کاشتکاروں کی حالت زار

ملٹی نیشنل کمپنیوں نے پسماندہ ملکوں کی زراعت پر ہلا بولا ہوا ہے۔

zb0322-2284142@gmail.com

ملٹی نیشنل کمپنیوں نے پسماندہ ملکوں کی زراعت پر ہلا بولا ہوا ہے۔ یہ کمپنیاں لاکھوں ایکڑ زمین کو پٹے پر لے کر ان میں مصنوعی اور جبری طور پر بساط سے زیادہ پیداوار لے کر زمینوں کو بنجر بنا رہی ہیں۔ ایسے ادویات، کھاد اور بیج استعمال کر رہی ہیں جن پر یورپ اور امریکا میں بھی استعمال کرنے پر پابندی ہے۔ جنوبی افریقہ، برازیل، مڈاغاسکر، نائیجیریا، کینیا اور چین میں ان کمپنیوںنے زمین کے ساتھ ساتھ ان کے آبی وسائل پر بھی قبضہ جما رکھا ہے۔

یہ کمپنیاں زمین پٹے پر لینے کے وقت حکومت سے یہ طے کرتی ہیں کہ ان زمینوں پر کام کرنے والے کسانوں کو یونین نہیں بنانے دیں گے، کمپنیوںسے پیداواری ٹیکس نہیں لیا جائے گا۔ پانی اور بجلی کی فراہمی میں رعا یت دی جائے گی۔ زمین سے پیدا ہونے والی زرعی اجناس کی نقل حمل پر کوئی ٹیکس اور حدود مقرر نہیں کیا جائے گا وغیرہ وغیرہ۔ جینیٹک موڈیفائیڈ بیج کی پیداوار صحت کے لیے اور نسلوں کے لیے بہت ہی خطرناک ہوتا ہے جو مختلف اور نئی قسم کی بیماریوں کے جراثم پیدا کرتی ہیں۔ امریکی حکومت جی ایم بیج کی پیداوار اپنے عوام کو فراہم نہیںکرتی بلکہ قدرتی بیج کی پیداوار فراہم کی جاتی ہے۔

اقوام متحدہ کے سابق جنرل سیکریٹری کوفی عنان نے ایک بار اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ افریقیوں کا مر جانا بہتر ہے لیکن جی ایم بیج کی پیداوار کو استعمال میں لانا اس سے زیادہ خطرناک ہے۔ اس لیے کہ یہ نسل درنسل بیماریوں کو پروان چڑھاتی ہے۔ برازیل کی حکومت نے تو ان زہریلی ادویات، پیسٹیسائیڈاور کھاد کے بے دریغ استعمال کے خلاف ایک تحقیقی ادارہ قائم کیا اور اس کے رپورٹ کے مطابق زمین کی معدنیات، نمکیات اور قدرتی کھاد تیزی سے ختم ہو کر زمین بنجر ہونے لگی اور قوت پیداوار میں مسلسل گراوٹ آنے لگی پھر وہاں کی حکومت نے ان کمپنیوں سے ایک حد تک چھٹکارہ حاصل کرنے کی کوشش کی اور کچھ زمینوں کو ان کے چنگل سے آزاد کیا۔

وہاں کی مٹی بھی زہرآلود ہو چکی تھی۔ انھیں کھدائی کر کے وہاں سے نکال کر دوسری جگہوں پر ڈالا گیا۔ وہاں نئی مٹی ڈال کر کاشت کی گئی جس کے نتیجے میں پیداوار بہتر اور صحت مند ہونے لگی۔ اسی طرح جنوبی افریقہ کے پانی پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کے قابض ہونے کے خلاف وہاں کے کسانوںنے تاریخی ہڑتالیں کیں۔ مڈغاسکر کے کسانوں نے زمین پٹے پر دینے کے خلاف ہڑتال کی اور حکومت کے خلاف ہلہ بول دیا، جس کے نتیجے میں بے شمار لوگ مارے گئے۔ آخرکار حکومت کو ملٹی نیشنل کمپنی سے کیے گئے معاہدے کو منسوخ کرنا پڑا۔

ہندوستان کے کئی علاقوں خصوصاً آندھراپردیش، مشرقی پنجاب اور راجستھان میں 35 لاکھ ایکڑزمین پرکاشتکاروں نے خودکار انجمنوں کے ذریعے کاشتکاری شروع کی۔ انھوںنے کیمیائی کھاد کے بجائے قدرتی کھاد استعمال کرنا شروع کر دیا۔ میزورام کی صوبائی حکومت نے تو سرکاری طور پر فیصلہ کر لیا ہے کہ اب وہ کیمیائی کھاد زمین میں استعمال نہیں کریگی جب کہ پاکستان میں ۲۷۹۱ء کی زرعی اصلاحات پر آج تک عملدرآمد نہیں ہوا۔


جب اس پر ایک موقعے پر پیش قدمی ہوئی تو شرعی عدالت نے اس پر عملدرآمد کرنے سے روک دیا۔ اب اس کی اپیل سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے۔ اس زرعی اصلاحات کروانے کے عمل میں عوامی ورکرز پارٹی کے چیئرمین فانوس گوجر پیش پیش ہیں۔ پاکستان میں لاکھوں ایکڑ زمین خاص کر سرگودھا، اٹک، بھاولپور، میرپور خاص، ڈیرہ غازی خان، مکران اور ہزارہ کے علاقے میں جنھیں پٹے پر آسٹریلیا، جنوبی کوریا، قطر، سعودی عرب اور عرب امارات کی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے زرعی کارپوریٹ فارمنگ کے لیے پاکستان کی حکومت سے معاہدے کیے ہیں۔

انھیں پانی کے لیے مفت بورنگ کی اجازت بھی دی گئی ہے۔ بجلی پیدا کرنے کی بلاٹیکس سہولت فراہم کی جا چکی ہے۔ پیداوار پر کوئی ٹیکس لگے گا اور نہ نقل حمل پر۔ زیارت میں پہلے 900 فٹ کی گہرائی پہ پانی مل جا تا تھا، اب 1300 فٹ پر پانی میسر ہے۔ جس کے نتیجے میں یہاں سیب کی کاشت میں 50فیصد کمی آئی ہے۔ بھلوال جو کہ دنیا میں سب سے زیادہ اچھا اور زیادہ کینو پیدا کرتا ہے۔ پاکستان کی حکومت اسے برآمد کرکے خاصی رقم زر مبادلہ کے طور پر حاصل کرتی ہے لیکن کینو کے کاشتکاروں کو بہت کم پیسے ملتے ہیں۔

فیکٹری مالکان، آڑھتی اور برآمدکنندگان کاشتکاروں سے سستی قیمت میں کینو خریدتے ہیں اور خوب منافع لوٹتے ہیں۔ اسی طرح پنجاب، سندھ اور مردان وغیرہ جہاں گنے کی کاشت زیادہ ہے، شوگر مل مالکان بہت ہی کم قیمت میں کاشتکاروںسے گنا خریدتے ہیں۔ ان چینی کے مل مالکان زیادہ تر حکمراں جماعتوں کے ہیں۔ ۲۷۹۱ء کے زرعی اصلاحات پر عملدرآمد کروانے کے لیے شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں عوامی ورکرز پارٹی کے رہنما عابد حسن منٹو ایڈووکیٹ نے اپیل دائر کی ہے جب کہ جاگیرداروں کے دفاع کے لیے تحریک انصاف کے نائب صدر شاہ محمد قریشی کے وکیل عبدالحفیظ پیرزادہ ہیں۔

جن ادویات پر یورپ اور امریکا میں پابندی ہے ایسی جراثیم کش ادویات پاکستان کے زرعی شعبوں میں استعمال ہوتی ہیں، اس پر ادارے خاموش ہیں۔ چھوٹے کاشتکاروں کو دوائیاں، بیج، پانی، بجلی، ٹریکٹرز اور کھاد مہنگے داموں میں ملتا ہے جب کہ بڑے جاگیرداروںکو رعایتی قیمتوں میں میسر ہوتا ہے۔ حال ہی میں عوامی ورکرز پارٹی کے چیئرمین فانوس گوجر کی کاوشوں سے بونیر میں 'بونیرکاشتکار محاذ' جوکہ تمباکو، گندم، مکئی اور سبزیوں کی پیداوار کا جائزہ لینے کے لیے بنائی گئی ہے، معاذاللہ خان اس کے صدر ہیں جو پختون خوا میں پھیلتی جا رہی ہے۔

حال ہی میں اسلام آباد میں خیبرپختون خوا کے کاشتکاروں کے مسائل پر جو سیمینار منعقد ہوا اس میں ان مسائل پر غور و خوص ہوا اور لائحہ عمل طے ہوا۔ کاشتکاروںکی تنظیم سوات، صوابی، مردان اور ڈی آئی خان سمیت 25 اضلاع میںکام شروع کیا ہے اور روابط ہیں۔ پنجاب میں تو پہلے سے ہی 'انجمن مزارعین پنجاب' اور 'پنجاب کسان محاذ' اور کسان بچائو تحریک کام کر رہی ہے۔ کاشتکاروں اور کسانوںکے مسائل پر 'انٹرنیشنل مارکسسٹ ٹینڈینسی' (آئی ایم ٹی) پاکستان میں واحد تنظیم ہے جو ان کارپوریٹ ایگریکلچر فارمنگ کی ڈٹ کر مخالفت کرتی ہے اور جدوجہد کرتی ہے۔

آئی ایم ٹی صرف پاکستان میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے کاشتکاروں کے خلاف کیے جانے والے مظالم اور استحصال کے خلاف آواز اٹھاتی ہے۔ کاشتکاروں اور کسانوں کی جدوجہد ایک روز ضرور رنگ لائے گی اور اپنے مسائل بھی ایک حد تک حل کروائے گی۔ فانوس گوجر اور ان کے رفقاء کی جدوجہد بھی ایک روز رنگ لائیگی مگر مسائل کا مکمل حل صرف ایک کمیونسٹ انقلاب میں ہی مضمر ہے جہاں زمین کی مشترکہ ملکیت ہو گی، سب مل کر پیداوار کریں گے اور مل کر بانٹ لیں گے۔
Load Next Story