عنوان کے بغیر
اس طرح بے روزگاری اور غربت ختم ہوگی اور سفید پوش طبقہ بغیر شرمندگی کے قرضہ حاصل کر سکے گا۔
آج کے کالم کا کوئی خاص عنوان نہیں ہے، میں اپنے قارئین سے کچھ ایسی باتیں شیئر کروں گی جو بہت دنوں سے مجھے پریشان کر رہی ہیں۔ سب سے پہلے ہم ان خیراتی دسترخوانوں کی بات کریں گے جو مختلف شہروں خصوصاً کراچی اور اسلام آباد میں نظر آتے ہیں۔ سب سے پہلے مفت کھانا کھلانے کا یہ سلسلہ عبدالستارایدھی نے شروع کیا تھا پھر:
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
والی کیفیت پیدا ہوگئی، ایدھی صاحب کے علاوہ بہت سارے ادارے اس کام میں جٹ گئے کہ بھوکوں کو کھانا کھلانے کا ثواب سب سے زیادہ ہے، لیکن میں سمجھتی ہوں کہ لوگوں کو مفت کھانا کھلانے سے ایک طرح سے آپ لوگوں کو بھکاری بنا رہے ہیں۔
ان خیراتی دسترخوانوں تک سفید پوشوں کا گزر نہیں ہوتا، زیادہ تر نشئی اور ہیرونچیوں کی یلغار ہوتی ہے، ان دسترخوانوں پر لوگ کھا بھی رہے ہیں اور گھر کے لیے لے کر بھی جا رہے ہیں، کوئی روک ٹوک نہیں۔ لیکن کیا اس طرح مفت کھانا کھلانے سے لوگوں میں محنت کرنے کا جذبہ دم توڑ رہا ہے؟ سفید پوش اور غیرت مند افراد ان دسترخوانوں پہ نظر نہیں آتے، گویا ان دسترخوانوں کا مقصد فوت ہو رہا ہے۔ ان دسترخوانوں کی وجہ سے لوگوں میں محنت کرنے کا رجحان ختم ہو رہا ہے، کام کیوں کریں، کھانا مفت میں کھائیں اور باقی وقت میں گداگری کریں۔
روزانہ لاتعداد بکرے ذبح ہوتے ہیں، مٹن بریانی اور مٹن پلاؤ جو اب بکرے کا گوشت ڈھائی ہزار روپے فی کلو ہونے کے بعد عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو گیا ہے وہ ان دسترخوانوں پہ دونوں وقت مہیا ہے۔ کھانا کھلانا ایک اچھا کام ہے، لیکن اس کی اہمیت یوں کم ہو رہی ہے کہ یہ کھانا ان سفید پوش فیملیوں تک نہیں پہنچ پاتا جن کے لیے مانگ کے اور مفت میں کھانا ان کی غیرت کو گوارا نہیں ہوتا۔ دراصل ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ مظلوم طبقہ وہ ہے جو بظاہر سفید پوش ہے لیکن ان کے گھر بھی فاقہ ہوتا ہے اور وہ مانگ کر نہیں کھا سکتے۔
اگر مفت کھانا کھلانے کے بجائے یہ ادارے جو ہزاروں روپے روزانہ کی بنیاد پرکھانا کھلا رہے ہیں وہ اگر لوگوں کو مفت خور بنانے کے بجائے انھیں روزگار مہیا کریں،کسی بے روزگارکو آلو پیاز کا ٹھیلا لگوا دیں، کسی کو روزمرہ اشیائے صرف کا کیبن لگوا دیں، اس طرح کے مختلف کام شروع کرنے کے لیے انھیں قرضہ مہیا کریں اور انھیں پابند کریں کہ جب ان کا کاروبار چلنے لگے تو وہ قرضہ واپس کردیں تاکہ کسی دوسرے کا بھلا ہو۔ جو ادارے ان دسترخوانوں کے لیے صدقہ و خیرات کی رقم مہیا کرتے ہیں وہ بھی اس بات سے متفق ہوں گے۔
اس طرح بے روزگاری اور غربت ختم ہوگی اور سفید پوش طبقہ بغیر شرمندگی کے قرضہ حاصل کر سکے گا۔ بجائے روزانہ لاکھوں روپیہ جو ان دسترخوانوں پر صرف ہو رہا ہے وہ کسی نیک مقصد کے لیے کام میں آ جائے گا اور وہ لوگ جو ان دسترخوانوں سے مستفید نہیں ہو پاتے وہ بھی بلا جھجک ان اداروں کا رخ کریں گے۔ رقم دینے کے لیے یا کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کروانے کے لیے مطلوبہ شخص کے دو پڑوسیوں کی ضمانت درکار ہوگی کہ واقعی یہ فیملی اس امداد کی مستحق ہے؟ ان مفت دسترخوانوں کے کرتا دھرتاؤں سے صرف یہ کہوں گی کہ قوم کو محنت کش بنائیں، مفت خورا نہیں۔
دوسری اہم بات آج یہ شیئر کرنی ہے کہ شہر کی معروف اور مصروف سڑکوں پر سے زیبرا کراسنگ کیوں غائب ہے؟ شہر میں جب سے سگنل فری کوریڈور بنائے گئے ہیں، حادثات کی شرح بہت بڑھ گئی ہے۔ کبھی پہلے ہر بڑی اور مصروف شاہراہ پر دونوں جانب زیبرا کراسنگ بنی ہوتی تھی، تاکہ پیدل چلنے والے باآسانی سڑک پار کرسکیں، لوگوں کو بھی علم تھا کہ زیبرا کراسنگ پہ گاڑی آہستہ کرنی ہے۔
کہیں کوئی حادثہ نہ ہو جائے۔ لیکن آج کسی بھی شاہراہ پر زیبرا کراسنگ نہیں ہے، کراچی بہت بڑا اور مصروف شہر ہے۔ یہاں ہزاروں لوگ پیدل چلتے ہیں اور جب انھیں سڑک کراس کرنی ہوتی ہے تو وہ چلتے ہوئے ٹریفک میں سے خود کو خطرے میں ڈال کر سڑک عبور کرتے ہیں، بائیک والے اس معاملے میں نہایت لاپروائی کا ثبوت دیتے ہیں، اگر کوئی ہاتھ کے اشارے سے انھیں روکنا چاہے تو یہ بائیک والے اپنی بائیک کی رفتار اور بڑھا دیتے ہیں، یہی حال گاڑی والوں کا ہے۔ انھیں پیدل چلنے والے نظر ہی نہیں آتے۔ میں بلدیہ عظمیٰ کراچی سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ جلدازجلد قومی شاہراہوں اور دیگر مصروف سڑکوں پر دونوں جانب زیبرا کراسنگ کی سفید پٹیاں بنوائے تاکہ پیدل چلنے والے بلا خوف و خطر سڑک عبور کر سکیں۔ اس طرح حادثوں کی شرح بھی کم ہو جائے گی۔
تیسری بات یہ کہ آج کل جو طبقہ سب سے زیادہ مال دار ہے وہ ہے ڈاکٹر، جو دو دو گھنٹے مختلف اسپتالوں اور کلینکس میں بیٹھ کر روزانہ لاکھوں کماتے ہیں۔ کسی بھی ڈاکٹر کے پاس چلے جائیں ایک ہزار، پندرہ سو اور دو ہزار فی مریض فیس لے کر صرف نسخہ لکھ کر دیتے ہیں۔ کبھی نسخہ کے علاوہ دوائیں بھی ڈاکٹر کے کلینک سے ملتی تھیں۔ اب تو بس کسی کونے میں دو کرسیاں اور میز ڈال کر ڈاکٹر بیٹھ جاتے ہیں۔ جو نسخہ وہ لکھ کر دیتے ہیں وہ یا تو ان کا اپنا میڈیکل اسٹور ہوتا ہے یا پھر اس میڈیکل اسٹور سے وہ اپنا حصہ وصول کرتے ہیں اور ڈاکٹر جو دوائیں لکھ کر دیتے ہیں وہ صرف اسی مخصوص میڈیکل اسٹور میں ملیں گی جس کا نام ڈاکٹر صاحب نے بتایا تھا تاکہ انھیں کمیشن مل سکے۔ یہ کاروبار بہت پھیلا ہوا ہے، دوا ساز کمپنیوں کے نمایندے صبح صبح ہی ڈیوٹیوں پر نکل جاتے ہیں۔
ان کے بیگ میں مختلف دوائیں ہوتی ہیں جو وہ ڈاکٹرز کی نذر کر کے کہتے ہیں کہ اگر انھوں نے ہماری دوائیں تجویز کیں تو بیرون ملک کے سفر کے علاوہ بہت سی مراعات بھی ملیں گی۔ مرد ڈاکٹروں کی ترجیحات الگ ہوتی ہیں۔
اس کے علاوہ میڈیکل اسٹور والوں کا معاملہ بھی ان دوا ساز اداروں سے الگ ہوتا ہے۔ ایک ڈاکٹر جو دوائیں نسخے میں لکھ کر دے گا وہی دوائیں میڈیکل اسٹور پہ بھی ملیں گی۔ اس کے علاوہ ہر ڈاکٹر چھوٹتے ہی آپ کو مختلف ٹیسٹ لکھ کر دے گا کہ جب تک ٹیسٹوں کی رپورٹ نہیں آ جاتی وہ دوا نہیں دے سکتے اور جب ساری رپورٹ کلیئر آتی ہیں تو وہ اپنے من پسند لیب سے اپنا حصہ وصول کر لیتے ہیں۔ ٹیسٹ بھی مخصوص لیبارٹریز کا لکھ کر دیتے ہیں لیکن اب لوگوں میں خاصی آگہی اور شعور آ گیا ہے اس لیے وہ اب ان لیبارٹریز سے ٹیسٹ کرواتے ہیں جن کی رپورٹ ہر ڈاکٹر تسلیم کرتا ہے۔
ایک دلچسپ واقعہ سنیے! چار سال پہلے ہماری ایک ساتھی پروفیسر کو شوگر ہوگئی، انھیں میں اپنے ساتھ اپنے ڈاکٹر کے پاس لے گئی، انھوں نے تین قسم کی دوائیں انھیں دیں اور یہ بھی کہا کہ آپ کی شوگر کنٹرول میں ہے، بس آپ احتیاط کیجیے۔ چند دن کے بعد ان کی ملاقات ہماری ایک اور مشترکہ دوست سے ہوئی جو خود ہومیوپیتھک ڈاکٹر ہیں اور شوگر پیشنٹ بھی ہیں۔ انھوں نے ایک ڈاکٹر کی حد سے زیادہ تعریف کی اور کہا کہ ہماری دوست زاہدہ انھیں ضرور دکھائیں۔ وہ اگلے دن ان ڈاکٹر صاحب کے کلینک میں تھیں اور میں ان کے ساتھ تھی۔
ڈاکٹر صاحب نے انھیں دیکھا اور بولے ''آپ یہ سب دوائیں چھوڑ دیں، ورنہ آپ کو بہت بڑا نقصان ہوگا۔ آپ دواؤں کے بجائے انسولین لینا شروع کیجیے۔'' اتنا کہہ کر انھوں نے انسولین مجھ سے منگوا لی کیونکہ زاہدہ بہت اپ سیٹ تھیں، وہ انسولین کا سن کر ڈر گئی تھیں، بہرحال ہم گھر آگئے۔ دو دن بعد ان کا فون آیا کہ وہ میرے گھر آ رہی ہیں، کسی ڈاکٹر کے پاس جانا ہے۔ میں تیار ہوگئی، ہم لوگ تھوڑی ہی دیر میں گلشن اقبال میں ایک ڈاکٹر صاحب کے پاس گئے۔ زاہدہ نے کہا کہ میں ڈاکٹر کے سامنے چپ رہوں، بہرحال نمبر آنے پر ہم اندر گئے، زاہدہ نے انھیں ایک پرچہ دکھایا اور اپنی کیفیت بتائی۔ ڈاکٹر صاحب نے دوائیں دیکھ کر کہا کہ وہ جو دوائیں استعمال کر رہی ہیں وہ بہترین ہیں، آپ انھی دواؤں کو جاری رکھیں۔
تب زاہدہ بولیں کہ ڈاکٹر صاحب! مجھے انسولین کی ضرورت تو نہیں ہے؟ بولے، بالکل نہیں۔ اس پر زاہدہ نے پورا قصہ انھیں سنا کر کہا کہ وہ اسی لیے ان کے پاس آئی تھی کہ سیکنڈ اوپینین لے سکے۔ ڈاکٹر صاحب بولے ''مجھے حیرت ہے کہ انھوں نے آپ کو انسولین لینے کو کیوں کہا؟ آپ کے لیے ٹیبلٹ ہی صحیح ہے۔'' ہم لوگ آگئے۔ زاہدہ اب مطمئن تھیں۔ چند روز پہلے میری ملاقات اپنی ان دوست سے ہوئی جنھوں نے ڈاکٹر کے پاس بھیجا تھا اور انھیں زاہدہ کا واقعہ بتایا تو وہ ہنس کر بولیں، ہاں بھئی! وہ سب کو انسولین لینے کے لیے مجبور کرتے تھے، دراصل وہ '' مافیا'' کا شکار ہوگئے تھے اور ہر مریض کو دوائیں چھڑوا کر اس انجکشن پہ لگا دیتے تھے۔
پھر پتا نہیں کیا ہوا کہ انھوں نے اپنا کلینک بھی تبدیل کر لیا اور اب وہ کسی کو انجکشن کا مشورہ نہیں دیتے۔ وہ مافیا میں کیسے پھنسے یہ تو پتا نہیں، لیکن اب مریضوں کو بہت توجہ سے دیکھتے ہیں۔ ہم سب ڈاکٹر مافیا کے ڈسے ہوئے ہیں۔ پتا نہیں کتنے مریضوں کو ان ڈاکٹر صاحب نے بلاوجہ انجکشن لینے کا مشورہ دیا ، چار کو تو میں بھی جانتی ہوں۔ اب ان سب کو پتا چل رہا ہے تو وہ واپس اپنی پرانی دواؤں پر اپنے ڈاکٹر کے مشورے سے آگئی ہیں۔
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
والی کیفیت پیدا ہوگئی، ایدھی صاحب کے علاوہ بہت سارے ادارے اس کام میں جٹ گئے کہ بھوکوں کو کھانا کھلانے کا ثواب سب سے زیادہ ہے، لیکن میں سمجھتی ہوں کہ لوگوں کو مفت کھانا کھلانے سے ایک طرح سے آپ لوگوں کو بھکاری بنا رہے ہیں۔
ان خیراتی دسترخوانوں تک سفید پوشوں کا گزر نہیں ہوتا، زیادہ تر نشئی اور ہیرونچیوں کی یلغار ہوتی ہے، ان دسترخوانوں پر لوگ کھا بھی رہے ہیں اور گھر کے لیے لے کر بھی جا رہے ہیں، کوئی روک ٹوک نہیں۔ لیکن کیا اس طرح مفت کھانا کھلانے سے لوگوں میں محنت کرنے کا جذبہ دم توڑ رہا ہے؟ سفید پوش اور غیرت مند افراد ان دسترخوانوں پہ نظر نہیں آتے، گویا ان دسترخوانوں کا مقصد فوت ہو رہا ہے۔ ان دسترخوانوں کی وجہ سے لوگوں میں محنت کرنے کا رجحان ختم ہو رہا ہے، کام کیوں کریں، کھانا مفت میں کھائیں اور باقی وقت میں گداگری کریں۔
روزانہ لاتعداد بکرے ذبح ہوتے ہیں، مٹن بریانی اور مٹن پلاؤ جو اب بکرے کا گوشت ڈھائی ہزار روپے فی کلو ہونے کے بعد عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو گیا ہے وہ ان دسترخوانوں پہ دونوں وقت مہیا ہے۔ کھانا کھلانا ایک اچھا کام ہے، لیکن اس کی اہمیت یوں کم ہو رہی ہے کہ یہ کھانا ان سفید پوش فیملیوں تک نہیں پہنچ پاتا جن کے لیے مانگ کے اور مفت میں کھانا ان کی غیرت کو گوارا نہیں ہوتا۔ دراصل ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ مظلوم طبقہ وہ ہے جو بظاہر سفید پوش ہے لیکن ان کے گھر بھی فاقہ ہوتا ہے اور وہ مانگ کر نہیں کھا سکتے۔
اگر مفت کھانا کھلانے کے بجائے یہ ادارے جو ہزاروں روپے روزانہ کی بنیاد پرکھانا کھلا رہے ہیں وہ اگر لوگوں کو مفت خور بنانے کے بجائے انھیں روزگار مہیا کریں،کسی بے روزگارکو آلو پیاز کا ٹھیلا لگوا دیں، کسی کو روزمرہ اشیائے صرف کا کیبن لگوا دیں، اس طرح کے مختلف کام شروع کرنے کے لیے انھیں قرضہ مہیا کریں اور انھیں پابند کریں کہ جب ان کا کاروبار چلنے لگے تو وہ قرضہ واپس کردیں تاکہ کسی دوسرے کا بھلا ہو۔ جو ادارے ان دسترخوانوں کے لیے صدقہ و خیرات کی رقم مہیا کرتے ہیں وہ بھی اس بات سے متفق ہوں گے۔
اس طرح بے روزگاری اور غربت ختم ہوگی اور سفید پوش طبقہ بغیر شرمندگی کے قرضہ حاصل کر سکے گا۔ بجائے روزانہ لاکھوں روپیہ جو ان دسترخوانوں پر صرف ہو رہا ہے وہ کسی نیک مقصد کے لیے کام میں آ جائے گا اور وہ لوگ جو ان دسترخوانوں سے مستفید نہیں ہو پاتے وہ بھی بلا جھجک ان اداروں کا رخ کریں گے۔ رقم دینے کے لیے یا کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کروانے کے لیے مطلوبہ شخص کے دو پڑوسیوں کی ضمانت درکار ہوگی کہ واقعی یہ فیملی اس امداد کی مستحق ہے؟ ان مفت دسترخوانوں کے کرتا دھرتاؤں سے صرف یہ کہوں گی کہ قوم کو محنت کش بنائیں، مفت خورا نہیں۔
دوسری اہم بات آج یہ شیئر کرنی ہے کہ شہر کی معروف اور مصروف سڑکوں پر سے زیبرا کراسنگ کیوں غائب ہے؟ شہر میں جب سے سگنل فری کوریڈور بنائے گئے ہیں، حادثات کی شرح بہت بڑھ گئی ہے۔ کبھی پہلے ہر بڑی اور مصروف شاہراہ پر دونوں جانب زیبرا کراسنگ بنی ہوتی تھی، تاکہ پیدل چلنے والے باآسانی سڑک پار کرسکیں، لوگوں کو بھی علم تھا کہ زیبرا کراسنگ پہ گاڑی آہستہ کرنی ہے۔
کہیں کوئی حادثہ نہ ہو جائے۔ لیکن آج کسی بھی شاہراہ پر زیبرا کراسنگ نہیں ہے، کراچی بہت بڑا اور مصروف شہر ہے۔ یہاں ہزاروں لوگ پیدل چلتے ہیں اور جب انھیں سڑک کراس کرنی ہوتی ہے تو وہ چلتے ہوئے ٹریفک میں سے خود کو خطرے میں ڈال کر سڑک عبور کرتے ہیں، بائیک والے اس معاملے میں نہایت لاپروائی کا ثبوت دیتے ہیں، اگر کوئی ہاتھ کے اشارے سے انھیں روکنا چاہے تو یہ بائیک والے اپنی بائیک کی رفتار اور بڑھا دیتے ہیں، یہی حال گاڑی والوں کا ہے۔ انھیں پیدل چلنے والے نظر ہی نہیں آتے۔ میں بلدیہ عظمیٰ کراچی سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ جلدازجلد قومی شاہراہوں اور دیگر مصروف سڑکوں پر دونوں جانب زیبرا کراسنگ کی سفید پٹیاں بنوائے تاکہ پیدل چلنے والے بلا خوف و خطر سڑک عبور کر سکیں۔ اس طرح حادثوں کی شرح بھی کم ہو جائے گی۔
تیسری بات یہ کہ آج کل جو طبقہ سب سے زیادہ مال دار ہے وہ ہے ڈاکٹر، جو دو دو گھنٹے مختلف اسپتالوں اور کلینکس میں بیٹھ کر روزانہ لاکھوں کماتے ہیں۔ کسی بھی ڈاکٹر کے پاس چلے جائیں ایک ہزار، پندرہ سو اور دو ہزار فی مریض فیس لے کر صرف نسخہ لکھ کر دیتے ہیں۔ کبھی نسخہ کے علاوہ دوائیں بھی ڈاکٹر کے کلینک سے ملتی تھیں۔ اب تو بس کسی کونے میں دو کرسیاں اور میز ڈال کر ڈاکٹر بیٹھ جاتے ہیں۔ جو نسخہ وہ لکھ کر دیتے ہیں وہ یا تو ان کا اپنا میڈیکل اسٹور ہوتا ہے یا پھر اس میڈیکل اسٹور سے وہ اپنا حصہ وصول کرتے ہیں اور ڈاکٹر جو دوائیں لکھ کر دیتے ہیں وہ صرف اسی مخصوص میڈیکل اسٹور میں ملیں گی جس کا نام ڈاکٹر صاحب نے بتایا تھا تاکہ انھیں کمیشن مل سکے۔ یہ کاروبار بہت پھیلا ہوا ہے، دوا ساز کمپنیوں کے نمایندے صبح صبح ہی ڈیوٹیوں پر نکل جاتے ہیں۔
ان کے بیگ میں مختلف دوائیں ہوتی ہیں جو وہ ڈاکٹرز کی نذر کر کے کہتے ہیں کہ اگر انھوں نے ہماری دوائیں تجویز کیں تو بیرون ملک کے سفر کے علاوہ بہت سی مراعات بھی ملیں گی۔ مرد ڈاکٹروں کی ترجیحات الگ ہوتی ہیں۔
اس کے علاوہ میڈیکل اسٹور والوں کا معاملہ بھی ان دوا ساز اداروں سے الگ ہوتا ہے۔ ایک ڈاکٹر جو دوائیں نسخے میں لکھ کر دے گا وہی دوائیں میڈیکل اسٹور پہ بھی ملیں گی۔ اس کے علاوہ ہر ڈاکٹر چھوٹتے ہی آپ کو مختلف ٹیسٹ لکھ کر دے گا کہ جب تک ٹیسٹوں کی رپورٹ نہیں آ جاتی وہ دوا نہیں دے سکتے اور جب ساری رپورٹ کلیئر آتی ہیں تو وہ اپنے من پسند لیب سے اپنا حصہ وصول کر لیتے ہیں۔ ٹیسٹ بھی مخصوص لیبارٹریز کا لکھ کر دیتے ہیں لیکن اب لوگوں میں خاصی آگہی اور شعور آ گیا ہے اس لیے وہ اب ان لیبارٹریز سے ٹیسٹ کرواتے ہیں جن کی رپورٹ ہر ڈاکٹر تسلیم کرتا ہے۔
ایک دلچسپ واقعہ سنیے! چار سال پہلے ہماری ایک ساتھی پروفیسر کو شوگر ہوگئی، انھیں میں اپنے ساتھ اپنے ڈاکٹر کے پاس لے گئی، انھوں نے تین قسم کی دوائیں انھیں دیں اور یہ بھی کہا کہ آپ کی شوگر کنٹرول میں ہے، بس آپ احتیاط کیجیے۔ چند دن کے بعد ان کی ملاقات ہماری ایک اور مشترکہ دوست سے ہوئی جو خود ہومیوپیتھک ڈاکٹر ہیں اور شوگر پیشنٹ بھی ہیں۔ انھوں نے ایک ڈاکٹر کی حد سے زیادہ تعریف کی اور کہا کہ ہماری دوست زاہدہ انھیں ضرور دکھائیں۔ وہ اگلے دن ان ڈاکٹر صاحب کے کلینک میں تھیں اور میں ان کے ساتھ تھی۔
ڈاکٹر صاحب نے انھیں دیکھا اور بولے ''آپ یہ سب دوائیں چھوڑ دیں، ورنہ آپ کو بہت بڑا نقصان ہوگا۔ آپ دواؤں کے بجائے انسولین لینا شروع کیجیے۔'' اتنا کہہ کر انھوں نے انسولین مجھ سے منگوا لی کیونکہ زاہدہ بہت اپ سیٹ تھیں، وہ انسولین کا سن کر ڈر گئی تھیں، بہرحال ہم گھر آگئے۔ دو دن بعد ان کا فون آیا کہ وہ میرے گھر آ رہی ہیں، کسی ڈاکٹر کے پاس جانا ہے۔ میں تیار ہوگئی، ہم لوگ تھوڑی ہی دیر میں گلشن اقبال میں ایک ڈاکٹر صاحب کے پاس گئے۔ زاہدہ نے کہا کہ میں ڈاکٹر کے سامنے چپ رہوں، بہرحال نمبر آنے پر ہم اندر گئے، زاہدہ نے انھیں ایک پرچہ دکھایا اور اپنی کیفیت بتائی۔ ڈاکٹر صاحب نے دوائیں دیکھ کر کہا کہ وہ جو دوائیں استعمال کر رہی ہیں وہ بہترین ہیں، آپ انھی دواؤں کو جاری رکھیں۔
تب زاہدہ بولیں کہ ڈاکٹر صاحب! مجھے انسولین کی ضرورت تو نہیں ہے؟ بولے، بالکل نہیں۔ اس پر زاہدہ نے پورا قصہ انھیں سنا کر کہا کہ وہ اسی لیے ان کے پاس آئی تھی کہ سیکنڈ اوپینین لے سکے۔ ڈاکٹر صاحب بولے ''مجھے حیرت ہے کہ انھوں نے آپ کو انسولین لینے کو کیوں کہا؟ آپ کے لیے ٹیبلٹ ہی صحیح ہے۔'' ہم لوگ آگئے۔ زاہدہ اب مطمئن تھیں۔ چند روز پہلے میری ملاقات اپنی ان دوست سے ہوئی جنھوں نے ڈاکٹر کے پاس بھیجا تھا اور انھیں زاہدہ کا واقعہ بتایا تو وہ ہنس کر بولیں، ہاں بھئی! وہ سب کو انسولین لینے کے لیے مجبور کرتے تھے، دراصل وہ '' مافیا'' کا شکار ہوگئے تھے اور ہر مریض کو دوائیں چھڑوا کر اس انجکشن پہ لگا دیتے تھے۔
پھر پتا نہیں کیا ہوا کہ انھوں نے اپنا کلینک بھی تبدیل کر لیا اور اب وہ کسی کو انجکشن کا مشورہ نہیں دیتے۔ وہ مافیا میں کیسے پھنسے یہ تو پتا نہیں، لیکن اب مریضوں کو بہت توجہ سے دیکھتے ہیں۔ ہم سب ڈاکٹر مافیا کے ڈسے ہوئے ہیں۔ پتا نہیں کتنے مریضوں کو ان ڈاکٹر صاحب نے بلاوجہ انجکشن لینے کا مشورہ دیا ، چار کو تو میں بھی جانتی ہوں۔ اب ان سب کو پتا چل رہا ہے تو وہ واپس اپنی پرانی دواؤں پر اپنے ڈاکٹر کے مشورے سے آگئی ہیں۔