امریکی صدر بارک اوباما کی خود پسندیاں

’’چار سال اور، چار سال اور‘‘ ڈیموکریٹوں کا مطالبہ.

فوٹو: فائل

RAHIM YAR KHAN:
''مٹ رومنی گولی پہلے چلاتے ہیں، نشانہ بعد میں لیتے ہیں'' یہ امریکی صدر کا کہنا ہے اپنے ری پبلیکن حریف کے بارے میں۔

''ہم سوٹے (Inhale) لگانے والوں میں سے نہیں ہیں'' یہ فرمانا ہے مٹ رومنی صاحب کا اوراشارہ ہے سابق ڈیموکریٹ صدر بل کلنٹن کے بارے میں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی طالب علمی کے دوران سگریٹ میں بھنگ کے خشک پتے ملا کر پیا کرتے تھے۔

اس وقت پانی کا آدھا گلاس میز پر رکھا ہے۔ ایک طرف ڈیموکریٹ کھڑے چلا رہے ہیں کہ گلاس آدھا بھرا ہوا ہے دوسری جانب ری پبلیکن گلا پھاڑ پھاڑ کر کہہ رہے ہیں ''بے وقوف مت بنائو گلاس آدھا خالی ہے'' دونوں طرف سے دلیل اور ردِ دلیل آ رہی ہے۔ نومبر تک کون اپنی بات منوا پاتا ہے یا بہ قول کسے کون امریکیوں کو زیادہ بے وقوف بنا پاتا ہے، فی الحال بے طرح اڑائی جانے والی دھول میں کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔

روزِ انتخاب جوں جوں قریب آتا جا رہا ہے دونوں طرف سے مستقبل کے لیے اپنے اپنے پروگرام بتائے جا رہے ہیں۔ اوباما تو جو کچھ کر چکے وہ چوں کہ اقتدار میں ہیں اس لیے سب کو دکھائی دے رہا ہے۔ مٹ رومنی نے کیا کرنا ہے وہ ابھی دیکھا جانا ہے۔

صدر بارک اوباما اپنے کارناموں میں سب سے زیادہ اہمیت جس امر پر دے رہے ہیں اور ایک سے زیادہ بار یہ بات کہ چکے ہیں وہ یہ ہے کہ ''میں حقیقی Mean Chili پکاتا ہوں (مِین چلی سرخ مرچوں کی ایک لذیذ ڈش کو کہا جاتا ہے)۔ لووا میں اپنے ایک سامع کو انھوں نے بتایا کہ ''میں پُول کا حیرت انگیز حد تک اچھا کھلاڑی ہوں''۔ ایک انٹرویو دیتے ہوئے فرماتے ہیں ''میں خاکے (Doodal)بنانے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتا ہوں۔'' نیو یارک میں اپنی انتخابی مہم کے لیے فنڈ ریزنگ مہم کے دوران باسکٹ بال کے متعدد معروف کھلاڑی جمع تھے تو ان کے درمیان انھوں نے پر مزاح انداز میں کہا ''میں آج ایسے کم یاب اجتماع میں آ گیا ہوں جہاں میں پانچواں یا چھٹا دل چسپ ترین آدمی ہوں۔''

چار برس قبل جب وہ اپنا پہلا صدارتی انتخاب لڑ رہے تھے تو مدبر یا کم از کم ایک پروفیسر دکھائی دیتے تھے۔ انھوںنے جس طرح اُس انتخابی مہم کے دوران اپنے مدمقابل کو اپنی حاضر جوابی سے چاروں شانے چت کر دیا تھا وہ لامحالہ حیرت انگیز تھا۔ انھیں اس وقت پرفکشنسٹ کہا گیا تھا اور ان کے دوست، معاونین اور مخالفین تک نے یہ بات تسلیم کی تھی تاہم سیاست میں اور امریکا جیسی سپر پاور کی سیاست میں سب سے اعلیٰ منصب پر چار برس گزارنے کے بعد اب انھیں اپنی تعریف میں خود جملے تیار کرنا پڑ رہے ہیں، وہ پھبتیاں بھی کسنے لگے ہیں۔

اوباما کے بارے میں کہا گیا کہ وہ ہمیشہ سے ضرورت سے زیادہ حاصل کر لینے والی شخصیت ہیں اور خود کو آئوٹ اسٹینڈنگ قرار دیتے ہیں۔ آئندہ انتخابات میں ان کا سامنا مٹ رومنی سے ہے جنہیں ری پبلیکن پارٹی نے ان کے سامنے کھڑا کیا ہے۔ ظاہر ہے بارک اوباما ان سے جیتنے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں اور دل میں کہیں ہار جانے کا خدشہ بھی رکھتے ہیں اس سے ان کے مزاج میں ضرور ایک اضطرار سا پیدا ہوتا ہو گا جس سے پیچھا چھڑانے کے لیے کبھی وہ مزاحیہ جملے بولتے ہیں اور کبھی اپنے منہ میاں مٹھو بن جاتے ہیں۔

مٹ رومنی سے ان کا سامنا ہوتا ہے تو وہ اپنی اس صلاحیت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے مدمقابل کو برملا ''غیر متاثر کن شخص'' قرار دیتے ہیں۔ ان کے ایک قریبی دوست مارٹی نسبٹ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ اوباما کا عمومی فلسفہ یہ ہے کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ ان کے نزدیک بہترین ہوتا ہے۔ ان کے مشیر اپنے صدر کی تعریف کرتے ہوے کہتے ہیں کہ انھوں نے صدارت کے عہدے کے وقار کو انتہائی سنجیدگی سے لیا ہے، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ وہ کسی اجلاس میں موضوع پر تیاری کے بغیر شامل ہوئے ہوں جیسا کہ ان سے پہلے صدور کے عہد میں ہوتا رہا ہے۔ وہ موضوع کے تمام پہلوئوں پر سنجیدگی سے غور کرتے ہیں اور نوٹس بناتے ہیں۔ اسی لیے ایسے اجلاسوں میں ان کی گفت گو میں وزن ہوتا ہے اور انھیں آسانی سے رد نہیں کیا جا سکتا۔

وہ انتہائی پیچیدہ معاملات کا خوب صورتی سے تجزیہ کر لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں تاہم ان کے وفاداروں میں ایسے صاف گو افراد کی بھی کمی نہیں جو برملا ان کے سامنے بھی کہہ دیتے ہیں کہ آپ اپنی صلاحیتوں پر ضرورت سے زیادہ اعتماد کرتے ہیں۔ یعنی دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بند قبا دیکھ سابق صدر بش انسان کش کے ایک مشیر میتھیو ڈووڈ خبردار کرتے ہیں کہ بش بھی اسی نوع کے خبطی تھے کہ جو وہ سمجھتے ہیں وہ کوئی نہیں سمجھتا اور جو وہ کرتے ہیں وہی درست ہے، ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ صدارت کا منصب کچھ ایسا ہی ہے کہ جو اس پر براجمان ہوتا ہے، وہ اپنے کو عقلِ کل قرار دے لیتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اوباما دنیا کے اہم ترین معاملات پر اپنی بہترین صلاحیتیں صرف کرتے ہیں لیکن ان سے جو نتائج حاصل ہوتے ہیں وہ زیادہ بڑے نہیں ہوتے۔

سی بی ایس کے مارک کنولر کا کہنا ہے کہ اپنے صدارتی دورانیے میں انھوں نے 104 مرتبہ بڑا دل لگا کر گالف کھیلی لیکن بڑے کھلاڑی بتاتے ہیں کہ ان کا اسکور ہمیشہ کم ہی رہا ہے۔ مسٹر نسبٹ سے جب پوچھا گیا کہ کیا کوئی بات یا چیز آپ نے دیکھی جس میں اوباما یک سر ناکام رہے ہوں تو انھوں نے بتایا کہ جب وہ کسی نئے معاملے میں ہاتھ ڈالتے ہیں تو یقیناً وہ اس سے اچھی طرح نمٹ نہیں پاتے لیکن وہ اس پر بار بار کوشش کرتے رہتے ہیں یہاں تک وہ اس میں کام یاب ہو جاتے ہیں۔ سابق صدر بش کے مشیر اوباما کی تعریف تو کرتے ہیں لیکن وہ یہ معنی خیز جملہ ضرور کہتے ہیں کہ کوئی بھی شخص ایسے لوگوں کے ساتھ کسی کمرے میں جمع ہونا پسند نہیں کرے گاجو یہ سمجھتے ہوں کہ وہ کمرے میں باقی سب سے زیادہ لائق اور اسمارٹ ہیں۔

خود ان کی پارٹی ڈیموکریٹ کے اراکین یہ کہتے پائے گئے ہیں کہ بہت سے موضوعات پر اوباما کے تبصرے اور ردعمل پریشان کن ہوتے ہیں حتیٰ کہ بعض اوقات ان کا ہاتھ ملانے کا انداز بھی، خاص طور پر جب وہ ووٹروں سے ملاتے ہیں، مثال کے طور پر ایک موقع پر ایک ہچکچاتے ہوئے طالب علم کو انھوں نے مشورہ دیا کہ تم کو آگے چلنے سے پہلے ہی تین چار جملے سوچ لینے چاہئیں یعنی جہاں تک تم لکھ چکے ہو وہاں سے آگے کے جملے تمہیں پہلے سے سوچ لینے چاہئیں، یہ مشورہ کچھ زیادہ پسندیدہ نہیں ہے کیوں اس طرح تو لکھنے والا اپنے لکھنے کے بہائو سے محروم رہ جائے گا۔


اپنی صدارت کے پہلے سال کے خاتمے پر انھوں نے خود کو جو نمبر دیے وہ Solid B-Plus تھے۔ یعنی انھوں نے خود کو ہائی گریڈ کا حامل قرار دیا لیکن ووٹر اس کے برعکس سوچتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اوباما نے بہتر معیشت کے حوالے سے جو وعدے کیے تھے وہ ان پر پورے نہیں اترے یا یہ کہ انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین امن قائم کرنے میں کام یاب ہوں گے لیکن وہ ایسا کچھ بھی نہیں کر پائے۔ جیسا کہ اوپر کہا گیا کہ وہ اپنے بارے میں بہت زیادہ حسنِ ظن رکھتے ہیں، وہ ہر معاملے میں اکثر یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ میں یہ کام دوسروں سے بہتر کر لیتا ہوں۔ مثال کے طور پر انھوں نے ایک بار اپنے سیاسی ڈائریکٹر پیٹرک گیسپرڈ سے کہا کہ میرا خیال ہے کہ میں اپنے تقریر نگار سے زیادہ اچھی تقریر لکھ سکتا ہوں۔ یا یہ کہ میں اپنے پالیسی ڈائریکٹروں سے کسی بھی خاص معاملے پر زیادہ بہتر پالیسی بنا سکتا ہوں اور انھوں نے اپنا یہ دعویٰ سچ ثابت کرنے کا دعویٰ بھی کیا۔

ممکن ہے اوباما کے سارے دعوے درست ہی ہوں لیکن اس بار انھیں اپنے کیرئیر کے سب سے مشکل دنوں کاسامنا ہے۔ ان چار برسوں میں ان کی جو بھی کارکردگی رہی ہو وہ امریکیوں کے سامنے ہے اور امریکی ہی ان کے کیس کے سب سے سچے جج ہوں گے۔ انھیں امریکیوں سے منوانا پڑے گا کہ وہ اس سارے دورانیے میں درست تھے اور سب سے بہتر بھی ہیں۔

2008 میں انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ سیاست کی فطرت کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں تاہم انھوں نے وہی طرز اختیار کیا جو ان کے پیش رو کرتے رہے۔ انھوں نے وہائٹ ہائوس میں داخل ہوتے ہی آئندہ انتخابات کے لیے کام کرنا شروع کر دیا حال آں کہ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ حکومت کاری اور انتخابی مہم کو الگ الگ رکھیں گے۔ ان کے اس طرز کے اقدامات کو ذرائع ابلاغ نے تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔ ایسے مواقع متعدد بار آئے جب انھوں نے اپنے سیاسی مخالف کو اس کی بے خبری میں اچانک اپنے کسی جملے کا زور دار گھونسا ناک پر جڑ دیا۔

گزشتہ فروری میں ایک موقع پر اوباما کو غصے میں لال ہوتے بھی دیکھا گیا یہ موقع تھا جب وہ ڈیموکریٹ گورنروں سے معمول کی ملاقات کر رہے تھے۔ اجلاس کے دوران معمول کی باتیں ہو رہی تھیں کہ اسی دوران مونٹانا کے گورنر برائن شویزر ان سے پوچھ بیٹھے 2012 کا صدارتی انتخاب جیتنے کے لیے ان کے پاس کیا ہے؟ یہ سوال کچھ ایسا تھا کہ اوباما تھوڑی دیر کے لیے ذرا بے رنگ سے ہو گئے۔ وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ مونٹانا کے گورنر ان کی صلاحیتوں کا غلط اندازہ لگا رہے ہیں جب کہ وہ ان کی سوچ سے کہیں بڑھ کر باصلاحیت ہیں۔

ان کے انتخابی مہم کے ارکان نے جب ان سے پوچھا کہ انھیں بہتر کارکردگی کے لیے کیا کرنا چاہیے تو انھوں نے انھیں کوئی مشورہ دینے کی بجائے کہا کہ (خود) ''مجھے زیادہ محنت کرنی چاہیے۔'' ظاہر ہے ان کے اس جواب پر وہ خاصے جزبز ہوے ہوں گے کہ بجائے ہمیں مشورہ دینے کے صدر صاحب اپنی ذاتی کارکردگی پر زیادہ زور دے رہے ہیں۔

اب جب کہ انتخابی سرگرمیاں شروع ہو چکی ہیں تو انھوں نے اپنے حریف مٹ رومنی کا مطالعہ کرنا شروع کیا ہے۔ ان کی جس عادت کو خطرناک قرار دیا جاتا ہے، وہ ہے ان کا دوسروں کی تعریف پھبتی کے سے انداز میں کرنا۔ ایک بار 2008 میں انھوں نے ہیلری کلنٹن سے کہا تھا ''ہیلری آپ کو پسند کیا جا سکتا ہے'' اس جملے کا مطلب ہوا کہ ویسے تو آپ میں کوئی خاص بات نہیں لیکن کوشش کر کے کوئی ایک خوبی زبردستی آپ کے ساتھ منسلک کر کے آپ کو یہ رعایت دی جا سکتی ہے۔ اسی طرح کے سخت جملے وہ مٹ رومنی کے بارے میں بھی کہ جاتے ہیں۔

ایک کم زوری ان کی یہ ہے کہ وہ اپنے حریف کی سیاسی صلاحیت کے بارے میں درست اندازہ نہیں لگا سکتے۔ ان کا مقابلہ اس بار ایک ایسے شخص سے ہے جو تاجرانہ تجربہ اور ذہنیت رکھتا ہے۔ امریکیوں کو اوباما اگر کسی حوالے سے متاثر کر سکتے ہیں تو وہ ان کی میڈی کیئر پالیسی یا ان کا درمیانے طبقے کی طرف جھکاؤ ہے۔ دوسری طرف مٹ رومنی ٹیکسوں میں کمی کی پالیسی سامنے لاتے ہیں۔ امریکیوں کو میڈی کیئر پالیسی سے زیادہ دل چسپی ہے۔ رومنی یہ یقین دلاتے ہیں وہ ٹیکسوں میں بہت بھاری کٹوتی کرنے والے ہیں لیکن اس بھاری کٹوتی کا فائدہ عام امریکی کے بجائے بالائی طبقے کے امریکیوں کو ہوگا دوسری جانب میڈی کیئر کا تعلق عام امریکی کی صحت اور معیارِ زندگی سے ہے۔

میڈی کیئر کے بارے میں جب مسٹر رومنی سے پوچھا جاتا ہے تو وہ اور ان کے رننگ میٹ پال ڈی ریان میڈی کیئر کے بارے میں کوئی بہت زیادہ واضح خیالات نہیں رکھتے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی پالیسیوں کے نتیجے میں ایسی صورت پیدا ہو جائے گی کہ حکومت بڑی عمر کے شہریوں کے لیے انشورنس کا کوئی پروگرام بنا لے گی اور اس کے پریمیئم کی ادائی میں امداد دے گی یا پھر ووچر پروگرام تشکیل دے لیا جائے گا یعنی کوئی ٹھوس بات نہیں۔ اوباما کے ہیلتھ کیئر پروگرام پر ری پبلیکن جو اعتراض کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ جن افراد کو اس پروگرام سے فائدہ پہنچایا جاتا ہے ان کو بعض مراعات سے محروم بھی کر دیا جاتا ہے۔

رومنی امریکیوں کو نوید دیتے ہیں کہ وہ ٹیکسوں میں جو کٹوتیاں کرنے والے ہیں ان کی وجہ سے امریکیوں پر سے 4 کھرب ڈالر کا بوجھ اتر جائے گا اور ایسا نہیں کہ یہ بوجھ محض سال دو سال کے لیے ان سے ہٹا دیا جائے گا بل کہ اس کا دورانیہ 10 سال پر محیط ہو گا۔ ان کٹوتیوں کی شرح فی کس نکالی جائے تو یہ ہر امریکی کی آمدنی میں 20 فی صد اضافے کی صورت میں سامنے آتی ہے تاہم رومنی کے منصوبوں اور پالیسیوں پر آئندہ مضمون میں بات کی جائے گی۔

گزشتہ دنوں شمالی کیرولینا میں ڈیموکریٹس کے کنونشن کے دوران مقررین نے حاضرین پر یہ ہی بات واضح کرنے کی کوشش کی کہ رومنی کی ٹیکس کٹوتیوں کا فائدہ عام امریکیوں کو ہو ہی نہیں سکتا سارے کا سارا مال بڑی تجوریوں میں جائے گا اور کیوں نہ ہو رومنی خود ایک سرمایہ دار اور سرمایہ کار ہیں۔ اس موقع پر امریکا کی خاتون اول مشعل اوباما نے خوب خطاب کیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ بہت سے معاملات ایسے ہیں جو مٹ رومنی کی سمجھ سے بالاتر ہیں اور وہ ان کو حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، جب کہ اوباما مسائل پر با آسانی قابو پا سکتے ہیں۔

اس موقع پر حاضرین کی خاصی بڑی تعداد موجود تھی اور وہ بڑے پرجوش نعرے لگا رہے تھے ''چار سال مزید، چار سال مزید'' اور جواب میں خاتون اول کا نعرہ تھا ''آپ کی مدد سے، آپ کی مدد''۔ انھوں نے بڑے موثر انداز میں کہا ''بارک جانتے ہیں کہ آپ کو آپ کے بچوں کو اور آپ کے بچوں کے بچوں کو کیا چاہیے۔ بارک جانتے ہیں کہ امریکیوں کا خواب کیا ہے کیوں کہ وہ اس خواب میں زندگی کر رہے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ہر امریکی کو مواقع میسر ہوں، برابر کے مواقع، بغیر اس امتیاز کے کہ کون کیسا ہے، کہاں ہے اور کہاں کا ہے، بغیر اس ''تمیز'' کے کہ ہم کیسے نظر آتے ہیں۔
Load Next Story