو ادبی رنگ اور اسلوب میں بیان کرنا یا لکھنا آپ بیتی کہلاتا ہے اگرکوئی دوسرا شخص اسے لکھے تو اسے سوانح عمری یا سوانح حیات کہتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ادب کی دیگر اصناف ناول، افسانہ، ڈرامہ اور شاعری کے مقابلے میں آپ بیتی یا سوانح حیات پڑھنے کا رجحان بہت کم ہے۔
اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں جو آپ بیتی یا سوانح حیات لکھی جا رہی ہیں، ان میں چند ایسی خامیاں ہوتی ہیں جن کے باعث ادب کا قاری ادب کی اس صفت کی جانب توجہ نہیں دیتا۔ ہمارے یہاں آپ بیتی کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس میں پورا سچ نہیں لکھا جاتا آپ بیتی میں دوسروں کی ناراضگی کا خوف دامن گیر رہتا ہے جس کی وجہ سے آپ بیتی میں بے لاگ سچائی اور صداقت کا خیال نہیں رکھا جاتا آپ بیتی نگار خود بھی اپنے آپ کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔
اس سے تحریر اپنی دلکشی اور تاثیر کھو دیتی ہے۔ آپ بیتی میں لکھنے والے کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے جس کی وجہ سے تحریر میں اس کی شخصیت حاوی ہو جاتی ہے۔ اس وجہ سے بعض آپ بیتی لکھنے والے اپنی تحریروں میں اپنی ذات کا سکہ اچھالنے کے سوا کوئی کام نہیں کرتے اور اس میں بھی حد درجہ مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں جس کی وجہ سے تحریر میں خود نمائی اور احساس برتری کا پہلو نمایاں ہو جاتا ہے اس وجہ سے آپ بیتی جلد ہی اپنی وقعت کھو دیتی ہے۔
آپ بیتی نگار کو تحریر میں کیونکہ مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے اس لیے وہ خود کو ہیرو سمجھتا ہے اس سے کوئی غلطی نہیں ہوتی وہ اپنی ذات میں کوئی منفی پہلو نہیں رکھتا۔ وہ آپ بیتی میں حوصلہ افزا نتائج کا کریڈٹ خود لیتا ہے اور غلطیوں کوتاہیوں کا قصور وار دوسروں کو قرار دے کر اپنی ذات کو بہت خوبصورت اور عمدگی سے بری الذمہ قرار دے دیتا ہے۔ تحریر میں یہ طرز فکر ادب کے قاری کو آپ بیتی کے مطالعے سے دورکردیتا ہے۔
بعض آپ بیتی نگار زیادہ تر وقت اپنے بارے میں اپنے خاندان کے بزرگوں، عزیزوں، اپنے سماجی حلقے اورگھریلو حالات کے بارے میں غیر ضروری تفصیلات درج کر دیتے ہیں جس سے تحریر بوجھل ہو جاتی ہے۔ قاری کو اس کے مطالعے سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ ایسی بائیوگرافی عموماً علمی حلقوں میں اپنے آپ کو متعارف کرانے اور اپنا مقام بنانے کے لیے لکھی جاتی ہیں لیکن اس طرح کی بائیوگرافی کا کوئی ادبی مقام نہیں ہوتا۔ انسان خطا کا پتلا ہے، اس میں بشری کمزوریوں کا پایا جانا ایک فطری عمل ہے، بعض آپ بیتی اور سوانح حیات پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی شخصیت آپ بیتی یا سوانح حیات لکھتے وقت دھوبی گھاٹ سے دھل کر پاک و صاف ہو کر آئی ہے۔ آپ اس کا مشاہدہ کسی بھی موجودہ دینی سیاسی جماعت کے اکابرین کی بائیوگرافی پڑھ کر کرسکتے ہیں۔
اپنے آپ کے بارے میں سچائی سے بیان کرنا بڑی اعلیٰ ظرفی کی بات ہے بہت کم لوگ اس کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اکثر سوانح نگار اپنی کمزوریوں کو ایسے بیان کرتے ہیں کہ ان کی یہ کمزوریاں ان کی خوبیاں بن کر قاری کے سامنے آ جاتی ہیں۔ آپ ایسے تمام سیاست دانوں کی جو آمریت کے سب سے بڑے حامی بن کر سامنے آئے اور اس کے حصہ دار بھی رہے اور جو آج بھی آمریت کے خواہاں ہیں آپ ان کی سوانح حیات یا خودنوشت کا مطالعہ کر لیں آپ کو وہ اپنی تحریروں میں جمہوریت کے سب سے بڑے علم بردار نظر آئیں گے۔
سوال یہ ہے کہ ایک اچھی آپ بیتی اور خودنوشت میں کیا خوبی ہونی چاہیے؟ جب قاری آپ بیتی کا انتخاب کرتا ہے تو سب سے پہلے وہ آپ بیتی نگار کا انتخاب کرتا ہے، وہ جاننا چاہتا ہے کہ وہ کون سے محرکات تھے جس نے ان کو دوسروں سے ممتازکردیا، اس لیے شخصیت کا اہم اور معروف ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا ہمہ گیر ہونا ضروری ہے۔ یعنی اس شخصیت نے کوئی ایسا کام انجام دیا ہو جس سے ملک کی آبادی کے بڑے حصے کو متاثرکیا ہو، خواہ اس کا تعلق زندگی کے کسی بھی شعبے سے ہو۔
ایک عمدہ آپ بیتی کی خصوصیت میں قوت مشاہدہ کا دلچسپ اور فطری ہونا ضروری ہے۔ تحریر بے ربط نہ ہو بلکہ منطقی انداز میں لکھی گئی ہو۔ آپ بیتی میں معاشرے کی تہذیب و تمدن اور اقدار کا خیال رکھا جانا بھی ضروری ہے۔ اقدارکا مطلب یہ نہیں ہے کہ مصنف ان کا سہارا لے کر حقیقت کو چھپالے بلکہ مصنف کو خود کو اس طرح کا پیش کرنا چاہیے جس طرح کا وہ ہے۔ آپ بیتی میں نہ صرف شخصیت ہی نمایاں نہ ہو بلکہ اس میں تاریخ، سماج اور ادب کی آمیزش بھی نظر آتی ہو۔
فن اظہار کی جھلک کے ساتھ ساتھ گہرے داخلی جذبات کا اظہار بھی ضروری ہے۔آپ بیتی مصنف کے ذاتی حالات پر مشتمل نہیں ہوتی بلکہ ایک خاص دور کے مجموعی حالات کا عکس بھی اس میں ہوتا ہے۔ اس لیے مصنف کو خارجی حالات کو بیان کرتے وقت دوسروں کے خوف سے بالاتر ہو کر صداقت اور سچائی سے کام لینا چاہیے،کیونکہ یہاں آپ بیتی ایک تاریخی دستاویز بن جاتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آپ بیتی یا سوانح عمری کا مطالعہ ضروری کیوں ہے؟
ایک انسان زندگی کی پانچ یا چھ دہائیوں کے بعد جب آپ بیتی لکھتا ہے تو اس کے کئی دہائیوں کے تجربے، مشاہدات اور احساسات آپ بیتی میں لکھتا ہے۔ آپ کو وہ ہفتہ دس دن میں حاصل ہوجاتے ہیں، اس سے زندگی کے مختلف پہلو سامنے آتے ہیں ان سے بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت ہمارے اندر پیدا ہو جاتی ہے۔آپ بیتی میں کتابی باتیں نہیں ہوتیں بلکہ اصل حالات اور واقعات کا اندراج ہوتا ہے جس سے آپ کو زندگی کی مشکلات کا نہ صرف علم ہوتا ہے بلکہ اس سے عہدہ برا ہونے اور چیلنجز کا سامنا کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ آپ بیتی میں زندگی کے تمام نشیب و فراز پورے آب و تاب سے ظاہر ہوتے ہیں۔ مصنف زندگی میں جن مراحل سے گزرتا ہے، اس کو رقم کر دیتا ہے، یعنی آپ بیتی میں زندگی کے اتار چڑھاؤ بالخصوص معاشرے میں موجود تضادات کو دیکھا جا سکتا ہے، اس سے قاری کے سامنے سب کچھ واضح ہو جاتا ہے۔ اس سے قاری کے شعور میں اضافہ ہوتا ہے جس سے زندگی کا لائحہ عمل مرتب کرنے میں اسے آسانی ہو جاتی ہے۔
فنی اعتبار سے اپنے حالات زندگی کو خود پرگزرے ہوئے قابل ذکر واقعات کو ادبی رنگ اور اسلوب میں بیان کرنا یا لکھنا آپ بیتی کہلاتا ہے اگرکوئی دوسرا شخص اسے لکھے تو اسے سوانح عمری یا سوانح حیات کہتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ادب کی دیگر اصناف ناول، افسانہ، ڈرامہ اور شاعری کے مقابلے میں آپ بیتی یا سوانح حیات پڑھنے کا رجحان بہت کم ہے۔
اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں جو آپ بیتی یا سوانح حیات لکھی جا رہی ہیں، ان میں چند ایسی خامیاں ہوتی ہیں جن کے باعث ادب کا قاری ادب کی اس صفت کی جانب توجہ نہیں دیتا۔ ہمارے یہاں آپ بیتی کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس میں پورا سچ نہیں لکھا جاتا آپ بیتی میں دوسروں کی ناراضگی کا خوف دامن گیر رہتا ہے جس کی وجہ سے آپ بیتی میں بے لاگ سچائی اور صداقت کا خیال نہیں رکھا جاتا آپ بیتی نگار خود بھی اپنے آپ کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔
اس سے تحریر اپنی دلکشی اور تاثیر کھو دیتی ہے۔ آپ بیتی میں لکھنے والے کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے جس کی وجہ سے تحریر میں اس کی شخصیت حاوی ہو جاتی ہے۔ اس وجہ سے بعض آپ بیتی لکھنے والے اپنی تحریروں میں اپنی ذات کا سکہ اچھالنے کے سوا کوئی کام نہیں کرتے اور اس میں بھی حد درجہ مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں جس کی وجہ سے تحریر میں خود نمائی اور احساس برتری کا پہلو نمایاں ہو جاتا ہے اس وجہ سے آپ بیتی جلد ہی اپنی وقعت کھو دیتی ہے۔
آپ بیتی نگار کو تحریر میں کیونکہ مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے اس لیے وہ خود کو ہیرو سمجھتا ہے اس سے کوئی غلطی نہیں ہوتی وہ اپنی ذات میں کوئی منفی پہلو نہیں رکھتا۔ وہ آپ بیتی میں حوصلہ افزا نتائج کا کریڈٹ خود لیتا ہے اور غلطیوں کوتاہیوں کا قصور وار دوسروں کو قرار دے کر اپنی ذات کو بہت خوبصورت اور عمدگی سے بری الذمہ قرار دے دیتا ہے۔ تحریر میں یہ طرز فکر ادب کے قاری کو آپ بیتی کے مطالعے سے دورکردیتا ہے۔
بعض آپ بیتی نگار زیادہ تر وقت اپنے بارے میں اپنے خاندان کے بزرگوں، عزیزوں، اپنے سماجی حلقے اورگھریلو حالات کے بارے میں غیر ضروری تفصیلات درج کر دیتے ہیں جس سے تحریر بوجھل ہو جاتی ہے۔ قاری کو اس کے مطالعے سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ ایسی بائیوگرافی عموماً علمی حلقوں میں اپنے آپ کو متعارف کرانے اور اپنا مقام بنانے کے لیے لکھی جاتی ہیں لیکن اس طرح کی بائیوگرافی کا کوئی ادبی مقام نہیں ہوتا۔ انسان خطا کا پتلا ہے، اس میں بشری کمزوریوں کا پایا جانا ایک فطری عمل ہے، بعض آپ بیتی اور سوانح حیات پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی شخصیت آپ بیتی یا سوانح حیات لکھتے وقت دھوبی گھاٹ سے دھل کر پاک و صاف ہو کر آئی ہے۔ آپ اس کا مشاہدہ کسی بھی موجودہ دینی سیاسی جماعت کے اکابرین کی بائیوگرافی پڑھ کر کرسکتے ہیں۔
اپنے آپ کے بارے میں سچائی سے بیان کرنا بڑی اعلیٰ ظرفی کی بات ہے بہت کم لوگ اس کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اکثر سوانح نگار اپنی کمزوریوں کو ایسے بیان کرتے ہیں کہ ان کی یہ کمزوریاں ان کی خوبیاں بن کر قاری کے سامنے آ جاتی ہیں۔ آپ ایسے تمام سیاست دانوں کی جو آمریت کے سب سے بڑے حامی بن کر سامنے آئے اور اس کے حصہ دار بھی رہے اور جو آج بھی آمریت کے خواہاں ہیں آپ ان کی سوانح حیات یا خودنوشت کا مطالعہ کر لیں آپ کو وہ اپنی تحریروں میں جمہوریت کے سب سے بڑے علم بردار نظر آئیں گے۔
سوال یہ ہے کہ ایک اچھی آپ بیتی اور خودنوشت میں کیا خوبی ہونی چاہیے؟ جب قاری آپ بیتی کا انتخاب کرتا ہے تو سب سے پہلے وہ آپ بیتی نگار کا انتخاب کرتا ہے، وہ جاننا چاہتا ہے کہ وہ کون سے محرکات تھے جس نے ان کو دوسروں سے ممتازکردیا، اس لیے شخصیت کا اہم اور معروف ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا ہمہ گیر ہونا ضروری ہے۔ یعنی اس شخصیت نے کوئی ایسا کام انجام دیا ہو جس سے ملک کی آبادی کے بڑے حصے کو متاثرکیا ہو، خواہ اس کا تعلق زندگی کے کسی بھی شعبے سے ہو۔
ایک عمدہ آپ بیتی کی خصوصیت میں قوت مشاہدہ کا دلچسپ اور فطری ہونا ضروری ہے۔ تحریر بے ربط نہ ہو بلکہ منطقی انداز میں لکھی گئی ہو۔ آپ بیتی میں معاشرے کی تہذیب و تمدن اور اقدار کا خیال رکھا جانا بھی ضروری ہے۔ اقدارکا مطلب یہ نہیں ہے کہ مصنف ان کا سہارا لے کر حقیقت کو چھپالے بلکہ مصنف کو خود کو اس طرح کا پیش کرنا چاہیے جس طرح کا وہ ہے۔ آپ بیتی میں نہ صرف شخصیت ہی نمایاں نہ ہو بلکہ اس میں تاریخ، سماج اور ادب کی آمیزش بھی نظر آتی ہو۔
فن اظہار کی جھلک کے ساتھ ساتھ گہرے داخلی جذبات کا اظہار بھی ضروری ہے۔آپ بیتی مصنف کے ذاتی حالات پر مشتمل نہیں ہوتی بلکہ ایک خاص دور کے مجموعی حالات کا عکس بھی اس میں ہوتا ہے۔ اس لیے مصنف کو خارجی حالات کو بیان کرتے وقت دوسروں کے خوف سے بالاتر ہو کر صداقت اور سچائی سے کام لینا چاہیے،کیونکہ یہاں آپ بیتی ایک تاریخی دستاویز بن جاتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آپ بیتی یا سوانح عمری کا مطالعہ ضروری کیوں ہے؟
ایک انسان زندگی کی پانچ یا چھ دہائیوں کے بعد جب آپ بیتی لکھتا ہے تو اس کے کئی دہائیوں کے تجربے، مشاہدات اور احساسات آپ بیتی میں لکھتا ہے۔ آپ کو وہ ہفتہ دس دن میں حاصل ہوجاتے ہیں، اس سے زندگی کے مختلف پہلو سامنے آتے ہیں ان سے بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت ہمارے اندر پیدا ہو جاتی ہے۔آپ بیتی میں کتابی باتیں نہیں ہوتیں بلکہ اصل حالات اور واقعات کا اندراج ہوتا ہے جس سے آپ کو زندگی کی مشکلات کا نہ صرف علم ہوتا ہے بلکہ اس سے عہدہ برا ہونے اور چیلنجز کا سامنا کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ آپ بیتی میں زندگی کے تمام نشیب و فراز پورے آب و تاب سے ظاہر ہوتے ہیں۔ مصنف زندگی میں جن مراحل سے گزرتا ہے، اس کو رقم کر دیتا ہے، یعنی آپ بیتی میں زندگی کے اتار چڑھاؤ بالخصوص معاشرے میں موجود تضادات کو دیکھا جا سکتا ہے، اس سے قاری کے سامنے سب کچھ واضح ہو جاتا ہے۔ اس سے قاری کے شعور میں اضافہ ہوتا ہے جس سے زندگی کا لائحہ عمل مرتب کرنے میں اسے آسانی ہو جاتی ہے۔