شہباز شریف امریکا سے کیا لائیں گے
عوام اِن کی معنویت سے بے خبر ہیں لیکن اِن قرضوں نے عوام ہی کی کمر توڑ کررکھ دی ہے۔
آج ستائیس ستمبر بروز جمعہ المبارک ہمارے وزیر اعظم جناب محمد شہباز شریف اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اُناسویں سالانہ اجلاس سے خطاب کررہے ہیں ۔ جناب وزیر اعظم اکیس ستمبر ہی کو پاکستان سے براستہ لندن نیویارک روانہ ہو گئے تھے ۔اُنھوں نے لندن میں دو روزسستانے اور مبینہ طور پر اپنی کمر درد کے لیے متعلقہ ڈاکٹر سے ملنے کے بعد نیویارک کا قصد کیا تھا۔ گویا آج جناب شہباز شریف کو نیویارک پہنچے ایک ہفتہ گزر رہا ہے ۔
کیا پاکستان ایسے مفلس اوربیرونی قرضوں کے مارے ملک کے وزیر اعظم کے لیے مناسب ہے کہ وہ کئی ایام کے لیے بھاری اخراجات پر بیرونِ ملک قیام فرمائیں؟ اور وہ بھی ایسے دگرگوں اور پریشان کن حالات میں جب کہ پاکستان کو مزید قرضوں کے لیے آئی ایم ایف، چین اورعرب ممالک کے سامنے درخواستیں کرنا پڑ رہی ہوں۔ویسے جناب شہباز شریف نے پی ڈی ایم کے دَور اوّل میں بھی یو این جنرل اسمبلی سے خطاب فرما کر اپنا شوق پورا کر لیا تھا ۔
اہم بات یہ بھی ہے کہ بھارتی وزیر اعظم ، نریندر مودی، نے امریکا میں ہونے کے باوجود جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے خطاب نہیں کیا ہے تو بھارت پر کونسا آسمان ٹوٹ پڑا ہے ؟ مودی نے امریکی صدر سے بھی ملاقات کی ہے اور نیویارک میں پچاس ہزار کی بھارتی کمیونٹی سے خطاب بھی کیا ہے ۔
ہمارا کوئی بھی حکمران جب بھی کسی طاقتور اور دولتمند غیر ملک کا دَورہ کرتا ہے تو ہمارے ہاں میڈیا میں یہ مباحث چھڑ جاتے ہیں کہ ہمارے صاحب وہاں سے اپنے ملک کے لیے لائیں گے کیا؟یہ استفسار جہاں ہماری قومی مفلسی کا آئینہ دار ہے، وہیں اِس میں شدید بین السطور ندامت اور شرمندگی بھی جھلکتی ہے ۔ مگر کیا کیا جائے کہ اِس سے مفر بھی نہیں ہے ۔
جناب شہباز شریف بھی ایسے حالات اور ایام میں نیویارک پہنچے ہیں جب امریکا بہادر کے زیر نگیں بروئے کار عالمی ساہوکار ادارے یعنی آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو مزید قرض دیے جانے پر پس و پیش کیا جارہا تھا لیکن یہ دَورہ یوں کامیاب رہا ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو ایک بار پھر سات ارب ڈالر کا قرض بطورِ بیل آؤٹ پیکیج دینا منظور کر لیا ہے ۔
آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے تحت ہمارے حکمران پہلے ہی اربوں ڈالر کے جو قرض لے چکے ہیں ، عوام اِن کی معنویت سے بے خبر ہیں لیکن اِن قرضوں نے عوام ہی کی کمر توڑ کررکھ دی ہے۔ دوسری جانب دُنیا بھر کی مالیات پر نظر رکھنے والے امریکی ادارے یعنی ''فچ، بلوم برگ اور موڈیز'' نے اِنہی ایام میں یہ حوصلہ افزا خبر دی ہے کہ شہباز حکومت میں پاکستان کی معیشت میں مثبت اُبھار آرہا ہے۔ یہ خوش کن خبریں دراصل ہمیں یہ پیغام دے رہی ہیں کہ پاکستان کی معاشی نبضیں ڈُوبنے سے بچ گئی ہیں۔
کئی حکومتی ذمے داراداروں کی جانب سے یہ کہا گیا تھا کہ وزیر اعظم جناب شہباز شریف کے دَورۂ یو این کے دوران ، کئی طاقتور امریکی شخصیات کے توسط اور وساطت سے، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے کارپردازوں کا پاکستان کے لیے دل پگھل جائے گا ۔ شہباز شریف صاحب کا یو این جی اے سے آج کا خطاب اگرچہ محوری اہمیت کا حامل ہے مگر اصل سوال یہ ہے کہ شہباز شریف صاحب امریکی اور عالمی شخصیات سے میل ملاقات کرکے پاکستان کے لیے کشائش کا کیسے موجب بنتے ہیں؟ امریکا میں متعین ہونے والے پاکستان کے نئے سفیر ،رضوان سعید شیخ صاحب ، کے بارے بھی ہمیں دیکھنا ہے کہ وہ جناب شہباز شریف کے لیے یو این جی اے میں مطلوبہ کامیابیوں میں کتنے معاون ثابت ہوتے ہیں؟یہ رضوان صاحب کی سفارتی پھرتیوں کا بھی امتحان ہے ۔ اقوامِ متحدہ میں متعین پاکستان کے مستقل مندوب اور اُناسی سالہ بزرگ سفارتکار ، جناب منیر اکرم ، کی طرف بھی حکومت اور پاکستانی عوام اُمید بھری نظروں سے تک رہے ہیں کہ وہ شہباز شریف صاحب کے لیے طاقتور امریکیوں کو موم کرنے میں کیسا کردار ادا کریںگے؟
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں ہر پاکستانی حکمران مسئلہ کشمیر، مسئلہ فلسطین ، پاکستان کو درپیش دہشت گردی کے مسائل،امن ِعالم کے لیے پاکستان کی مقدور بھر خدمات وغیرہ کا ذکر مرکزی نکات رکھتا ہے ۔جناب شہباز شریف اِن حالات میں یو این جی اے میں موجود ہیں جب مقبوضہ کشمیر میں حال ہی میں بھارت نے کشمیر اسمبلی الیکشن کا ڈرامہ رچایا ہے۔ جب بھارت کی مسلمان برادری پر مودی حکومت کے متعدد مظالم سے تڑپ کر حال ہی میں ایرانی سپریم لیڈر، جناب آئت اللہ خامنہ ای، نے زبردست الفاظ میں بھارتی حکومت کے خلاف احتجاجی بیان دیا ہے ۔
جب مقبوضہ فلسطین اور غزہ میں قابض اور غاصب اسرائیل اکتالیس ہزار سے زائد فلسطینی شہید کر چکا ہے۔ اور ابھی یہ صہیونی خونریزی اور جارحیت جاری ہے۔جب اسرائیل نے لبنانی حکومتوں پر نئے سائبر اور میزائل حملے تیز تر کر تے ہُوئے ''حزب اللہ'' کے سیکڑوں وابستگان کو شدید زخمی اور درجنوں کو شہید کر دیا ہے۔جب ٹی ٹی پی کے دہشت گرد آئے روز پاکستانی عوام اور پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کے افسروں اور جوانوں پر حملے کرکے شہادتوں کا ہر روز نیاخونی باب لکھ رہے ہیں ۔
جب ٹی ٹی پی کے خلاف پاکستان کے متعدد احتجاجات کے باوصف افغان مُلا حکمران ہمارے کسی احتجاج پر کان دھرنے سے انکاری ہیں ۔جب چالیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کا بوجھ اب بھی پاکستان کی کمر توڑ رہا ہے ۔ اقوامِ متحدہ میں تعینات پاکستان کے مستقل مندوب، منیر اکرم، نے کہا ہے کہ پاکستان افغان طالبان سے اُلجھنا نہیں چاہتا کہ پاکستان کو افغان عوام کے مفادات عزیز ہیں ۔یہ سفارتی زبان تو مستحسن ہے مگر افغان طالبان حکام پاکستانی عوام کے مفادات کا جس طرح خون کررہے ہیں،اِس کا علاج بھی کوئی چارہ گراں ہے کہ نہیں؟آج یو این جی اے سے خطاب کرتے ہُوئے وزیر اعظم جناب شہباز شریف کے سامنے یہ سب موضوعات بکھرے پڑے ہوں گے۔
سفارتی زبان و اسلوب میں اِن سب معاملات و مسائل کو عالمی برادری کے سامنے رکھنا اور اِن کے پس منظر میں اپنے قومی مفادات سمیٹنا ہی اُن کی مہارت اور کامیابی ہوگی ۔ حیرانی کی بات مگر یہ ہے کہ وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور سیکرٹری خارجہ آمنہ بلوچ وزیر اعظم کے ساتھ نیویارک نہیں گئے ہیں ۔ وزیر خارجہ اور سیکرٹری خارجہ کو بوجوہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت سے عین موقع پر روک دیا گیا ۔ شنید ہے کہ اُنہیں اسلام آباد میں ایس سی او اجلاس کے لیے روکا گیا ہے۔
شنید ہے کہ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل ، انتونیوگوتریس، شہباز شریف کے ذاتی دوستوں میں سے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ ذاتی دوستی اور اُن سے ہونے والی ملاقات پاکستان کے لیے کتنی کام آتی ہے۔ وزیر اعظم یہ جانتے ہُوئے کہ نیویارک اور امریکا کے دیگر شہروں میں آباد پاکستانی کمیونٹی کی اکثریت بانی پی ٹی آئی کی ہمنوا ہے،اُنہیں پاکستانی کمیونٹی کے چنیدہ افراد اور سرمایہ داروں سے ملنا چاہیے تھا ۔
اووَرسیز پاکستانی نون لیگ کے حامی اور ہمنوا بھی ہونے چاہئیں۔ امریکا، برطانیہ ، یورپ اور عرب ممالک میں آباد پاکستانی زرِ مبادلہ کی شکل میں جو اربوں ڈالر پاکستان بھجواتے ہیں، یہ درحقیقت حکمرانوں ہی پر احسانات ہیں۔ ہم اپنی ، قومی اور حکومتی کمزوریوں کو جاننے ماننے کے باوجود شہباز شریف کے دَورئہ یو این جی اے سے بلند توقعات وابستہ کررہے ہیں ۔ مثال کے طور پر جماعتِ اسلامی کے سینیٹر ، جناب مشتاق احمد خان ، نے کہا ہے :'' وزیر اعظم شہباز شریف امریکا سے واپسی پر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ساتھ نہ لائے تو قوم معاف نہیں کرے گی۔''مشتاق احمد خان صاحب کا مطالبہ تو درست ہے مگر شہباز شریف صاحب کی طاقت سے بڑھ کر توقعات رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے ۔ امریکی ریاست، ٹیکساس، کی جیل میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو رہا کروا کر ساتھ لانا جناب شہباز شریف کے لیے اتنا سہل نہیں ہے ۔
کیا پاکستان ایسے مفلس اوربیرونی قرضوں کے مارے ملک کے وزیر اعظم کے لیے مناسب ہے کہ وہ کئی ایام کے لیے بھاری اخراجات پر بیرونِ ملک قیام فرمائیں؟ اور وہ بھی ایسے دگرگوں اور پریشان کن حالات میں جب کہ پاکستان کو مزید قرضوں کے لیے آئی ایم ایف، چین اورعرب ممالک کے سامنے درخواستیں کرنا پڑ رہی ہوں۔ویسے جناب شہباز شریف نے پی ڈی ایم کے دَور اوّل میں بھی یو این جنرل اسمبلی سے خطاب فرما کر اپنا شوق پورا کر لیا تھا ۔
اہم بات یہ بھی ہے کہ بھارتی وزیر اعظم ، نریندر مودی، نے امریکا میں ہونے کے باوجود جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے خطاب نہیں کیا ہے تو بھارت پر کونسا آسمان ٹوٹ پڑا ہے ؟ مودی نے امریکی صدر سے بھی ملاقات کی ہے اور نیویارک میں پچاس ہزار کی بھارتی کمیونٹی سے خطاب بھی کیا ہے ۔
ہمارا کوئی بھی حکمران جب بھی کسی طاقتور اور دولتمند غیر ملک کا دَورہ کرتا ہے تو ہمارے ہاں میڈیا میں یہ مباحث چھڑ جاتے ہیں کہ ہمارے صاحب وہاں سے اپنے ملک کے لیے لائیں گے کیا؟یہ استفسار جہاں ہماری قومی مفلسی کا آئینہ دار ہے، وہیں اِس میں شدید بین السطور ندامت اور شرمندگی بھی جھلکتی ہے ۔ مگر کیا کیا جائے کہ اِس سے مفر بھی نہیں ہے ۔
جناب شہباز شریف بھی ایسے حالات اور ایام میں نیویارک پہنچے ہیں جب امریکا بہادر کے زیر نگیں بروئے کار عالمی ساہوکار ادارے یعنی آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو مزید قرض دیے جانے پر پس و پیش کیا جارہا تھا لیکن یہ دَورہ یوں کامیاب رہا ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو ایک بار پھر سات ارب ڈالر کا قرض بطورِ بیل آؤٹ پیکیج دینا منظور کر لیا ہے ۔
آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے تحت ہمارے حکمران پہلے ہی اربوں ڈالر کے جو قرض لے چکے ہیں ، عوام اِن کی معنویت سے بے خبر ہیں لیکن اِن قرضوں نے عوام ہی کی کمر توڑ کررکھ دی ہے۔ دوسری جانب دُنیا بھر کی مالیات پر نظر رکھنے والے امریکی ادارے یعنی ''فچ، بلوم برگ اور موڈیز'' نے اِنہی ایام میں یہ حوصلہ افزا خبر دی ہے کہ شہباز حکومت میں پاکستان کی معیشت میں مثبت اُبھار آرہا ہے۔ یہ خوش کن خبریں دراصل ہمیں یہ پیغام دے رہی ہیں کہ پاکستان کی معاشی نبضیں ڈُوبنے سے بچ گئی ہیں۔
کئی حکومتی ذمے داراداروں کی جانب سے یہ کہا گیا تھا کہ وزیر اعظم جناب شہباز شریف کے دَورۂ یو این کے دوران ، کئی طاقتور امریکی شخصیات کے توسط اور وساطت سے، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے کارپردازوں کا پاکستان کے لیے دل پگھل جائے گا ۔ شہباز شریف صاحب کا یو این جی اے سے آج کا خطاب اگرچہ محوری اہمیت کا حامل ہے مگر اصل سوال یہ ہے کہ شہباز شریف صاحب امریکی اور عالمی شخصیات سے میل ملاقات کرکے پاکستان کے لیے کشائش کا کیسے موجب بنتے ہیں؟ امریکا میں متعین ہونے والے پاکستان کے نئے سفیر ،رضوان سعید شیخ صاحب ، کے بارے بھی ہمیں دیکھنا ہے کہ وہ جناب شہباز شریف کے لیے یو این جی اے میں مطلوبہ کامیابیوں میں کتنے معاون ثابت ہوتے ہیں؟یہ رضوان صاحب کی سفارتی پھرتیوں کا بھی امتحان ہے ۔ اقوامِ متحدہ میں متعین پاکستان کے مستقل مندوب اور اُناسی سالہ بزرگ سفارتکار ، جناب منیر اکرم ، کی طرف بھی حکومت اور پاکستانی عوام اُمید بھری نظروں سے تک رہے ہیں کہ وہ شہباز شریف صاحب کے لیے طاقتور امریکیوں کو موم کرنے میں کیسا کردار ادا کریںگے؟
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں ہر پاکستانی حکمران مسئلہ کشمیر، مسئلہ فلسطین ، پاکستان کو درپیش دہشت گردی کے مسائل،امن ِعالم کے لیے پاکستان کی مقدور بھر خدمات وغیرہ کا ذکر مرکزی نکات رکھتا ہے ۔جناب شہباز شریف اِن حالات میں یو این جی اے میں موجود ہیں جب مقبوضہ کشمیر میں حال ہی میں بھارت نے کشمیر اسمبلی الیکشن کا ڈرامہ رچایا ہے۔ جب بھارت کی مسلمان برادری پر مودی حکومت کے متعدد مظالم سے تڑپ کر حال ہی میں ایرانی سپریم لیڈر، جناب آئت اللہ خامنہ ای، نے زبردست الفاظ میں بھارتی حکومت کے خلاف احتجاجی بیان دیا ہے ۔
جب مقبوضہ فلسطین اور غزہ میں قابض اور غاصب اسرائیل اکتالیس ہزار سے زائد فلسطینی شہید کر چکا ہے۔ اور ابھی یہ صہیونی خونریزی اور جارحیت جاری ہے۔جب اسرائیل نے لبنانی حکومتوں پر نئے سائبر اور میزائل حملے تیز تر کر تے ہُوئے ''حزب اللہ'' کے سیکڑوں وابستگان کو شدید زخمی اور درجنوں کو شہید کر دیا ہے۔جب ٹی ٹی پی کے دہشت گرد آئے روز پاکستانی عوام اور پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کے افسروں اور جوانوں پر حملے کرکے شہادتوں کا ہر روز نیاخونی باب لکھ رہے ہیں ۔
جب ٹی ٹی پی کے خلاف پاکستان کے متعدد احتجاجات کے باوصف افغان مُلا حکمران ہمارے کسی احتجاج پر کان دھرنے سے انکاری ہیں ۔جب چالیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کا بوجھ اب بھی پاکستان کی کمر توڑ رہا ہے ۔ اقوامِ متحدہ میں تعینات پاکستان کے مستقل مندوب، منیر اکرم، نے کہا ہے کہ پاکستان افغان طالبان سے اُلجھنا نہیں چاہتا کہ پاکستان کو افغان عوام کے مفادات عزیز ہیں ۔یہ سفارتی زبان تو مستحسن ہے مگر افغان طالبان حکام پاکستانی عوام کے مفادات کا جس طرح خون کررہے ہیں،اِس کا علاج بھی کوئی چارہ گراں ہے کہ نہیں؟آج یو این جی اے سے خطاب کرتے ہُوئے وزیر اعظم جناب شہباز شریف کے سامنے یہ سب موضوعات بکھرے پڑے ہوں گے۔
سفارتی زبان و اسلوب میں اِن سب معاملات و مسائل کو عالمی برادری کے سامنے رکھنا اور اِن کے پس منظر میں اپنے قومی مفادات سمیٹنا ہی اُن کی مہارت اور کامیابی ہوگی ۔ حیرانی کی بات مگر یہ ہے کہ وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور سیکرٹری خارجہ آمنہ بلوچ وزیر اعظم کے ساتھ نیویارک نہیں گئے ہیں ۔ وزیر خارجہ اور سیکرٹری خارجہ کو بوجوہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت سے عین موقع پر روک دیا گیا ۔ شنید ہے کہ اُنہیں اسلام آباد میں ایس سی او اجلاس کے لیے روکا گیا ہے۔
شنید ہے کہ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل ، انتونیوگوتریس، شہباز شریف کے ذاتی دوستوں میں سے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ ذاتی دوستی اور اُن سے ہونے والی ملاقات پاکستان کے لیے کتنی کام آتی ہے۔ وزیر اعظم یہ جانتے ہُوئے کہ نیویارک اور امریکا کے دیگر شہروں میں آباد پاکستانی کمیونٹی کی اکثریت بانی پی ٹی آئی کی ہمنوا ہے،اُنہیں پاکستانی کمیونٹی کے چنیدہ افراد اور سرمایہ داروں سے ملنا چاہیے تھا ۔
اووَرسیز پاکستانی نون لیگ کے حامی اور ہمنوا بھی ہونے چاہئیں۔ امریکا، برطانیہ ، یورپ اور عرب ممالک میں آباد پاکستانی زرِ مبادلہ کی شکل میں جو اربوں ڈالر پاکستان بھجواتے ہیں، یہ درحقیقت حکمرانوں ہی پر احسانات ہیں۔ ہم اپنی ، قومی اور حکومتی کمزوریوں کو جاننے ماننے کے باوجود شہباز شریف کے دَورئہ یو این جی اے سے بلند توقعات وابستہ کررہے ہیں ۔ مثال کے طور پر جماعتِ اسلامی کے سینیٹر ، جناب مشتاق احمد خان ، نے کہا ہے :'' وزیر اعظم شہباز شریف امریکا سے واپسی پر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ساتھ نہ لائے تو قوم معاف نہیں کرے گی۔''مشتاق احمد خان صاحب کا مطالبہ تو درست ہے مگر شہباز شریف صاحب کی طاقت سے بڑھ کر توقعات رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے ۔ امریکی ریاست، ٹیکساس، کی جیل میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو رہا کروا کر ساتھ لانا جناب شہباز شریف کے لیے اتنا سہل نہیں ہے ۔