تنازعات سے پاک پرامن دنیا کا خواب
جنگ کے براہ راست اثرات سے عالمی سطح پر ایندھن اور خوراک کی قیمتیں بڑھ گئیں
صدر مملکت آصف علی زرداری نے اقوامِ عالم کے مابین امن کے اصولوں کے ساتھ اپنی وابستگی کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج دنیا کو مختلف علاقوں میں جغرافیائی سیاسی کشیدگی اور تنازعات کا سامنا ہے، تنازعات عالمی امن کو خطرے میں ڈال رہے ہیں جب کہ وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ پاکستان کی حکومت اور عوام جنگ اور تنازعات سے پاک پرامن دنیا کے فروغ کے لیے عالمی برادری کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔
یہ دن منانا دنیاکو پرامن رہنے اور امن کے نظریات کو تقویت دینے کے لیے وقف کیا گیا ہے،کیونکہ جنگ اور تنازعات شدید تباہی، غربت اور بھوک کو جنم دے رہے ہیں۔ صرف 20 ویں صدی کی جنگوں کے نتیجے میں دنیا میں دس کروڑ 80 لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔ ہر سال 21 ستمبرکا یہ دن ہمیں امن کے فروغ کے عہدکی یاد دلاتا ہے کہ ہم سب دنیا میں قیام امن، تعمیر امن اور فروغ امن کی کاوشوں میں ہر سطح پر اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔
اس کے باوجود سیاسی مقاصد کے حصول اور حکمرانوں کے ذاتی مفاد کی وجہ سے آج بھی کئی تنازعات ویسے کے ویسے موجود ہیں جیسے وہ سو سال پہلے تھے۔ موجودہ دور میں عالمی اختلافات اور تنازعات دنیا کی بہتری اور ترقی کے لیے نہ صرف رکاوٹ ہیں بلکہ کئی دہائیوں سے جنگ اور جھڑپوں کی صورت میں انسانی جانوں اور مالی نقصان کی وجہ بھی بن رہے ہیں اورکئی ایسے تنازعات ہیں جن کی وجہ سے جنگوں کا خطرہ آج اس اکیسویں صدی میں بھی موجود ہے۔
اس خطے میں جموں و کشمیر کا تنازعہ ایک دیرینہ مسئلہ ہے جس کے پائیدار حل کی بنیاد غیر جانبدارانہ رائے شماری اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں پر عمل درآمد ہے۔ ہمیں فلسطین کے معصوم لوگوں کی حالت زار کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، جو ریاستی جارحیت کا بہادری سے سامنا کر رہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں دیرپا امن کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں اور فلسطینیوں کی امنگوں کے مطابق تنازع کا پرامن حل وقت کی اہم ضرورت ہے۔ پاکستان امن کے لیے دو قدم بڑھاتا ہے مگر بھارت ہٹ دھرمی سے کام لیتا ہے اور انتہا پسندانہ سوچ پر عمل پیرا ہے۔
دوسری جانب روس اور یوکرین کے درمیان جنگ جاری ہے،جنگ کے براہ راست اثرات سے عالمی سطح پر ایندھن اور خوراک کی قیمتیں بڑھ گئیں اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تجارت نے جنگ کو عالمگیر معاشی گراؤٹ کا ایک بڑا سبب قرار دیا، جب جنوب مشرقی یوکرین میں یورپ کا سب سے بڑا جوہری مرکز زیپوریزیا پلانٹ روس کی فوج کے قبضے میں آیا تو 1986 ہونے والے چرنوبل جوہری دھماکے کی تاریک یادیں تازہ ہو گئیں۔ براعظم افریقہ میں سوڈان اور ایتھوپیا میں امن کی امید کی جاتی ہے جب کہ کانگو اور مالی میں تنازعات جاری ہیں، اسی مشرق وسطیٰ میں دیرینہ تنازعات کے فوری خاتمے کا امکان معدوم ہوتا جارہا ہے۔ شام میں خوفناک خانہ جنگی کو ایک دہائی سے زائد کا عرصہ ہوچلا ہے۔
یمن میں تباہ کن جنگ جاری ہے، جو وہاں کے لوگوں کو بے رحمانہ طور سے نقصان پہنچا رہی ہے۔ دراصل یوم امن کا مقصد تمام ممالک اور اقوام کو ہر حال میں قبول کرنا اور قبولیت کے فلسفہ کو فروغ دینا ہے۔ یہ دن مطالبہ کرتا ہے کہ عدم تشدد پر قائم رہ کر امن سے اپنی وابستگی ظاہر کی جائے۔ یہ دن ایک دوسرے کے درمیان اختلافات کو دور کرنے اور باہمی امن، محبت اور یگانگت کے فروغ کا عزم دہراتا ہے۔دنیا میں قیام امن کی کوششوں میں پاکستان نے ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے۔ خاص طور پر افواجِ پاکستان کے امن دستوں نے دنیا کے مختلف شورش زدہ ممالک میں بحالی امن کے لیے جو اہم کردار ادا کیا ہے اس کا دنیا بھر میں اعتراف کیا جاتا ہے۔
کانگو کے بعد پاکستان نے نیوگینی، کمبوڈیا، نمیبیا، کویت، سرالیون، ہیٹی، مشرقی تیمور، لائبیریا، برونڈی دارفور اور بوسنیا سمیت کئی ممالک میں امن دستے بھیجے جنھوں نے ان ممالک میں قیام امن کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ وہ ان شورش زدہ اور خطرناک ترین علاقوں میں اُمید اور تحفظ کی علامت بن کر اُترے اور اپنی کوششوں اور صلاحیتوں سے انھیں امن کی راہ پر گامزن کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ آج بھی افواجِ پاکستان کے افسر اور جوان سینٹرل افریقہ، سوڈان، مالی، دارفور، ویسٹرن صحارا، قبرص اور صومالیہ جیسے افریقی ممالک میں امن کے سفیر بن کر دنیا بھر میں پاکستان کے سبز ہلالی پرچم کی شان کو بڑھا رہے ہیں۔ خود اقوامِ متحدہ اور دوسری عالمی طاقتوں اور اداروں کی جانب سے متعدد بار پاکستانی امن دستوں کی قربانیوں کا اعتراف کیا گیا اور ان خدمات کو سراہا گیا جو یقیناً پاکستان اور اس کے عوام کے لیے فخر کا باعث ہیں۔
امن جو کہ اپنے اندر ایک وسیع معنی اور اپنی ایک خاص اور جداگانہ تاریخ رکھتا ہے، اکثر لوگ اس کے حقیقی معنی سے بے خبر ہیں۔ ان کے نزدیک امن وہ صورتحال یا زمانہ ہے کہ جس میں کسی قسم کا کوئی جنگ و جدل نہ رہا ہو۔ یہاں تک بات بھی ٹھیک ہے کیونکہ ''امن'' لاطینی لفظ ''PAX'' سے ماخوذ ہے جس کا معنی دو جماعتوں یا ملکوں کے درمیان کسی تنازعے یا جنگ کو روکنے کے معاہدے کے ہیں۔ امریکی فوجی تاریخ کے مطابق، جنگ کا نہ ہونا امن کہلاتا ہے۔ فوجی نقطہ نظر سے جنگ دراصل امن کے حصول کے لیے ہی لڑی جاتی ہے۔ تاہم کئی اشخاص اور اسکالرز اس بات سے اتفاق نہیں رکھتے۔ ان کے نزدیک امن اس بات سے کہیں زیادہ معنی خیز اور اہم ہے۔ مثلاً البرٹ آئن اسٹائن، مارٹن لوتھر جونیئر، جواہر لال نہرو، اور دیگر اشخاص کے نزدیک محض جنگ کا نہ ہونا امن نہیں بلکہ اس معاشرے یا ریاست میں انصاف اور قانون کی پاسداری، انسانی حقوق کی پاسداری اور شخصی آزادی کا ہونا اصل امن ہے۔ محض جنگ کے نہ ہونے کو امن کہنا بہت ہی چھوٹی بات ہے۔
شعبہ امن و تنازعات کے بہت بڑے اسکالر جوہان گالتنگ امن کو ایک سکے سے مشابہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک امن کے دو رخ ہیں جن کا تعلق تشدد اور انتشار سے ہے۔قدیم یونان اور سلطنت روم کے زمانے سے ہی ہمیں ریاستوں کے امن کے لیے کی گئی کوششوں کے ثبوت ملتے ہیں، عظیم سلطنت روم نے ''Pax Romana'' یعنی روم میں امن کے معاہدے سے ہی اتنی بڑی سلطنت میں دو سو سالوں سے زائد عرصے تک امن برقرار رکھے رکھا۔ مال کی طلب اور کھپت کے لیے مارکیٹ ڈھونڈی نہیں بنائی جاتی ہے۔تنازعات کو حل کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا خاص کر وہ تنازعات جو تیسرے فریق کی کاوش اور دلچسپی سے بنے ہوں اور جس میں تیسرے فریق کے مفادات پنپتے ہوں۔
تیسرے فریق کا بزنس پھلتا پھولتا ہو۔ ایسے تنازعات تیسرا فریق حل نہیں ہونے دے گا۔ ایسا تنازعہ حل ہونے کی صورت میں تیسرا فریق نقصان اٹھاتا ہے۔ پھر اسے اس نقصان کی تلافی کے لیے کوئی اور تنازعہ شروع کروانا پڑے گا، اسے بڑھاوا دینا پڑے گا، تاکہ بزنس پہلے جیسا چلنے لگے، یہ تو کافی لمبا اور مشکل کام ہے۔ اس لیے بنی ہوئی مارکیٹ کو کیوں خراب ہونے دیا جائے؟ یہ تو بیوقوفی ہوگی۔ اس کا اچھا طریقہ یہ ہے کہ کچھ ایسا کرو کہ فریقین مصالحت کے لیے تیسرے فریق کے پاس آئیں یا کم از کم ایک تو آئے اور بار بار آتا رہے۔
ایسی صورت میں تنازعہ کا تصفیہ کرنے والا فریق صرف اسی صورت میں فریقین کے درمیان موجودہ تنازعہ صلح صفائی سے حل کروانے کا سوچے گا جب اسے ایسا کرنے سے سب سے زیادہ منافع نظر آرہا ہو یا اسے یہ تنازعہ حل نہ کرانے کی صورت میں اپنے بزنس میں بڑا نقصان نظر آنے لگے۔ ہم آپ سے ایک سادہ سی بزنس تھیوری ڈسکس کررہے ہیں۔ کیپیٹلزم کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ منافع کمایا جائے۔
یہ کیپٹلزم کا بلائینڈ پرنسپل ہے۔ منافع حاصل کرنے کا یہ اصول اکثر حاوی نظر آتا ہے ۔ ہمیں ترقی یافتہ دنیا سے شکوہ ہے کہ منافع اس دنیا کی سب سے اہم ترجیح رہی ہوگی۔ تنازعات کو فریقین خود سے کیوں حل نہیں کرسکتے؟ خود سے نہ حل کرنے کی سزا تلخ اور طویل ہوا کرتی ہے۔ کیا کریں کہ تیسرا فریق حل بھی نہیں کرنے دیتا۔ تنازعہ حل ہونے میں فریقین کا نقصان ہونا رک جاتا ہے اور تیسرے کا بزنس ماند پڑ جاتا ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کے تناظر میں تنازعات کا چپٹر ہمہ گیر ہے۔
کیا دنیا کا آدھا بجٹ تنازعات کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے؟ یا اس سے بھی زیادہ؟ تہذیب اور تعلیم اور ترویج نے انسان کی کتنی مدد کی ہے کہ وہ اپنی محنت، کاوش اور خون پیسنے کی کمائی کو ہتھیاروں کے انبار لگانے پر نہ صرف ہونے دے؟ امن اور خوشحالی مقدم ہیں۔ امن اور خوشحالی کی قیمت جاننی ہو تو غزہ کے تباہ شدہ مکانوں کی ایک جھلک دیکھنی چاہیے۔بیسویں صدی میں خاص طور پر دوسری جنگ عظیم کے بعد منظم طور پر امن کے لیے کام کیا گیا۔
مختلف تنظیموں کا قیام عمل میں آیا جس میں سب سے بڑی اقوام متحدہ ہے۔ اسی سال یونیسکو کے قیام کے بعد باقاعدہ امن کی تعلیم کے لیے بھی کام شروع کیا گیا جس نے یقیناً دنیا میں امن لانے کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ مگر امن کی تعلیم کسی بھی معاشرے کی ترقی اور استحکام کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس سے لوگوں میں نہ صرف قوت برداشت پیدا ہوتی ہے بلکہ تنازعات کو ایک تعمیری نظر سے دیکھنے اور اس کا پرامن حل نکالنے کی صلاحیت خود میں پیدا ہوتی ہے، جس سے بالآخر معاشرے اور ملک کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے نکال کر ترقی اور خوشحالی کی راہ پرگامزن کیا جا سکتا ہے۔
یہ دن منانا دنیاکو پرامن رہنے اور امن کے نظریات کو تقویت دینے کے لیے وقف کیا گیا ہے،کیونکہ جنگ اور تنازعات شدید تباہی، غربت اور بھوک کو جنم دے رہے ہیں۔ صرف 20 ویں صدی کی جنگوں کے نتیجے میں دنیا میں دس کروڑ 80 لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔ ہر سال 21 ستمبرکا یہ دن ہمیں امن کے فروغ کے عہدکی یاد دلاتا ہے کہ ہم سب دنیا میں قیام امن، تعمیر امن اور فروغ امن کی کاوشوں میں ہر سطح پر اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔
اس کے باوجود سیاسی مقاصد کے حصول اور حکمرانوں کے ذاتی مفاد کی وجہ سے آج بھی کئی تنازعات ویسے کے ویسے موجود ہیں جیسے وہ سو سال پہلے تھے۔ موجودہ دور میں عالمی اختلافات اور تنازعات دنیا کی بہتری اور ترقی کے لیے نہ صرف رکاوٹ ہیں بلکہ کئی دہائیوں سے جنگ اور جھڑپوں کی صورت میں انسانی جانوں اور مالی نقصان کی وجہ بھی بن رہے ہیں اورکئی ایسے تنازعات ہیں جن کی وجہ سے جنگوں کا خطرہ آج اس اکیسویں صدی میں بھی موجود ہے۔
اس خطے میں جموں و کشمیر کا تنازعہ ایک دیرینہ مسئلہ ہے جس کے پائیدار حل کی بنیاد غیر جانبدارانہ رائے شماری اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں پر عمل درآمد ہے۔ ہمیں فلسطین کے معصوم لوگوں کی حالت زار کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، جو ریاستی جارحیت کا بہادری سے سامنا کر رہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں دیرپا امن کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں اور فلسطینیوں کی امنگوں کے مطابق تنازع کا پرامن حل وقت کی اہم ضرورت ہے۔ پاکستان امن کے لیے دو قدم بڑھاتا ہے مگر بھارت ہٹ دھرمی سے کام لیتا ہے اور انتہا پسندانہ سوچ پر عمل پیرا ہے۔
دوسری جانب روس اور یوکرین کے درمیان جنگ جاری ہے،جنگ کے براہ راست اثرات سے عالمی سطح پر ایندھن اور خوراک کی قیمتیں بڑھ گئیں اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تجارت نے جنگ کو عالمگیر معاشی گراؤٹ کا ایک بڑا سبب قرار دیا، جب جنوب مشرقی یوکرین میں یورپ کا سب سے بڑا جوہری مرکز زیپوریزیا پلانٹ روس کی فوج کے قبضے میں آیا تو 1986 ہونے والے چرنوبل جوہری دھماکے کی تاریک یادیں تازہ ہو گئیں۔ براعظم افریقہ میں سوڈان اور ایتھوپیا میں امن کی امید کی جاتی ہے جب کہ کانگو اور مالی میں تنازعات جاری ہیں، اسی مشرق وسطیٰ میں دیرینہ تنازعات کے فوری خاتمے کا امکان معدوم ہوتا جارہا ہے۔ شام میں خوفناک خانہ جنگی کو ایک دہائی سے زائد کا عرصہ ہوچلا ہے۔
یمن میں تباہ کن جنگ جاری ہے، جو وہاں کے لوگوں کو بے رحمانہ طور سے نقصان پہنچا رہی ہے۔ دراصل یوم امن کا مقصد تمام ممالک اور اقوام کو ہر حال میں قبول کرنا اور قبولیت کے فلسفہ کو فروغ دینا ہے۔ یہ دن مطالبہ کرتا ہے کہ عدم تشدد پر قائم رہ کر امن سے اپنی وابستگی ظاہر کی جائے۔ یہ دن ایک دوسرے کے درمیان اختلافات کو دور کرنے اور باہمی امن، محبت اور یگانگت کے فروغ کا عزم دہراتا ہے۔دنیا میں قیام امن کی کوششوں میں پاکستان نے ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے۔ خاص طور پر افواجِ پاکستان کے امن دستوں نے دنیا کے مختلف شورش زدہ ممالک میں بحالی امن کے لیے جو اہم کردار ادا کیا ہے اس کا دنیا بھر میں اعتراف کیا جاتا ہے۔
کانگو کے بعد پاکستان نے نیوگینی، کمبوڈیا، نمیبیا، کویت، سرالیون، ہیٹی، مشرقی تیمور، لائبیریا، برونڈی دارفور اور بوسنیا سمیت کئی ممالک میں امن دستے بھیجے جنھوں نے ان ممالک میں قیام امن کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ وہ ان شورش زدہ اور خطرناک ترین علاقوں میں اُمید اور تحفظ کی علامت بن کر اُترے اور اپنی کوششوں اور صلاحیتوں سے انھیں امن کی راہ پر گامزن کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ آج بھی افواجِ پاکستان کے افسر اور جوان سینٹرل افریقہ، سوڈان، مالی، دارفور، ویسٹرن صحارا، قبرص اور صومالیہ جیسے افریقی ممالک میں امن کے سفیر بن کر دنیا بھر میں پاکستان کے سبز ہلالی پرچم کی شان کو بڑھا رہے ہیں۔ خود اقوامِ متحدہ اور دوسری عالمی طاقتوں اور اداروں کی جانب سے متعدد بار پاکستانی امن دستوں کی قربانیوں کا اعتراف کیا گیا اور ان خدمات کو سراہا گیا جو یقیناً پاکستان اور اس کے عوام کے لیے فخر کا باعث ہیں۔
امن جو کہ اپنے اندر ایک وسیع معنی اور اپنی ایک خاص اور جداگانہ تاریخ رکھتا ہے، اکثر لوگ اس کے حقیقی معنی سے بے خبر ہیں۔ ان کے نزدیک امن وہ صورتحال یا زمانہ ہے کہ جس میں کسی قسم کا کوئی جنگ و جدل نہ رہا ہو۔ یہاں تک بات بھی ٹھیک ہے کیونکہ ''امن'' لاطینی لفظ ''PAX'' سے ماخوذ ہے جس کا معنی دو جماعتوں یا ملکوں کے درمیان کسی تنازعے یا جنگ کو روکنے کے معاہدے کے ہیں۔ امریکی فوجی تاریخ کے مطابق، جنگ کا نہ ہونا امن کہلاتا ہے۔ فوجی نقطہ نظر سے جنگ دراصل امن کے حصول کے لیے ہی لڑی جاتی ہے۔ تاہم کئی اشخاص اور اسکالرز اس بات سے اتفاق نہیں رکھتے۔ ان کے نزدیک امن اس بات سے کہیں زیادہ معنی خیز اور اہم ہے۔ مثلاً البرٹ آئن اسٹائن، مارٹن لوتھر جونیئر، جواہر لال نہرو، اور دیگر اشخاص کے نزدیک محض جنگ کا نہ ہونا امن نہیں بلکہ اس معاشرے یا ریاست میں انصاف اور قانون کی پاسداری، انسانی حقوق کی پاسداری اور شخصی آزادی کا ہونا اصل امن ہے۔ محض جنگ کے نہ ہونے کو امن کہنا بہت ہی چھوٹی بات ہے۔
شعبہ امن و تنازعات کے بہت بڑے اسکالر جوہان گالتنگ امن کو ایک سکے سے مشابہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک امن کے دو رخ ہیں جن کا تعلق تشدد اور انتشار سے ہے۔قدیم یونان اور سلطنت روم کے زمانے سے ہی ہمیں ریاستوں کے امن کے لیے کی گئی کوششوں کے ثبوت ملتے ہیں، عظیم سلطنت روم نے ''Pax Romana'' یعنی روم میں امن کے معاہدے سے ہی اتنی بڑی سلطنت میں دو سو سالوں سے زائد عرصے تک امن برقرار رکھے رکھا۔ مال کی طلب اور کھپت کے لیے مارکیٹ ڈھونڈی نہیں بنائی جاتی ہے۔تنازعات کو حل کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا خاص کر وہ تنازعات جو تیسرے فریق کی کاوش اور دلچسپی سے بنے ہوں اور جس میں تیسرے فریق کے مفادات پنپتے ہوں۔
تیسرے فریق کا بزنس پھلتا پھولتا ہو۔ ایسے تنازعات تیسرا فریق حل نہیں ہونے دے گا۔ ایسا تنازعہ حل ہونے کی صورت میں تیسرا فریق نقصان اٹھاتا ہے۔ پھر اسے اس نقصان کی تلافی کے لیے کوئی اور تنازعہ شروع کروانا پڑے گا، اسے بڑھاوا دینا پڑے گا، تاکہ بزنس پہلے جیسا چلنے لگے، یہ تو کافی لمبا اور مشکل کام ہے۔ اس لیے بنی ہوئی مارکیٹ کو کیوں خراب ہونے دیا جائے؟ یہ تو بیوقوفی ہوگی۔ اس کا اچھا طریقہ یہ ہے کہ کچھ ایسا کرو کہ فریقین مصالحت کے لیے تیسرے فریق کے پاس آئیں یا کم از کم ایک تو آئے اور بار بار آتا رہے۔
ایسی صورت میں تنازعہ کا تصفیہ کرنے والا فریق صرف اسی صورت میں فریقین کے درمیان موجودہ تنازعہ صلح صفائی سے حل کروانے کا سوچے گا جب اسے ایسا کرنے سے سب سے زیادہ منافع نظر آرہا ہو یا اسے یہ تنازعہ حل نہ کرانے کی صورت میں اپنے بزنس میں بڑا نقصان نظر آنے لگے۔ ہم آپ سے ایک سادہ سی بزنس تھیوری ڈسکس کررہے ہیں۔ کیپیٹلزم کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ منافع کمایا جائے۔
یہ کیپٹلزم کا بلائینڈ پرنسپل ہے۔ منافع حاصل کرنے کا یہ اصول اکثر حاوی نظر آتا ہے ۔ ہمیں ترقی یافتہ دنیا سے شکوہ ہے کہ منافع اس دنیا کی سب سے اہم ترجیح رہی ہوگی۔ تنازعات کو فریقین خود سے کیوں حل نہیں کرسکتے؟ خود سے نہ حل کرنے کی سزا تلخ اور طویل ہوا کرتی ہے۔ کیا کریں کہ تیسرا فریق حل بھی نہیں کرنے دیتا۔ تنازعہ حل ہونے میں فریقین کا نقصان ہونا رک جاتا ہے اور تیسرے کا بزنس ماند پڑ جاتا ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کے تناظر میں تنازعات کا چپٹر ہمہ گیر ہے۔
کیا دنیا کا آدھا بجٹ تنازعات کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے؟ یا اس سے بھی زیادہ؟ تہذیب اور تعلیم اور ترویج نے انسان کی کتنی مدد کی ہے کہ وہ اپنی محنت، کاوش اور خون پیسنے کی کمائی کو ہتھیاروں کے انبار لگانے پر نہ صرف ہونے دے؟ امن اور خوشحالی مقدم ہیں۔ امن اور خوشحالی کی قیمت جاننی ہو تو غزہ کے تباہ شدہ مکانوں کی ایک جھلک دیکھنی چاہیے۔بیسویں صدی میں خاص طور پر دوسری جنگ عظیم کے بعد منظم طور پر امن کے لیے کام کیا گیا۔
مختلف تنظیموں کا قیام عمل میں آیا جس میں سب سے بڑی اقوام متحدہ ہے۔ اسی سال یونیسکو کے قیام کے بعد باقاعدہ امن کی تعلیم کے لیے بھی کام شروع کیا گیا جس نے یقیناً دنیا میں امن لانے کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ مگر امن کی تعلیم کسی بھی معاشرے کی ترقی اور استحکام کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس سے لوگوں میں نہ صرف قوت برداشت پیدا ہوتی ہے بلکہ تنازعات کو ایک تعمیری نظر سے دیکھنے اور اس کا پرامن حل نکالنے کی صلاحیت خود میں پیدا ہوتی ہے، جس سے بالآخر معاشرے اور ملک کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے نکال کر ترقی اور خوشحالی کی راہ پرگامزن کیا جا سکتا ہے۔