فیصلہ آنے کے بعد الیکشن کمیشن مشکل سے دوچار
سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے نے اعلان کیا ہے کہ عمران خان کی پارٹی پی ٹی آئی مخصوص سیٹوں کی اہل ہے
سپریم کورٹ نے آخر کار مخصوص سیٹوں سے متعلق اپنا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔ اس فیصلے کا شدت سے انتظار کیا جارہا تھا۔ پیر کو فیصلہ آنے کے بعد الیکشن کمیشن ایک مشکل صورت حال سے دوچار ہوگیا ہے۔
اس تفصیلی فیصلے نے نہ صرف قومی انتخابی ادارے کی نااہلیوں کو واضح کردیا ہے بلکہ انکار کرنے کی راہیں بھی تنگ کردی ہیں۔ 12 جولائی کو سپریم کورٹ کے حکم نے پی ٹی آئی کو پارلیمانی پارٹی قرار دیا اور اسے مخصوص سیٹوں کا حق دار قرار دیا تھا اور 8رکنی بنچ نے الیکشن کمیشن کو فیصلے پر جلد از جلد عمل کا بھی کہا تھا۔ تاہم مختصر اور تفصیلی فیصلوں کے درمیان دو بڑی پیش رفتیں ہوئیں۔
پارلیمنٹ متحرک ہوئی اور اس نے الیکشنز ایکٹ میں ترمیم کردی جس نے آزاد امیدواروں کی جانب سے پارٹیاں تبدیل کرنے پر نئی پابندیاں لگا دیں ۔ اسی بنا پرسپیکر قومی اسمبلی نے الیکشن کمیشن کو خط لکھا کہ وہ پی ٹی آئی کی مخصوص سیٹوں کے حوالے سے پارلیمانی خود مختاری کا احترام کرے۔ اب الیکشن کمیشن اس وقت پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کے درمیان سینڈوچ بن کر رہ گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے نے اعلان کیا ہے کہ عمران خان کی پارٹی پی ٹی آئی مخصوص سیٹوں کی اہل ہے اور الیکشن کمیشن جنرل الیکشن میں اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ دوسری طرف سپیکر قومی اسمبلی نے زور دیا ہے کہ مخصوص سیٹوں کے دینے کے دوران الیکشن ایکٹ میں حالیہ ترامیم پر عمل کرنا ضروری ہے۔
سپریم کورٹ کے اس تفصیلی فیصلے کے دو اثرات ہیں۔ اگر الیکشن کمیشن نے اس پر عمل کردیا تو پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں اکیلی سب سے بڑی جماعت بن جائے گی اور حکمران اتحاد دو تہائی اکثریت سے محروم ہوجائے گا۔ اگر الیکشن کمیشن نے فیصلے پر عمل نہ کیا تو اس کے سیاسی اثرات کے حوالے سے پھر نئی بحث شروع ہوجائے گی۔ دیکھا جائے گا کہ الیکشن کمیشن کے پاس کیا آپشنز ہیں۔
معروف قانونی ماہر ایڈووکیٹ عبد المعیز جعفری نے '' دی ایکسپریس ٹریبیون'' سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے کے سیاسی اثرات واضح ہیں۔ قومی اسمبلی سیکریٹریٹ ارکان اسمبلی کی لسٹ شائع کرنے میں غلط ہے۔ اسپیکر غلط طور پر الیکشن ایکٹ کی ترمیم پر انحصار کر رہے ہیں کیونکہ سپریم کورٹ نے مخصوص سیٹیں دینے کی وجوہات کو کالعدم کردیا ہے۔ الیکشن کمیشن کو لازمی طور پر سپریم کورٹ کے حکم کو ماننا چاہیے۔
اگر الیکشن کمیشن نے ایسا نہ کیا تو یہ توہین عدالت ہوگا۔ تاہم دوسری طرف بعض ماہرین نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن پارلیمنٹ کی ترامیم کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔ پلڈاٹ صدر احمد بلال محبوب نے کہا الیکشن ایکٹ 2024 قابل عمل ہوگا اور اس ایکٹ میں تبدیلی ہونے تک الیکشن کمیشن آگے نہیں بڑھ سکتا۔ انہوں نے کہا کہ تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد اب حکمران جماعتوں کے ارکان کی 12جولائی کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی اپیلوں پر سماعت جلد مقرر کی جائے گی اور حکمران جماعت کے ارکان یہ واضح کرنے کی کوشش کریں گے کہ اعلی عدلیہ نے اپنے فیصلے میں کہاں غلطی کی ہے۔
اس تفصیلی فیصلے نے نہ صرف قومی انتخابی ادارے کی نااہلیوں کو واضح کردیا ہے بلکہ انکار کرنے کی راہیں بھی تنگ کردی ہیں۔ 12 جولائی کو سپریم کورٹ کے حکم نے پی ٹی آئی کو پارلیمانی پارٹی قرار دیا اور اسے مخصوص سیٹوں کا حق دار قرار دیا تھا اور 8رکنی بنچ نے الیکشن کمیشن کو فیصلے پر جلد از جلد عمل کا بھی کہا تھا۔ تاہم مختصر اور تفصیلی فیصلوں کے درمیان دو بڑی پیش رفتیں ہوئیں۔
پارلیمنٹ متحرک ہوئی اور اس نے الیکشنز ایکٹ میں ترمیم کردی جس نے آزاد امیدواروں کی جانب سے پارٹیاں تبدیل کرنے پر نئی پابندیاں لگا دیں ۔ اسی بنا پرسپیکر قومی اسمبلی نے الیکشن کمیشن کو خط لکھا کہ وہ پی ٹی آئی کی مخصوص سیٹوں کے حوالے سے پارلیمانی خود مختاری کا احترام کرے۔ اب الیکشن کمیشن اس وقت پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کے درمیان سینڈوچ بن کر رہ گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے نے اعلان کیا ہے کہ عمران خان کی پارٹی پی ٹی آئی مخصوص سیٹوں کی اہل ہے اور الیکشن کمیشن جنرل الیکشن میں اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ دوسری طرف سپیکر قومی اسمبلی نے زور دیا ہے کہ مخصوص سیٹوں کے دینے کے دوران الیکشن ایکٹ میں حالیہ ترامیم پر عمل کرنا ضروری ہے۔
سپریم کورٹ کے اس تفصیلی فیصلے کے دو اثرات ہیں۔ اگر الیکشن کمیشن نے اس پر عمل کردیا تو پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں اکیلی سب سے بڑی جماعت بن جائے گی اور حکمران اتحاد دو تہائی اکثریت سے محروم ہوجائے گا۔ اگر الیکشن کمیشن نے فیصلے پر عمل نہ کیا تو اس کے سیاسی اثرات کے حوالے سے پھر نئی بحث شروع ہوجائے گی۔ دیکھا جائے گا کہ الیکشن کمیشن کے پاس کیا آپشنز ہیں۔
معروف قانونی ماہر ایڈووکیٹ عبد المعیز جعفری نے '' دی ایکسپریس ٹریبیون'' سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے کے سیاسی اثرات واضح ہیں۔ قومی اسمبلی سیکریٹریٹ ارکان اسمبلی کی لسٹ شائع کرنے میں غلط ہے۔ اسپیکر غلط طور پر الیکشن ایکٹ کی ترمیم پر انحصار کر رہے ہیں کیونکہ سپریم کورٹ نے مخصوص سیٹیں دینے کی وجوہات کو کالعدم کردیا ہے۔ الیکشن کمیشن کو لازمی طور پر سپریم کورٹ کے حکم کو ماننا چاہیے۔
اگر الیکشن کمیشن نے ایسا نہ کیا تو یہ توہین عدالت ہوگا۔ تاہم دوسری طرف بعض ماہرین نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن پارلیمنٹ کی ترامیم کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔ پلڈاٹ صدر احمد بلال محبوب نے کہا الیکشن ایکٹ 2024 قابل عمل ہوگا اور اس ایکٹ میں تبدیلی ہونے تک الیکشن کمیشن آگے نہیں بڑھ سکتا۔ انہوں نے کہا کہ تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد اب حکمران جماعتوں کے ارکان کی 12جولائی کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی اپیلوں پر سماعت جلد مقرر کی جائے گی اور حکمران جماعت کے ارکان یہ واضح کرنے کی کوشش کریں گے کہ اعلی عدلیہ نے اپنے فیصلے میں کہاں غلطی کی ہے۔