ورلڈ کپ میں فتح جرمن چہرے خوشی سے کھل اُٹھے رات بھر جشن
پورا ملک سڑکوں پر اُمڈ آیا، عوامی مقامات، بار، ریسٹورنٹس اور ہوٹلز میں تل دھرنے کو جگہ نہ رہی
فٹبال ورلڈکپ میں فتح پر جرمن چہرے خوشی سے کھل اُٹھے، حکمرانی کا جشن منانے پورا ملک سڑکوں پر اُمڈ آیا، صرف برلن میں2 لاکھ سے زائد افراد نے اپنی ٹیم کی بے مثال کامیابی کا رات بھر جشن منایا، عوامی مقامات، بار، ریسٹورنٹس اور ہوٹلز میں تل دھرنے کو جگہ نہ رہی، صبح تک آسمان آتشبازی سے جگمگاتا رہا۔
جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے ڈریسنگ روم میں ٹیم کے ہمراہ خوشیاں منائیں۔ دوسری جانب ارجنٹائن میںخوشی اور غم کی ملی جلی کیفیت رہی، عوام نے ٹیم کی فائنل تک رسائی کا ہی خوب زوروشور سے جشن منایا، آخرمیں 'بدمعاش' شائقین اپنی اصلیت پر اتر آئے، پولیس پر پتھراؤ سے بیونس آئرس کی سڑکوں پر ہونے والی پارٹی اجڑ گئی، عورتوں اور بچوں نے قریبی ریسٹورنٹس ، ہوٹل لابیز اور دیگرمقامات پر پناہ لی، پولیس کی جانب سے آنسو گیس کے استعمال سے کئی کی حالت غیر ہوگئی۔
تفصیلات کے مطابق جرمنی نے ارجنٹائن کو فائنل میں1-0 سے شکست دیکر چوتھی بار عالمی چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا، دونوں ٹیموں کے درمیان مقررہ اور اضافی وقت میں کھیل بغیر کسی گول کے برابر رہا، آفیشل وقت کے آخری لمحات میں جرمن کوچ جوکھیم لیو نے ماروسلو کلوز کو باہر بلاکر ماریو گوٹزے کو میدان میں اتارا،ان کا یہ اقدام اضافی وقت کے دوران انتہائی سود مند ثابت ہوا، جب 113 ویں منٹ ماریو گوٹزے نے انتہائی لاجواب انداز میں گیند کو جال میں پہنچایا جس پر گول کیپر سمیت ارجنٹائن کے کھلاڑیوں نے اپنے سر تھام لیے، فتح کے بعد جہاں شکست خودہ کھلاڑی حسرت و یاس کی تصویر بنے ہوئے تھے وہیں جرمن سائیڈ کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ اپنے فٹبالرز کی طرح جرمن شائقین میں بھی خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
پورے ملک میں جشن کا سماں پیدا ہوگیا، صرف برلن میں 2 لاکھ کے قریب شائقین سڑکوں پر امڈ آئے، شہر کے قلب میں ایک جگہ کو' فین مائیل' کا نام دیا گیا، وہاں پر گنجائش2لاکھ کے قریب ہی تھی مگر میچ شروع ہونے سے قبل ہی تل دھرنے کی جگہ باقی نہیں رہی، بار، ریسٹورنٹس اور ہوٹل شائقین سے بھرے ہوئے تھے، آخری وسل کیساتھ ہی جو خوشیاں منانے کا سلسلہ شروع ہوا وہ ساری رات جاری رہا، آسمان آتشبازی سے رنگین رہا، شائقین خوشی سے جھومتے رہے۔
جرمن چانسلر انجیلا مرکل اور صدر جوکھم گوئیچ اپنی ٹیم کے ڈریسنگ روم میں گئے اور کھلاڑیوں کے ساتھ فتح کا خوب جشن منایا۔ دوسری جانب فائنل میں شکست سے ارجنٹائنی ٹیم کے دل ٹوٹے لیکن ملک میں خوشی اور غم کی ملی جلی کیفیت رہی، ہزاروں شائقین بیونس آئرس کے وسط میں جمع ہوگئے جہاں پر انھوں نے ٹیم کی 24 برس بعد فائنل میں رسائی کاہی جشن منانا شروع کردیا، انھوں نے اپنے چہروں پر قومی پرچم بنوائے اور ہاتھ میں ملک کے جھنڈے تھے۔
وہ خوشی سے گانے گاتے اور اسی میں ہی اپنا غم چھپانے کی کوشش میں مصروف رہے، نوجوان ٹریفک سگنلز اور بس اسٹاپس پر قابض ہوگئے، پارٹی کا یہ سلسلہ کئی گھنٹے جاری رہا جسکے بعد بدمعاش شائقین نے اپنی حرکتیں شروع کردیں جسکی وجہ سے انھیں مقامی زبان میں ' بارابریوز' کہا جاتا ہے، انھوں نے اچانک پولیس پر پتھراؤ شروع کردیا، جسکے جواب میں ان پر ربڑ کی گولیاں برسائی گئیں اورساتھ میں آنسو گیس بھی استعمال کی گئی، اس سے پارٹی اجڑگئی اور لوگوں خاص طور پر خواتین اور بچوں میں خوف و ہراس پھیل گیا جنھوں نے قریبی ریسٹورنٹس، ہوٹل لابیز اور دیگر مقامات پر چھپ کر جان بچائی، پولیس اور ان بدمعاشوں کے درمیان جھڑپیں کافی دیر تک جاری رہیں۔
جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے ڈریسنگ روم میں ٹیم کے ہمراہ خوشیاں منائیں۔ دوسری جانب ارجنٹائن میںخوشی اور غم کی ملی جلی کیفیت رہی، عوام نے ٹیم کی فائنل تک رسائی کا ہی خوب زوروشور سے جشن منایا، آخرمیں 'بدمعاش' شائقین اپنی اصلیت پر اتر آئے، پولیس پر پتھراؤ سے بیونس آئرس کی سڑکوں پر ہونے والی پارٹی اجڑ گئی، عورتوں اور بچوں نے قریبی ریسٹورنٹس ، ہوٹل لابیز اور دیگرمقامات پر پناہ لی، پولیس کی جانب سے آنسو گیس کے استعمال سے کئی کی حالت غیر ہوگئی۔
تفصیلات کے مطابق جرمنی نے ارجنٹائن کو فائنل میں1-0 سے شکست دیکر چوتھی بار عالمی چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا، دونوں ٹیموں کے درمیان مقررہ اور اضافی وقت میں کھیل بغیر کسی گول کے برابر رہا، آفیشل وقت کے آخری لمحات میں جرمن کوچ جوکھیم لیو نے ماروسلو کلوز کو باہر بلاکر ماریو گوٹزے کو میدان میں اتارا،ان کا یہ اقدام اضافی وقت کے دوران انتہائی سود مند ثابت ہوا، جب 113 ویں منٹ ماریو گوٹزے نے انتہائی لاجواب انداز میں گیند کو جال میں پہنچایا جس پر گول کیپر سمیت ارجنٹائن کے کھلاڑیوں نے اپنے سر تھام لیے، فتح کے بعد جہاں شکست خودہ کھلاڑی حسرت و یاس کی تصویر بنے ہوئے تھے وہیں جرمن سائیڈ کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ اپنے فٹبالرز کی طرح جرمن شائقین میں بھی خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
پورے ملک میں جشن کا سماں پیدا ہوگیا، صرف برلن میں 2 لاکھ کے قریب شائقین سڑکوں پر امڈ آئے، شہر کے قلب میں ایک جگہ کو' فین مائیل' کا نام دیا گیا، وہاں پر گنجائش2لاکھ کے قریب ہی تھی مگر میچ شروع ہونے سے قبل ہی تل دھرنے کی جگہ باقی نہیں رہی، بار، ریسٹورنٹس اور ہوٹل شائقین سے بھرے ہوئے تھے، آخری وسل کیساتھ ہی جو خوشیاں منانے کا سلسلہ شروع ہوا وہ ساری رات جاری رہا، آسمان آتشبازی سے رنگین رہا، شائقین خوشی سے جھومتے رہے۔
جرمن چانسلر انجیلا مرکل اور صدر جوکھم گوئیچ اپنی ٹیم کے ڈریسنگ روم میں گئے اور کھلاڑیوں کے ساتھ فتح کا خوب جشن منایا۔ دوسری جانب فائنل میں شکست سے ارجنٹائنی ٹیم کے دل ٹوٹے لیکن ملک میں خوشی اور غم کی ملی جلی کیفیت رہی، ہزاروں شائقین بیونس آئرس کے وسط میں جمع ہوگئے جہاں پر انھوں نے ٹیم کی 24 برس بعد فائنل میں رسائی کاہی جشن منانا شروع کردیا، انھوں نے اپنے چہروں پر قومی پرچم بنوائے اور ہاتھ میں ملک کے جھنڈے تھے۔
وہ خوشی سے گانے گاتے اور اسی میں ہی اپنا غم چھپانے کی کوشش میں مصروف رہے، نوجوان ٹریفک سگنلز اور بس اسٹاپس پر قابض ہوگئے، پارٹی کا یہ سلسلہ کئی گھنٹے جاری رہا جسکے بعد بدمعاش شائقین نے اپنی حرکتیں شروع کردیں جسکی وجہ سے انھیں مقامی زبان میں ' بارابریوز' کہا جاتا ہے، انھوں نے اچانک پولیس پر پتھراؤ شروع کردیا، جسکے جواب میں ان پر ربڑ کی گولیاں برسائی گئیں اورساتھ میں آنسو گیس بھی استعمال کی گئی، اس سے پارٹی اجڑگئی اور لوگوں خاص طور پر خواتین اور بچوں میں خوف و ہراس پھیل گیا جنھوں نے قریبی ریسٹورنٹس، ہوٹل لابیز اور دیگر مقامات پر چھپ کر جان بچائی، پولیس اور ان بدمعاشوں کے درمیان جھڑپیں کافی دیر تک جاری رہیں۔