واسے پور
ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ حقیقت ہے پاکستان بھی مافیاز اور گینگز کا شکار ہے
آپ اگر دو فلمیں دیکھ لیں تو آپ کوپاکستان کے موجودہ حالات کی سمجھ آ جائے گی' پہلی فلم ''گاڈ فادر'' ہے' یہ فلم اطالوی مافیا فیملی کارلوینی سے متعلق ہے اور یہ تین حصوں پر مشتمل ہے' گاڈ فادر ون' ٹو اور تھری' یہ فلموں کی فلم تھی یعنی ٹرینڈ سیٹر تھی اور اس نے پوری دنیا کی فلم انڈسٹری کو متاثر کیا' گارڈ فادر نے اپنے زمانے میں 517 ملین ڈالر کمائے جو ریکارڈ تھا'اس کی اکیڈمی ایوارڈز کے لیے 28 منظوریاں (Nominations) ہوئیں جن میں سے فلم کو 9 ایوارڈز ملے' فلم میں دکھایا گیا اطالوی مافیا کس طرح جرم' سیاست اور بیوروکریسی کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑتا ہے اور یہ لوگ اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے سسٹم اور معاشرے کو کس حد تک ری شیپ کر دیتے ہیں اور اگر کوئی ان کے راستے میں رکاوٹ بننے کی کوشش کرے تو یہ اس کی نسلیں تک ختم کر دیتے ہیں' اس فلم میں دکھایا گیا مافیا کوئی ایک فرد نہیں ہوتا'یہ بادشاہت ہوتی ہے اور ایک بادشاہ کے بعد دوسرا بادشاہ اس کی گدی پر بیٹھ جاتا ہے اور پھر یہ بھی پہلے بادشاہ کی طرح طاقت کو انجوائے کرتا ہے' وہ بھی مارا جاتا ہے تو پھر تیسری نسل سامنے آ جاتی ہے اور پھر یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔
دوسری فلم ''گینگز آف واسے پور'' ہے' یہ انڈین فلم ہے اور یہ 2012میں ریلیز ہوئی تھی' اس میں اس دور کے تمام شان دار اداکاروں نے کام کیا' منوج واجپائی' نواز الدین صدیقی' پنکج تریپاٹھی' ریچا چڈھا اور ہما قریشی گینگز آف واسے پور سے صف اول کے اداکار بنے' فلم 321 منٹ کی شوٹ ہوئی تھی' اس زمانے میں بھارت کے کسی سینما میں پانچ گھنٹے سے بڑی فلم نہیں دکھائی جا سکتی تھی لہٰذا اسے بھی دوحصوں میں ریلیز کیا گیا اور یہ بھی ٹرینڈ سیٹر ثابت ہوئی' گینگز آف واسے پور ''کول مافیا'' کے تین خاندانوں کی لڑائی ہے جو 1941سے اسٹارٹ ہوتی ہے اور 2009تک جاری رہتی ہے' یہ لوگ بھی مار دھاڑ کے دوران پورے سسٹم کو کرپٹ کر دیتے ہیں یہاں تک کہ سسٹم ان کا غلام بن جاتا ہے۔
ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ حقیقت ہے پاکستان بھی مافیاز اور گینگز کا شکار ہے اورملک کے تمام ریاستی ادارے ان کا حصہ بنتے چلے جا رہے ہیں' ماضی میں یہ کھیل صرف سیاست دانوں اور جرنیلوں تک محدود تھا' جرنیل اپنی مرضی کے سیاست دان لے آتے تھے اور سیاست دان اپنے سپورٹر جرنیلوں کو اپنا باس بنا لیتے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ریاست کے باقی ستون بھی اس کھیل کا حصہ بن گئے لہٰذا آج ملک چھوٹے بڑے درجنوں مافیاز اور گینگز میں تبدیل ہو چکا ہے' طاقت کی دوڑ نے کسی ادارے کو نہیں بخشا اورکسی ادارے اور کسی شخص کی عزت بھی نہیں بچی' آپ کو پورے ملک میں اس وقت کوئی ایک باعزت اور غیر جانب دار شخص نہیں ملتا' آپ کسی کا نام یا عہدہ لکھ دیں اسے ہزاروں گالیاں پڑ جائیں گی' حد یہ ہے اب مسجدوں کے اندر بھی لوگ ایک دوسرے کو ماں بہن کی گالیاں دے رہے ہیں اور ایک دوسرے کے سرپر قرآن مجید کے نسخے مار رہے ہیں۔
سڑکوں پر بھی مارا ماری چل رہی ہے' سیاست اور سیاست دانوں دونوں میں اخلاقیات ختم ہو چکی ہے' آپ کسی لیڈر کے ماضی اور حال کے بیانات سامنے رکھ لیں آپ کو وہ شخص اخلاقی میت محسوس ہو گا' ملک میں اس وقت پانچ بڑی سیاسی جماعتیں ہیں' پی ٹی آئی' ن لیگ' پیپلز پارٹی' ایم کیو ایم اور جے یو آئی' آپ اگر ان میں ق لیگ کو بھی شامل کر لیں تو یہ چھ ہو جائیں گی' آپ ان تمام جماعتوں کی قیادت کے صرف دو سال پرانے کلپس نکال لیں اور ان کے آج کے خیالات سامنے رکھ لیں' آپ کی آنکھیں جلنے لگیں گی اور کانوں سے دھواں نکلنے لگے گا' یہ لوگ کس تیزی سے گینگ بناتے ہیں اور پھر مقصد کے بعد کس طرح ایک دوسرے کے جانی دشمن بن جاتے ہیں' یہ حیران کن ہے لہٰذا خواہ عمران خان ہوں یا آصف علی زرداری' نواز شریف' چوہدری شجاعت اور مولانا فضل الرحمن ہوں یہ اخلاقی لحاظ سے فوت ہو چکے ہیں اور ان کی وجہ سے ملک میں پہلے بیوروکریسی ختم ہوئی اور اب عسکری اور عدالتی ادارے بھی ختم ہو رہے ہیں' ہم مانیں یا نہ مانیں۔
میں نے صحافت شروع کی تو اس وقت جنرل اسلم بیگ آرمی چیف تھے' میں نے ان کے بعد آٹھ آرمی چیفس دیکھے' وقت گزرنے کے ساتھ آرمی چیفس بھی متنازع ہوتے چلے گئے' جنرل اشفاق پرویز کیانی پہلے آرمی چیف تھے جن کے دور میں فوج کی اندرونی سیاست ٹیلی ویژن پر ڈسکس ہونے لگی اور کھلے عام یہ کہا جانے لگا آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی جنرل کیانی کی ایکسٹینشن کے لیے کرسی پر بیٹھے ہیں' 2008میں میاں نواز شریف کو اس لیے وزیراعظم نہیں بننے دیا گیا تھا کہ یہ ایکسٹینشن کے خلاف تھے جب کہ صدر زرداری بے انتہا لچک دار ہیں' یہ اقتدار کے لیے تاحیات ایکسٹینشن تک دے سکتے ہیں چناں چہ اس زمانے میں ملٹری قیادت حکومت کی تمام نااہلیاں برداشت کرتی رہی' طالبان اسلام آباد کی پہاڑیوں تک آ گئے تھے۔
یہ بھی برداشت کرلیا گیا تھا'بے شک جنرل کیانی شان دار آرمی چیف تھے' ان کے زمانے میں فوج کی ری اسٹرکچرنگ ہوئی لیکن یہ تمام کارنامے ایک سائیڈ پر اور ان کی ایکسٹینشن دوسری سائیڈ پر' ایک فیصلے نے ان کی عزت برباد کر دی اور یہ فیصلہ بھی کیانی صاحب نے خود کیا تھا' یہ 2008میں پیپلز پارٹی کواقتدار میں لے کر آئے تھے اور اسے اپنی ایکسٹینشن تک سہارا دیتے رہے ' پیپلز پارٹی کے پاس اس وقت88سیٹیں تھیں'یہ اس مینڈیٹ کے ساتھ حکومت نہیں بنا سکتے تھے جنرل کیانی پہلے ن لیگ کو ہانک کر پیپلز پارٹی کے پاس لے کر آئے' ن لیگ ایک ماہ اور بارہ دن بعد اتحاد سے نکل گئی تو پھر پیپلزپارٹی کے ازلی دشمن چوہدریوں کو زرداری صاحب کی جھولی میں ڈال دیا گیا اور پھر اس کے بعد چل سو چل' عمران خان کی سیاسی پیدائش بھی ایکسٹینشن کے لیے ہوئی تھی' جنرل راحیل شریف ایکسٹینشن چاہتے تھے۔
نواز شریف تیار نہیں تھے چناں چہ عمران خان کو اسلام آباد میں بٹھا دیا گیا' عمران خان نواز شریف کو نہیں ہٹا سکے اور یوں ایکسٹینشن نہ ہو سکی' میں جنرل باجوہ صاحب کا احترام کرتا ہوں لیکن اس کے باوجود یہ حقیقت ہے جنرل باجوہ ایکسٹینشن کے لیے اپنا وزیراعظم لے آئے تھے اور جب تک ایکسٹینشن نہیں ہوئی یہ عمران خان کی ہر حماقت' قوم کے ساتھ ہر ظلم چپ چاپ برداشت کرتے رہے مگر اگست 2019میں جب ایکسٹینشن ہو گئی تو انھیں عمران خان کی غلطیاں نظر آنے لگیں اور یہ ''اے پولیٹیکل'' ہوتے چلے گئے۔
عمران خان اس گیم کو سمجھ گئے تھے چناں چہ انھوں نے جنرل فیض حمید کی شکل میں اپنا آرمی چیف تیار کرنا شروع کر دیا اور جنرل فیض نے اپنے لیے آٹھ سال کی پلاننگ کر لی تھی' 2022 میں آرمی چیف' 2024 میں عمران خان کی دوسری ٹرم' 2025 میں ایکسٹینشن اور صدارتی نظام' 2028 میں عمران خان کی چھٹی' ایمرجنسی کا نفاذ اور پھر جنرل فیض حمید روسی صدر 'صدر پیوٹن کی طرح تاحیات صدر یعنی جنرل فیض نے خود ہی اپنا فیصلہ کر لیا لیکن نواز شریف نے گیم بدل دی اور اس کے بعد نواز شریف کے ساتھ کیا ہوا؟یہ اب وہ قصہ اپنی پرائیویٹ محفلوں میں سناتے رہتے ہیں۔
سپریم کورٹ بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں رہی' افتخار چوہدری نے اپنے زمانے میں ججز کے بجائے چیف جسٹس منتخب کرنا شروع کر دیے تھے' یہ ججز کی تاریخ پیدائش دیکھ کر انھیں ترقی دیتے تھے' ان کے بعد ہر چیف جسٹس نے یہ کیا' یہ ریٹائرمنٹ سے پہلے اپنے چیمبر یا اپنی مرضی کے جج سپریم کورٹ پہنچا دیتے تھے' اس کا یہ نتیجہ نکلا سپریم کورٹ میں اب جج نہیں ہیں چیف جسٹس ہیں اور ان کے درمیان اقتدار کی جنگ چل رہی ہے' بیوروکریٹس 60 سال سے سیاست دانوں کی خدمت کر رہے ہیں' اس وقت بھی بیوروکریسی مریم نواز اور بلاول بھٹو میں تقسیم ہے کیوں کہ انھیں ان دونوں میں اپنا مستقبل دکھائی دے رہا ہے جب کہ یہ دونوں میجر جنرلز کی تاریخ پیدائش اور جوائننگ ڈیٹس دیکھ کر ان کے خاندانوں سے تعلقات وابستہ کرتے ہیں' یہ دونوں بیوروکریٹس کی عمر بھی دیکھتے ہیں اور بیوروکریٹس اور جوان فوجی افسر اپنا مستقبل دیکھ کر بلاول اور مریم کے مقدر کا فیصلہ کررہے ہیں۔
بزنس مین اور علماء کرام بھی مدت پہلے اس کھیل میں شامل ہو چکے تھے' صرف میڈیا بچا تھا لیکن یہ بھی اب ان گینگز کا حصہ ہے اور اس سارے کھیل میں عوام اور ملک دونوں پس کر رہ گئے ہیں لیکن اب سوال یہ ہے یہ لوگ مل کر ایک ہی مرتبہ یہ سارے مسئلے حل کیوں نہیں کر لیتے' آئین میں جتنی تبدیلیاں کرنی ہیں یہ ایک ہی بار کر لیں' جس کو جتنی ایکسٹینشن دینی ہے ایک ہی مرتبہ دے دیں اگر اعلیٰ ترین عہدوں کے لیے چھ سال چاہییں تو آپ ایک ہی بار فیصلہ کر لیں' الیکشن کمیشن اور نیب کو بھی آپ نے جتنی آزادی دینی ہے آپ دے دیں اور بیوروکریسی کے تقرر اور تبادلوں کی پالیسی بھی ایک ہی بار بنا لیں تا کہ یہ تھیٹر ختم ہو اور ملک آگے بڑھ سکے۔
یہ ہو سکتا ہے لیکن یہ ان لوگوں کو سوٹ نہیں کرتا اگر آرمی چیف' چیف جسٹس اور الیکشن کمشنر کا فیصلہ خود کار طریقے سے ہو جائے گا تو پھر نااہل سیاست دان اقتدار میں کیسے آئیں گے اور اگر نااہل سیاست دان اقتدار میں نہیں آئیں گے تو ایکسٹینشن کیسے ہو گی لہٰذا سردست ملک میں گینگز ختم نہیں ہو سکتے' اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتے جب تک اس واسے پور کا اختتام نہیں ہوتا' جب تک دائرہ ختم نہیں ہوتااس وقت تک یہ سفر بھی ختم نہیں ہوگا۔
دوسری فلم ''گینگز آف واسے پور'' ہے' یہ انڈین فلم ہے اور یہ 2012میں ریلیز ہوئی تھی' اس میں اس دور کے تمام شان دار اداکاروں نے کام کیا' منوج واجپائی' نواز الدین صدیقی' پنکج تریپاٹھی' ریچا چڈھا اور ہما قریشی گینگز آف واسے پور سے صف اول کے اداکار بنے' فلم 321 منٹ کی شوٹ ہوئی تھی' اس زمانے میں بھارت کے کسی سینما میں پانچ گھنٹے سے بڑی فلم نہیں دکھائی جا سکتی تھی لہٰذا اسے بھی دوحصوں میں ریلیز کیا گیا اور یہ بھی ٹرینڈ سیٹر ثابت ہوئی' گینگز آف واسے پور ''کول مافیا'' کے تین خاندانوں کی لڑائی ہے جو 1941سے اسٹارٹ ہوتی ہے اور 2009تک جاری رہتی ہے' یہ لوگ بھی مار دھاڑ کے دوران پورے سسٹم کو کرپٹ کر دیتے ہیں یہاں تک کہ سسٹم ان کا غلام بن جاتا ہے۔
ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ حقیقت ہے پاکستان بھی مافیاز اور گینگز کا شکار ہے اورملک کے تمام ریاستی ادارے ان کا حصہ بنتے چلے جا رہے ہیں' ماضی میں یہ کھیل صرف سیاست دانوں اور جرنیلوں تک محدود تھا' جرنیل اپنی مرضی کے سیاست دان لے آتے تھے اور سیاست دان اپنے سپورٹر جرنیلوں کو اپنا باس بنا لیتے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ریاست کے باقی ستون بھی اس کھیل کا حصہ بن گئے لہٰذا آج ملک چھوٹے بڑے درجنوں مافیاز اور گینگز میں تبدیل ہو چکا ہے' طاقت کی دوڑ نے کسی ادارے کو نہیں بخشا اورکسی ادارے اور کسی شخص کی عزت بھی نہیں بچی' آپ کو پورے ملک میں اس وقت کوئی ایک باعزت اور غیر جانب دار شخص نہیں ملتا' آپ کسی کا نام یا عہدہ لکھ دیں اسے ہزاروں گالیاں پڑ جائیں گی' حد یہ ہے اب مسجدوں کے اندر بھی لوگ ایک دوسرے کو ماں بہن کی گالیاں دے رہے ہیں اور ایک دوسرے کے سرپر قرآن مجید کے نسخے مار رہے ہیں۔
سڑکوں پر بھی مارا ماری چل رہی ہے' سیاست اور سیاست دانوں دونوں میں اخلاقیات ختم ہو چکی ہے' آپ کسی لیڈر کے ماضی اور حال کے بیانات سامنے رکھ لیں آپ کو وہ شخص اخلاقی میت محسوس ہو گا' ملک میں اس وقت پانچ بڑی سیاسی جماعتیں ہیں' پی ٹی آئی' ن لیگ' پیپلز پارٹی' ایم کیو ایم اور جے یو آئی' آپ اگر ان میں ق لیگ کو بھی شامل کر لیں تو یہ چھ ہو جائیں گی' آپ ان تمام جماعتوں کی قیادت کے صرف دو سال پرانے کلپس نکال لیں اور ان کے آج کے خیالات سامنے رکھ لیں' آپ کی آنکھیں جلنے لگیں گی اور کانوں سے دھواں نکلنے لگے گا' یہ لوگ کس تیزی سے گینگ بناتے ہیں اور پھر مقصد کے بعد کس طرح ایک دوسرے کے جانی دشمن بن جاتے ہیں' یہ حیران کن ہے لہٰذا خواہ عمران خان ہوں یا آصف علی زرداری' نواز شریف' چوہدری شجاعت اور مولانا فضل الرحمن ہوں یہ اخلاقی لحاظ سے فوت ہو چکے ہیں اور ان کی وجہ سے ملک میں پہلے بیوروکریسی ختم ہوئی اور اب عسکری اور عدالتی ادارے بھی ختم ہو رہے ہیں' ہم مانیں یا نہ مانیں۔
میں نے صحافت شروع کی تو اس وقت جنرل اسلم بیگ آرمی چیف تھے' میں نے ان کے بعد آٹھ آرمی چیفس دیکھے' وقت گزرنے کے ساتھ آرمی چیفس بھی متنازع ہوتے چلے گئے' جنرل اشفاق پرویز کیانی پہلے آرمی چیف تھے جن کے دور میں فوج کی اندرونی سیاست ٹیلی ویژن پر ڈسکس ہونے لگی اور کھلے عام یہ کہا جانے لگا آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی جنرل کیانی کی ایکسٹینشن کے لیے کرسی پر بیٹھے ہیں' 2008میں میاں نواز شریف کو اس لیے وزیراعظم نہیں بننے دیا گیا تھا کہ یہ ایکسٹینشن کے خلاف تھے جب کہ صدر زرداری بے انتہا لچک دار ہیں' یہ اقتدار کے لیے تاحیات ایکسٹینشن تک دے سکتے ہیں چناں چہ اس زمانے میں ملٹری قیادت حکومت کی تمام نااہلیاں برداشت کرتی رہی' طالبان اسلام آباد کی پہاڑیوں تک آ گئے تھے۔
یہ بھی برداشت کرلیا گیا تھا'بے شک جنرل کیانی شان دار آرمی چیف تھے' ان کے زمانے میں فوج کی ری اسٹرکچرنگ ہوئی لیکن یہ تمام کارنامے ایک سائیڈ پر اور ان کی ایکسٹینشن دوسری سائیڈ پر' ایک فیصلے نے ان کی عزت برباد کر دی اور یہ فیصلہ بھی کیانی صاحب نے خود کیا تھا' یہ 2008میں پیپلز پارٹی کواقتدار میں لے کر آئے تھے اور اسے اپنی ایکسٹینشن تک سہارا دیتے رہے ' پیپلز پارٹی کے پاس اس وقت88سیٹیں تھیں'یہ اس مینڈیٹ کے ساتھ حکومت نہیں بنا سکتے تھے جنرل کیانی پہلے ن لیگ کو ہانک کر پیپلز پارٹی کے پاس لے کر آئے' ن لیگ ایک ماہ اور بارہ دن بعد اتحاد سے نکل گئی تو پھر پیپلزپارٹی کے ازلی دشمن چوہدریوں کو زرداری صاحب کی جھولی میں ڈال دیا گیا اور پھر اس کے بعد چل سو چل' عمران خان کی سیاسی پیدائش بھی ایکسٹینشن کے لیے ہوئی تھی' جنرل راحیل شریف ایکسٹینشن چاہتے تھے۔
نواز شریف تیار نہیں تھے چناں چہ عمران خان کو اسلام آباد میں بٹھا دیا گیا' عمران خان نواز شریف کو نہیں ہٹا سکے اور یوں ایکسٹینشن نہ ہو سکی' میں جنرل باجوہ صاحب کا احترام کرتا ہوں لیکن اس کے باوجود یہ حقیقت ہے جنرل باجوہ ایکسٹینشن کے لیے اپنا وزیراعظم لے آئے تھے اور جب تک ایکسٹینشن نہیں ہوئی یہ عمران خان کی ہر حماقت' قوم کے ساتھ ہر ظلم چپ چاپ برداشت کرتے رہے مگر اگست 2019میں جب ایکسٹینشن ہو گئی تو انھیں عمران خان کی غلطیاں نظر آنے لگیں اور یہ ''اے پولیٹیکل'' ہوتے چلے گئے۔
عمران خان اس گیم کو سمجھ گئے تھے چناں چہ انھوں نے جنرل فیض حمید کی شکل میں اپنا آرمی چیف تیار کرنا شروع کر دیا اور جنرل فیض نے اپنے لیے آٹھ سال کی پلاننگ کر لی تھی' 2022 میں آرمی چیف' 2024 میں عمران خان کی دوسری ٹرم' 2025 میں ایکسٹینشن اور صدارتی نظام' 2028 میں عمران خان کی چھٹی' ایمرجنسی کا نفاذ اور پھر جنرل فیض حمید روسی صدر 'صدر پیوٹن کی طرح تاحیات صدر یعنی جنرل فیض نے خود ہی اپنا فیصلہ کر لیا لیکن نواز شریف نے گیم بدل دی اور اس کے بعد نواز شریف کے ساتھ کیا ہوا؟یہ اب وہ قصہ اپنی پرائیویٹ محفلوں میں سناتے رہتے ہیں۔
سپریم کورٹ بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں رہی' افتخار چوہدری نے اپنے زمانے میں ججز کے بجائے چیف جسٹس منتخب کرنا شروع کر دیے تھے' یہ ججز کی تاریخ پیدائش دیکھ کر انھیں ترقی دیتے تھے' ان کے بعد ہر چیف جسٹس نے یہ کیا' یہ ریٹائرمنٹ سے پہلے اپنے چیمبر یا اپنی مرضی کے جج سپریم کورٹ پہنچا دیتے تھے' اس کا یہ نتیجہ نکلا سپریم کورٹ میں اب جج نہیں ہیں چیف جسٹس ہیں اور ان کے درمیان اقتدار کی جنگ چل رہی ہے' بیوروکریٹس 60 سال سے سیاست دانوں کی خدمت کر رہے ہیں' اس وقت بھی بیوروکریسی مریم نواز اور بلاول بھٹو میں تقسیم ہے کیوں کہ انھیں ان دونوں میں اپنا مستقبل دکھائی دے رہا ہے جب کہ یہ دونوں میجر جنرلز کی تاریخ پیدائش اور جوائننگ ڈیٹس دیکھ کر ان کے خاندانوں سے تعلقات وابستہ کرتے ہیں' یہ دونوں بیوروکریٹس کی عمر بھی دیکھتے ہیں اور بیوروکریٹس اور جوان فوجی افسر اپنا مستقبل دیکھ کر بلاول اور مریم کے مقدر کا فیصلہ کررہے ہیں۔
بزنس مین اور علماء کرام بھی مدت پہلے اس کھیل میں شامل ہو چکے تھے' صرف میڈیا بچا تھا لیکن یہ بھی اب ان گینگز کا حصہ ہے اور اس سارے کھیل میں عوام اور ملک دونوں پس کر رہ گئے ہیں لیکن اب سوال یہ ہے یہ لوگ مل کر ایک ہی مرتبہ یہ سارے مسئلے حل کیوں نہیں کر لیتے' آئین میں جتنی تبدیلیاں کرنی ہیں یہ ایک ہی بار کر لیں' جس کو جتنی ایکسٹینشن دینی ہے ایک ہی مرتبہ دے دیں اگر اعلیٰ ترین عہدوں کے لیے چھ سال چاہییں تو آپ ایک ہی بار فیصلہ کر لیں' الیکشن کمیشن اور نیب کو بھی آپ نے جتنی آزادی دینی ہے آپ دے دیں اور بیوروکریسی کے تقرر اور تبادلوں کی پالیسی بھی ایک ہی بار بنا لیں تا کہ یہ تھیٹر ختم ہو اور ملک آگے بڑھ سکے۔
یہ ہو سکتا ہے لیکن یہ ان لوگوں کو سوٹ نہیں کرتا اگر آرمی چیف' چیف جسٹس اور الیکشن کمشنر کا فیصلہ خود کار طریقے سے ہو جائے گا تو پھر نااہل سیاست دان اقتدار میں کیسے آئیں گے اور اگر نااہل سیاست دان اقتدار میں نہیں آئیں گے تو ایکسٹینشن کیسے ہو گی لہٰذا سردست ملک میں گینگز ختم نہیں ہو سکتے' اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتے جب تک اس واسے پور کا اختتام نہیں ہوتا' جب تک دائرہ ختم نہیں ہوتااس وقت تک یہ سفر بھی ختم نہیں ہوگا۔