اب جہاں ریل گاڑی نہیں آتی ۔۔۔۔

 لاہور کے ترک کردیے جانے والے ریلوے اسٹیشن

فوٹو : فائل

( آخری قسط )

جنگ کے خاتمے پر حیدرآباد، بھارت کا حصہ قرار پایا۔ کچھ ان ہی دنوں کے آس پاس بھارت نے کشمیر میں بھی اپنی افواج داخل کردیں اور یہ جنگ آج بھی جاری ہے۔ نظام حیدرآباد عثمان علی خان اپنے زمانے میں دنیا کے امیر ترین شخص تھے جن کی دولت کا تخمینہ تقریباً 250 ارب امریکی ڈالر لگایا جاتا ہے۔ ان کے پاس زروجواہرات کا وسیع خزانہ تھا جس میں 20 کروڑ امریکی ڈالر مالیت کا ایک 185 قیراط کا جیکب ہیرا بھی تھا جسے وہ پیپر ویٹ (کاغذ کو دبانے والے وزن) کے طور پر استعمال کرتے تھے۔

نہ جانے آپ میں سے کتنے لوگ یہ جانتے ہوں گے کہ کشمیر جغرافیائی اعتبار سے برصغیر کا حصہ کبھی بھی نہیں تھا۔ وہ تو نہ جانے کس رَتن نے اکبر کو مشورہ دیا کہ سرکار اوپر کی طرف ایک علاقہ ہے جسے کشمیر کہا جاتا ہے، اس جانب اکبر کو توجہ کرنا چاہیے۔ تاریخ کہتی ہے کہ کشمیری ایک بہادر قوم تھی۔ اس نے اکبر کی فوجوں سے تین جنگیں لڑیں۔ تیسری جنگ کشمیر کا راجا ہار گیا اور یوں کشمیر برصغیر کا حصہ بن گیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کشمیری آج بھی ایک خودمختار کشمیر چاہتے ہیں۔

میرے بہت سے مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ بات کرنا کچھ اور چاہتا ہوں، ہو کچھ اور جاتی ہے۔ بات مجھے جلو ریلوے اسٹیشن کی کرنا تھی مگر چل کچھ اور پڑی۔ مجھے لگتا ہے کہ لاہور کے تمام ریلوے اسٹیشن کا تقسیم سے بہت گہرا تعلق رہا ہے۔ ہم نے تو بچپن میں جب بھی جلو کا نام سنا، جلو پارک کے حوالے سے سنا مگر معلوم نہیں تھا کہ یہاں ایک وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ریلوے اسٹیشن بھی ہے۔ جلو ریلوے اسٹیشن کو دیکھ کر یہ گمان ہوتا ہے کہ تاریخ کے کسی پَنے میں جلو ایک الگ تھلگ شہر تھا۔ اس کے ریلوے ٹریکس اور پلیٹ فارم دیکھ کر بہ آسانی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جلو کی طرف ریلوے ٹریفک اچھا خاصا تھا۔

انگریزوں کے وقت تو لاہور سے ریل گاڑی بذریعہ جلو اور واہگہ دہلی جاتی ہی تھی مگر تقسیم کے بعد بھی ایک ڈبے والی کیبن کاریں یہاں چلتی رہیں جو مسافروں کو ان چھوٹے چھوٹے ریلوے اسٹیشن سے اٹھا کر لاہور لاتی تھیں مگر پھر ٹرانسپورٹ مافیا کے ایسے ایسے وار چلے کہ ریلوے اسٹیشن متروک ہونے لگے اور عوام ذلیل خوار۔ لاہور کے دیگر ریلوے اسٹیشن کی طرح اس ریلوے اسٹیشن نے بھی بڑے بڑے دکھ دیکھے ہیں، قتل و غارت دیکھی ہے۔ لاشوں سے بھری ریل گاڑی کو امرتسر سے لاہور اور لاہور سے امرتسر جاتے دیکھا ہے۔ قتل عام ایسا ہوا کہ گوجرانولہ سے دہلی جانے والی امرتا پریتم وارث شاہ کو پکار کر رو پڑی:

اَج آکھاں وارث شاہ نوں کِتوں قبراں وچوں بول

تے اج کتابِ عشق دا کوئی اگلا ورقا پھول

اک روئی سی دھی پنجاب دی تو لِکھ لِکھ مارے وین

اج لکھاں دھی آں روندیاں تینوں وارث شاہ نوں کیہن

آج جلو ریلوے اسٹیشن پر پلیٹ فارم تو ہے، پٹری بھی ہے، واہگہ سے لاہور اور لاہور سے واہگہ جانے والی ریل گاڑیوں کا شیڈول بھی ہے۔ نہیں ہے تو بس ریل نہیں ہے۔ ریلوے اسٹیشن اس قدر بڑا ہے کہ کچھ وسیب واسیوں نے یہاں مستقل سکونت اختیار کر رکھی ہے۔ کچھ اونٹنیاں رکھی ہیں جن کے دودھ سے یہ اپنے پاپی پیٹ کو پالتے ہیں۔ لڑکے لوگ کرکٹ کھیلتے ہیں جب کہ کچھ بڑے تاش کی بازیاں لگاتے ہیں۔ ریلوے اسٹیشن کی مرکزی عمارت کے سامنے نہ جانے کس چیز کا ایک بہت بڑا سا لمبوترا کمرا ہے جہاں فی الحال جلو کے لوگ اپنا کوڑا کرکٹ پھینکتے ہیں حالاں کہ اس وسیع کمرے کو اہلِ علاقہ خود ہی صاف کر کے اسے بہت سے فلاحی کاموں کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

............

شاید آپ جانتے ہوں کہ لاہور شہر سے بیس بائیس کلومیٹر دور ایک علاقہ باٹاپور کے نام سے جانا جاتا ہے۔ وجہِ تسمیہ باٹا فیکٹری ہے جسے 1942 میں بنایا گیا تھا۔ کہتے ہیں باٹا کا پہلا پلانٹ 24 اگست 1874 کو چیک ریپبلک میں لگایا گیا تھا اور تب سے اب تک دنیا کے کم و بیش 18 مختلف ممالک میں باٹا فیکٹریاں لگائی جا چکی ہیں جن میں سے ایک ہمارے یہاں شہرِ بے مثال یعنی لاہور میں بھی ہے۔ باٹا فیکٹری جب بنی تو یہاں کام کرنے والوں کے لیے رہائشی کالونی بھی بنائی گئی تھی۔ یہ سارا علاقہ چوں کہ باٹا فیکٹری کی وجہ سے پھیلا، اس لئے اسے باٹا پور کے نام سے ہی یاد کیا جاتا ہے۔

............

ہم بی آر بی نہر کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے کہ ایک جگہ اچانک جانِ من شجاعت نے بریک لگا دیا۔ لاہور شہر کی دوسری ڈیفینس لائن بی آر بی نہر ہے۔ پہلی ڈیفینس لائن اس نہر سے آگے ہے جس کے بارے جانِ من شجاعت نے کچھ بتایا تھا جو میں اب بھول چکا ہوں اور اس وقت میرا اسے تنگ کرنے کا کوئی موڈ نہیں۔ وہ بھی کیا سوچتا ہوگا کہ نہ تمیز نہ تہذیب۔ جب اس کا جی چاہتا ہے منہ اٹھا کہ میسج کردیتا ہے۔ اس لیے فی الحال آپ اتنا ہی ذہن میں رکھیں کہ بی آر بی لاہور کی دوسری ڈیفینس لائن ہے۔ ڈسکہ کے قریب ہیڈ بمباں والا کے قریب اَپر چناب کینال سے مزید ایک نہر نکالی گئی ہے جسے بمباں والا راوی بیدیاں یعنی بی آر بی کا نام دیا گیا ہے۔ بی آر بی قصور کے پاس گنڈا سنگھ والا کے مقام پر ختم ہوجاتی اور اس کا سارا پانی یہاں سے فیروز پور ہیڈ ورکس سے نکلنے والی دیپالپور کینال میں چلا جاتا ہے اور اس سے آگے یہ دیپالپور اپر کینال کہلاتی ہے۔

مغل بادشاہوں نے شالا مار باغ کے حُسن کو چار چاند لگانے کے لیے لاہور نہر بنائی تو اس کا پانی راوی سے لیا گیا۔ آج جب کہ راوی خود خشک ہو چکا ہے تو لاہور نہر کے لیے پانی اسی بی آر بی نہر سے لیا جاتا ہے۔

سن 65 کی جنگ میں جب ہماری پہلی ڈیفینس لائن ٹوٹ چکی تو اگلے مورچوں سے سب جوان پیچھے بی آر بی کے اس طرف آ گئے۔ بی آر بی کے پلوں کو یقینی طور پر بم سے خود ہی اڑا دیا گیا ہو گا۔ نہر کو پار کرنا یقینی طور پر بھارتی افواج کے ناممکن تھا۔ 6 ستمبر 1965 کی جنگ کا جب باقاعدہ آغاز ہوا تو نہ صرف لاہور شہر کے پہلے مورچوں سے فوجی ہٹ کر پیچھے آ گئے بلکہ چونڈہ سمیت تقریباً ہر اگلے مورچے کا یہی عالم تھا۔ وہاں نفری جنگ کے اعتبار سے نہ ہونے کے برابر تھی۔ واضح رہے کہ امن کے درمیان میں پاکستان کی جانب رینجرز سرحد پر تعینات ہوتی ہیں جب کہ بھارت کی جانب انڈین بارڈر سیکیوریٹی فورس۔ جب کہ جنگ کے دنوں میں دونوں جانب آرمی آ جاتی ہے۔

اگرچہ کہ ہم نے انڈین مقبوضہ کشمیر میں آپریشن جبرالٹر شروع کیا ہوا تھا جس کی ناکامی ہی اصل میں 65 کی جنگ کی وجہ بنی مگر ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ انڈیا نہ صرف انٹرنیشنل بارڈر کراس کر لے گا بلکہ چونڈہ، لاہور سمیت بہت سارے محاذ ایک ساتھ کھول دے گا۔

ہمارے بڑوں کو شاید یہی گمان تھا کہ ہم نے چوں کہ آپریشن انڈین مقبوضہ کشمیر میں شروع کیا ہے تو اس کے اثرات وہیں تک رہیں گے مگر آپریشن کی ناکامی کے بعد بھارت ایسا باؤلا ہوا کہ پوری قوت سے ہم پر چڑھ دوڑا۔ چونڈہ پر حملہ کیا تو پاکستانی جوانوں نے بھارتی افواج کو الہڑ سے آگے نہیں آنے دیا۔ لاہور کی طرف بڑھے تو انھیں بی آر بی نہر پار نہیں کرنے دی گئی۔

جنگ کی وجوہات جو بھی رہی ہوں، حقیقت یہ ہے کہ شروع کے کچھ دن نکال دیں تو بعد میں ہمارے جوان لڑے اور اپنی شہادت تک لڑے۔ ذرا ایک بار سوچ کر دیکھیں کہ صرف چونڈہ سیکٹر پر چھے سو ٹینکوں سے حملہ کیا گیا تھا جسے ہمارے ہی جوانوں نے پِسا کیا۔ بھلے ہی سے انڈین افواج لاہور کی جانب ہماری پہلی ڈیفینس لائن توڑ کر بی آر بی نہر تک آ گئی تھیں مگر انھیں نہر پار کرنے نہیں دی گئی۔ چونڈہ کا شہدا قبرستان ہو یا پھر بی آر بی کنارے میجر عزیزبھٹی سے منسوب یادگار۔ آپ جتنے مرضی سخت دل ہوں مگر جب ہم چونڈہ میں ایک ہی قبر پر چار چار شہدا کے نام لکھے دیکھتے ہیں تو روح واقعی کانپ اٹھتی ہے، آنکھیں نم ہوجاتی ہیں کہ ان قبروں میں کسی شہید کا جسدِخاکی نہیں۔ کسی شہید کی ٹانگیں ہیں تو کسی کے بازو اور کسی کے جسم کے کچھ دوسرے اعضاء۔

............

واہگہ ریلوے اسٹیشن


تقسیم کے بعد جب فسادات کا سلسلہ کچھ تھما تو بھارت میں ہی کسی نے گاندھی جی سے پوچھا کہ اب جب کہ تقسیم ہوچکی اور ہجرت کا زیادہ تر عمل بھی مکمل ہوچکا تو اب آگے آپ کیا ارادہ رکھتے ہیں؟ گاندھی جی کہنے لگے کہ اب میں دہلی سے کچھ ہندوؤں کو لوں گا اور انھیں لاہور میں آباد کرواؤں گا اور محمد علی جناح سے بات کرکے لاہور سے کچھ مسلمانوں کو لوں گا اور انھیں دہلی میں آباد کرواؤں گا۔ شاید گاندھی جی کی یہی مثبت سوچ بھارت میں بہت سے لوگوں کو قبول نہ تھی۔ اسی لیے اُس جانب گاندھی انتہاپسندی کی بھینٹ چڑھے اور یہاں محمد علی جناح اور لیاقت علی خان دونوں۔ ویسے یہی معاملہ کچھ مجیب الرحمٰن کے ساتھ بھی ہوا۔

تاریخ گواہ ہے کہ یورپی ممالک جس قدر آپس میں لڑے ہیں، پاکستان اور بھارت ابھی اس سے بہت پیچھے ہیں مگر اچھی بات یہ ہے کہ یورپ نے لڑ کر ایک ساتھ رہنا سیکھ لیا مگر ہم ابھی تک نہیں سیکھ سکے۔ اسی لیے یورپ نے بالآخر اپنے بارڈر سب عوام کے لیے کھول دیے۔ پاکستان اور بھارت کی حکومتوں نے بھی تین جنگیں لڑنے کے بعد فیصلہ کیا کہ کم از کم دہلی اور لاہور کے مابین تو ریل چلنی چاہئے تاکہ سرحد کے دونوں اطراف کی عوام کا کچھ تو رابطہ بحال ہو۔ 1976 میں دونوں ممالک کی حکومتوں نے اس ریل کو سمجھوتا ایکسپریس کا نام دیا اور یوں یہ ریل روازنہ کی بنیاد پر چلنے لگی مگر 1994 میں اسے ہفتے میں فقط دو سفروں تک محدود کردیا گیا۔

حالات کے مطابق کبھی ریل رکتی اور کبھی چل پڑتی۔ اسی دوران ایک بار بھارت کی ہی حدود میں سمجھوتا ایکسپریس جب دہلی سے پاکستانی مسافروں کو لے کر واہگہ آ رہی تھی، اسے دھماکے سے اڑا دیا گیا مگر پھر بھی پاکستان نے اس ریل کو جاری رکھا۔ اگست 2019 میں بھارت نے جب کشمیر کی امتیازی حیثیت کو ختم کیا تو پاکستانی حکومت نے احتجاجاً سمجھوتا ایکسپریس سمیت تمام تجارت بھارت کے ساتھ بند کردی۔

پاکستان اور بھارت کے مابین سمجھوتا ایکسپریس کے معاہدے کے مطابق سال کے چھے ماہ یعنی 4 جون تا 4 دسمبر سمجھوتا ایکسپریس کے لیے انڈین ریلوے کی بوگیاں استعمال ہوتیں جب کہ 5 دسمبر تا 3 جون پاکستان ریلوے کی بوگیاں استعمال ہوتیں اور ہمیشہ پاکستان ریلوے کا سبز انجن سمجھوتا ایکسپریس کو واہگہ ریلوے اسٹیشن سے اتاری ریلوے اسٹیشن تک لے کر جاتا (خواہ اس کے ساتھ انڈین بوگیاں ہی کیوں نہ ہوں) اور اتاری ریلوے اسٹیشن سے انڈین ریلوے کا انجن ریل گاڑی سے جڑتا اور اسے دہلی کے جاتا۔ واضح رہے کہ بھارت کی طرف پہلا ریلوے اسٹیشن اتاری ہی ہے۔ سمجھوتا ایکسپریس جب اتاری سے چلتی تو بغیر رکے دہلی پہنچ جاتی۔ راستے میں نہ ریل کو رکنے کی اجازت تھی اور نہ مسافروں کو کہیں اترنے کی۔

سمجھوتا ایکسپریس 502 کلومیٹر کا سفر تقریباً بارہ گھنٹوں میں طے کرتی تھی جب کہ اس کے کُل دس بوگیاں تھیں۔ 8 اگست 2019 کو جب پاکستانی حکومت نے سمجھوتا ایکسپریس کو معطل کیا تب معاہدے کے مطابق انڈین ریلوے کی بوگیاں استعمال ہورہی تھیں مگر واہگہ سے اتاری تک پاکستان ریلوے کا انجن ہی لگتا تھا۔ پاکستان حکومت نے بھارتی حکومت کو سمجھوتا ایکسپریس کو معطل کرنے کا پیغام پہنچا دیا اور یہ بھی کہ بھارت اپنے انجن کو واہگہ بھیجے اور اپنی بوگیاں واپس لے جائے مگر بھارت نے پچھلے پانچ سالوں سے اپنا ریلوے انجن ان بوگیوں کو لینے کے لیے نہیں بھیجا۔ بھارتی حکومت کا موقف یہ ہے کہ معاہدے کے مطابق پاکستان ریلوے کا انجن بوگیوں کو اتاری ریلوے اسٹیشن تک پہنچانے کا پابند ہے، اس لیے پاکستان اپنے انجن کے ذریعے ان نیلی بھارتی بوگیوں کو اٹاری ریلوے اسٹیشن تک پہنچائے۔

دونوں ممالک ہمیشہ کی طرح اپنی اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر قائم ہیں۔ دونوں اطراف کے حکم راں تو مزے سے زندگی کا لطف لے رہے ہیں، اگر کوئی جدائی کی سیج پر جل رہا ہے تو وہ ہم عوام ہیں۔ لاہور اور دہلی کے درمیان سمجھوتا ایکسپریس تو کیا، جموں اور سیال کوٹ کے درمیان بھی بس چلنی چاہیے، کراچی اور ممبئی کے مابین بھی مگر وہ حکم راں ہی کیا جو عوام کی سہولتوں کے لیے اقدامات کرے۔



حویلی جوالا سنگھ سندھو، پڈھانہ

ہم جلو ریلوے اسٹیشن سے نکلے تو جانِ من شجاعت نے اپنی بائیک کا رخ پاک بھارت سرحدی گاؤں پڈھانہ کی طرف کردیا۔ آپ لاہور میں برکی روڈ سے ہوتے ہوئے اگر پاک بھارت سرحد کی طرف سفر کریں تو پڈھانہ گاؤں میں دور ہی سے آپ کو ایک شان دار حویلی کے آثار نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔ یہ حویلی، حویلی جوالا سنگھ سندھو کے نام سے مشہور ہے جسے سترھویں صدی عیسوی میں سردار جوالا سنگھ نے تعمیر کروایا تھا۔ جوالا سنگھ رنجیت سنگھ کے قریبی ساتھی ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے رشتے دار بھی تھے۔ رنجیت سنگھ کی بیوی رانی جند کی بڑی بہن کی شادی اسی جوالا سنگھ سے ہوئی تھی۔ حویلی جوالا سنگھ تاریخی اہمیت کی حامل تو ہے مگر بہت خستہ حالت میں ہے۔

65 اور 71 میں ہونے والی جنگ نے اس حویلی کو بہت نقصان پہنچایا۔ 65 کی جنگ میں تو بھارتی فوج صرف بی آر بی نہر تک پہنچی تھی مگر 71 میں یہی بھارتی فوج کہاں کہاں تک پہنچی تھی، یہ بات اگر نہ ہی کھلے تو بہتر ہے۔ خدا بھلا کرے ہمارے ان فوجیوں کا جنھوں نے 65 کی جنگ میں اپنے سینے پر بم باندھ کر بھارت کو الہڑ گاؤں سے آگے نہیں آنے دیا۔ چونڈہ سے اگر آپ سیال کوٹ کی جانب سفر کریں تو پہلا بڑا قصبہ الہڑ آتا ہے۔ 65 کی جنگ میں بھارتی فوج چونڈہ کو پار کر الہڑ تک پہنچ چکی تھی مگر اس سے آگے نہ بڑھ سکی۔ حامدمیر کچھ دن پہلے ایک جگہ بتا رہے تھے کہ سن 71 میں بھارتی فوج نے بجوات کے بہت سے دیہات پر قبضہ کر لیا تھا جن میں سے اس نے کچھ واپس کیے اور بہت سارے ہڑپ لیے۔ المیہ یہ ہے کہ ان دیہات کی واپسی کا کبھی تقاضا نہیں کیا گیا اور نہ ہی اب ان پر کوئی بات کرتا تھا۔

اچھی بھلی بات سردار جوالا سنگھ کی چل رہی تھی اور میں جذبات میں آ کر دائیں بائیں نکل گیا۔ آپ سردار جوالا سنگھ حویلی میں داخل ہوں تو سامنے ایک بڑا صحن ہے۔ اطراف میں رہائشی کمرے ہیں بلکہ رہائشی کمرے تھے۔ آج سردار جوالا سنگھ کی آٹھویں پیڑھی اس عظیم الشان حویلی میں اپنے مال مویشی باندھتی ہے۔ سردار جوالا سنگھ کی چوتھی نسل میں ایک سردار ہرچن سنگھ تھے جنھوں نے 1942 عیسوی میں اپنے کِیس کٹوائے، ختنہ کروایا اور چپ چاپ مسلمان ہو گئے۔ نام سردار ہرچن سنگھ سندھو سے سردار نصراللّہ سندھو رکھ لیا۔

کہتے ہیں اس حویلی کے نیچے بڑی بڑی سرنگیں تھیں جنھیں اب بند کردیا گیا ہے۔ یہ سرنگیں گولڈن ٹیمپل اور شالا مار باغ تک جاتی تھیں۔ اس کے علاوہ موسمِ گرما گزارنے کے لیے نیچے کمرے بھی بنائے گئے تھے۔ حویلی میں دیار اور صندل کی لکڑی کے خوب صورت کام کے علاوہ درودیوار پر خوب صورت نقش و نگاری بھی کی گئی تھی جو وقت کے وار نہ سہہ سکی۔

حکومت اگر باقی بچی اس حویلی کو سننھالنے کے لیے کچھ اقدامات کرتی ہے تو پھر یقیناً سندھو خاندان کو اس حویلی کو چھوڑنا پڑے گا جو شاید سندھو خاندان کے لیے قابلِ قبول نہ ہو۔

گردوارہ چھٹی پات شاہی

پڈھانہ میں ہی چھٹی پات شاہی کا ایک گردوارہ بھی ہے۔ بات ہے پرانی بلکہ بہت پرانی، حضرت میاں میر جتنی پرانی۔ کہتے ہیں مزنگ لاہور میں کولاں نامی ہندو مذہب کے ماننے والی ایک عورت رہتی تھی۔ اس عورت کو نہ جانے کیا سوجھی کہ اس نے بابا گرونانک جی کی تعلیمات پڑھنا شروع کردیں۔ تبدیلی خواہ کسی بھی دور میں رہی ہو، عوام کو کبھی بھی ہضم نہیں ہوئی۔ یہ خاتون جو اپنے مذہب سے متنفر ہوئی تو اس کے پرانے عقیدے کے لوگوں نے اسے خوب ستانا شروع کیا۔ بات لاہور میں ہی میاں میر جی کے کانوں تک پہنچی۔ انھوں نے ایک خط سکھوں کے چھٹے گرو، گرو ہرگو بند جی کے نام لکھا کہ وہ آئیں اور کولاں خاتون کو یہاں سے لے جائیں۔

یقیناً میاں میر جی اس دکھی عورت کا بھلا ہی چاہتے تھے۔ گرو ہرگو بند جی لاہور آئے اور کولاں جی کو ساتھ لے کر لاہور سے امرتسر چلے گئے۔ چھٹے گرو نے اس سفر میں جہاں جہاں قیام کیا، ان میں سے بیشتر مقامات پر بعد میں گردوارے تعمیر کیے گئے جن میں گردوارہ چھٹی پات شاہی ٹیمپل روڈ، گردوارہ چھٹی پات شاہی چونگی امر سدھو، گردوارہ چھٹی پات شاہی ہڈیارہ اور گردوارہ چھٹی پات شاہی پڈھانہ شامل ہیں۔

کولاں جی جنھیں بعد میں ماتا کولاں کے نام سے جانا جانے لگا، سے منسلک ایک گردوارہ امرتسر میں بھی ہے۔ سکھ مذہب میں ماتا کولاں کو کس قدر عقیدت سے دیکھا جاتا ہے، اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ امرتسر گولڈن ٹیمپل جانے والے بہت سے سکھ یاتری پہلے ماتا کولاں سے منسلک گردوارہ جاتے ہیں، پھر دربار صاحب (گولڈن ٹیمپل) میں ماتھا ٹیکتے ہیں۔ واضح رہے کہ پات شاہی کا لفظ سکھ مذہب کے گرو سے منسلک ہے۔ چھٹی پات شاہی مطلب چھٹے گرو اور پہلی پات شاہی مطلب پہلی گرو یعنی گرو نانک۔

تقی پور ریلوے اسٹیشن

پاکستان کی جانب آخری ریلوے اسٹیشن واہگہ ہی ہے جس کی پہلی عمارت کو ڈھا کر اسے بین الاقوامی معیار کا بنایا گیا ہے۔ جب سمجھوتا ایکسپریس چلتی تھی تو یہاں امیگریشن کا عملہ بھی موجود ہوتا تھا مگر اب یہاں صرف ویرانہ ہے۔ ہم جب وہاں پہنچے تو سورج تقریباً ڈوب رہا تھا جب کہ ہمارا ابھی مزید دو ریلوے اسٹیشن دیکھنے کا ارادہ تھا۔ تقی پور ریلوے اسٹیشن اور گلڑ پیر ریلوے اسٹیشن۔ واہگہ ریلوے اسٹیشن سے ذرا پہلے جو ریلوے پھاٹک آیا، جانِ من شجاعت نے وہیں سے پٹڑی کے ساتھ ساتھ بائیک چلانا شروع کردی۔ اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ تقریباً پندرہ منٹ کے بعد ایک ٹوٹا پھوٹا سا کمرا دکھائی دیا۔ میں نے شجاعت کو وہیں رکنے کا اشارہ کیا۔

میرے مطابق یہی تقی پور ریلوے اسٹیشن ہونا چاہیے تھا کیوںکہ ریلوے لائن کے پاس اور کسی کمرے کی وجہ نہیں بنتی۔ ہم نے ذرا ٹارچ دیوار پر کی تو اوپر جلی حروف میں تقی پور لکھا تھا مگر حروف کافی حد تک مٹ چکے تھے۔ اندھیرا تقریباً پھیل چکا تھا مگر پھر بھی جانِ من شجاعت گلڑ پیر ریلوے اسٹیشن کی تلاش میں پٹڑی کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ ہم ایک بار پھر جلو ریلوے اسٹیشن پہنچ گئے مگر گُلڑ پیر ریلوے اسٹیشن نہ آیا۔ نہ جانے کیوں وہ ہمیں نظر نہ آیا یا پھر شاید گلڑ پیر ریلوے اسٹیشن کی عمارت مکمل طور پر کچھ اس طرح ڈھ چکی ہے کہ اس کا نام و نشاں بھی باقی نہیں رہا۔

ہم اب تقی پور ریلوے اسٹیشن پر تھے۔ یہاں ہمارا سفر ختم ہوگیا اور دن بھی۔ یہی سے مجھے واپس لوٹ جانا تھا۔ خدا نے چاہا تو پھر اگلے سال جون کے تپتے سورج میں یا جولائی کے حبس زدہ دنوں میں لاہور کی طرف سفر کروں گا۔ اگرچہ کہ لاہور مجھ سے بہت قریب ہے مگر عقل مندی کا تقاضا یہی ہے کہ سال میں فقط ایک بار اپنے عنایت کے پاس جایا جائے۔ میں نہیں چاہتا کہ میرا عنایت بھی مجھے شاہ عنایت کی طرح اپنے بلھے کو اپنے آپ سے دور کر دے۔ بلھے شاہ میں شاہ عنایت سے دوری برداشت کرنے کی ہمت تھی، مجھ میں نہیں ہے۔
Load Next Story