خدمت ِ خلق ایک سعادت بھی عبادت بھی

پاکستان میں رہنے والے سب ہمارے بھائی ہیں۔ بھائیوں میں سے کوئی مشکل میں ہو تو اس کی مدد واعانت کرنا ہمارا فرض ہے۔

پاکستان میں رہنے والے سب ہمارے بھائی ہیں۔ بھائیوں میں سے کوئی مشکل میں ہو تو اس کی مدد واعانت کرنا ہمارا فرض ہے۔ فوٹو : فائل

افراد سے معاشرہ بنتا ہے اور معاشرے سے قوم تشکیل پاتی ہے۔ جس معاشرے کے افراد ایک دوسرے کے لیے جتنے ہمدرد اور خیر خواہ ہوں گے، جس قدر باہم محبت کرنے والے ہوں گے،وہ معاشرہ اتنا ہی مضبوط ، مستحکم اور خوبصورت ہوگا۔ اس کے برعکس جب افراد میں خود غرضی اوربے رحمی ہو ، ایک دوسرے کیلئے محبت ، احترام مفقود ہو تو وہ معاشرہ مستحکم نہیں ہوپا تا اور نہ ہی اس معاشرہ سے ایک اچھی قوم تشکیل پاتی ہے۔

اس کی مثال یوں بیان کی جاسکتی ہے کہ ایک بحری جہاز سمندر میں سفر کررہا ہے جہاز کی دومنزلیں ہیں۔دونوں منزلیں مسافروں سے بھری ہوئی ہیں۔ اب ہوا یہ کہ نچلی منزل والوں کے پاس پانی ختم ہوگیا انھوں نے اوپر والوں سے پانی ختم مانگا۔ اوپر والوں نے پانی دینے سے انکار کردیا۔ نیچے والوں نے کہا اگر تم پانی نہیں دو گے تو ہم جہاز کے پیندے میں سوارخ کرکے پانی حاصل کرلیں گے۔

اوپر والوں نے کہا تم جو چاہے مرضی کرو ہم پانی نہیں دیں گے۔ نیچے والوں کے اصرار کے باوجود جب اوپر والوں نے پانی نہ دیا تو نیچے والوں نے پانی حاصل کرنے کے لیے جہاز کے پیندے میں سوارخ کرلیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں منزلوں کے مسافر ڈوب گئے۔ دراصل دونوںایک ہی منزل کے مسافر تھے۔ یوںنیچے والے اپنی خود غرضی کی وجہ سے خود تو ڈوبے ہی تھے اوپر والوں کو بھی لے ڈوبے۔اس واقعہ میں ہمارے لئے یہ سبق ہے کہ جس معاشرہ میں لوگ خود غرض ہوں ، ایک دوسرے کے ساتھ محبت وہمدردی نہ کریں ، مشکل وقت میں دوسروں کے ساتھ تعاون نہ کریں اور ان کی ضروریات کو پورا نہ کریں،وہ معاشرہ کبھی قائم نہیں رہتا بلکہ تباہ ہوجاتا اور ڈوب جاتا ہے۔

ایک دوسرے کے کام آنا ، ایک دوسرے کیلئے ہمدردی وخیرخواہی کرنا، خدمت ِ خلق کہلاتا ہے۔ خدمت ِ خلق بہت عظیم کام ہے۔ جائز معاملات اور کاموں میں اللّٰہ تعالیٰ کی مخلوق کی مدد اور اعانت کرنے کو خدمتِ خلق کہتے ہیں۔ خدمت ِ خلق، یعنی ضرورت مندوں کی مدد ہے۔ اس کام کو ہر دین ومذہب میں تحسین وتعریف کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ جبکہ اسلام نے تو خدمت ِ خلق پر بہت ہی زور دیا ہے۔یہ اسلئے کہ اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جو سراپا خیر ورحمت اور خیر خواہی سے عبارت ہے۔ ضرورت مندوں کی خدمت اسلام کی پہچان اور شناخت ہے،یہی وجہ ہے کہ دین اسلام کو دینِ رحمت، اس دین کے نازل کرنے والے کو رحمٰن ورحیم اور اس دین کے نبی کو رحمۃ اللعٰلمین کہا گیاہے۔

خدمت ِ خلق اپنے اندر ایک بہت ہی وسیع معانی ومفہوم رکھتا ہے۔یہ ایک بہت ہی جامع اصطلاح ہے۔ خدمت ِ خلق سے مراد جہاں مصیبت زدہ انسانیت کی خدمت ومدد ہے وہاں یہ عمل ایمان کی روح اور دنیا وآ خرت کی سرخروئی کا ذریعہ بھی ہے۔ نبی مکرم ﷺ، رسول معظم ﷺ سراپا خیر ورحمت اور خدمت ِ خلق کا عملی نمونہ تھے۔ نبی ﷺ کی ساری حیات مبارکہ خدمت ِ خلق سے عبارت ہے۔ آپ ﷺ کا مقام اور احترام اتنا کہ سات آسمانوں پر عظمت ورفعت کے چرچے لیکن مخلوق کی خدمت کا جذبہ ایسا کہ ناداروں ، بے سہاروں ، کمزوروں اور ضعیفوں کا بوجھ اٹھاتے، ان کی مدد فرماتے، بھوکوں کو کھانے کھلاتے اور ان کے کام اپنے ہاتھوں سے کرتے ۔آپ ﷺنے اپنی امت کو بھی خدمت ِ خلق کی تلقین اور تبلیغ کی اور اس کے اجر وثواب کے بارے میں آگاہ کیا۔

قرآن وحدیث میں بھی خدمت ِ انسانیت کو بہترین اخلاق اورعظیم عبادت قراردیا گیا ہے۔ اس کی تائید وتوثیق میں قرآن مجید کی لاتعداد آیات اور احایث موجود ہیں۔ سورۃ البقرۃ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو خدمت ِ خلق کی ترغیب دلاتے ہوئے فرمایا ہے '' اصلی نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اللّٰہ پر یقین رکھے اور قیامت کے دن پراور فرشتوں پر اور کتبِ سماویہ پر اور پیغمبروں پر اور وہ شخص مال دیتاہو اللہ کی محبت میں حاجت مند رشتہ داروں کو، نادار مومنوں کو اور دوسرے غریب محتاجوں کو مسافروں کو اور لاچاری میں سوال کرنے والوں کو اور قیدی اور غلاموں کی گردن چھڑانے میں بھی مال خرچ کرتا ہو۔

آپ ﷺ نے فرمایاـ:

(1)تم زمین والوں پر رحم کرو اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے گا۔

(2)تم میں سب سے بہتر شخص وہ ہے جس سے لوگوں کو نفع پہنچے۔

(3)قوم کا سردار قوم کا خادم ہوتاہے۔

(4)اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم نہیں فرماتا جو انسانوں پررحم نہیں کرتا-


(5)اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی مدد کرتارہتاہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگارہتاہے۔

قرآن مجید اوررسول کریم ﷺ کی تعلیمات وارشادات نے ہمیں یہ درس دیا کہ ہم میں بہترین اور سب سے اچھا انسان وہ ہے جو دوسروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے ، اپنی ذات سے لوگوں کو فائدہ پہنچائے، کسی کو تکلیف نہ دے، غریبوں، مسکینوں اور عام لوگوں کے دلوں، زندگیوں میں خوشیاں بھرے، ان کی زندگی کے لمحات کو رنج و غم سے پاک کرنے کی کوشش کرے،انہیں مدد کی ضرورت ہو تو ان کی مدد کرے اور اگر وہ کچھ نہ کرسکتا ہو تو کم از کم ان کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آئے ،ان کی دلجوئی اور میٹھی باتیں کرکے ان کے تفکرات کو دور کرے۔

یہ بات یقینی ہے کہ انسان ہمیشہ ایک ہی حالت میں نہیں رہتا۔ کبھی خوشی ہے تو کبھی غم ، کسی وقت میں ایک انسان تونگر وغنی ہے تو ممکن ہے وہی انسان کچھ عرصے بعدمحتاج ہوجائے، ایک وقت کے کھانے کے لئے ترس جائے اور محل سے فٹ پاتھ پر آجائے۔ انسان کے حالات بدلتے رہتے ہیں۔بہترین انسان وہ ہے جوہر حال میں اللّٰہ کا شکر بجالائے۔ دوسروں کے دکھ درد اور مصیبت میں کام آئے۔

حاصل کلام یہ ہے کہ انسان کے دکھ دردکو بانٹنا ، مشکل میں ان کی مدد کرنا غریبوں ، محتاجوں ، مسکینوں کا کام آ نا جہاں ایک اخلاقی ذمہ داری وہمدردی ہے وہیں حصولِ جنت کا ذریعہ بھی ہے، کسی زخمی دل پر محبت و شفقت کا مرہم رکھنا اللّٰہ کی رضا، اس کی رحمتوں اور برکتوں کو حاصل کرنے کا ایک بہترین سبب ہے، کسی بھوکے کو کھانا کھلانا نیکی اور ایمان کی علامت ہے،کیوں کہ دوسروں کے کام آنا ہی اصل زندگی ہے۔کسی دانشور کا یہ فکرانگیزقول ہے کہ '' اپنے لیے تو سب جیتے ہیں صحیح معنوں میں انسان وہ ہے جو اللہ کے بندوں اور اپنے بھائیوں کے لیے جیتا ہو'' شاعر مشرق علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ کے الفاظ میں

ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے

آتے ہیں جو کام دوسروں کے

اسلام کاکمال یہ ہے کہ اس نے خدمت خلق کے دائرہ کارکو صرف مسلمانوں تک محدود نہیں رکھا بلکہ غیر مسلموں کے ساتھ بھی انسانی ہمدردی اور حسن سلوک کو احسن قرار دیا ہے۔ رسول ﷺ نے مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی اور تمام مخلوق کو اللّٰہ کا کنبہ قرار دیا ہے۔ آپ ﷺکے اس فرمان کی رو سے انسانیت کی تعمیر کے لئے آ پس کی ہمدردی ،باہمی تعاون اور بھائی چارے کی وسیع ترین بنیادیں فراہم ہوئیں۔ پڑوسی کے حقوق کی بات ہو یا مریضوں کی تیمارداری کا مسئلہ ،غرباء کی امداد کی بات ہو یا مسافروں کے حقوق کا معاملہ ،اسلام نے رنگ ونسل اور مذہب وملت کی تفریق کے بغیر سب کے ساتھ یکساں سلوک کو ضروری قرار دیا۔

حیرت ہے ان لوگوں پر جنھوں نے اسلام کی من گھڑت تصویر پیش کرتے ہوئے یہاں تک کہاکہ اسلام میں خدمت خلق کا کوئی جامع تصور موجود ہی نہیں، جب کہ سچائی اورحقیقت تو یہ ہے کہ اسلام نے مسلمانوں کو اس بات کا پابند بنایا ہے کہ وہ آ پس میں بلا تفریق مذہب وملّت ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کریں، بلکہ اسلام نے تو جانوروں کے ساتھ بھی حسن معاملہ کا حکم دیا ہے۔ یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ اللہ کے نبی ﷺنے خدمت خلق کی محض زبانی تعلیم نہیں دی بلکہ آ پ ﷺکی عملی زندگی خدمت خلق سے لبریز ہے۔

سیرت طیبہ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ بعثت سے قبل سے آ پ خدمت خلق میں مشہور تھے، بعثت کے بعد خدمت خلق کے جذبہ میں مزید اضافہ ہوا، مسکینوں کی دادرسی ،مفلوک الحال لوگوں پر رحم وکرم ،محتاجوں ،بے کسوں اورکمزورں کی مدد آ پ کے وہ نمایاں اوصاف تھے جس نے آ پﷺ کو اللّٰہ اور خلقِ خدا سے جوڑ رکھا تھا۔ فرقہ پرستی اور اخلاقی بحران کے اس دور میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ معاشرہ کے بااثر افراد ،تنظیمیں اور ادارے خدمت خلق کے میدان میں آ گے آ ئیں،دنیا کو اپنے عمل سے انسانیت کا بھولا ہوا سبق یاد دلائیں تاکہ نئی نسلوں میں بھی خدمت خلق کا جذبہ پروان چڑھے، خدمت خلق صرف دلوں کو فتح کرنے کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ اسلام کی اشاعت کا موثر ہتھیار بھی ہے۔دکھی انسانیت کی خدمت سے انسان نہ صرف یہ کہ لوگوں کے دلوں میں محترم ہو جاتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی بڑی عزت، احترام اور مقام ومرتبہ پاتا ہے۔ ایساشخص اللہ کی رضا اور قرب کا حق دار بن جاتا ہے۔

پاکستان میں رہنے والے سب ہمارے بھائی ہیں۔ بھائیوں میں سے کوئی مشکل میں ہو تو اس کی مدد واعانت کرنا ہمارا فرض ہے۔خاص کر ایسے حالات میں کہ جب ملک کی بیشتر آبادی مہنگائی اور بے روزگاری کی چکی میں بری طرح پس رہی ہے۔لوگوں کے لئے مسائل اور مصائب کے طوفان اٹھ رہے ہیں۔ ملک کے معاشی حالات بے حد خراب اور پریشان کن ہوچکے ہیں۔ لوگوں کیلئے روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہوچکا ہے۔حالت یہ ہے کہ مہنگائی اور بے روز گاری کے ہاتھوں ستائے لوگ خود کشیاں کررہے ہیں۔ ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری کی شرح خوفناک حد تک نہ صرف بڑھ چکی ہے بلکہ مسلسل اس میں اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان میں محض ایک سال کے دوران غربت کی شرح 34.2 فیصد سے بڑھ کر 39.3 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ یوں پاکستان میں 95 ملین افراد بنیادی ضروریات زندگی پورا کرنے میں مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔

سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معاشی مسائل بڑھ رہے ہیں جس سے غربت کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان کے دوسرے علاقوں کے مقابلے میں صوبہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں گذشتہ ایک سال کے دوران غربت کی شرح میں بدترین اضافہ دیکھنے میں آیا ہے دونوں صوبوں باالخصوص خیبر پختونخوا میں 40 فیصد شہری غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گذار رہے ہیں۔

اسی طرح پاکستان میں تقریباََ ہر سال آنے والے سیلاب بھی معیشت اور زراعت کو بے حد نقصان پہنچا رہے ہیں جس سے لامحالہ عام آدمی کی زندگی بھی متاثر ہوتی ہے۔ سیلابوں کی وجہ سے تقریباََ ہر سال لاکھوں لوگ متاثر ہوتے اور بے گھر ہوجاتے ہیں دوسری طرف تھرپارکر اور چولستان میں غربت نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں ہمیں چاہئے کہ جس قدر بھی ممکن ہو اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کے کام آئیں اور ان کی مدد واعانت کریں۔ جس قوم میں ایک دوسرے کی مدد کا جذبہ پایا جائے وہ زندہ رہتی ہے اور وہ قوم جس میں ایک دوسرے کی مدد واعانت کا جذبہ مفقود ہوجائے وہ قوم دنیا کے نقشے سے مٹ جاتی ہے۔
Load Next Story