گولیاں کھائیے علامہ بن جائیے
ٹیکنالوجی سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے نکولس نیگروپونٹے کا نام اجنبی نہیں۔
ٹیکنالوجی سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے نکولس نیگروپونٹے کا نام اجنبی نہیں۔
یونانی نژاد امریکی ایک آرکیٹکٹ اور عالمی شہرت یافتہ تعلیمی و تحقیقی ادارے، میساچوسیٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی میڈیا لیب کا بانی اور اعزازی چیئرمین ہے۔ نکولس کو عالمی شہرت One Laptop per Child Association کے قیام سے ملی تھی۔ اس تنظیم کا مقصد دنیا بھر کے اسکولوں میں زیرتعلیم بچوں کو ایک ایک لیپ ٹاپ مہیا کرنا ہے۔ یہ بات کم لوگوں کے علم میں ہوگی کہ نکولس ٹیکنالوجی کی دنیا کا ' نجومی ' ہے۔ 1992ء میں نکولس نے '' وائرڈ میگزین'' جاری کیا تھا۔
اس ماہنامے میں نکولس کے کالم پانچ برس تک باقاعدگی سے چھپتے رہے تھے۔ اپنے کالموں میں نکولس ٹیکنالوجی کی دنیا سے متعلق پیش گوئیاں بھی کیا کرتا تھا۔ اس حوالے سے اس نے Being Digital کے عنوان سے ایک کتاب بھی لکھی تھی۔ بیسٹ سیلر قرار پانے والی اس کتاب کا ترجمہ بیس زبانوں میں ہوچکا ہے۔
ویڈیو اور ٹیلی ویژن سے لے کر وائرلیس اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی تک نیگرو پونٹے کی متعدد پیش گوئیاں درست ثابت ہوچکی ہیں۔ گذشتہ دنوں ایک بین الاقوامی کانفرنس کے دوران خطاب کرتے ہوئے نیگروپونٹے نے پیش گوئی کی کہ آئندہ تیس برسوں میں انسان کو مختلف زبانیں سیکھنے کے لیے محنت کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
وہ بس ایک گولی کھائے گا اور مطلوبہ زبان اس کے ذہن پر نقش ہوجائے گی، اور وہ اہل زبان کی طرح اس زبان میں گفتگو کرسکے گا۔
نکولس کا کہنا تھا کہ آنکھیں ہمارے لیے معلومات کے حصول کا اہم ترین ذریعہ ہیں مگر مستقبل میں ان کی جگہ گولیاں لے لیں گی۔ گولیوں کے معدے میں منتقل ہوتے ہی ان میں چھپی معلومات خون میں شامل ہوکر دماغ کو پہنچ جایا کریں گی۔ یعنی گولیاں معلومات کی فراہمی کا سب سے بڑا ذریعہ ہوں گی۔ کسی بھی موضوع کے بارے میں معلومات اس سے متعلق گولی میں پوشیدہ ہوں گی جسے کھاتے ہی کوئی شخص ان تمام معلومات پر دسترس حاصل کرلے گا۔
اگر نکولس کی یہ پیش گوئی درست ثابت ہوجاتی ہے تو ذرا تصور کیجیے کہ صورت حال کیا ہوگی۔ ہر انسان معلومات کی گولیاں کھاکر علامہ بن جائے گا۔ وہ دنیا کی ہر زبان بولنے پر قادر ہوگا۔ اسے ادب، شاعری، فلسفہ، سائنس و ٹیکنالوجی سمیت تمام علوم پر دسترس ہوگی۔ اب یہ منظرنامہ حقیقت بنتا ہے یا نہیں، یہ آنے والے تین عشروں میں واضح ہوجائے گا۔
یونانی نژاد امریکی ایک آرکیٹکٹ اور عالمی شہرت یافتہ تعلیمی و تحقیقی ادارے، میساچوسیٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی میڈیا لیب کا بانی اور اعزازی چیئرمین ہے۔ نکولس کو عالمی شہرت One Laptop per Child Association کے قیام سے ملی تھی۔ اس تنظیم کا مقصد دنیا بھر کے اسکولوں میں زیرتعلیم بچوں کو ایک ایک لیپ ٹاپ مہیا کرنا ہے۔ یہ بات کم لوگوں کے علم میں ہوگی کہ نکولس ٹیکنالوجی کی دنیا کا ' نجومی ' ہے۔ 1992ء میں نکولس نے '' وائرڈ میگزین'' جاری کیا تھا۔
اس ماہنامے میں نکولس کے کالم پانچ برس تک باقاعدگی سے چھپتے رہے تھے۔ اپنے کالموں میں نکولس ٹیکنالوجی کی دنیا سے متعلق پیش گوئیاں بھی کیا کرتا تھا۔ اس حوالے سے اس نے Being Digital کے عنوان سے ایک کتاب بھی لکھی تھی۔ بیسٹ سیلر قرار پانے والی اس کتاب کا ترجمہ بیس زبانوں میں ہوچکا ہے۔
ویڈیو اور ٹیلی ویژن سے لے کر وائرلیس اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی تک نیگرو پونٹے کی متعدد پیش گوئیاں درست ثابت ہوچکی ہیں۔ گذشتہ دنوں ایک بین الاقوامی کانفرنس کے دوران خطاب کرتے ہوئے نیگروپونٹے نے پیش گوئی کی کہ آئندہ تیس برسوں میں انسان کو مختلف زبانیں سیکھنے کے لیے محنت کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
وہ بس ایک گولی کھائے گا اور مطلوبہ زبان اس کے ذہن پر نقش ہوجائے گی، اور وہ اہل زبان کی طرح اس زبان میں گفتگو کرسکے گا۔
نکولس کا کہنا تھا کہ آنکھیں ہمارے لیے معلومات کے حصول کا اہم ترین ذریعہ ہیں مگر مستقبل میں ان کی جگہ گولیاں لے لیں گی۔ گولیوں کے معدے میں منتقل ہوتے ہی ان میں چھپی معلومات خون میں شامل ہوکر دماغ کو پہنچ جایا کریں گی۔ یعنی گولیاں معلومات کی فراہمی کا سب سے بڑا ذریعہ ہوں گی۔ کسی بھی موضوع کے بارے میں معلومات اس سے متعلق گولی میں پوشیدہ ہوں گی جسے کھاتے ہی کوئی شخص ان تمام معلومات پر دسترس حاصل کرلے گا۔
اگر نکولس کی یہ پیش گوئی درست ثابت ہوجاتی ہے تو ذرا تصور کیجیے کہ صورت حال کیا ہوگی۔ ہر انسان معلومات کی گولیاں کھاکر علامہ بن جائے گا۔ وہ دنیا کی ہر زبان بولنے پر قادر ہوگا۔ اسے ادب، شاعری، فلسفہ، سائنس و ٹیکنالوجی سمیت تمام علوم پر دسترس ہوگی۔ اب یہ منظرنامہ حقیقت بنتا ہے یا نہیں، یہ آنے والے تین عشروں میں واضح ہوجائے گا۔