تیزاب گردی کے واقعات کا انسداد

تیزاب بظاہر ایک معمولی سی شے ہے جو وطن عزیز میں عام دکانوں پر با آسانی دستیاب ہے۔

S_afarooqi@yahoo.com

تیزاب بظاہر ایک معمولی سی شے ہے جو وطن عزیز میں عام دکانوں پر با آسانی دستیاب ہے۔ یہ صنعتی استعمال کے علاوہ کنزیومر آئٹم کے طور پر لوگ گھریلو استعمال کے لیے بھی بازار سے خرید کر لاتے ہیں۔ پاکستان میں اس کی قیمت امریکا میں فروخت ہونے والی پانی کی بوتل سے بھی کم ہے۔ مگر یہ ہے بڑی ظالم اور خطرناک شے۔ یہ محض چند سیکنڈ میں کسی کی زندگی کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ صنف نازک کے خلاف دہشت گردی کا انتہائی خوفناک ہتھیار ہے۔ شاید عام لوگوں کو اس بات کا احساس نہیں ہے کہ یہ دہشت گردوں کے بم دھماکوں سے بھی زیادہ تباہ کن اور ہولناک ہے۔

پاکستان میں خواتین کے اوپر تیزاب پھینکنے کی مکروہ وارداتوں اور واقعات کی خبریں آئے دن اخبارات میں شایع اور الیکٹرونک میڈیا پر نشر ہوتی رہتی ہیں۔ ان واقعات کا مرکزی نشانہ زیادہ تر وہ مظلوم خواتین ہی ہوتی ہیں جن سے اوباش اور عیاش قسم کے مرد اپنی من مانی میں ناکامی کے نتیجے میں انتقام لیتے ہیں۔ سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ ان واقعات میں کمی کے بجائے مسلسل اضافہ ہی ہورہا ہے اور حکومتی سطح پر انسدادی اقدامات قطعی غیر اطمینان بخش ہیں۔ اس سے انکار ممکن نہیں کہ جنسی ہوسناکی اس گمبھیر صورت حال کا سب سے بڑا محرک ہے جس کی ذمے داری میڈیا کی جانب سے پھیلائی جانے والی عریانیت پر بھی عائد ہوتی ہے ۔ اگرچہ بعض اہل قلم نے اس صورت حال کے خلاف صدائے احتجاج بھی بلند کی ہے مگر نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ صدا بہ صحرا ہی ثابت ہوئی ہے۔

سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ خواتین کی جانب سے آج تک کسی نے اس استحصال کے خلاف آواز بلند کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عریانی کا ایک سیلاب امنڈ آیا ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہا اور ہمارے ارباب اختیار، خصوصاً فلم سنسر بورڈ کے ارکان محض خاموش تماشائیوں کی طرح اس صورت حال پر چپ سادھے ہوئے بیٹھے ہیں۔ جنسی جرائم میں تیزی سے اضافے کا بھی سب سے بڑا سبب عورت کا Overexposure ہی ہے۔ اس صورت حال پر کسی دل جلے شاعر کا یہ شعر یاد آرہا ہے۔

یارب نگاہ ناز پر لائسنس کیوں نہیں

یہ بھی تو قتل کرتی ہے تلوار کی طرح


اس صورت حال کے سب سے زیادہ خطرناک اثرات ہماری نوجوان نسل پر مرتب ہورہے ہیں جس پر ہمارے ملک و قوم کے مستقبل کا دار و مدار ہے۔ سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے بھی اب ان اثرات کی زد میں آچکے ہیں جس کے بعد آیندہ کا بس اﷲ ہی حافظ ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2007 اور 2012 کے درمیان تیزاب پھینکنے کے 786 واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ صورت حال انتہائی تشویشناک اور چشم کشا ہے مگر اس کے باوجود ہمارے ارباب اختیار کی آنکھیں کھل نہیں سکیں۔ پاکستان میں ایسڈ کنٹرول اینڈ ایسڈ پریوینشن بل موجود ہے۔ جس کے تحت تیزاب پھینکنے والے مجرموں کے لیے14 سال کی قید اور 10 لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا مقرر کی گئی ہے لیکن اس بل کی منظوری سے قبل تیزاب پھینکنے کی وارداتوں میں کافی اضافہ ہوچکا تھا۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ قانون سازی کے باوجود پاکستان میں ہر سال تیزاب پھینکنے کے 150 واقعات رپورٹ ہوتے ہیں جب کہ ایسے نہ جانے کتنے واقعات اس کے علاوہ ہوںگے جو منظر عام پر نہیں آتے اور مجرموں کی جانب سے استعمال کیے جانے والے ہتھکنڈوں کی وجہ سے رپورٹ بھی نہیں ہوتے۔خواتین پر تیزاب پھینکنے والے مردوں کا یہ رویہ ان کے اخلاقی دیوالیہ پن کی کھلی عکاسی کرتا ہے، ان حملوں کا نشانہ بننے والی مظلوم خواتین جن میں زیادہ تر پاک دامن دوشیزائیں ہوتی ہیں، زندہ درگور ہوجاتی ہیں۔

ان تیزابی حملوں کے معاشرتی اور نفسیاتی اثرات بے شمار اور بے اندازہ ہیں۔ ان حملوں کا نشانہ بننے والے بیشتر افراد صحت یابی کے بعد ذہنی الجھنوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ چار و ناچار انھیں دوسروں کا سہارا لینا پڑتا ہے اور روزگار کے مواقع ان کے لیے محدود ہوجاتے ہیں کیوں کہ وہ خود کو منہ دکھانے کے قابل نہیں سمجھتے اور احساس کمتری میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں بھی صورت حال کم و بیش ایسی ہی ہے لیکن ایک فرق یہ ہے کہ وہاں قانون کے تحت تیزاب کی فروخت قواعد و ضوابط کی پابند ہے، یہ پابندیاں 2013 میں اس واقعے کے نتیجے میں عائد کی گئی تھیں جب موٹر سائیکل پر سوار دو نوجوانوں نے چار بہنوں پر تیزاب پھینکا تھا۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ وطن عزیز میں حکومتی سطح پر تیزاب پھینکنے کی وارداتوں کے سدباب کے لیے فوری اور موثر اقدامات کیے جائیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سخت سے سخت ہدایات جاری کی جائیں اور نااہلی کے مرتکب اہلکاروں اور افسران کے خلاف سخت ترین تادیبی کارروائی کی جائے۔

اس کے علاوہ تیزاب پھینکنے کے مکروہ جرم کے انسداد کے لیے قانون کے شکنجے کو بھی زیادہ سے زیادہ کسا جائے اور اس نوعیت کے مقدمات کی کارروائی کم سے کم وقت میں تکمیل کے لیے یا تو خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں یا جوڈیشل پروسیس کو آسان اور فعال بنایاجائے لیکن ان تمام باتوں سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچا جائے اور متاثرین کو علاج معالجے کی سہولتوں کی فراہمی کے ساتھ بھاری معاوضے دلوائے جائیں تاکہ وہ لاوارث اور بے سہارا ہوکر زندگی گزارنے پر مجبور نہ ہوں۔ حکومت کو ہماری تجویز یہ بھی ہے کہ تیزاب کی فروخت کو قواعد و ضوابط کا پابند کیا جائے۔
Load Next Story