فوڈ گروپ کی برآمدات میں اضافہ اور فی ایکڑ پیداوار
بجلی، گیس کا بل اور پانی کے اخراجات اور دیگر بے شمار اخراجات کرنے کے بعد مختلف اقسام کے ٹیکسوں سے اس کا واسطہ پڑتا ہے۔
پاکستان کے بیرونی تجارت کے اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ دو ماہ یعنی جولائی اور اگست 2024 کے دوران برآمدات کی کارکردگی بہتر رہی۔ کیونکہ جو حالات چل رہے ہیں جس طرح سے ملک کاروباری مندی اور معیشت میں جمود کی کیفیت طاری ہے۔
پہلے بجلی کے ہوش ربا بل آیا کرتے تھے ،اب جان لیوا بل آ رہے ہیں۔ ایسی صورت میں سب سے زیادہ مشکلات کا شکار کارخانے دار، صنعتکار بھی ہو رہے ہیں جسے کروڑوں کے اخراجات کرنا اور پھر اشیا کی تیاری کی لاگت کے ساتھ جب لاکھوں روپے کا بجلی کا بل اس کے ہاتھ لگ جاتا ہے تو اس کا دل سہم کر رہ جاتا ہے۔ منافع کم ہو رہا ہے یا مناسب ان سب باتوں کا وقت ان دنوں گزر چکا ہے۔ اب تو کسی نہ کسی طرح اخراجات پورے کرنے ہیں۔
بجلی، گیس کا بل اور پانی کے اخراجات اور دیگر بے شمار اخراجات کرنے کے بعد مختلف اقسام کے ٹیکسوں سے اس کا واسطہ پڑتا ہے۔ پھر ان سب کی ادائیگی کے بعد اکثر کارخانے دار اور مل اونر انتہائی کم سے کم منافع جیب میں ڈال کر بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں اور اس امید کا دامن نہیں چھوڑتے کہ ایک نہ ایک دن معاشی حالات بہتر ہوں گے۔
گزشتہ دو ماہ کے دوران پاکستان کی برآمدات میں 14.42 فی صد کا اضافہ ہوا ہے جوکہ موجودہ معاشی حالات میں مشکل دکھائی دے رہا تھا، اگرچہ یہ اضافہ زیادہ تو نہیں ہے لیکن قدرے اطمینان بخش ضرور ہے۔ کل برآمدات کے اضافے میں سب سے زیادہ حصہ فوڈ گروپ کا ہے۔ ان دو ماہ میں فوڈ گروپ کی کل برآمدات میں 43.39 فی صد اضافہ ایک اچھا اضافہ ہے۔ اس گروپ میں چاول، فروٹس، مسالہ جات، مچھلیاں، سبزیاں اور دیگر خوراکی اشیا شامل ہیں اور ان دو ماہ کی خاص بات یہ ہے کہ 86 ہزار میٹرک ٹن چینی برآمد کی گئی ہے۔ ملک میں چینی کی بھرپور پیداوار کے باعث گزشتہ دنوں حکومت نے چینی کی محدود مقدار کی برآمدگی کا فیصلہ کیا تھا یہ اسی سلسلے کی کڑی معلوم دے رہی ہے۔
پاکستان بڑی تعداد میں چاول برآمد کرتا ہے۔ اس کے علاوہ کھیوڑہ کا نمک جسے پتھریلا نمک بھی کہا جاتا ہے اس کی دنیا بھر میں مانگ تو ہے لیکن بعض خبریں ایسی گردش کر رہی ہیں کہ اس پر کسی اور ملک کی اجارہ داری ہے۔ حکومت کو اور قانونی ماہرین کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اگر ایسا ہے تو اس کا فوری سدباب کرنا بھی ضروری ہے تاکہ تمام تر زرمبادلہ پاکستان کو ہی حاصل ہو۔
ان دو ماہ کے دوران ملک کو تقریباً 21 ارب روپے گوشت کی برآمدات سے زرمبادلہ حاصل ہوا ہے، لیکن اس کے ساتھ ملک میں گوشت کی پیداوار میں اضافہ بھی ضروری ہے جوکہ ٹیکسٹائل گروپ سے متعلق ہے وہ یہ کہ ان دو ماہ کے دوران ٹیکسٹائل گروپ کی برآمدات سے متعلق ہے۔ پاکستانی کرنسی کی مالیت کے لحاظ سے محض دو فی صد اضافہ ہوا ہے اور انتہائی تشویش ناک بات یہ ہے کہ ان دو ماہ میں ہم کپاس کے برآمدی ملک کا اعزاز کھو بیٹھے ہیں اور اس مد میں فی الحال صفر منافع حاصل ہو رہا ہے جب کہ خام کپاس کی درآمدات کی مالیت 25 ارب 13 کروڑ روپے کی رہی جس پر حکومت کو تشویش ہونی چاہیے۔
اس مرتبہ ہمیں تیل پر خرچ ہونے والے زرمبادلہ پر بھی گہری نظر رکھنی ہوگی۔ مشرق وسطیٰ میں حالیہ بڑھتی کشیدگی جس میں اسرائیل اور لبنان کے درمیان لڑائی میں شدت آگئی ہے، لہٰذا اس کشیدگی کے بڑھنے کے باعث عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو چکا ہے اور اس کے مزید امکانات نظر آ رہے ہیں کیونکہ یہ جنگ پھیلتی ہوئی نظر آ رہی ہے اور اس کی شدت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ فی الحال تو برینٹ آئل کی قیمت 75 ڈالر فی بیرل ہوگئی ہے اور بتایا جا رہا ہے کہ گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں خام تیل کی قیمتوں میں 4 فی صد اضافہ ہوا ہے۔
گزشتہ دو ماہ کے دوران پاکستان تیل کی درآمد کی مد میں 7 کھرب 42 ارب روپے خرچ کر چکا ہے جب کہ گزشتہ سال کے پہلے دو ماہ کے درآمدی اخراجات 6 کھرب 27 ارب 76 کروڑ روپے تھے۔ اس طرح تیل کی درآمد میں 18 فی صد سے زائد کا اضافہ ہوا۔ عالمی حالات جب کشیدگی کی طرف بڑھتے ہیں تو سب سے پہلا اثر تیل کی قیمتوں پر مرتب ہوتا ہے، اس کے ساتھ عالمی خوراک کی منڈی میں بھی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ان دنوں پاکستان اور چین کے درمیان شعبہ زراعت پرکچھ کام ہو رہا ہے۔
ایسے حالات میں امید ہے کہ پاکستان اور چین کے باہمی اشتراک سے پاکستان میں مختلف فصلوں کی فی ایکڑ پیداوار میں کافی اضافہ ہوگا۔ دنیا میں کئی ممالک ایسے ہیں جن کی فی ایکڑ زرعی پیداوار زیادہ ہے۔ کچھ کی تھوڑی کم ہے جب کہ پاکستان کی انتہائی پست ہے، لہٰذا فی ایکڑ پیداوار میں قابل قدر اضافے کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔
پہلے بجلی کے ہوش ربا بل آیا کرتے تھے ،اب جان لیوا بل آ رہے ہیں۔ ایسی صورت میں سب سے زیادہ مشکلات کا شکار کارخانے دار، صنعتکار بھی ہو رہے ہیں جسے کروڑوں کے اخراجات کرنا اور پھر اشیا کی تیاری کی لاگت کے ساتھ جب لاکھوں روپے کا بجلی کا بل اس کے ہاتھ لگ جاتا ہے تو اس کا دل سہم کر رہ جاتا ہے۔ منافع کم ہو رہا ہے یا مناسب ان سب باتوں کا وقت ان دنوں گزر چکا ہے۔ اب تو کسی نہ کسی طرح اخراجات پورے کرنے ہیں۔
بجلی، گیس کا بل اور پانی کے اخراجات اور دیگر بے شمار اخراجات کرنے کے بعد مختلف اقسام کے ٹیکسوں سے اس کا واسطہ پڑتا ہے۔ پھر ان سب کی ادائیگی کے بعد اکثر کارخانے دار اور مل اونر انتہائی کم سے کم منافع جیب میں ڈال کر بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں اور اس امید کا دامن نہیں چھوڑتے کہ ایک نہ ایک دن معاشی حالات بہتر ہوں گے۔
گزشتہ دو ماہ کے دوران پاکستان کی برآمدات میں 14.42 فی صد کا اضافہ ہوا ہے جوکہ موجودہ معاشی حالات میں مشکل دکھائی دے رہا تھا، اگرچہ یہ اضافہ زیادہ تو نہیں ہے لیکن قدرے اطمینان بخش ضرور ہے۔ کل برآمدات کے اضافے میں سب سے زیادہ حصہ فوڈ گروپ کا ہے۔ ان دو ماہ میں فوڈ گروپ کی کل برآمدات میں 43.39 فی صد اضافہ ایک اچھا اضافہ ہے۔ اس گروپ میں چاول، فروٹس، مسالہ جات، مچھلیاں، سبزیاں اور دیگر خوراکی اشیا شامل ہیں اور ان دو ماہ کی خاص بات یہ ہے کہ 86 ہزار میٹرک ٹن چینی برآمد کی گئی ہے۔ ملک میں چینی کی بھرپور پیداوار کے باعث گزشتہ دنوں حکومت نے چینی کی محدود مقدار کی برآمدگی کا فیصلہ کیا تھا یہ اسی سلسلے کی کڑی معلوم دے رہی ہے۔
پاکستان بڑی تعداد میں چاول برآمد کرتا ہے۔ اس کے علاوہ کھیوڑہ کا نمک جسے پتھریلا نمک بھی کہا جاتا ہے اس کی دنیا بھر میں مانگ تو ہے لیکن بعض خبریں ایسی گردش کر رہی ہیں کہ اس پر کسی اور ملک کی اجارہ داری ہے۔ حکومت کو اور قانونی ماہرین کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اگر ایسا ہے تو اس کا فوری سدباب کرنا بھی ضروری ہے تاکہ تمام تر زرمبادلہ پاکستان کو ہی حاصل ہو۔
ان دو ماہ کے دوران ملک کو تقریباً 21 ارب روپے گوشت کی برآمدات سے زرمبادلہ حاصل ہوا ہے، لیکن اس کے ساتھ ملک میں گوشت کی پیداوار میں اضافہ بھی ضروری ہے جوکہ ٹیکسٹائل گروپ سے متعلق ہے وہ یہ کہ ان دو ماہ کے دوران ٹیکسٹائل گروپ کی برآمدات سے متعلق ہے۔ پاکستانی کرنسی کی مالیت کے لحاظ سے محض دو فی صد اضافہ ہوا ہے اور انتہائی تشویش ناک بات یہ ہے کہ ان دو ماہ میں ہم کپاس کے برآمدی ملک کا اعزاز کھو بیٹھے ہیں اور اس مد میں فی الحال صفر منافع حاصل ہو رہا ہے جب کہ خام کپاس کی درآمدات کی مالیت 25 ارب 13 کروڑ روپے کی رہی جس پر حکومت کو تشویش ہونی چاہیے۔
اس مرتبہ ہمیں تیل پر خرچ ہونے والے زرمبادلہ پر بھی گہری نظر رکھنی ہوگی۔ مشرق وسطیٰ میں حالیہ بڑھتی کشیدگی جس میں اسرائیل اور لبنان کے درمیان لڑائی میں شدت آگئی ہے، لہٰذا اس کشیدگی کے بڑھنے کے باعث عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو چکا ہے اور اس کے مزید امکانات نظر آ رہے ہیں کیونکہ یہ جنگ پھیلتی ہوئی نظر آ رہی ہے اور اس کی شدت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ فی الحال تو برینٹ آئل کی قیمت 75 ڈالر فی بیرل ہوگئی ہے اور بتایا جا رہا ہے کہ گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں خام تیل کی قیمتوں میں 4 فی صد اضافہ ہوا ہے۔
گزشتہ دو ماہ کے دوران پاکستان تیل کی درآمد کی مد میں 7 کھرب 42 ارب روپے خرچ کر چکا ہے جب کہ گزشتہ سال کے پہلے دو ماہ کے درآمدی اخراجات 6 کھرب 27 ارب 76 کروڑ روپے تھے۔ اس طرح تیل کی درآمد میں 18 فی صد سے زائد کا اضافہ ہوا۔ عالمی حالات جب کشیدگی کی طرف بڑھتے ہیں تو سب سے پہلا اثر تیل کی قیمتوں پر مرتب ہوتا ہے، اس کے ساتھ عالمی خوراک کی منڈی میں بھی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ان دنوں پاکستان اور چین کے درمیان شعبہ زراعت پرکچھ کام ہو رہا ہے۔
ایسے حالات میں امید ہے کہ پاکستان اور چین کے باہمی اشتراک سے پاکستان میں مختلف فصلوں کی فی ایکڑ پیداوار میں کافی اضافہ ہوگا۔ دنیا میں کئی ممالک ایسے ہیں جن کی فی ایکڑ زرعی پیداوار زیادہ ہے۔ کچھ کی تھوڑی کم ہے جب کہ پاکستان کی انتہائی پست ہے، لہٰذا فی ایکڑ پیداوار میں قابل قدر اضافے کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔