میرپور ساکرو میں لیم اسٹون نکالنے سے بیماریاں پھیلنے کیخلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ
مائننگ کی وجہ سے وہاں کے لوگ کینسر اور دمہ سے مر رہے ہیں، درخواست پر آج ہی فیصلہ کریں گے، سندھ ہائی کورٹ
میرپور ساکرو میں لیمی اسٹون نکالنے سے بیماریاں پھیلنے کے خلاف درخواست پر سندھ ہائی کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق جسٹس صلاح الدین پہنور کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو میرپور ساکرو میں لیمی اسٹون نکالنے سے بیماریاں پھیلنے سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی۔
درخواست گزار کے وکیل نے موقف دیا کہ میرپور ساکرو ولی کھتیار گاؤن میں لیمی اسٹون نکالا جا رہا ہے۔ 5 سال کا ٹھیکہ تھا مکمل ہوگیا لیکن اب بھی پتھر اٹھایا جارہا ہے، پتھر نکالنے کی وجہ سے لوگوں میں بیماریاں پھیلنے لگی ہیں، گرد و غبار کے سبب لوگ بیمار پڑ گئے ہیں،عدالت نے کول مائن اینڈ منرل کے ٹھیکوں کی تفصیلات طلب کی تھی لیکن حکام کی جانب سے کوئی رپورٹ پیش نہیں کی گئی۔
تفصیلات جمع نہ کرنے پر عدالت کول مائن اینڈ منرل حکام پر برہم ہوگئی۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ڈائریکٹر کیوں نہیں پیش ہوئے کیا وہ بیمار ہیں؟ عدالت نے ڈپٹی ڈائریکٹر سے استفسار کیا کہ جہاں مائننگ پراجیکٹس ہیں وہاں سے ویلفئیر کیلئے کتنا فنڈز اکھٹا کرتے ہیںَ
ڈپٹی ڈائریکٹر عدالت کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے اس پر جسٹس صلاح الدین پنہور نے ڈپٹی ڈائریکٹر کول مائن پر اظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ کو تو کچھ بھی نہیں پتا، کتنے سال سے اس محکمے میں کام کر رہے ہیں؟ اس پر انہوں ںے کہا کہ وہ 9 سال سے ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں۔
جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دیئے کہ 9 سال سے کام کر رہے ہیں آپ کو کنٹریکٹ تک کا نہیں پتا؟
محکمہ مائنز اینڈ منرل نے رپورٹ پیش کردی جس میں بتایا ہے کہ ہم نے کول مائن ٹھیکوں سے 25 ارب روپے حاصل کیے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ 25 بلین کہاں جمع کروائے کہاں خرچ ہوئے؟ سرکاری وکیل نے موقف دیا کہ پیسے فنانس ڈیپارٹمنٹ میں جمع کیے گئے ہیں۔
جسٹس صلاح الدین پنہور نے استفسار کیا کہ بتائیں ان پیسوں سے کتنا لوگوں کی ویلفئیر کیلئے خرچ ہوا؟ کتنے وہاں کے مقامی بچوں کو اسکالرشپ دی گئیں؟ جہاں سے کول مائن پتھر نکلتا ہے وہاں کتنے آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے کالج بنائے؟ وہاں کے لوگ کول مائننگ کی وجہ سے کینسر اور دمہ سے مر رہے ہیں۔
درخواست گزار کے وکیل نے موقف دیا کہ جتنی بھی زمین تھی پتھر نکالنے کی وجہ سے سب کچھ تباہ ہوگئی۔
جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں پتا ہے لوگ سانس کی تکلیف میں مر رہے ہیں۔ عدالت نے ڈپٹی ڈائریکٹر سے استفسار کیا کہ آپ کہاں رہتے ہیں وہاں تو نہیں رہتے ہوں گے جہاں مائننگ ہوتی ہے، آپ تھوڑی وہاں رہیں گے آپ کو وہاں رہ کر مرنا ہے کیا؟ آپ اپنے بچوں کو سرکاری اسکول میں بھی نہیں پڑھائیں گے؟ سروس اسپتال سے علاج بھی نہیں کرائیں گے۔
عدالت نے سختی کے ساتھ کہا کہ آج ہی درخواست پر فیصلہ سنایا جائے گا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق جسٹس صلاح الدین پہنور کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو میرپور ساکرو میں لیمی اسٹون نکالنے سے بیماریاں پھیلنے سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی۔
درخواست گزار کے وکیل نے موقف دیا کہ میرپور ساکرو ولی کھتیار گاؤن میں لیمی اسٹون نکالا جا رہا ہے۔ 5 سال کا ٹھیکہ تھا مکمل ہوگیا لیکن اب بھی پتھر اٹھایا جارہا ہے، پتھر نکالنے کی وجہ سے لوگوں میں بیماریاں پھیلنے لگی ہیں، گرد و غبار کے سبب لوگ بیمار پڑ گئے ہیں،عدالت نے کول مائن اینڈ منرل کے ٹھیکوں کی تفصیلات طلب کی تھی لیکن حکام کی جانب سے کوئی رپورٹ پیش نہیں کی گئی۔
تفصیلات جمع نہ کرنے پر عدالت کول مائن اینڈ منرل حکام پر برہم ہوگئی۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ڈائریکٹر کیوں نہیں پیش ہوئے کیا وہ بیمار ہیں؟ عدالت نے ڈپٹی ڈائریکٹر سے استفسار کیا کہ جہاں مائننگ پراجیکٹس ہیں وہاں سے ویلفئیر کیلئے کتنا فنڈز اکھٹا کرتے ہیںَ
ڈپٹی ڈائریکٹر عدالت کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے اس پر جسٹس صلاح الدین پنہور نے ڈپٹی ڈائریکٹر کول مائن پر اظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ کو تو کچھ بھی نہیں پتا، کتنے سال سے اس محکمے میں کام کر رہے ہیں؟ اس پر انہوں ںے کہا کہ وہ 9 سال سے ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں۔
جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دیئے کہ 9 سال سے کام کر رہے ہیں آپ کو کنٹریکٹ تک کا نہیں پتا؟
محکمہ مائنز اینڈ منرل نے رپورٹ پیش کردی جس میں بتایا ہے کہ ہم نے کول مائن ٹھیکوں سے 25 ارب روپے حاصل کیے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ 25 بلین کہاں جمع کروائے کہاں خرچ ہوئے؟ سرکاری وکیل نے موقف دیا کہ پیسے فنانس ڈیپارٹمنٹ میں جمع کیے گئے ہیں۔
جسٹس صلاح الدین پنہور نے استفسار کیا کہ بتائیں ان پیسوں سے کتنا لوگوں کی ویلفئیر کیلئے خرچ ہوا؟ کتنے وہاں کے مقامی بچوں کو اسکالرشپ دی گئیں؟ جہاں سے کول مائن پتھر نکلتا ہے وہاں کتنے آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے کالج بنائے؟ وہاں کے لوگ کول مائننگ کی وجہ سے کینسر اور دمہ سے مر رہے ہیں۔
درخواست گزار کے وکیل نے موقف دیا کہ جتنی بھی زمین تھی پتھر نکالنے کی وجہ سے سب کچھ تباہ ہوگئی۔
جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں پتا ہے لوگ سانس کی تکلیف میں مر رہے ہیں۔ عدالت نے ڈپٹی ڈائریکٹر سے استفسار کیا کہ آپ کہاں رہتے ہیں وہاں تو نہیں رہتے ہوں گے جہاں مائننگ ہوتی ہے، آپ تھوڑی وہاں رہیں گے آپ کو وہاں رہ کر مرنا ہے کیا؟ آپ اپنے بچوں کو سرکاری اسکول میں بھی نہیں پڑھائیں گے؟ سروس اسپتال سے علاج بھی نہیں کرائیں گے۔
عدالت نے سختی کے ساتھ کہا کہ آج ہی درخواست پر فیصلہ سنایا جائے گا۔