سحر سے افطار تک۔۔۔
روزہ کھول کے بار بار منہ جھُٹانا مناسب نہیں
رمضان المبارک کے بابرکت مہینے کا آغاز ہو چکا ہے۔ ہر شخص کی حتی الامکان کوشش ہے کہ اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ وقت عبادات میں صرف کیا جائے اور اس کی رحمتوں، برکتوں اور نعمتوں سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا جائے۔
افطار سے سحری تک کا دورانیہ زیادہ نہ ہونے کے سبب افطار اور اس کے بعد کھانا اور پھر سحری کرنے سے طبیعت خاصی بوجھل ہو جاتی ہے۔ بھاری غذاؤں کا استعمال بھی ہماری طبیعت پر گراں گزرتا ہے، لہٰذا اگر ہم اپنے سحر و افطار کے دسترخوان میں کچھ تبدیلی کریں، تو یہ صحت کے لحاظ سے بھی بہتر ثابت ہوگی۔
افطار و سحر میں انواع و اقسام کے کھانے، مشروبات اور روایتی میٹھے پکوان وزن میں اضافے کا سبب بھی بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ دعوت افطار بھی ہماری غذائی بے اعتدالی کا موجب بنتی ہے، کیوں کہ ایسے مواقع پر عموماً زیادہ کھا لیا جاتا ہے۔
کوشش کریں کہ رمضان میں بھی اپنی ضروریات کے مطابق ہی غذا لیں۔ ایسی غذاؤں سے گریز کریں، جن کی بہت تھوڑی مقدار بہت زیادہ حراروں کی حامل ہوتی ہے۔
افطاری اور رات کے کھانے میں سحری کی بہ نسبت کم کھایا جائے، تو رات کی عبادات میں طبیعت ہلکی پھلکی رہتی ہے، یا پھر کوشش کریں کہ افطار کے وقت ایک ہی نشست میں اپنا پیٹ بھر لیں اور پھر سحری تک کچھ نہ کھائیں، تاکہ معدے پر بوجھ نہ پڑے۔
سموسے، پکوڑے، جلیبی اور دیگر تلی ہوئی چیزیں زیادہ مقدار میں کھانے سے گریز کریں۔ وزن کی زیادتی کا شکار افراد ایک سموسہ، ایک جلیبی یا ایک پکوڑا کوئی ایک ہی چیز لیں، کیوں کہ ان چیزوں سے ہی پیٹ بھرنا صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ تلی ہوئی اشیا کی بہ نسبت فروٹ چاٹ، چھولے، دہی بڑے وغیرہ کھائیں، مگر مناسب مقدار میں، مثلاً ایک پیالی چھولے چاٹ کھا سکتی ہیں۔
البتہ بغیر چینی اور کریم کی فروٹ چاٹ زیادہ مقدار میں لینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ سحر و افطار میں پانی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔ چینی سے بنے مشروبات کے بہ جائے تازہ پھلوں کے رس کو ترجیح دیں۔ لیموں کی سکنجبین بھی اس سلسلے میں بہترین ہے۔ دودھ سے بنے مشروبات وغیرہ بھی ایک گلاس سے زیادہ نہ پیئں۔ رمضان المبارک میں بھی کھانے کے بعد چہل قدمی کا سلسلہ جاری رکھیں۔ سخت ورزشیں چاہیں تو کم کر دیں، لیکن ترک نہ کریں۔
ڈبوں یا بوتلوں میں محفوظ جوس یا کاربوہائیڈریٹ ڈرنکس سے گریز کریں۔ یہ دیگر طبی مسائل کے ساتھ مُٹاپے کا سبب بھی بنتے ہیں۔ بہت سے گھرانوں میں افطار سے سحری تک چائے کے دور چلتے ہیں۔ خیال رکھیں، زیادہ چائے تیزابیت کا باعث بنتی ہے۔
رمضان میں وقت اور نیند کی کمی کا گلہ بھی رہتا ہے۔ جس سے ہمارے معمولات متاثر ہوتے ہیں، جب کہ اگر وقت کی صحیح تقسیم کی جائے، تو ان مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ کام کے دباؤ کی وجہ سے بھی تھکن کا احساس شدید ہونے لگتا ہے، کیوں کہ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ اس ماہ مبارک میں زیادہ سے زیادہ وقت عبادات میں صرف کیا جائے۔ نماز عشا اور تراویح وغیرہ سے فراغت کے بعد 12 ایک تو بج ہی جاتے ہیں۔ اس کے ایک، دو گھنٹے بعد ہی سحری کے لیے بیدار ہونا ہوتا ہے۔
اس مختصر سے وقت میں ہماری نیند پوری ہونا قطعی طور پر ناممکن ہے۔ ہمیں لازماً فجر کے بعد یا کچھ وقت دوپہر میں اپنی نیند پوری کرنا ہوگی، تاکہ اپنے معمولات بہتر طور پر ادا کر سکیں۔ سحر وافطار کے نظام الاوقات کو دیکھتے ہوئے بہتر یہی ہے کہ سحری کی تیاری پہلے سے کر کے رکھی جائے، بہ صورت دیگر وقت کی تنگی دامن گیر رہے گی۔ اسی طرح افطار کی تیاری بھی پہلے سے کر لیں۔ مثلاً چھولے اُبلے ہوئے ہوں، پکوڑوں کا بیسن تیار ہو، دہی بڑوں کی پھلکیاں تلی ہوئی ہوں، اس طرح آخر وقت میں سب کام آسان لگیں گے اور افطار سے قبل کا قیمتی وقت عبادت کے لیے مل جائے گا۔
افطار سے سحری تک کا دورانیہ زیادہ نہ ہونے کے سبب افطار اور اس کے بعد کھانا اور پھر سحری کرنے سے طبیعت خاصی بوجھل ہو جاتی ہے۔ بھاری غذاؤں کا استعمال بھی ہماری طبیعت پر گراں گزرتا ہے، لہٰذا اگر ہم اپنے سحر و افطار کے دسترخوان میں کچھ تبدیلی کریں، تو یہ صحت کے لحاظ سے بھی بہتر ثابت ہوگی۔
افطار و سحر میں انواع و اقسام کے کھانے، مشروبات اور روایتی میٹھے پکوان وزن میں اضافے کا سبب بھی بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ دعوت افطار بھی ہماری غذائی بے اعتدالی کا موجب بنتی ہے، کیوں کہ ایسے مواقع پر عموماً زیادہ کھا لیا جاتا ہے۔
کوشش کریں کہ رمضان میں بھی اپنی ضروریات کے مطابق ہی غذا لیں۔ ایسی غذاؤں سے گریز کریں، جن کی بہت تھوڑی مقدار بہت زیادہ حراروں کی حامل ہوتی ہے۔
افطاری اور رات کے کھانے میں سحری کی بہ نسبت کم کھایا جائے، تو رات کی عبادات میں طبیعت ہلکی پھلکی رہتی ہے، یا پھر کوشش کریں کہ افطار کے وقت ایک ہی نشست میں اپنا پیٹ بھر لیں اور پھر سحری تک کچھ نہ کھائیں، تاکہ معدے پر بوجھ نہ پڑے۔
سموسے، پکوڑے، جلیبی اور دیگر تلی ہوئی چیزیں زیادہ مقدار میں کھانے سے گریز کریں۔ وزن کی زیادتی کا شکار افراد ایک سموسہ، ایک جلیبی یا ایک پکوڑا کوئی ایک ہی چیز لیں، کیوں کہ ان چیزوں سے ہی پیٹ بھرنا صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ تلی ہوئی اشیا کی بہ نسبت فروٹ چاٹ، چھولے، دہی بڑے وغیرہ کھائیں، مگر مناسب مقدار میں، مثلاً ایک پیالی چھولے چاٹ کھا سکتی ہیں۔
البتہ بغیر چینی اور کریم کی فروٹ چاٹ زیادہ مقدار میں لینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ سحر و افطار میں پانی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔ چینی سے بنے مشروبات کے بہ جائے تازہ پھلوں کے رس کو ترجیح دیں۔ لیموں کی سکنجبین بھی اس سلسلے میں بہترین ہے۔ دودھ سے بنے مشروبات وغیرہ بھی ایک گلاس سے زیادہ نہ پیئں۔ رمضان المبارک میں بھی کھانے کے بعد چہل قدمی کا سلسلہ جاری رکھیں۔ سخت ورزشیں چاہیں تو کم کر دیں، لیکن ترک نہ کریں۔
ڈبوں یا بوتلوں میں محفوظ جوس یا کاربوہائیڈریٹ ڈرنکس سے گریز کریں۔ یہ دیگر طبی مسائل کے ساتھ مُٹاپے کا سبب بھی بنتے ہیں۔ بہت سے گھرانوں میں افطار سے سحری تک چائے کے دور چلتے ہیں۔ خیال رکھیں، زیادہ چائے تیزابیت کا باعث بنتی ہے۔
رمضان میں وقت اور نیند کی کمی کا گلہ بھی رہتا ہے۔ جس سے ہمارے معمولات متاثر ہوتے ہیں، جب کہ اگر وقت کی صحیح تقسیم کی جائے، تو ان مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ کام کے دباؤ کی وجہ سے بھی تھکن کا احساس شدید ہونے لگتا ہے، کیوں کہ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ اس ماہ مبارک میں زیادہ سے زیادہ وقت عبادات میں صرف کیا جائے۔ نماز عشا اور تراویح وغیرہ سے فراغت کے بعد 12 ایک تو بج ہی جاتے ہیں۔ اس کے ایک، دو گھنٹے بعد ہی سحری کے لیے بیدار ہونا ہوتا ہے۔
اس مختصر سے وقت میں ہماری نیند پوری ہونا قطعی طور پر ناممکن ہے۔ ہمیں لازماً فجر کے بعد یا کچھ وقت دوپہر میں اپنی نیند پوری کرنا ہوگی، تاکہ اپنے معمولات بہتر طور پر ادا کر سکیں۔ سحر وافطار کے نظام الاوقات کو دیکھتے ہوئے بہتر یہی ہے کہ سحری کی تیاری پہلے سے کر کے رکھی جائے، بہ صورت دیگر وقت کی تنگی دامن گیر رہے گی۔ اسی طرح افطار کی تیاری بھی پہلے سے کر لیں۔ مثلاً چھولے اُبلے ہوئے ہوں، پکوڑوں کا بیسن تیار ہو، دہی بڑوں کی پھلکیاں تلی ہوئی ہوں، اس طرح آخر وقت میں سب کام آسان لگیں گے اور افطار سے قبل کا قیمتی وقت عبادت کے لیے مل جائے گا۔