کاہنہ کا جلسہ اور علی امین گنڈا پور
21 ستمبر کا جلسہ حکومت نے مینارِ پاکستان میں ہونے ہی نہ دیا۔ حالانکہ بانی پی ٹی آئی نے اعلان کیا تھا
بھارتی اقتدار میں رہنے والے سیاستدانوں، ججوں اور جرنیلوں سے ہمیں لاکھ اختلافات سہی ، لیکن بھارتی سیاستدانوں، ججوں اور جرنیلوں کی ایک بات ہمیں اچھی لگتی ہے کہ جب یہ لوگ ریٹائر ہوتے ہیں تو اپنے تجربات و مشاہدات کی بنیاد پر اپنی یادداشتیں مرتب کرتے ہیں ۔
اخبارات میں آرٹیکلز لکھتے ہیں ۔ اِن کتابوںاور آرٹیکلز سے جہاں بھارت میں رہنے والے طلبا و طالبات اور سیاست میں قدم رکھنے والے نوجوان بھارتی راستہ اور روشنی پاتے ہیں، وہیں بھارت سے باہر رہنے والے اِن کے قارئین بھارتی سیاست ، اسٹیبلشمنٹ اور بھارتی عزائم و مزاج کو سمجھ سکتے ہیں ۔ جسٹس مرکنڈے کاٹجو بھی بھارتی سپریم کورٹ کے ایسے ہی جج ہیں جو بعد از ریٹائرمنٹ بھارتی اخبارات و جرائد اور ویب اخبارات میں بھارتی سیاست، سماج اور قانونی اُمور پر آرٹیکلز لکھ رہے ہیں ۔ 20ستمبر2024 کو کاٹجو صاحب نے اپنی78ویں سالگرہ منائی ہے ۔
جسٹس (ر) مرکنڈے کاٹجو کے بارے میں بالعموم کہا جاتا ہے کہ وہ کسی شخص،ملک، ادارے یا جماعت بارے اپنی رائے دیانتداری اور غیر جانبداری سے دیتے ہیں۔ بدقسمتی مگر یہ ہے کہ جب پاکستان کی باری آتی ہے تو وہ دانستہ ڈنڈی مار جاتے ہیں ۔ مثال کے طور پر موصوف نے گزشتہ روز جو آرٹیکل لکھا ہے، اِس میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا، جناب علی امین گنڈا پور، کی بے حد تعریف کرتے ہُوئے کہا ہے :'' علی امین گنڈا پور وزیراعلیٰ کے پی نہائت جری اور جرأت مند ہیں۔ وفاقی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو خوب للکار اور لتاڑ رہے ہیں۔
موصوف نے گنڈا پور کو تھپکی دی کہ وہ صحیح معنوں میں گنڈا پوری پشتون ہیں: جنگجو اور جارح۔'' کاٹجو صاحب نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ گنڈا پوری پشتون بھارت میں بھی پائے جاتے ہیں۔ اِسی سے ہم سب اندازہ لگا سکتے ہیں کہ علی امین گنڈا پور کے غیر ذمے دارانہ اور اشتعال انگیزبیانات سے ہمارے دشمن کس کس اسلوب میں نتائج اخذ کررہے ہیں۔ علی امین گنڈا پور کی منفی باتوں کو ''للکار اور لتاڑ'' سے تشبیہہ دے کر ہلاشیری دے رہے ہیں کہ پاکستان میں اور زیادہ انتشار پھیلاؤ۔بھارتی بے حد خوش ہو رہے ہیں۔ خصوصاً علی امین گنڈا پور نے8ستمبر 2024کو سنگجانی( راولپنڈی/اسلام آباد) کے جلسے میں جو متعدد اور قابلِ گرفت بیانات کی بوچھاڑ کی تھی ۔
اِن توہین آمیز بیانات کا رُخ بیک وقت اپنے مخالف سیاستدانوں، صحافیوں ، اسٹیبلشمنٹ اور خواتین صحافیوں کی جانب تھا۔ دو ہفتے گزرنے کے باوجود ابھی تک مگر وزیر اعلیٰ مذکور نے کسی سے بھی معذرت کی ہے نہ اپنے کسی بیان پر ندامت و شرمندگی کا اظہار ہی کیا ہے۔ وجہ شاید یہ بھی ہو کہ علی امین گنڈا پور کے قابلِ گرفت اور قابلِ اعتراض بیانات کی بانی پی ٹی آئی نے بھی تائید و توثیق(Endorse) کی ہے۔اکیس ستمبر کو کاہنہ لاہور میں منعقد ہونے والے جلسے میں بھی علی امین صاحب نے کوئی معذرت نہیں کی ۔ راقم نے پی ٹی آئی کا 8ستمبر 2024 کا جلسہ دیکھا بھی ہے اور بھگتا بھی۔ یہ نہائت تلخ تجربہ تھا۔ 21ستمبر 2024 ، بروز ہفتہ بھی پی ٹی آئی لاہور میں جلسہ کرنے جا رہی تھی :مینارِپاکستان کے میدان میں ۔اِس کا اعلان 8ستمبر ہی کو کر دیا گیا تھا۔ اِس جلسے میں علی امین گنڈا پور نے چھاتی اور ڈائس پر ہاتھ مارتے ہُوئے اعلان کیا تھا: ''ہم 21ستمبر کو بینڈ باجے ، ڈھول اور بارات کے ساتھ لاہور آ رہے ہیں۔'' اِس اعلان کو کئی معنی پہنائے گئے۔
خاص طور پر نون لیگ نے بے حد ناراضی اور آزردگی کا اظہار کیا ۔پنجاب حکومت کی ایک وزیر نے ردِ عمل دیتے ہُوئے کہا تھا:''وزیر اعلیٰ کے پی21ستمبر کو لاہور آئیں تو سہی ۔ اُن کا ساتھ لایا ہُوا ڈھول ہم پھاڑ کر اُن کے گلے میں ڈال دیں گے۔'' 21ستمبر آئی اور گزر گئی ۔ خدا کا شکر ہے کہ کسی کو کسی کا ڈھول پھاڑنے کی نوبت نہ آئی ۔ 22اگست اور8ستمبر کو راولپنڈی اور اسلام آباد کے مکین جس عذاب سے گزرے تھے،21ستمبر کو شہرِ لاہور کے باسی محفوظ ہی رہے ۔
21 ستمبر کا جلسہ حکومت نے مینارِ پاکستان میں ہونے ہی نہ دیا۔ حالانکہ بانی پی ٹی آئی نے اعلان کیا تھا: ''21ستمبر کا جلسہ DO or Die کا لمحہ ہے ۔ اور یہ کہ''مینارِ پاکستان کا جلسہ نہ ہونے دیا گیا تو پی ٹی آئی کے کارکنان جیلیں بھر دیں گے، اور ہم مینارِ پاکستان پر احتجاج کریں گے ۔'' جلسہ مینارِ پاکستان پر ہُوا نہ ہی پی ٹی آئی والے جیلیں بھر سکے ۔ مینارِ پاکستان سے تیس کلومیٹر دور کاہنہ مویشی منڈی میں پنتالیس شرائط پر جلسہ کرنے کی اجازت دی گئی۔ سنگجانی کا جلسہ بھی مویشی منڈی میں کیا گیا۔ پی ٹی آئی کا مورال بھی بلند تھا کہ پی ٹی آئی نے چند دن پہلے ہی مجوزہ آئینی ترامیم کے حوالے سے حکومت کو '' شکست ''سے دوچار کیا تھا۔ اس کے باوجود مگر پی ٹی آئی کاہنہ کا جلسہ مطلوبہ اعلان کے مطابق کامیابی حاصل نہ کر سکا ۔
کیا اِس ناکامی کا داغ پی ٹی آئی کے نَو منتخب سیکریٹری جنرل، سلمان اکرم راجہ، کے چہرے پر لگا ہے ؟ راجہ صاحب موصوف (جن کا تعلق بھی لاہور سے ہے) ایک بڑے وکیل تو ہیں مگر ایسے بڑے سیاستدان نہیں ہیں جو کراؤڈ پُلر ہوں اور جو عوام کے لیے کرشماتی شخصیت ہوں؟ کیا اِس کا سبب 8ستمبر کو سنگجانی میں ہونے والے جلسے میں علی امین گنڈا پور کی قابل اعتراض گفتگو بنی ہے؟ اور کیا اِس ناکامی کا کریڈٹ وزیر اعلیٰ پنجاب، محترمہ مریم نواز شریف، کو جائے گا جنھوں نے20ستمبر کو اشارتاً کہا تھا:''عوام نے ہمیں پانچ سال خدمت کے لیے دیے ہیں، جلسے جلوسوں کے لیے نہیں۔''
پی ٹی آئی کے وابستگان کو رنج ہے کہ علی امین گنڈا پور صاحب یہ جانتے ہُوئے کہ کاہنہ جلسے کے لیے ٹائمنگ سخت ہے اور پنجاب حکومت اِس ٹائمنگ پر عمل کرنے کا مصمم ارادہ کیے بیٹھی ہے، وقت پر کاہنہ جلسہ گاہ نہ پہنچ سکے۔ تقریر بھی نہ کرسکے۔ اب اِس دانستہ غفلت کی توجیحات کررہے ہیں۔سوائے بیرسٹر گوہرخان کے کوئی بھی مرکزی قائد کاہنہ جلسہ میں نہ پہنچ سکا۔کیا سب کسی سے خائف تھے؟ اب پی ٹی آئی کے چیئرمین اعلان کر رہے ہیں کہ آیندہ جلسہ کرنے کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔
یہی تو پنجاب اور مرکزی حکومت چاہتی ہے۔ ویسے اگر21ستمبر کو لاہور میں پی ٹی آئی پر مبینہ حکومتی کریک ڈاؤن نہ کیا جاتا تو جلسہ ضرور کامیاب ہوتا ۔ اگر پُر شکوہ تاریخی مینارِ پاکستان کے سائے میں پی ٹی آئی کا جلسہ ہو بھی جاتا تو کونسا انقلاب آجانا تھا ؟ حکومت تو بہرحال گرنی نہیں تھی ۔ پھر پی ٹی آئی کی چند ایک خاتون ورکرز کے گھروں پر مبینہ چھاپے مارنے (اور ایک کے والد کو گرفتار کرنے) کی کیا ضرورت تھی؟ حالانکہ یہ خواتین تو ابھی حال ہی میں جیلوں سے ضمانت پر باہر آئی ہیں ۔سچی بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی جلسے جلوس کرنے سے باز نہیں آئیگی۔بانی پی ٹی آئی اور پی ٹی آئی کے وابستگان تو اُس مکھی کی طرح ہیں کہ جسے لاکھ دُور کریں ، وہ پھر سے بھنبھناتی ہُوئی آپ کے کان ، ناک اور منہ پر آ بیٹھتی ہے ۔
اخبارات میں آرٹیکلز لکھتے ہیں ۔ اِن کتابوںاور آرٹیکلز سے جہاں بھارت میں رہنے والے طلبا و طالبات اور سیاست میں قدم رکھنے والے نوجوان بھارتی راستہ اور روشنی پاتے ہیں، وہیں بھارت سے باہر رہنے والے اِن کے قارئین بھارتی سیاست ، اسٹیبلشمنٹ اور بھارتی عزائم و مزاج کو سمجھ سکتے ہیں ۔ جسٹس مرکنڈے کاٹجو بھی بھارتی سپریم کورٹ کے ایسے ہی جج ہیں جو بعد از ریٹائرمنٹ بھارتی اخبارات و جرائد اور ویب اخبارات میں بھارتی سیاست، سماج اور قانونی اُمور پر آرٹیکلز لکھ رہے ہیں ۔ 20ستمبر2024 کو کاٹجو صاحب نے اپنی78ویں سالگرہ منائی ہے ۔
جسٹس (ر) مرکنڈے کاٹجو کے بارے میں بالعموم کہا جاتا ہے کہ وہ کسی شخص،ملک، ادارے یا جماعت بارے اپنی رائے دیانتداری اور غیر جانبداری سے دیتے ہیں۔ بدقسمتی مگر یہ ہے کہ جب پاکستان کی باری آتی ہے تو وہ دانستہ ڈنڈی مار جاتے ہیں ۔ مثال کے طور پر موصوف نے گزشتہ روز جو آرٹیکل لکھا ہے، اِس میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا، جناب علی امین گنڈا پور، کی بے حد تعریف کرتے ہُوئے کہا ہے :'' علی امین گنڈا پور وزیراعلیٰ کے پی نہائت جری اور جرأت مند ہیں۔ وفاقی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو خوب للکار اور لتاڑ رہے ہیں۔
موصوف نے گنڈا پور کو تھپکی دی کہ وہ صحیح معنوں میں گنڈا پوری پشتون ہیں: جنگجو اور جارح۔'' کاٹجو صاحب نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ گنڈا پوری پشتون بھارت میں بھی پائے جاتے ہیں۔ اِسی سے ہم سب اندازہ لگا سکتے ہیں کہ علی امین گنڈا پور کے غیر ذمے دارانہ اور اشتعال انگیزبیانات سے ہمارے دشمن کس کس اسلوب میں نتائج اخذ کررہے ہیں۔ علی امین گنڈا پور کی منفی باتوں کو ''للکار اور لتاڑ'' سے تشبیہہ دے کر ہلاشیری دے رہے ہیں کہ پاکستان میں اور زیادہ انتشار پھیلاؤ۔بھارتی بے حد خوش ہو رہے ہیں۔ خصوصاً علی امین گنڈا پور نے8ستمبر 2024کو سنگجانی( راولپنڈی/اسلام آباد) کے جلسے میں جو متعدد اور قابلِ گرفت بیانات کی بوچھاڑ کی تھی ۔
اِن توہین آمیز بیانات کا رُخ بیک وقت اپنے مخالف سیاستدانوں، صحافیوں ، اسٹیبلشمنٹ اور خواتین صحافیوں کی جانب تھا۔ دو ہفتے گزرنے کے باوجود ابھی تک مگر وزیر اعلیٰ مذکور نے کسی سے بھی معذرت کی ہے نہ اپنے کسی بیان پر ندامت و شرمندگی کا اظہار ہی کیا ہے۔ وجہ شاید یہ بھی ہو کہ علی امین گنڈا پور کے قابلِ گرفت اور قابلِ اعتراض بیانات کی بانی پی ٹی آئی نے بھی تائید و توثیق(Endorse) کی ہے۔اکیس ستمبر کو کاہنہ لاہور میں منعقد ہونے والے جلسے میں بھی علی امین صاحب نے کوئی معذرت نہیں کی ۔ راقم نے پی ٹی آئی کا 8ستمبر 2024 کا جلسہ دیکھا بھی ہے اور بھگتا بھی۔ یہ نہائت تلخ تجربہ تھا۔ 21ستمبر 2024 ، بروز ہفتہ بھی پی ٹی آئی لاہور میں جلسہ کرنے جا رہی تھی :مینارِپاکستان کے میدان میں ۔اِس کا اعلان 8ستمبر ہی کو کر دیا گیا تھا۔ اِس جلسے میں علی امین گنڈا پور نے چھاتی اور ڈائس پر ہاتھ مارتے ہُوئے اعلان کیا تھا: ''ہم 21ستمبر کو بینڈ باجے ، ڈھول اور بارات کے ساتھ لاہور آ رہے ہیں۔'' اِس اعلان کو کئی معنی پہنائے گئے۔
خاص طور پر نون لیگ نے بے حد ناراضی اور آزردگی کا اظہار کیا ۔پنجاب حکومت کی ایک وزیر نے ردِ عمل دیتے ہُوئے کہا تھا:''وزیر اعلیٰ کے پی21ستمبر کو لاہور آئیں تو سہی ۔ اُن کا ساتھ لایا ہُوا ڈھول ہم پھاڑ کر اُن کے گلے میں ڈال دیں گے۔'' 21ستمبر آئی اور گزر گئی ۔ خدا کا شکر ہے کہ کسی کو کسی کا ڈھول پھاڑنے کی نوبت نہ آئی ۔ 22اگست اور8ستمبر کو راولپنڈی اور اسلام آباد کے مکین جس عذاب سے گزرے تھے،21ستمبر کو شہرِ لاہور کے باسی محفوظ ہی رہے ۔
21 ستمبر کا جلسہ حکومت نے مینارِ پاکستان میں ہونے ہی نہ دیا۔ حالانکہ بانی پی ٹی آئی نے اعلان کیا تھا: ''21ستمبر کا جلسہ DO or Die کا لمحہ ہے ۔ اور یہ کہ''مینارِ پاکستان کا جلسہ نہ ہونے دیا گیا تو پی ٹی آئی کے کارکنان جیلیں بھر دیں گے، اور ہم مینارِ پاکستان پر احتجاج کریں گے ۔'' جلسہ مینارِ پاکستان پر ہُوا نہ ہی پی ٹی آئی والے جیلیں بھر سکے ۔ مینارِ پاکستان سے تیس کلومیٹر دور کاہنہ مویشی منڈی میں پنتالیس شرائط پر جلسہ کرنے کی اجازت دی گئی۔ سنگجانی کا جلسہ بھی مویشی منڈی میں کیا گیا۔ پی ٹی آئی کا مورال بھی بلند تھا کہ پی ٹی آئی نے چند دن پہلے ہی مجوزہ آئینی ترامیم کے حوالے سے حکومت کو '' شکست ''سے دوچار کیا تھا۔ اس کے باوجود مگر پی ٹی آئی کاہنہ کا جلسہ مطلوبہ اعلان کے مطابق کامیابی حاصل نہ کر سکا ۔
کیا اِس ناکامی کا داغ پی ٹی آئی کے نَو منتخب سیکریٹری جنرل، سلمان اکرم راجہ، کے چہرے پر لگا ہے ؟ راجہ صاحب موصوف (جن کا تعلق بھی لاہور سے ہے) ایک بڑے وکیل تو ہیں مگر ایسے بڑے سیاستدان نہیں ہیں جو کراؤڈ پُلر ہوں اور جو عوام کے لیے کرشماتی شخصیت ہوں؟ کیا اِس کا سبب 8ستمبر کو سنگجانی میں ہونے والے جلسے میں علی امین گنڈا پور کی قابل اعتراض گفتگو بنی ہے؟ اور کیا اِس ناکامی کا کریڈٹ وزیر اعلیٰ پنجاب، محترمہ مریم نواز شریف، کو جائے گا جنھوں نے20ستمبر کو اشارتاً کہا تھا:''عوام نے ہمیں پانچ سال خدمت کے لیے دیے ہیں، جلسے جلوسوں کے لیے نہیں۔''
پی ٹی آئی کے وابستگان کو رنج ہے کہ علی امین گنڈا پور صاحب یہ جانتے ہُوئے کہ کاہنہ جلسے کے لیے ٹائمنگ سخت ہے اور پنجاب حکومت اِس ٹائمنگ پر عمل کرنے کا مصمم ارادہ کیے بیٹھی ہے، وقت پر کاہنہ جلسہ گاہ نہ پہنچ سکے۔ تقریر بھی نہ کرسکے۔ اب اِس دانستہ غفلت کی توجیحات کررہے ہیں۔سوائے بیرسٹر گوہرخان کے کوئی بھی مرکزی قائد کاہنہ جلسہ میں نہ پہنچ سکا۔کیا سب کسی سے خائف تھے؟ اب پی ٹی آئی کے چیئرمین اعلان کر رہے ہیں کہ آیندہ جلسہ کرنے کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔
یہی تو پنجاب اور مرکزی حکومت چاہتی ہے۔ ویسے اگر21ستمبر کو لاہور میں پی ٹی آئی پر مبینہ حکومتی کریک ڈاؤن نہ کیا جاتا تو جلسہ ضرور کامیاب ہوتا ۔ اگر پُر شکوہ تاریخی مینارِ پاکستان کے سائے میں پی ٹی آئی کا جلسہ ہو بھی جاتا تو کونسا انقلاب آجانا تھا ؟ حکومت تو بہرحال گرنی نہیں تھی ۔ پھر پی ٹی آئی کی چند ایک خاتون ورکرز کے گھروں پر مبینہ چھاپے مارنے (اور ایک کے والد کو گرفتار کرنے) کی کیا ضرورت تھی؟ حالانکہ یہ خواتین تو ابھی حال ہی میں جیلوں سے ضمانت پر باہر آئی ہیں ۔سچی بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی جلسے جلوس کرنے سے باز نہیں آئیگی۔بانی پی ٹی آئی اور پی ٹی آئی کے وابستگان تو اُس مکھی کی طرح ہیں کہ جسے لاکھ دُور کریں ، وہ پھر سے بھنبھناتی ہُوئی آپ کے کان ، ناک اور منہ پر آ بیٹھتی ہے ۔