حوالات میں طالب علم کی ہلاکت
پولیس خودکشی اور ورثاء قتل قرار دے رہے ہیں
بدقسمتی سے پولیس حراست میں کسی کی ہلاکت ہمارے ہاں نئی بات نہیں ہے۔
آئے روز ایسے واقعات رپورٹ ہوتے رہتے ہیں اور کچھ روز سے ایک ایسا ہی کیس شیرگڑھ میں بھی معمہ بنا ہوا ہے، مرنے والے کے ورثا کے مطابق موت پولیس تشدد کا نتیجہ ہے، پولیس کا کہنا ہے کہ طالب علم نے خودکشی کی ہے، پوسٹ مارٹم کے حوالے سے ایم ایس ڈی ایچ کیو مردان ڈاکٹر محمد طاہر کے موقف نے بھی کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
طالب علم، اختر علی کی موت کی کہانی کچھ اس طرح ہے، سیرئی محلہ کے رہایشی عبداللہ شاہ کے گھر سے دس تولے زیورات، پستول،دوموبائل اور21 ہزار روپے چوری ہوئے، اس نے پتا چلانے کے لیے سراغ رساں کتے منگوائے جو سیدھے جا کر اُسی محلے کے رہائشی سبز علی کے بیٹے اختر کی چارپائی پر چڑھ گئے، اس کی گھر میں عدم موجودگی کی وجہ سے باپ اور بھائی اصغر علی کو تھانے لے جایا گیا۔
کچھ دیر بعد اختر خود تھانے پیش ہو گیا، باپ اور بھائی کو تو چھوڑ دیا گیا لیکن اختر کو تفتیش کے لیے روک لیا گیا، والد کے مطابق اس کی موجودگی میں اختر علی پر بے تحاشا تشدد کیا گیا، اگلے روز23 اگست کواخترکے دو رشتہ دار ملاقات کے لیے گئے تو وہ حوالات میں موجود نہیں تھا،اہل کاروں نے حوالات کھول کر لیٹرین میں دیکھا تو اس کے گلے میں پھندا تھا اور وہ بے ہوش تھا۔
رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ وہ زمین پر پڑا تھا جبکہ پولیس کہتی ہے کہ وہ لٹک رہا تھا، بہ ہرحال اس کو ایک نجی اسپتال منتقل کیا گیا ،مگر ڈاکٹر نے مردان میڈیکل کمپلیکس ریفر کر دیا، وہاں دو اڑھائی گھنٹے تک زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد اُس نے دم توڑ دیا،پہلا پوسٹ مارٹم بھی وہیں ہوا، ورثا لاش اٹھا کر وزیر اعلیٰ کے گھر ہوتی ہائوس کے سامنے لے گئے اور سڑک پر رکھ کر دو گھنٹے تک احتجاج کیا۔
پولیس افسران کی یقین دہانی پر احتجاج ختم کر دیا گیا، اگلے روز شیرگڑھ میں ہزاروں لوگ احتجاج کے لیے نکلے اور میت ملاکنڈ روڈ پر رکھ دی، پانچ گھنٹے تک سڑک بند رکھی، کافی دیر بعد ڈی پی اومردان، دانشور، ڈی سی او مردان، ذکااللہ، ڈی ایس پی تخت بھائی، شاکر اللہ بنگش اور ڈی ایس پی، خالد نسیم نفری سمیت پہنچے اور مذاکرات کا آغاز کیا ۔
احتجاج میں سابق صوبائی وزیر فضل ربانی، حافظ سعید شاہد خان، مولانا قیصر الدین، عیسٰی خان اور متحدہ لیبرفیڈریشن کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات، مسلم صابر سمیت دیگر سیاسی پارٹیوں کے کارکن بھی شریک تھے، ڈی پی او نے مذاکرات کے بعد ایس ایچ او شیر گڑھ، فضل اکبر، محرر عارف کو معطل کرکے لائن حاضر کر دیا اور انکوائری کا حکم دیا۔
جبکہ ڈی سی او نے دوسرے پوسٹمارٹم کا حکم دیا جو بعدازاں گنجئی اسپتال میں ہوا، اس دوران مظاہرین مشتعل بھی ہوئے اور تھانے پر پتھرائو بھی کیا، پولیس نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے لاٹھی چارج کیا اور ہوائی فائرنگ کی، آنسو گیس کے کئی شیل گھروں میں گرے، جس سے خواتین اور بچوں سمیت کئی افراد زخمی اور بے ہوش ہوئے، تقریباً دو گھنٹے تک علاقہ میدانِ جنگ بنا رہا۔
صورت حال خراب ہونے پر ڈی پی او نے دوبارہ مذاکرات کے لیے مقامی سیاسی قائدین کو تھانے بلا لیا جن میں ممبر قومی اسمبلی، مولانا محمد قاسم، حاجی بہادر خان، امن جرگہ کے چیئرمین سید کمال شاہ، فضل ربانی، شاہد خان، متحدہ لیبرفیڈریشن کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات، مسلم صابر اور اختر کے ورثا شامل تھے، کمشنر مردان عادل خان اور ڈی جی مردان عبداللہ خان بھی موقع پر پہنچے اور یوں باقاعدہ ایف آئی آر درج ہوئی۔
کچھ دیر بعد میت کو سپرد خاک کر دیا گیا، 25 اگست کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج، جمال خان نے اختر کے والدین کو عدالت بلا کر ابتدائی معلومات لیں اور دو درخواستیں لکھوائیں، جن میں سے ایک میں جوڈیشل انکوائری اوردوسری میں قبر کشائی کی صورت میں اعتراض نہ کر نے کی یقین دہانی لی گئی تھی۔
27 اگست کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے شیرگڑھ آ کر مجوزہ قبر کشائی کو موخر کر دیا اور سول جج تخت بھائی کو انکوائری افسر مقرر کر دیا، انھوں نے معطل ایس ایچ او، فضل اکبر، معطل محرر،عارف تحصیل ہیڈکوارٹر اسپتال گنجئی میں پوسٹمارٹم کرنے والے ڈاکٹر اورنگ زیب، ڈاکٹر نور اسلام اور آر ایچ سی، شیر گرھ کے ڈاکٹر سیف الرحمان کے بیانات قلم بند کیے۔
اگلے روز ڈی ایچ کیو مردان کے ایم ایس ڈاکٹر محمد طاہر عدالت آئے مگر ان کا بیان نہیں لیا گیا اوراگلے روز آنے کا کہا گیا ،اس دوران پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس دوست محمد خان نے واقع کا سوموٹو نوٹس لے لیا جبکہ وزیر اعلیٰ کے والد اعظم ہوتی نے شیر گڑھ آ کر مظلوم خاندان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کر کے ملوث اہل کاروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا وعدہ کیا مگر اطلاعات کے مطابق کیس ستر فی صد پولیس کے حق میں ہے ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مظلوم خاندان کے ساتھ انصاف ہو گا یا نہیں اس کیس کی شفاف انکوائری کی ضرورت ہے، صوبائی امن جرگہ کے مرکزی چیئرمین سید کمال شاہ باچہ نے مظلوم خاندان کے لیے تین وکلا کا ایک پینل بنا دیا گیا ہے، جو اس خاندان کو مفت قانونی امداد فراہم کرے گا،انھوں نے اس خاندان کی مالی مدد بھی کی۔
سید کمال شاہ نے سراغ رساں کتوں کے ذریعے ملزم کا پتا چلانے کے طریقہ کار پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ یہ انصاف کے منافی ہے کیوں کہ اس طریقے میں زیادہ تر کیس حل ہونے کے بجائے مزید اُلجھ جاتے ہیں، ہائی کورٹ نے کتوں کے ذریعے سراغ رسانی کے خلاف فیصلہ دیا ہواہے، لہٰذا آ ئی جی پی بلا تاخیر تمام اضلاع کے ڈی پی اوزکو اس قسم کی انکوائری سے منع کریں۔
اختر علی کے جنازہ کے موقع پر لوگوں نے ''ایکسپریس'' کو بتایا ، سراغ رساں کتوں کے ذریعے تحقیقات کا سلسلہ بند کیا جائے اور اس بات کے ایس ایچ او فضل اکبر خود بھی قائل ہیں کہ اختر علی نے چوری نہیں کی تھی اور انھوں نے مدعی کو بھی کہا تھا کہ وہ اس پر الزام نہ لگائیں۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ اور ڈاکٹر طاہر کے انکشافات:ڈی ایچ کیو مردان کے ایم ایس، ڈاکٹر محمد طاہر کا کہنا ہے کہ ابھی اس کیس کی انکوائری ابتدائی مراحل میں تھی کہ ان کا تبادلہ کر دیا گیا، ڈی آئی جی مردان نے فون کرکے پوسٹ مارٹم کرنے اوران کی مرضی کے مطابق رپورٹ جاری کرنے کا کہا۔
جس پر میں نے انکار کر دیا، اس کے بعد کمشنر مردان عادل خان نے بھی ایسی ہی ہدایات دینے کی کوشش کی انکار پر دھمکی آمیز لہجہ اختیار کیا اورانتقام کے طور پر میرا تبادلہ کر دیا گیا، جس پر میں نے سیشن جج مردان کی عدالت سے حکم امتنا عی حاصل کیا اور اب مجھے ڈرایا اوردھمکایا جا رہا ہے۔
مگر میں اپنے موقف پر قائم ہوں اور رہوں گا، دونوں پوسٹ مارٹم کی رپورٹیں غلط ہیں، کیونکہ ایک ڈاکٹر پوسٹمارٹم کے عین وقت عمرہ کر کے سعودی عرب سے و طن لوٹا تھا جبکہ رپورٹ پر جن ڈاکٹرز کے دستخط ہیں، اُن میں بیش تر پوسٹ مارٹم کے وقت موجود ہی نہ تھے، انہو ں نے کہا ، تیسرا پوسٹمارٹم ضروری ہو گیا ہے کیوں کہ ہائیکورٹ کے نوٹس کے بعد چند روز قبل، قبرکشائی کے بعد کیا گیا۔
اخترعلی کا تیسرا پوسٹمارٹم:
جوڈدیشل انکوائری کے آخری مرحلے میں11 ستمبر کو خیبرمیڈیکل یونیورسٹی پشاور کے دو ڈا کٹروں پر مشتمل ٹیم آر ایچ سی شیر گڑھ پہنچی، پولیس کی بھاری نفری نے صبح سے ہی قبرستان کو گھیرے میں لے رکھا تھا۔
ٹھیک ساڑھے دس بجے پشاور سے آنے والے ڈاکٹرپروفیسر حکیم خان آفریدی اور اسسٹنٹ پرو فیسر یوسف خان جوڈیشل انکوائری افسر اعجاز الحق کے ہم راہ قبرستان پہنچے، اس موقع پر متوفی کے ورثاء نے پوسٹمارٹم کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا۔
جس پر ڈاکٹر حکیم خان آفریدی نے ان کو حقائق ہی درج کرنے کی یقین دہانی کرائی اور اختر علی کے ورثا نے قبر کشائی کی اجازت دی اور لاش پوسٹ مارٹم کے لیے آر ایچ سی شیر گڑھ منتقل کر دی گئی جہاں ڈاکٹروں نے دو گھنٹے تک پوسٹ مارٹم کیا، ڈاکٹروں نے انکوائری افسر کو بھی کچھ دیر کے لیے مردہ خانہ طلب کیا ،پوسٹ مارٹم کے بعد لاش ورثاء کے حوالے کر دی گئی۔
ٹیم کا کہنا ہے کہ تین چار روز میں رپورٹ انکوائری افسر کو دی جائے گی جو انکوائری دستاویزات کے ساتھ چیف جسٹس کو بھجوادی جائے گی۔
کمشنر مردان کا موقف:
ڈاکٹر محمد طاہر کے بیانات پر کمشنر مردان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، ان کے تبادلے کا پوسٹ مارٹم رپورٹ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
ان کا تبادلہ میں نے نہیں بلکہ سیکریٹری ہیلتھ نے کیا ہے ، پتا نہیں وہ مجھے کیوں اس معاملے میں گھسیٹ رہے ہیں، پہلا پوسٹ مارٹم میڈیکل کمپلکس مردان میں ہوا۔
پوسٹ مارٹم کے ساتھ ان کا کوئی تعلق ہی نہیں تو میں ان کو کیوں فون کروں گا یا ڈرائوں گا ، انھوں نے زور دے کرکہا ان کے بیانات میں کوئی سچائی نہیں ہے۔
ایکسپریس اور ایکسپریس نیوز کا کردار:اس کیس کے حوالے سے روزنامہ''ایکسپریس'' اور ایکسپریس نیوز کے کردار کو بھی سراہا جا رہا ہے ، کہ اس نے لمحہ بہ لمحہ عوام کو باخبر رکھا ۔
اسی طرح پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے سوموٹو نوٹس بھی ایکسپریس نیوز کی لائیو رپورٹنگ پر لیا، عوامی و سماجی حلقوں کی جانب سے ادارے کو موصول ہونے والی کالز میں ہر خبر پر نظر رکھنے اور عوام تک اطلاعات بروقت پہنچانے پر خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔
آئے روز ایسے واقعات رپورٹ ہوتے رہتے ہیں اور کچھ روز سے ایک ایسا ہی کیس شیرگڑھ میں بھی معمہ بنا ہوا ہے، مرنے والے کے ورثا کے مطابق موت پولیس تشدد کا نتیجہ ہے، پولیس کا کہنا ہے کہ طالب علم نے خودکشی کی ہے، پوسٹ مارٹم کے حوالے سے ایم ایس ڈی ایچ کیو مردان ڈاکٹر محمد طاہر کے موقف نے بھی کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
طالب علم، اختر علی کی موت کی کہانی کچھ اس طرح ہے، سیرئی محلہ کے رہایشی عبداللہ شاہ کے گھر سے دس تولے زیورات، پستول،دوموبائل اور21 ہزار روپے چوری ہوئے، اس نے پتا چلانے کے لیے سراغ رساں کتے منگوائے جو سیدھے جا کر اُسی محلے کے رہائشی سبز علی کے بیٹے اختر کی چارپائی پر چڑھ گئے، اس کی گھر میں عدم موجودگی کی وجہ سے باپ اور بھائی اصغر علی کو تھانے لے جایا گیا۔
کچھ دیر بعد اختر خود تھانے پیش ہو گیا، باپ اور بھائی کو تو چھوڑ دیا گیا لیکن اختر کو تفتیش کے لیے روک لیا گیا، والد کے مطابق اس کی موجودگی میں اختر علی پر بے تحاشا تشدد کیا گیا، اگلے روز23 اگست کواخترکے دو رشتہ دار ملاقات کے لیے گئے تو وہ حوالات میں موجود نہیں تھا،اہل کاروں نے حوالات کھول کر لیٹرین میں دیکھا تو اس کے گلے میں پھندا تھا اور وہ بے ہوش تھا۔
رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ وہ زمین پر پڑا تھا جبکہ پولیس کہتی ہے کہ وہ لٹک رہا تھا، بہ ہرحال اس کو ایک نجی اسپتال منتقل کیا گیا ،مگر ڈاکٹر نے مردان میڈیکل کمپلیکس ریفر کر دیا، وہاں دو اڑھائی گھنٹے تک زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد اُس نے دم توڑ دیا،پہلا پوسٹ مارٹم بھی وہیں ہوا، ورثا لاش اٹھا کر وزیر اعلیٰ کے گھر ہوتی ہائوس کے سامنے لے گئے اور سڑک پر رکھ کر دو گھنٹے تک احتجاج کیا۔
پولیس افسران کی یقین دہانی پر احتجاج ختم کر دیا گیا، اگلے روز شیرگڑھ میں ہزاروں لوگ احتجاج کے لیے نکلے اور میت ملاکنڈ روڈ پر رکھ دی، پانچ گھنٹے تک سڑک بند رکھی، کافی دیر بعد ڈی پی اومردان، دانشور، ڈی سی او مردان، ذکااللہ، ڈی ایس پی تخت بھائی، شاکر اللہ بنگش اور ڈی ایس پی، خالد نسیم نفری سمیت پہنچے اور مذاکرات کا آغاز کیا ۔
احتجاج میں سابق صوبائی وزیر فضل ربانی، حافظ سعید شاہد خان، مولانا قیصر الدین، عیسٰی خان اور متحدہ لیبرفیڈریشن کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات، مسلم صابر سمیت دیگر سیاسی پارٹیوں کے کارکن بھی شریک تھے، ڈی پی او نے مذاکرات کے بعد ایس ایچ او شیر گڑھ، فضل اکبر، محرر عارف کو معطل کرکے لائن حاضر کر دیا اور انکوائری کا حکم دیا۔
جبکہ ڈی سی او نے دوسرے پوسٹمارٹم کا حکم دیا جو بعدازاں گنجئی اسپتال میں ہوا، اس دوران مظاہرین مشتعل بھی ہوئے اور تھانے پر پتھرائو بھی کیا، پولیس نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے لاٹھی چارج کیا اور ہوائی فائرنگ کی، آنسو گیس کے کئی شیل گھروں میں گرے، جس سے خواتین اور بچوں سمیت کئی افراد زخمی اور بے ہوش ہوئے، تقریباً دو گھنٹے تک علاقہ میدانِ جنگ بنا رہا۔
صورت حال خراب ہونے پر ڈی پی او نے دوبارہ مذاکرات کے لیے مقامی سیاسی قائدین کو تھانے بلا لیا جن میں ممبر قومی اسمبلی، مولانا محمد قاسم، حاجی بہادر خان، امن جرگہ کے چیئرمین سید کمال شاہ، فضل ربانی، شاہد خان، متحدہ لیبرفیڈریشن کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات، مسلم صابر اور اختر کے ورثا شامل تھے، کمشنر مردان عادل خان اور ڈی جی مردان عبداللہ خان بھی موقع پر پہنچے اور یوں باقاعدہ ایف آئی آر درج ہوئی۔
کچھ دیر بعد میت کو سپرد خاک کر دیا گیا، 25 اگست کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج، جمال خان نے اختر کے والدین کو عدالت بلا کر ابتدائی معلومات لیں اور دو درخواستیں لکھوائیں، جن میں سے ایک میں جوڈیشل انکوائری اوردوسری میں قبر کشائی کی صورت میں اعتراض نہ کر نے کی یقین دہانی لی گئی تھی۔
27 اگست کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے شیرگڑھ آ کر مجوزہ قبر کشائی کو موخر کر دیا اور سول جج تخت بھائی کو انکوائری افسر مقرر کر دیا، انھوں نے معطل ایس ایچ او، فضل اکبر، معطل محرر،عارف تحصیل ہیڈکوارٹر اسپتال گنجئی میں پوسٹمارٹم کرنے والے ڈاکٹر اورنگ زیب، ڈاکٹر نور اسلام اور آر ایچ سی، شیر گرھ کے ڈاکٹر سیف الرحمان کے بیانات قلم بند کیے۔
اگلے روز ڈی ایچ کیو مردان کے ایم ایس ڈاکٹر محمد طاہر عدالت آئے مگر ان کا بیان نہیں لیا گیا اوراگلے روز آنے کا کہا گیا ،اس دوران پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس دوست محمد خان نے واقع کا سوموٹو نوٹس لے لیا جبکہ وزیر اعلیٰ کے والد اعظم ہوتی نے شیر گڑھ آ کر مظلوم خاندان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کر کے ملوث اہل کاروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا وعدہ کیا مگر اطلاعات کے مطابق کیس ستر فی صد پولیس کے حق میں ہے ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مظلوم خاندان کے ساتھ انصاف ہو گا یا نہیں اس کیس کی شفاف انکوائری کی ضرورت ہے، صوبائی امن جرگہ کے مرکزی چیئرمین سید کمال شاہ باچہ نے مظلوم خاندان کے لیے تین وکلا کا ایک پینل بنا دیا گیا ہے، جو اس خاندان کو مفت قانونی امداد فراہم کرے گا،انھوں نے اس خاندان کی مالی مدد بھی کی۔
سید کمال شاہ نے سراغ رساں کتوں کے ذریعے ملزم کا پتا چلانے کے طریقہ کار پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ یہ انصاف کے منافی ہے کیوں کہ اس طریقے میں زیادہ تر کیس حل ہونے کے بجائے مزید اُلجھ جاتے ہیں، ہائی کورٹ نے کتوں کے ذریعے سراغ رسانی کے خلاف فیصلہ دیا ہواہے، لہٰذا آ ئی جی پی بلا تاخیر تمام اضلاع کے ڈی پی اوزکو اس قسم کی انکوائری سے منع کریں۔
اختر علی کے جنازہ کے موقع پر لوگوں نے ''ایکسپریس'' کو بتایا ، سراغ رساں کتوں کے ذریعے تحقیقات کا سلسلہ بند کیا جائے اور اس بات کے ایس ایچ او فضل اکبر خود بھی قائل ہیں کہ اختر علی نے چوری نہیں کی تھی اور انھوں نے مدعی کو بھی کہا تھا کہ وہ اس پر الزام نہ لگائیں۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ اور ڈاکٹر طاہر کے انکشافات:ڈی ایچ کیو مردان کے ایم ایس، ڈاکٹر محمد طاہر کا کہنا ہے کہ ابھی اس کیس کی انکوائری ابتدائی مراحل میں تھی کہ ان کا تبادلہ کر دیا گیا، ڈی آئی جی مردان نے فون کرکے پوسٹ مارٹم کرنے اوران کی مرضی کے مطابق رپورٹ جاری کرنے کا کہا۔
جس پر میں نے انکار کر دیا، اس کے بعد کمشنر مردان عادل خان نے بھی ایسی ہی ہدایات دینے کی کوشش کی انکار پر دھمکی آمیز لہجہ اختیار کیا اورانتقام کے طور پر میرا تبادلہ کر دیا گیا، جس پر میں نے سیشن جج مردان کی عدالت سے حکم امتنا عی حاصل کیا اور اب مجھے ڈرایا اوردھمکایا جا رہا ہے۔
مگر میں اپنے موقف پر قائم ہوں اور رہوں گا، دونوں پوسٹ مارٹم کی رپورٹیں غلط ہیں، کیونکہ ایک ڈاکٹر پوسٹمارٹم کے عین وقت عمرہ کر کے سعودی عرب سے و طن لوٹا تھا جبکہ رپورٹ پر جن ڈاکٹرز کے دستخط ہیں، اُن میں بیش تر پوسٹ مارٹم کے وقت موجود ہی نہ تھے، انہو ں نے کہا ، تیسرا پوسٹمارٹم ضروری ہو گیا ہے کیوں کہ ہائیکورٹ کے نوٹس کے بعد چند روز قبل، قبرکشائی کے بعد کیا گیا۔
اخترعلی کا تیسرا پوسٹمارٹم:
جوڈدیشل انکوائری کے آخری مرحلے میں11 ستمبر کو خیبرمیڈیکل یونیورسٹی پشاور کے دو ڈا کٹروں پر مشتمل ٹیم آر ایچ سی شیر گڑھ پہنچی، پولیس کی بھاری نفری نے صبح سے ہی قبرستان کو گھیرے میں لے رکھا تھا۔
ٹھیک ساڑھے دس بجے پشاور سے آنے والے ڈاکٹرپروفیسر حکیم خان آفریدی اور اسسٹنٹ پرو فیسر یوسف خان جوڈیشل انکوائری افسر اعجاز الحق کے ہم راہ قبرستان پہنچے، اس موقع پر متوفی کے ورثاء نے پوسٹمارٹم کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا۔
جس پر ڈاکٹر حکیم خان آفریدی نے ان کو حقائق ہی درج کرنے کی یقین دہانی کرائی اور اختر علی کے ورثا نے قبر کشائی کی اجازت دی اور لاش پوسٹ مارٹم کے لیے آر ایچ سی شیر گڑھ منتقل کر دی گئی جہاں ڈاکٹروں نے دو گھنٹے تک پوسٹ مارٹم کیا، ڈاکٹروں نے انکوائری افسر کو بھی کچھ دیر کے لیے مردہ خانہ طلب کیا ،پوسٹ مارٹم کے بعد لاش ورثاء کے حوالے کر دی گئی۔
ٹیم کا کہنا ہے کہ تین چار روز میں رپورٹ انکوائری افسر کو دی جائے گی جو انکوائری دستاویزات کے ساتھ چیف جسٹس کو بھجوادی جائے گی۔
کمشنر مردان کا موقف:
ڈاکٹر محمد طاہر کے بیانات پر کمشنر مردان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، ان کے تبادلے کا پوسٹ مارٹم رپورٹ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
ان کا تبادلہ میں نے نہیں بلکہ سیکریٹری ہیلتھ نے کیا ہے ، پتا نہیں وہ مجھے کیوں اس معاملے میں گھسیٹ رہے ہیں، پہلا پوسٹ مارٹم میڈیکل کمپلکس مردان میں ہوا۔
پوسٹ مارٹم کے ساتھ ان کا کوئی تعلق ہی نہیں تو میں ان کو کیوں فون کروں گا یا ڈرائوں گا ، انھوں نے زور دے کرکہا ان کے بیانات میں کوئی سچائی نہیں ہے۔
ایکسپریس اور ایکسپریس نیوز کا کردار:اس کیس کے حوالے سے روزنامہ''ایکسپریس'' اور ایکسپریس نیوز کے کردار کو بھی سراہا جا رہا ہے ، کہ اس نے لمحہ بہ لمحہ عوام کو باخبر رکھا ۔
اسی طرح پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے سوموٹو نوٹس بھی ایکسپریس نیوز کی لائیو رپورٹنگ پر لیا، عوامی و سماجی حلقوں کی جانب سے ادارے کو موصول ہونے والی کالز میں ہر خبر پر نظر رکھنے اور عوام تک اطلاعات بروقت پہنچانے پر خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔